یومِ پاکستان: یہ ’شاخ نور‘ جسے ظلمتوں نے سینچا ہے

[تحریر: قمرالزمان خاں]
پاکستان کے تمام باشندے پچھلے پینسٹھ سالوں سے اس ’’پاکستان‘‘  کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں جس کا ذکر وہ پاکستان بنانے کے مقصد بیان کرنے والی ’’تمثیلات‘‘، کہانیوں، واقعات اور تاریخ میں پڑھتے اور سنتے چلے آرہے ہیں۔ پاکستان کا ہر بچہ جب سکول میں جاتا تو اس کو جو کچھ اپنے وطن کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے، عملی طور پر اپنے گردونواح میں ماحول اور حالات کو وہ اس سے بالکل مختلف پاتا ہے۔ پاکستان بنانے کے مقاصد اگرچہ وہ نہ تھے جو درسی کتابوں میں پڑھائے جاتے ہیں، مگر پھر بھی اگر ان کو سچ مان لیا جائے تو بھی ان مقاصد اور آج کے پاکستان میں کسی طور بھی نہ تو مطابقت ہے اور نہ ہی مستقبل بعیدتک کوئی آثارنظر آتے ہیں کہ ویسا پاکستان بن جائے۔
پچھلے پنسٹھ سالوں میں بیان کی گئی تاریخ درست ہے یا اس کو مسخ کیا گیا ہے، دعوے درست تھے یا جھوٹ اورمبالغہ آمیزی کی آمیزش تھی، مقاصد یہی تھے جو بیان کئے گئے یا پھر اس وقت کی غالب قوتوں کے مفادات تھے ! ان بحثوں میں ہم پڑتے ہی نہیں کیوں کہ یہ تو پھر آج ایک نئے نان ایشوز کو چھیڑنے کے مترادف ہے۔ یہ تو سرکاری تاریخ دانوں کے لئے پھر سے رزق فراہم کرنے کا باعث بنے گی۔ لہذا ہم اس میں گئے بغیر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والے باشندے، ان کا مذہب چاہے کچھ بھی ہو، ان کی رگوں میں چاہے کسی بھی نسل کا خون بہہ رہا ہو، وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں، وہ سفید، کالے، گندمی یا کسی بھی رنگ کے ہوں، ان کے نظریات جو بھی ہوں، ان کو زندہ رہنے کے لئے کچھ لوازمات کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے۔ ان کا سرکاری ہیرو چاہے کوئی بھی ہو مگر ان کو بھوک ضرور لگتی ہوگی، تن کو لباس کی ضرورت ہوتی ہے اور رہنے کو گھر چاہئے ہوتا ہے۔ صحت مند اور خوشحال زندگی جو ہر قسم کے خوف و خدشے سے پاک ہو، ہر کسی کا حق ہوتا ہے۔ انسان خواہ کسی بھی مملکت میں بستے ہوں اور اگر ان کا رہن سہن کا انداز راہبانیت کی بجائے سماجی ہوتو بھی ان کی آبادیوں کی کچھ لازمی ضروریات ہوتی ہیں۔ انسانوں کی آبادیوں کو انسانی آبادی قرار دینے کے لئے کئی طرح کے بندوبست کرنے پڑتے ہیں۔ دنیا سے آگے نہیں تو کم از کم اپنے عہدسے مناسبت رکھنے والا انفراسٹرکچرتعمیر کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کی زندگی کو برقرار رکھنے والی معیشت کو قائم کرنا پڑتا ہے۔ موجودانسانی تہذیب سے ہم آہنگی قائم کرنے کے لئے علم و آگہی، تعلیم و تربیت، سائینس و ٹیکنالوجی، فنون و ثقافت سے رشتہ جوڑنا پڑتا ہے۔ اپنی مملکت میں رہنے والے انسانوں کی جو نسل انسانیت کا تسلسل ہے‘ کی جسمانی، ذہنی، ثقافتی، علمی بقاء اور ارتقاء کی ذمہ داری بھی اس مملکت کے حکمران طبقے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
