دسمبر27 کے زخم کب بھریں گے؟

دسمبر 2007ء کے اس خونی اور منحوس دن ظاہری طور پر عوام کی ایک مقبول لیڈر بے نظیر بھٹوکا وحشیانہ قتل ہوا تھا۔لیکن اس قتل کے مقاصد اور محرکات ایک فرد کے خاتمے سے کہیں زیادہ وسیع ، گہرے اور دور رس تھے۔ بنیادی طور پر یہ قتل عوام کی اس تحریک کو زائل اور مفلوج کر دینے کے لیے کیا گیا تھا جو ایک مرتبہ پھر اپنی سیاسی روایت میں امڈ آئی تھی اور جوں جوں لمحے گزر رہے تھے ریڈیکلائز ہو کر ان حکمران طبقات اور ان کے بوسیدہ نظام و ریاست کے لیے ایک چیلنج ایک خطرہ بنتی جا رہی تھی۔
محنت کش عوام غم میں نڈھال ہو گئے تھے۔انتقام کی آگ جب شعلے بن کر بغاوت کی صورت میں ابھری بھی اور جب لاوا پھٹا بھی تو اس کو کسی انقلابی سرکشی کے دریا کا راستہ دینے والی کوئی انقلابی قوت نہیں تھی۔مایوسی کا اندھیر ہو گیا۔حکمرانوں اور طاقت کے ایوانوں کی جان میں جان آئی اور پھر ان کا انتقام شروع ہوا۔جمہوریت کے نام پر اس ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا معاشی قتل عام کیا گیا۔ایک زخم کیا کم تھا کہ ہر روز مہنگائی کے تیر معاشرے کے سینے میں پیوست ہونے لگے۔ غربت کی اذیت کی شدت سے انسان کراہنے لگے، بیروزگاری کے عذاب میں نوجوان سلگنے لگے۔جس مصالحت کی سیاست نے بے نظیر کی جان لی تھی اسی کے ذریعے حکمرانوں کے تمام دھڑوں کو ایک منافقانہ اور عیارانہ مفاہمت میں جوڑ کر لوٹ مار کا بیہودہ بازار گرم کیا گیاہے۔ایک طرف سامراجی بینکوں کی تجوریاں حکمرانوں کی لوٹ سے بھرتی جا رہی ہیں تو دوسری جانب پاکستان کے عوام کی زندگی ایک نشان عبرت بن گئی ہے۔بھاری اکثریت روٹی روزی سے محروم ہو رہی ہے۔ تعلیم اور علاج ایک کاروبار بن کر اکثریت کے لیے ایک دیرینہ خواب بن گئے ہیں۔بجلی‘ پانی‘ گیس‘ ریلوے اور دوسری سماجی ضروریات چھنتی جا رہی ہیں۔ دہشت گردی، جرم، اغوا اور جسمانی اعضاء کا کاروبار سماجی معمول بن گیا ہے۔یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے۔ لیکن حکمرانوں کی درندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے نظام و مفادات کو جاری رکھنے کے لیے 27دسمبر کے زخموں کو مسلسل کریدتے جا رہے ہیں تا کہ یہ زخم کبھی نہ بھر پائیں اور ان کے درد اور تکلیف سے عوام نڈھال رہیں۔نواز شریف ’اپنی بہن‘ کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا انتخابی پروگرام پیش کر رہا ہے۔وہی بہن جس کی جعلی فحش تصاویراس نے حسین حقانی کے ذریعے جہازو ں سے پھینکوائی تھیں۔بینظیر کی عزت کی دھجیاں اڑائی تھیں۔الطاف حسین بینظیر کے مرثیے پڑھ رہا ہے لیکن پیپلز پارٹی کے کارکنان کی لاشوں کے ٹکڑوں کی بوریاں گھر بھجوانے کا طویل سلسلہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔ فسطائیت کا یہ روپ تو شاید ہٹلر کو بھی حیران کر دیتا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور مولوی ڈیزل بھی ایسا ناٹک کر رہے ہیں کہ جیسے بینظیر کے دکھ میں مرے جا رہے ہوں۔قاتل لیگ پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ ہے۔حیات محمد شیر پاؤ کی قاتل اے این پی بھی سب سے بڑی حلیف ہے۔ لیکن پھر پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت بھی تو زیادہ تر ضیاء الحق کی باقیات پر ہی مبنی ہے۔اس کی اہم ترین عوامی معاشی پالیسی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے۔جو سماج کی نچلی پرتوں تک بد عنوانی کو زندگی کا معمول بنانے اور محنت کرنے والے ہاتھوں کو بھیک کے لیے پھیلانے کی ترغیب دے رہی ہے۔
