[تحریر: لال خان]
افغان انتخابات کے دوسرے دور کے نتائج متنازعہ بن جانے کے بعد امریکی سامراج نے دونوں امیدواروں کے درمیان کچھ دن پیشتر معاہدہ کروا کر کے حالات کو قابو کیا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق تمام 80 لاکھ ووٹوں کی گنتی دوبارہ ہوگی اور دو اگست کو متوقع صدارتی حلف کی تاریخ بھی ملتوی کر دی گئی ہے۔ فریقین کے دستخطوں کی سیاہی ابھی خشک نہ ہوئی تھی کہ پورے ملک میں گزشتہ دس سال کی سب سے شدید دہشت گردی کا آغاز ہوگیا۔ کابل میں ہونے والے حملے میں حامد کرزئی کے ذاتی فوٹوگرافر سمیت صدارتی محل کے کئی اہلکار مارے گئے۔ مشرقی صوبے پکتیا میں ہونے والے بم دھماکے میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 89 ہوگئی ہے اور مزید ہلاکتوں کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
امریکہ نے اسی سال افغانستان میں سے نیٹو افواج کے جزوی انخلا کا امکان ظاہر کیا تھا جس کے بعد سے دہشت گردی اور خونریزی کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ افغانستان پر سامراجی قبضے کے دوران صرف اشرافیہ اور بالائی درمیانہ طبقہ ہی امارت اور ’’لبرل ازم‘‘ سے فیضاب ہوا ہے۔ امریکی جمہوریت کی برکات کابل کے ریڈ زون تک ہی محدود ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران خانہ جنگی زیادہ پیچیدہ اور خونریز ہوگئی ہے اور آبادی کا وسیع حصہ پہلے سے کہیں زیادہ غربت، محرومی اور بے بسی کا شکار ہے۔ سول سوسائٹی کے سامراجی گماشتوں کی امیدوں اور دعووں کے برعکس آج افغانستان ماضی کی نسبت کہیں زیادہ عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے جس کی گواہی سرکاری اعداد و شمار بھی دے رہے ہیں۔ 2009ء میں کل 1052افراد دہشت گردی کی کاروائیوں میں لقمہ اجل بنے تو 2014ء کے پہلے چھ ماہ میں ہی 1564ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ زخمی یا اپاہج ہونے والے 3289لوگ اس کے علاوہ ہیں۔
گزشتہ کئی ماہ سے کارپوریٹ میڈیا حالیہ صدارتی انتخابات کو ہر مسئلہ کا حل بنا کر پیش کرنے میں مصروف تھا۔ دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ امریکی سامراج اور اس کے چیلے چمچے اپنی گماشتہ اقوام متحدہ اور ’’شفاف‘‘ انتخابات کے ذریعے ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ’’جمہوری‘‘ افغانستان اپنے پیچھے چھوڑ کر جائیں گے۔ یہ انتخابات اتنے شفاف تھے کہ پہلے راؤنڈ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والا ڈاکٹر عبداللہ دوسرے راؤنڈ میں حیران کن طور پر کرزئی کے امیدوار اشرف غنی سے ہار گیا۔ رد عمل میں عبداللہ کے حماتیوں نے شدید احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے امریکی سامراج کا بنایا ہوا جعلی اور نحیف ریاستی اور سیاسی سیٹ اپ لڑکھڑانے لگا۔ آبادی کے وسیع حصے میں بیرونی جارحیت کے خلاف پکنے والا غم و غصہ، طالبان کی بڑھتی ہوئی کاروائیاں، بائیں بازو کے گروہوں کی شدت پکڑتی ہوئی مسلح یا غیر مسلح مزاحمت اور سب سے بڑھ کر سامراج کے اپنے مسلط کردہ ڈھانچے میں پڑنے والی دراڑوں نے کابل سے لے کر واشنگٹن تک، طاقت کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ لیکن چونکہ ایران کے ’’سپریم لیڈر‘‘ کی طرح افغانستان میں امریکی آقاؤں کی اجازت اور آشیر آباد کے بغیر سرکاری سیاست میں حصہ لینا ممکن نہیں ہے لہٰذا جان کیری کو اپنے دونوں مہروں کو قابو کرنے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔
انتخابات ہوں یا ددوسرے سیاسی اور ریاستی معاملات، افغانستان کی سرکار براہ راست سامراجی دھونس اور مداخلت کے ذریعے مصنوعی طور پر چلائی جارہی ہے۔ اس جعلی سیاست، جمہوریت اور ریاست کو میڈیا، لبرل خواتین و حضرات اور ان کی سول سوسائٹی بڑا جائز اور نارمل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ بھلا سامراجی سنگینوں کے سائے تلے ہونے والے انتخابات ’’آزادانہ‘‘ ہوسکتے ہیں؟ لیکن نظریاتی بے غیرتی کے اس دور میں وظیفہ خوار ’’دانش ور‘‘ حضرات کو کیا ضرورت پڑی کہ ایسے بنیادی سوالات پر مغز ماری کرتے پھریں؟ چل سو چل والا حساب ہے۔ نظرئیے، سچائی، ضمیر اور اصول کو بالائے تاک رکھ کر مال بنانا ہی سرمائے کے نظام اور اس کی دانش کا دستور ہے۔

