پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں موت کی سوداگری! ذمہ دار کون؟

تحریر ۔قمرالزماں خاں:-

پنجاب کی اپوزیشن جو وفاق اور تین صوبوں میں حکومت میں ہے کا پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں مہلک ادویات کی فراہمی کی بنا پر 133 ہلاکتوں پر احتجاج اور اسکے جواب میں نام نہاد خادم اعلی کا رد عمل دونوں ہی خاصے مضحکہ خیز ہیں۔’’خادم اعلی ‘‘ تو فرماتے ہیں کہ ’’آپ یقین کریں میں حلفیہ کہتا ہوں کہ ڈینگی کی وبا بھی اسلام آباد میں بیٹھی ایک اعلی شخصیت کی سازش کا نتیجہ تھی اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں انسانی جسم کے خون کے پلیٹ لٹس کو ختم کردینے والی ادویات کی تقسیم بھی ایک سازش کا نتیجہ ہے‘‘۔یہ بیان انہوں نے متعدد انکوائیری کمیٹیوں کی تشکیل کے بعد اور ان میں سے بیشتر کی رپورٹس آنے سے قبل ہی داغ دیا ہے۔ممکن ہے کہ زہریلی ادویات کا معاملہ کسی سازش کا ہی نتیجہ ہو مگر کسی پختہ ثبوت کے بغیر یہ الزام کس طرح عائد کیا جاسکتا ہے اور پھر اس کا رخ اسی مخصوص سمت میں جو ہر چلنے والے تیر کا آج کل نشانہ بنی ہوئی ہے!! ’’ خادم اعلی ‘‘ کا ڈینگی کی وبا کے متعلق بیان ان کی اپنی شخصیت ،گھنبیرتا طاری کرنے والے لہجے، تدبر،ذہانت،سیاست میں سپورٹس مین سپرٹ اور کسی الزام کی زد میں ہونے پر انکے اعصاب کی کیفیت کا بھانڈا پھوڑنے کے علاوہ کسی قسم کے انکشاف کے قابل نہیں ہے۔ چوبیس سالوں کی ایک مخصوص طرح کی سیاسی تاریخ رکھنے والے وزیر اعلی پنجاب سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اٹھائیس ہزار سے زائد غریب شہریوں کو موت الملک سے ملوانے والی دوائی دینے کی غلطی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یا 133(سردست)قیمتی جانوں کی تلفی پراپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں ایک مذاق سے زائد کچھ اور نہیں ہے۔یہ تو 133لوگوں کی اموات کی بات ہے اگر تعداد اس سے کئی گنا زیا دہ بھی ہوجائے تو حکمران طبقے کی مختلف قسم کی تمام پرتوں سے کسی اخلاقیات کی توقع کرنا گناہ عظیم ہوگا۔وطن عزیز میں کسی بھی سنگین نوعیت کی غلطی یا جرم کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا خاص طور پر حکمرانوں کا وہ حصہ جو اس غلطی کا براہ راست ذمہ دار ہو وہ ایک لمحہ کے لئے بھی کسی پشیمانی کا شکار ہوئے بغیر یا تو تاویلات گھڑنا شروع کردیتا ہے یا پھر اپنے گناہ کو کسی اور کے سر پر تھوپ کر خود گنگا اشنان کرلیتا ہے۔پھر بلیم گیم کا ایک نا ختم ہونے والا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ اصل ایشو کہیں دب کر رہ جاتا ہے۔
