گیلیلیو کے ساڑھے چار سو برس

[تحریر: لا ل خان]
اس سال 15 فروری کوعظیم سائنسدان گیلیلیو کی پیدائش کو ساڑھے چار سو برس بیت جائیں گے۔ وہ 1564ء میں اٹلی کے شہر پیسا میں پیدا ہوا اور 8 جنوری 1642ء کو انتقال کر گیا۔ آج دنیا بھر میں اس کی شہرت اس کے شمسی مرکزیت کے نظریے کے دفاع اور اس کو ثابت کرنے کی وجہ سے ہے۔ اس سے پہلے یورپ کی تعلیمی درسگاہوں میں جو تعلیم دی جاتی تھی اس کے مطابق زمین پوری کائنات کا مرکز و محور تھی اور سورج سمیت تمام ستارے و سیارے اس کے گرد گھومتے تھے۔ یہ نظریہ اس وقت کے حکمران طبقات کی حاکمیت کو آفاقی قانون ثابت کرنے کے لیے کارآمد تھا اور سولہویں صدی کے تاریکیوں میں ڈوبے یورپ پر حاکم کلیسا کے جبر کو استوار رکھنے میں بھی مدد گار تھا۔ نشاۃِ ثانیہ کے اس عہد میں گیلیلیو نے جب سماج پر حاوی نظریات کو رد کرتے ہوئے تجرباتی سائنس کو اپنایا اورنئی ایجاد شدہ ٹیلی سکوپ کی مدد سے جب اس نے نظام فلکیات کا جائزہ لیا تو وہ حیران کن نتائج پر پہنچا۔ اس نے کوپرنیکس کے اس مفروضے کے ثبوت فراہم کیے جس کے مطابق زمین نظام شمسی کا صرف ایک سیارہ ہے اور یہ تمام سیارے سورج کے گرد مسلسل گھومتے ہیں۔ اسی طرح اس نے ثابت کیا کہ سورج بھی کائنات میں موجود کروڑوں دیگر ستاروں اور سیاروں کی طرح ایک ستارہ ہے۔ اس تھیوری نے اس وقت کے سماج میں انقلاب برپا کر دیا اور اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اقتدار پر براجمان کلیسا نے اس کے نظریے کو عقائد کے خلاف قرار دے کر اس کو کڑی سزا سنائی۔ گیلیلیو کو مجبور کیا گیا کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی اس تحقیق کو غلط قرار دے ، اس میں کلیسا کی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کرے اور اپنے رویے پر معافی مانگے ورنہ اسے بھی ایک اور سائنسدان برونو کی طرح سیخ میں ڈال کر آگ میں جلایاجائے گا۔ تحقیر آمیز سلوک کرنے کے بعد گیلیلو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور اسی دوران اس کی موت واقع ہوئی۔ سنگینوں کے سائے میں اپنے ہی نظریات کو رد کرتے ہوئے گیلیلیو کی زبان سے یہ تاریخی فقرہ بھی نکلا ’’لیکن یہ (زمین) حرکت کرتی تو ہے۔‘‘
ان مظالم سے اتنی بڑی دریافت کو وقتی طور پر تو عوام کی اکثریت سے دور کر دیا گیا اورسائنس کواقتدار کے ایوانوں کے سامنے سر نگوں کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وقت اور حالات کا دھارا بے رحم ہوتا ہے اور غلط اور فرسودہ نظریات کو آخر کار تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے جبکہ سچائی کا علم بلند کرنے والے اور دلیل کو افضل ماننے والے سرخرو ہوتے ہیں۔ انسانی سماج کے مسلسل آگے کی جانب بڑھنے کی یہی کلید ہے۔
گیلیلیو کی آواز دبانے کے بعدایک لمبے عرصے تک وہی پرانے رجعتی نظریات ہی نصاب میں پڑھائے جاتے رہے لیکن حتمی طور پر ان انقلابی نظریات کو دبایا نہیں جا سکا اور آج دنیا بھر میں سائنس کے طالب علم جانتے ہیں کہ سائنس اور حکمرانوں کے جبر کی اس جنگ میں کون حق پر تھا۔ لیکن آج تقریباً نصف ہزاریہ گزرنے کے باوجود ان دو متصادم نظریات کی جنگ جاری ہے۔ گیلیلیو کے ہی نظریات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے نیوٹن نے کشش ثقل کے قوانین دریافت کیے اور بیسویں صدی کے آغاز پر آئن سٹائن نے اسی تسلسل کو بڑھاتے ہوئے نظریہ اضافت کو دنیا سے متعارف کرایا۔ آج کے عہد کے مشہور زمانہ سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے کہا کہ ’’ بلا شبہ گیلیلیو جدید سائنس کا بانی ہے۔‘‘ بیسیویں صدی کے مشہور ڈرامہ نگار بریخت نے گیلیلیو کی زندگی پر ایک ڈرامہ لکھا جس میں اس کے انقلابی کردار کو زندہ کر دیا۔ اس ڈرامے میں گیلیلو کہتا ہے کہ ’’نسل انسان کی سب سے بڑی لذت سوچنا ہے۔‘‘ اسی طرح ڈرامے میں ایک جگہ گیلیلیو کا شاگردآندریا اس سیکہتا ہے کہ ’’بد نصیب ہے وہ دھرتی جہاں ہیرو پیدا نہیں ہوتے‘‘، جس کے جواب میں گیلیلیو کہتا ہے کہ ’’بد نصیب ہے وہ دھرتی جسے ہیرو کی ضرورت ہے۔‘‘