جب ہم ہڑپہ، ٹیکسلا اور موہنجو ڈرو کی ہزاروں سالہ پرانی تہذیبوں کی کھدائیوں سے ان شہروں کی بود و باش کا پتا چلاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ہزاروں سال پہلے کی آبادیوں میں سماجی زندگی ایک دوسرے سے متصل، اشتراکیت پر مبنی اوراپنے عہد کے لحاظ سے جدید ضروریات سے مرصع ہوتی تھی۔ ان شہروں کی کھدائی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سماجوں میں تعلیم کے شعبے کو بہت ہی کلیدی اہمیت حاصل تھی، ہزاروں سال پہلے بھی فروغ علم کے لئے ادارو ں کو ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کیا جاتا تھا، ان سماجوں میں اساتذہ اور عالموں کی کتنی قدر تھی، تاریخ اس کی شاہد ہے۔ تہذیبوں کے عروج و زوال، حادثات اور قدرتی آفات سے قصہ ماضی بن جانے والے شہر اور تہذیبوں کا تذکرہ تو محض اس لئے ہے کہ کئی ہزار سال پہلے بھی اگر کوئی مملکت وجود رکھتی تھی تو اس مملکت اور اسکے حکمران طبقے کے کاندھوں پربہت سی ذمہ داریاں ہوا کرتی تھیں، جن کو نبھانا ان کی اولین ذمہ داری ہوتی تھی۔ ان تہذیبوں اور ریاستوں کے وہ ذمہ داران جو اپنے عہد کے تقاضے نبھاسکے اور اپنے عہد کو ماضی کی تہذیبوں سے ملنے والی وراثت کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے اس میں اپنے عہد کا حصہ ڈال سکے، ان کا تذکرہ آج بھی تاریخ میں عزت و توقیر سے کیا جاتا ہے، جو ایسا نہ کرسکے وہ ایسے مٹ گئے جیسے ان کا کبھی وجود ہی نہ ہو۔
برصغیر میں بہت سے ٹیلوں اور مٹی میں مدفن تہذیبوں کے آثار گواہی دے رہے ہیں کہ وہاں کے لوگ اپنے عہد سے بہت آگے کی زندگی بسرکررہے تھے۔ انہی ادوار میں یقیناًایسے سماج، بستیاں اور تمدن بھی تھے جو ہڑپہ، موہنجو ڈرو، ٹیکسلا کی تہذیبوں اور تمدن سے بہت پیچھے اور پسماندہ تھے۔ ایسے شہروں کے آثار بھی ہیں مگر انکی باقیات کی نمائش اور تحفظ کے لئے کہیں بھی کوئی میوزیم نہیں ہے اور نہ ہی ایسی تہذیبوں کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے ایسی ہی گم گشتہ تہذیبوں، انکی تاریخ، واقعات اور حکمرانوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے۔ ‘‘تاریخ ایسی تہذیبوں کا تذکرہ کئے بغیر آگے نکل جاتی ہے۔
آج کا پاکستان اور اسکا حکمران طبقہ اکیسویں صدی میں کس مقام پرکھڑا ہے؟ قرار داد پاکستان (درحقیقت قراداد لاہور) میں کیا کہا گیا تھا اور کیا سمجھا گیا، اس کی وضاحت بہت سے لوگ کرتے پائے جاتے ہیں مگر ایک وضاحت خود ’’پاکستان‘‘  کا وجود ہے۔ پاکستان محض پہاڑوں، دریاؤں، سمندر، زمین، ریت کے ٹیلوں کا نام نہیں ہے بلکہ اٹھارہ کروڑ انسانوں پر مبنی ایک زندہ سماج کا نام ہے۔ یہ انسان کس معیار کی زندگی بسر کررہے ہیں؟ ان کی بود وباش، پینے کے پانی کا معیار، رہائش کی سہولیات، روزگار کے وسائل اور بے روزگاری کی شرح، تعلیم کا معیار اور خواندگی کا حقیقی اشاریہ، درکارصحت سہولیات کی حالت زار اور اوسط عمرکا معیار اور دیگر شعبہ ہائے جات کے کوائف خود ثابت کرتے ہیں کہ یہ ’’پاکستان‘‘ اکیسویں صدی میں کس جگہ پر اورکس کیفیت میں موجود ہے! یوم پاکستان پر جوچاہے جشن منائے اور جس کا جودل چاہے کہے۔ بے شک وہ بھی کہا جائے جس کی صداقت غیرجانبدارنہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، مگرایک لمحے کے لئے یہ سوچنا لازم ہے کہ  جس نظریے پر اس ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی کیا یہ سب اس کاناگزیر نتیجہ نہیں ہے؟  کیا یہ ہی وہ منزل ہے جس کے خواب آج سے چھ دہائیاں قبل کروڑوں لوگوں کو دکھائے گئے تھے؟  جو راستہ ایک ’پاک معاشرے‘ تک پہنچنے کے لئے تجویز کیا گیا تھا، وہ قابلِ عمل تھا بھی یا نہیں؟ اور  جس نظام پر اس ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی کیا وہ مزید چلنے کے قابل بچا ہے؟

متعلقہ:
اداریہ جدوجہد:آزادی کا اندھیر۔۔۔۔؟