پنجاب حکومت کی اپوزیشن کا سارا زور صرف ایک نقطے پر ہے کہ چونکہ پنجاب میں درجنوں محکموں سمیت صحت کے شعبے میں بھی وزیر تقرر نہ کیا گیا اور محکمہ صحت کا چارج بھی شہباز شریف کے پاس ہے اسلئے اس شعبے کی کارکردگی ناقص ہے اور موجودہ اموات اور ’’ادویات سکینڈل‘‘کی ذمہ داری وزیر اعلی پر ہے۔بادی النظر میں تو یہ بات درست نظر آتی ہے کہ خود جان لیوا بیماری میں مبتلا وزیر اعلی شہباز شریف ایک وقت میں درجنوں محکموں کی ذمہ داری اپنے پاس رکھیں گے تو ان محکموں میں عمومی اور روزمرہ کے کاموں میں بھی مسائل پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ان محکموں کی کارگزاری بہتر بنانے یا پھر کوئی نئے پراجیکٹ قائم کرنے کا تو کوئی موقع نہیں نکل سکتا۔بیوروکریسی تو لگا بندھا کام کرتی ہے ،پالیسی بنانا تو سیاسی قیادت کا فریضہ ہوتا ہے مگر تعلیم،صحت اور دیگراہم شعبے بغیر کسی وزیر کے چل رہے ہیں۔اس معاملے میں تو شہباز شریف نے ایک موقف تو یہ اختیار کیا کہ وہ صوبے کے پیسے بچانے کے لئے وزرا کی فوج بھرتی کرنے سے اجتناب برت رہے ہیں۔ مگران کے کچھ پروجیکٹس جیسے ’’سستی روٹی سکیم‘‘،’’ییلو کیب سکیم نمبر2‘‘ ،’’جاتی عمرہ موٹر جانے والی مہنگی شاہراہوں کی تعمیر‘‘،’’دانش سکول سسٹم ‘‘،ایک ہی شہر لاہورکے مخصوص حصوں میں وسائل کا بھاری اور غیر محتاط استعمال،انکی اور بڑے بھائی کی سیکورٹی اور پروٹوکول کا لڑکھڑاتی معیشت پر بوجھ اور وزیر اعلی کے نہ رکنے والے غیر ملکی دوروں کے اخراجات انکی کفائیت شعاری کے دعوے کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔صرف وزراء کے تقرر نہ کرنے سے توبہت معمولی رقم بچتی ہے اصل رقم تو ان وزارتوں بیوروکریٹک ڈھانچوں پر ضائع ہوتی ہیں جو قائم و دائم ہیں۔
صوبہ پنجاب بالخصوص شہر لاہورکے پسماندہ حصوں کے غریب ترین لوگوں میں جان لیوا ادویات کی فراہمی اور انسانی جانوں کے تلفی پر تو بہت بحث ہورہی ہے اور ہونی بھی چاہئے مگرروزانہ وارسینکڑوں کے حساب سے ہونے والی ان تمام مریضوں کی اموات کو اس بحث میں نہیں لایا جارہا جن کی رسائی ادویات تک ہے ہی نہیں،جو دور دراز شہروں ،قصبوں اور ان سرکاری اسپتالوں کے برآمدوں ،وارڈوں میں مر رہے ہیں جہاں ادویات(معیاری یا غیر معیاری) سال میں صرف ایک یا دو دفعہ فراہم کی جاتی ہیں باقی عرصے میں لوگوں کواللہ کے حوالے کردیا جاتا ہے۔اسپتالوں کے دروازوں پرخالی جیب لواحقین دوائی کی پرچی تھامے جس بے بسی کاشکار ہیں اس موضوع کو اس لئے نہیں چھیڑا جارہا ہے کیوں کہ اس بحث سے اس بوسیدہ نظام کے تمام تانے بانے عام آدمی کے سامنے آشکار ہوجائیں گے۔اس ضمن میں پاکستان کا حکمران طبقہ اور اسکے حلیف حصے جو مختلف ٹیلی وژن چینلز پر بیٹھے اس کی مدد کررہے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مسائل کی وجوہات کی بجائے صرف مسائل پر ہی بحث و تکرار کرکے لوگوں کو الجھاتے رہیں۔چینلز کی لڑائی تو لسی میں پانی ڈال کر روز بڑھا دی جاتی ہے مگر دوسری طرف عوام ہیں کے ان کو اس’’ آزاد میڈیا‘‘ کی وجہ سے کسی قسم کا ریلیف ملنے کی بجائے ان کی زندگی اور زیادہ مشکل ہوتی جارہی ہے۔