آج کے عہد میں چار سو سال پہلے کے عہد سے بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس وقت کے رجعتی جاگیر دارانہ نظام کی طرح آج سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے رکھوالے بھی سائنس اور تحقیق کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ اپنے آغاز میں صنعت و حرفت کو ترقی دینے والا نظام آج اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ دنیا میں بہت سے سائنسدان عالمی اجارہ داریوں کی ایما پر بال اگانے اور اتارنے ، رنگ گورا کرنے یا ناک ستواں کرنے پر تحقیق کر رہے ہیں نہ کہ انسانیت کو کینسر اور دیگر بہت سی موذی بیماریوں سے چھٹکارا دلانے کے لیے۔ دنیا کی تمام بڑی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں ایسے نظریات کو پروان چڑھایا جاتا ہے جن سے سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ ہو اور حکمران طبقات کے نظریات کو ازلی اور ابدی بنا کر پیش کیا جائے۔ ایک تازہ ترین اطلاع کے مطابق 2010ء سے 2012ء تک برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کو جوہری ہتھیاروں پر تحقیق کے لیے بیس لاکھ پاؤنڈ دیے گئے جبکہ اس دوران برطانیہ کے طلبا فیسوں میں اضافے کے خلاف اور مزدور تنخواہوں میں کمی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اسی طرح دوا ساز کمپنیاں ایسی تحقیق کو مالی امداد فراہم کرتی ہیں جن کے نتیجے میں اہل ثروت افرادکو ادویات فروخت کی جا سکیں جبکہ محنت کشوں کو لگنے والی ملیریا ،ٹی بی اور دیگرایسی بیماریوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس نظام میں ادویات کی منڈی کا حصہ وہ افراد نہیں جو اس بیماری کا شکار ہیں بلکہ صرف وہ افراد ہیں جن کے پاس اس بیماری کا علاج کروانے کے پیسے ہیں۔
اسی طر ح کسی بھی شعبے میں ایسی تحقیق جو ہتھیاروں کے استعمال اور جنگوں کے نقصانات کو ثابت کرتی ہو، اسے رد کیا جاتا ہے اور سامنے نہیں آنے دیا جاتا۔ طب کے شعبے میں ایسی تحقیق جو بیماری کی صورت میں ادویات کے مسلسل تاحیات استعمال کی بجائے اس کے مستقل حل کو منظر عام پر لائے، اسے بڑی اجارہ داریاں دبا دیتی ہیں تاکہ ان کی شرح منافع کو ٹھیس نہ پہنچنے پائے جو اس وقت 600 ارب ڈالر سالانہ کو چھو رہے ہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی بین گولڈاکر کی ایک کتاب’’غلط دوا سازی‘‘ کے مطابق ادویات کے استعمال اور بیماری کے علاج کے متعلق بڑے پیمانے پر جھوٹ بولا جاتا ہے اور اس دوران تحقیق میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے مداخلت کی جاتی ہے۔ اگر ایک کمپنی کسی دوا کو منڈی میں لانے کے لیے چار ارب ڈالر خرچ کرتی ہے تو یقیناًاسے منافع کے ساتھ واپس بھی حاصل کرنا ہوتا ہے خواہ مریضوں پر اس کے اثرات کتنے ہی تباہ کن کیوں نہ ہوں۔ آج علم فلکیات اور دیگر شعبوں میں بھی اہم سوالوں پر قدغنیں لگا دی گئی ہیں جن میں کائنات کے آغاز کے متعلق بحث بھی شامل ہے۔ چاند پر انسان کا پہنچناابھی تک معمہ بنا ہوا ہے لیکن ان تمام رکاوٹوں کے باوجود اگر کوئی نئی تحقیق سامنے آنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اسے ہوس پرست نظام میں انسانوں کی فلاح کے لیے تباہی کا باعث بنا دیا جاتا ہے۔ یہی کچھ جوہری ہتھیارو ں کی ایجاد میں نظر آتا ہے جہاں سائنس کو انسان کی فلاح کی بجائے وسیع پیمانے پر انسانی تباہی کے آلات بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے آئن سٹائن نے سائنس اور سماج کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے1949ء میں اپنے مضمون ’سوشلزم کیوں؟‘ میں لکھا تھا :
’’مجھے پورا یقین ہے کہ (سرمایہ داری) کے تمام گمبھیر جرائم کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے کہ سوشلسٹ معاشرہ قائم کیا جائے۔ ساتھ ہی اس طرح کا تعلیمی نظام اپنایا جائے جس کارجحان (انفرادی کی بجائے) سماجی مقاصد حاصل کرنے کی جانب ہو۔ ایسی معیشت میں، پیداوار کے ذرائع بذات خود معاشرے کی ملکیت ہو جاتے ہیں اور انہیں منصوبے کے تحت استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ایک منصوبہ بند معیشت جو پیداوار کوانسانی ، معاشرتی ضروریات سے ہم آہنگ کرتی ہے ان لوگوں میں محنت کی تقسیم کرے گی جو محنت کرنے کے اہل ہوں گے اور ہر مرد، عورت اور بچے کوذریعہ معاش کی ضمانت فراہم کرے گی۔ فرد کی تعلیم، اس کی باطنی صلاحیتوں کو بڑھانے کے علاوہ اس میں دوسرے انسانوں کے لئے احساس ذمہ داری کو بڑھاوا دے گی، بجائے اس کے کہ وہ موجود ہ دور میں طاقت او ر کامیابی کی ستائش کو ہی سب کچھ سمجھے۔‘‘

متعلقہ:
سرمایہ دارانہ نظام بمقابلہ سائنس
دوائیوں کی صنعت اور زخموں کا دھندہ