سیاست سے نظریات اور اصولوں کا انخلا جس عفریت کو جنم دے چکا ہے وہ محض ایک دھوکہ ایک کاروبار بن چکا ہے۔اقتدار سے لے کر ٹکٹوں اور ضمیروں کے سودے ہیں۔ مصالحت کی سیاست میں حکمرانوں کے تمام دھڑوں میں لوٹ مار کی منصفانہ تقسیم کا درس دیا گیا ہے۔لیکن بحرانی نظام میں جرائم پیشہ بھی کبھی مساوی تقسیم کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں؟دولت کی بہتات اس کی ہوس کو بڑھاتی ہے کم نہیں کرتی۔یہ ہوس مقابلہ بازی میں بدلتی ہے۔ مقابلہ بازی نفرتوں اور حقارتوں کو جنم دیتی ہے۔ نفرتیں تصادم اور خونریزی کا باعث بنتی ہیں۔ اقتدار کی لڑائی دولت کی ہوس کی لڑائی ہے۔ اور یہی آج کی سیاست کے بے ہودہ اور غیر سیاسی تضادات ہیں۔ جس میں میڈیا اپنی آمدن بڑھانے کے لیے عوام کو الجھا کر ان کو اس مصالحتی سیاست کے متحارب حکمران گروہوں کی پیروی کا درس دیتا ہے۔ میڈیا کی آمدن اشتہاروں سے نہیں ان جرائم پیشہ سیاست دانوں‘ جرنیلوں اور حکمرانوں کی بلیک میلنگ پر مبنی ہے۔شاید اسی لیے میڈیا کی صنعت سب سے منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔
لیکن بربادیوں کے اس ملک میں عوام کب تک بے یار و مددگار رہیں گے۔ یہ بے بسی ، یہ ذلت ان کا مقدر تو نہیں ۔ان کی تحریک پسپا ضرور ہوئی ہے۔ہاری نہیں! مری نہیں! وہ اس نظام سے دلبرداشتہ ہو چکے ہیں۔ اسی لیے اس نظام میں پیش کیے جانے والے عمران خان جیسے کھلاڑیوں کو درمیانے طبقات کی بے صبری تو پذیرائی دے سکتی ہے محنت کرنے والے انسان نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی آخری تحریر جو ان کی کال کوٹھری سے لکھی وصیت بن گئی ہے میں اپنی موت اور زوال کی وجہ مصالحت اور متضاد طبقات کے درمیان ’’آبرومندانہ سمجھوتے‘‘ کو قرار دیا تھا۔بے نظیر نے پھر مصالحت کی کوشش کی۔محنت کش طبقے کی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے اس نے اسی نظام میں جمہوریت کا حل نکالنے کی کوشش کی۔لیکن جب تحریک بپھری تو بینظیر کو گارنٹی دینے والا امریکی سامراج تماشائی بن کر اس کی موت کا تماشا دیکھتا رہا۔بینظیر کی شہادت اور 27دسمبر کے زخموں کا درد عوام میں اب بھی موجود ہے۔حکمران اس کے لہو کو کیش کروانے کی واردات اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن محنت کشوں کے زخموں اور غموں کا درد بھی ایک نفرت اور بغاوت کے لاوے کی طرح بھڑک اور سلگ رہا ہے۔یہ آتش فشاں پھٹے گا۔ایک نئی تحریک اس ریاست ، اس سیاست اور اس سماج کے ڈھانچوں اور بندھنوں کو توڑ کر ہی ابھر سکتی ہے۔جو اس شدت سے ابھرے گا وہ طوفان ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس بربادیوں کے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر ہی دم لے گا۔27دسمبر کا لہو اور عوام پر لگا ایک ایک زخم کراہ رہا ہے۔اس انقلاب کے لیے تڑپ رہا ہے۔اس کو سوشلسٹ فتح سے ہمکنار کرنے کے لیے تیاری اور تنظیم کی تعمیر کے لیے وقت شاید زیادہ نہیں۔