پاکستان جہاں صحت اور تعلیم دونوں انتہائی اہم شعبوں میں مجموعی طور پر بجٹ سے 0.75فی صد حصہ رکھا جاتا ہے اس رقم کو اگر بالکل درست بھی خرچ کیا جائے تو صحت کے شعبے میں بیس کروڑ عوام کو روزانہ ایک ڈسپرین بھی مہیا کرنا ممکن نہیں ہے۔پنجاب حکومت میں اگر صحت کی وزارت میں کوئی وزیر ہوتا بھی تو وہ کیا کرسکتا تھا؟ تبادلے اور کک بیکس کے علاوہ کسی وزیر کے پاس کرنے کو ہے ہی کیا؟ جن صوبوں میں صحت کی وزارتوں میں باقاعدہ وزیر مسند اقتدار میں براجمان ہیں کیا ان صوبوں کے عوام کی صحت کے مسائل حل ہوچکے ہیں۔ہر روز سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ ان عمارتوں کے کمروں اوربرآمدوں میں اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں جن کو اسپتال کہا جاتا ہے اس کی وجہ ناقص ادویات نہیں بلکہ ادویات اور درست علاج کی سہولیات کی عدم موجودگی ہے۔پاکستان میں صحت اور تعلیم کو حکومتی سطح پر جس قسم کی توجہ میسر ہے یہ شرمناک ہے۔ لاہور میں قائم ٹیچنگ ہسپتالوں میں بھی ہر روز درجنوں لوگ بغیر دوائی اور انتہائی بنیادی آلات کی عدم دستیابی کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں دیہی علاقوں میں قائم عمارات کو کسی طور پر اسپتال کہنا مناسب نہیں۔وہاں اگر ڈاکٹر تعینات ہیں تو وہ وہاں ہفتے میں چھ دن کی بجائے پراکسی ڈیوٹی کو ترجیح دیتے ہیں ان اسپتالوں کا جملہ انتظام نان ڈاکٹر سٹاف نے سنبھالا ہوتا ہے ۔ان اسپتالوں میں نہ تو جان بچانے والی ادویات ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ ضروری سامان جو طب کے شعبے کے لئے درکار ہوتا ہے۔تحصیل اسپتال کی سطح تک بھی لیبارٹریز ناقص حالت میں موجود ہیں جن میں بیشتر ٹسٹ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور جو ٹسٹ ان لیبارٹریز میں کئے جاتے ہیں ان کا معیار کسی طور پر تسلی بخش نہیں ہوتا۔ ،ایکسرے پے منٹ پر ہوتے ہیں۔الڑا ساؤنڈ مشینوں کا استعمال صرف گائناکالوجیکل شعبے تک محدود ہوتا ہے۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال میں عام طور پر چند شعبے ہی فعال ہوتے ہیں۔ان اسپتالوں میں ٹراما سنٹرز یا تو موجود نہیں ہیں اگر ہیں تو وہاں پہنچنے والے مریض کی جان بچانے کی بجائے وقت ضائع کرنے کے بعد کسی بڑے شہر کے اسپتال کے لئے ریفر کردیا جاتا ہے۔اس سطح کے اسپتالوں میں دل ،گردے اور مثانے کے امراض ،ہڈی جوڑنے ،جلدی بیماریوں ،دمہ سمیت الرجی کی بیماریوں، یرقان کی مختلف قسموں سمیت معدے کے امراض،بچوں کے علیحدہ سے وارڈ،سانپ ،کتا ،جانوروں کے کاٹنے یا دیگر زہر خوانی کے حادثات،آگ سے جھلس جانے والے مریضوں سمیت بہت سے شعبوں کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں کے پرائیویٹ کلینکس مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں یہ وہی مریض ہوتے ہیں جو سرکاری اسپتالوں کا چکر کاٹ کر یہاں پہنچتے ہیں ڈاکٹر وہی ہوتا ہے مگر اس کا رویہ ،لہجہ ،زبان اور کردار بدل چکا ہوتا ہے۔بھاری بھرکم اجرتیں وصول کرنے کے باوجود یہ ناقص ہیلتھ پالیسی کی بنا پریہ ڈاکٹرز محکمہ صحت کو جونکوں کی طرح چوس رہے ہیں۔بیشتر ڈاکٹروں بالخصوص سیئنرز کا محکمہ صحت سے تعلق مہینے بعد بھاری وظیفہ وصول کرنے تک محدود ہے۔ پاکستان میں سیاست دانوں سے زیادہ کمانے والی مخلوق’’ مسیحا‘‘ کہلاتی ہے۔
