پیپلز پارٹی کا 45واں یوم تاسیس؛ پیپلز پارٹی توُ کہاں ہے؟

30 نومبر 1967ء کو پاکستان میں بظاہر ایک سکوت تھا۔ لیکن سیاست میں نومولود ترقی پسند مفکروں کی نوجوان نسل میں اضطراب کی کیفیت تھی۔ ایوبی آمریت کی طاقت اور جاہ وجلال اپنے عروج پر تھا۔ معیشت میں تیز رفتار ترقی ہورہی تھی۔ شرح نمو 9 فیصد کو چھو رہا تھا۔ ملک میں بڑے پیمانے پر صنعت کاری ہورہی تھی۔ دیوہیکل ڈیم بن رہے تھے اور بڑے بڑے منصوبوں پر کام ہورہے تھے۔ لیکن اس سماجی جمود کے اندر کچھ خلل تھا جس کو یہ نئی ابھرنے والی نسل محسوس کررہی تھی۔ لیکن کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اورعلامات کو بہت کم لوگ پرکھ رہے تھے۔ سیاسی اور سماجی خاموشی میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دے رہا تھا۔ ایک انقلابی بغاوت اور عوامی سرکشی کے لئے بہت کم امید اور تیاری تھی۔ معاشرے پر حاوی دانش ور اور تجزیہ نگار کسی انقلابی تحریک کے امکان کو مسترد کررہے تھے۔ لیکن پھر ایسے دو تین سو افراد نومبر کی اس آخری خنک صبح کو لاہور میں ایک نئی انقلابی پارٹی کی تخلیق کا عظم لئے اس کے تاسیسی اجلاس میں شرکت کے لیے جمع ہورہے تھے۔ جابر ریاست ہر طرح سے ان کو روکنے کی کوشش اور ان کو ہراساں بھی کررہی تھی، لیکن پھر وہ اپنی اس جبر کی کاوش میں پوری طرح پرجوش اور پرعزم اس لیے نہیں تھی کیونکہ ریاست کے منطقی فلسفہ اور سوچ رکھنے والے مفکرین کو کوئی ایسا خطرہ ہی محسوس نہیں ہورہا تھا کہ یہ تھوڑے سے افراد پر مبنی پارٹی اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی پارٹی بن جائے گی اور اس کا انقلابی سوشلزم کا پروگرام اس ملک کے انقلاب کا محور اور مقصد بن جائے گا۔
پارٹی کی تاسیسی دستاویز میں پارٹی کے قیام کاجو کلیدی مقصد بیان کیا گیا وہ یہ تھاکہ ’’پارٹی کے قیام کا حتمی مقصد ایک طبقات سے پاک سماج کی تخلیق ہے جو صرف انقلابی سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے‘‘۔
ایک سال تک یہ پیغام معاشرے کی گہری پرتوں تک سرائیت کرتا رہا اور جب 6 نومبر 1968ء کو انقلاب کا لاوا ایک آتش فشاں بن کر پھٹا تو اس انقلابی سرکشی کا روح رواں اور اسکی اساس اسی پیپلز پارٹی کا انقلابی سوشلزم کا پیام ہی تھا۔ 139 دنوں تک ریاست کی طاقت ہوا میں معلق رہی اور اصل قوت گلیوں‘ بازاروں‘ فیکٹریوں‘ کھیتوں‘ کھلیانوں اور غریبوں کی بستیوں میں سمٹ آئی تھی۔ انقلاب کی شورش نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ یہاں کے صدیوں سے نسل درنسل دبے اور جکڑے ہوئے محنت کش عوام تاریخ کے میدان میں اتر کر اپنا مقدر اپنے ہاتھوں سے تخلیق کررہے تھے۔ اس ملک کی تاریخ کے سب سے مضبوط اور جابر حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کو اقتدار سے مجبوراً دستبردار ہونا پڑا اور اپنے آخری خطاب (25مارچ 1969ء) میں اس نے اعتراف شکست ان الفاظ میں کیا ’’یہ میرا آپ سے آخری خطاب ہے۔ تمام ریاستی ادارے مفلوج ہوچکے ہیں۔ ہر طرف گھیراؤ اور ہڑتالیں ہیں۔ لوگ دھونس سے اپنے مطالبات منوارہے ہیں۔ ۔ ۔ آج ملک کے ہر مسئلے کا فیصلہ گلیوں میں ہورہا ہے۔ ۔ ۔‘‘