پنجاب میں صوبائی وزیر صحت ہوتا تو کیا کرتا؟ کیا وہ ہلاکت آمیز ادویات کی ترسیل کوروک سکتا تھا؟ اس کی صلاحیت اور اختیارات کے ساتھ اس کی نیت کا مسئلہ نظر انداز کرنے والی بات نہیں ہے مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست پاکستان طب اور تعلیم کے شعبے کو نجی شعبے کے سپرد کرکے خود کو عمل ان شعبوں سے عملاََ لاتعلق کرچکی ہے ۔پاکستان کے کروڑوں لوگ نجی شعبے کے منافع خوروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں جو ان کو خونی گدھوں کی طرح نوچ رہے ہیں۔ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی بھرمار اور خاص طور پر فاٹا کے علاقوں میں کسی قانون اور نگرانی سے ماورا ادویات ساز ادارے کیا کیا گل کھلا سکتے ہیں یہ بات ہی ہولناک تھی مگر ملک کے بڑے شہروں میں قائم دوا ساز ادارے جن کی ادویات سرکاری اسپتالوں میں لاکھوں مریضوں کو روزانہ دی جارہی ہیں ان کے معیار کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ایک ہی سالٹ پر مختلف ناموں سے ادویات بنانے والی کمپنیوں کے ہول سیل ریٹس میں آسمان اور زمین کا فرق ہے ۔ ایک دوائی ہول سیل ریٹ پر 85روپے کی ملتی ہے تو دوسری اسی قسم کی دوائی کے ہول سیل نرخ 6روپے ہیں مگر مریض کو دونوں ادویات 100روپے کی ملتی ہیں۔اب ان دو مختلف فارماسیوٹیکل اداروں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ جب یہ دوائی 6روپے میں مہیا کی جاسکتی ہے تو وہ 85روپے میں کیوں بیچ رہے ہیں اگر ان ادویات کے خام مال اور کوالٹی میں فرق ہے تو مریضوں کو ہلکے میٹریل والی ادویات وہ بھی مہنگے میٹریل کے نرخوں سے کیوں بیچنے کی اجازت دی گئی ہے۔اس طرح ہول سیل نرخوں کے فرق والی ادویات کی تعداد ہزاروں میں ہے مگر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔یہاں پر گڈ گورنس اور بیڈ گورنس سب ہی حمام میں ننگے دکھائی دیتے ہیں۔مجھے نہیں لگتا کہ شرح منافع کے موجودہ نظام معیشت اور آزاد منڈی کے ہوتے ہوئے صارفین،مریضوں ،خریداروں اور عام لوگوں کے حقوق کا کسی بھی طور تحفظ کیا جاسکتا ہے۔قانون ساز اداروں میں مالکان اور سرمایہ دار بیٹھے ہوئے ہیں وہ کیسے اپنے بے پناہ مالیاتی مفادات کا راستہ روکنے والے قوانین کو بنانے اور ان عمل درآمد کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔اس کے لئے محنت کش طبقے کی تحریک کی ضرورت ہے جوزخموں پر مرحم رکھنے کے عوض رقم طلب کرنے والے اس نظام کو اکھاڑ کر ہر انسان کے مفادات کا یکساں تحفظ کرنے والے نظام کو رائج کرے۔