لیکن آمریت کے خاتمے کے بعد بھی انقلاب کا ریلا رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ پہلے اس کو 1970ء کے انتخابات میں مبذول کرکے زائل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس نے انتخابات میں بھی تمام حکمرانوں کے تختے الٹ دیئے۔ پھر قومی جنگ (1971ء) کے ذریعے اس طبقاتی جڑت اورجدوجہد میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن انقلاب کو ختم کرنے میں یہ حربہ بھی ناکام رہا۔ آخر کار پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لا کر اس کو زائل کرنے کا عمل شروع ہوا۔ جہاں اس انقلابی تحریک نے پیپلز پارٹی کو اس کے سوشلسٹ پروگرام کی وجہ سے پاکستان کے محنت کش طبقات کی سیاسی روایت بنا دیا تھا وہاں انقلابی ریلے کے دباؤ کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پیپلز پارٹی حکومت نے حکمران طبقات پر نیشنلائزیشن اور دولت‘صنعت اورجاگیروں کی ضبطگی کے ذریعے ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے وار کیے۔ عوام کے لیے تاریخ کی سب سے بڑی اصلاحات کی گئیں۔ اس کے بجٹ (1972-73ء) میں تعلیم اور علاج کے شعبوں کے لئے 43.2 فیصد مختص کیا گیا۔ جبکہ ان شعبوں میں اس ملک کی65 سالہ تاریخ میں4فیصد سے زیادہ کبھی بھی اس سے پہلے یا بعد میں مختص نہیں کیا گیا۔
لیکن سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے حکمران طبقات اور امریکی سامراج کو بھٹو اور پیپلزپارٹی سے انتقام لینے کا موقع ملا۔ 1977ء میں پیپلز پارٹی حکومت کو معزول کردیا گیا جبکہ1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے ذریعے قتل کرکے حکمرانوں نے اپنا انتقام لیا۔
آج45ویں یوم تاسیس کے موقع پر پارٹی ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنے اور اس کو چلانے کے لیے اس کو اپنی محنت کش عوام کی حمایت پر معاشی حملے کرنے پڑے ہیں جس سے یہ حمایت مجروح بھی ہوئی ہے اور مایوس بھی۔ لیکن عوام حکمرانوں کی طرح بے غیرت نہیں ہوتے وہ بہت سے اور دکھ سہہ کر بھی اپنی روایات سے بے وفائی نہیں کرتے۔ لیکن روایت کی قیادت حکمرانوں کا آلہ کار بن کر محنت کش طبقے کے مفادات کو مجروح کر رہی ہے اور سوشلسٹ پروگرام سے انحراف کرکے نجکاری اور سرمایہ داری کی پالیسیوں پر ایمان لاچکی ہے تو اس صورتحال میں یہ سماجی حمایت کب تک اس اذیت کو برداشت کرتی رہے گی۔ جب ووٹوں کے ذریعے انکے سلگتے ہوئے مسائل حل نہ ہوں تو پھر ایک وقت آتا ہے جب اجتماعی شعور میں ایک معیاری تبدیلی جنم لیتی ہے۔ شاید ایسا وقت قریب آرہا ہے۔ جن غیر معمولی عوامی سرکشیوں کے تاریخی لمحات میں محنت کش طبقات کی روایات جنم لیتی ہیں‘ ایسے ہی حالات پھر ابھر کر ان روایات کو تبدیل بھی کردیتے ہیں۔ جہاں انقلابوں کے سماج بدلنے کا سلسلہ ٹوٹا ہوتا ہے‘ اس کوپھریہ تحریکیں جوڑ کر آگے بڑھا دیتی ہیں۔ انقلابات کا نیا عمل شروع ہوجاتا ہے جو پھر اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو تلف کرکے آگے بڑھتا ہے اور اس بوسیدہ سرمایہ دارانہ وجاگیردارانہ نظام کواکھاڑ کر سامراجی جکڑ کو توڑ کر اس نظام کو ایک اشتراکی نظام میں بدل دیتا ہے۔ آج پاکستان کے مفلوک الحال لوگوں نے سوچنا شروع کردیا ہے کہ ان کی خوشحالی اور نجات اسی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ عوام انقلاب کی تکمیل سے اپنے ہاتھوں اپنے مقدر کی تخلیق‘تعمیر اور تشکیل کو مکمل کرسکیں گے۔