15 جولائی کو متعدد اخبارات میں چھپنے والی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدہ دار نے بیان میں کہا ہے کہ ’’دوبارہ گنتی میں جیتنے والے صدر کو ہارنے والے امیدوار کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ ہارنے والے امیدوار یا اس کے نامزد نمائندے کو نئی حکومت میں اہم پوزیشن دی جائے گی۔ افغانوں کو اسی سیٹ اپ کے تحت رہنا ہوگا۔‘‘ سامراج کے ایک نمائندے کے یہ چند الفاظ اس دو نمبر جمہوریت کی اصلیت بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہیں۔ امریکی مارکہ جمہوریت کا یہ حال ہے تو سامراجی قبضے کے تحت پنپنے والے ’’حقوق نسواں‘‘، خوشحالی اور ترقی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
دہشت کی مارکیٹنگ میں اضافے کے لئے جہاں ’’طالبان‘‘ کے مختلف گروہوں نے داخلی اور خارجی خونریزی میں اضافہ کردیا ہے وہاں کئی علاقائی اور عالمی طاقتیں افغانستان پر گدھ کی طرح منڈلا رہی ہیں۔ روس، چین، پاکستان، ہندوستان اور خلیجی بادشاہتیں، سب اپنے اپنے مفادات کے تحت چالبازیوں میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ اگر ہندوستان اور فرانس کا ’یار‘ ہے تو اشرف غنی بھی بے کس اور بے بس عوام کا نمائندہ نہیں ہے۔ درجنوں سامراجی اجارہ داریاں اپنی تابع ریاستوں اور زر خرید مسلح گروہوں کے ذریعے افغانستان کو چیر پھاڑ کر معدنی وسائل کو لوٹنے کے لئے چھریاں تیز کئے ہوئے ہیں۔ امریکی سامراج آج بھی طالبان کے کئی دھڑوں سے ساز باز کرنے میں مصروف ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی مرتب کردہ ’’دہشت گرد عناصر کی فہرست‘‘ سے کئی خونخوار گروہوں کے نام ایسے ہی تو غائب نہیں ہیں۔ امریکی ریاست کے اپنے ذکر کے بغیر یہ فہرست ویسے بھی نامکمل ہے!
سامراجیوں نے افغانستان میں ایک ’’قومی فوج‘‘ بھی تیار کی ہے۔ امریکی اسی طرح کی ایک فوج عراق میں بھی چھوڑ آئے تھے جس کا حشر سب کے سامنے ہے۔ افغان فوج کا مقدر بھی کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتا۔ امریکی سیاست کا اہم تجزیہ نگار جریدہ ’’فارن پالیسی‘‘ خود لکھتا ہے کہ ’’افغانستان کی فوج اور پولیس بھی عراق کے ماڈل پر قابض طاقتوں نے تشکیل دی ہے۔ عراق میں سیکیورٹی ادارے بنانے والی ٹیمیں ہی افغان فوج کو تربیت دے رہی ہیں۔ عراق کی طرح افغانستان میں بھی سپاہیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی تعطل کا شکار رہتی ہے۔ بیرونی فوجوں اور امداد میں کمی سے افغان فوج کے اہلکار بڑے پیمانے پر بھگوڑے ہو کر ’دشمنوں‘ سے جاملیں گے جو فوری اور نقد اجرت دیتے ہیں۔ جو کچھ عراق کے شہر موصل میں ہوا وہ افغانستان میں بھی ہوگا۔‘‘ یہ سامراجی ماہرین کی اپنی رائے ہے۔ افغانستان کا مستقبل کتنا مستحکم ہے، نظر آہی رہا ہے۔ امریکہ کے مکمل یا جزوی انخلا کے بعد کئی پراکسی جنگیں کھل کر سامنے آئیں گی۔ پاک بھارت ’’دشمنی‘‘ کو نیا میدان جنگ ملے گا۔ پاکستانی ریاست کی حمایت سے طالبان کا کوئی دھڑا اگر کابل یا کسی دوسرے اہم شہر پر قبضہ کرتا ہے تو امریکیوں کو بادل نخواستہ انہی ’’طالبان‘‘ کی حمایت کرنی پڑے گی۔ طالبان کے دوبارہ طاقت حاصل کرنے کی صورت میں امریکہ معاشی اور عسکری طور پر ایک اور مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
امریکیوں کے جانے کے بعد افغانستان میں بڑے پیمانے کی خانہ جنگی، قتل و غارت گری اور مکمل تباہی کا تناظر بھی سراسر مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ افغانستان میں کون سی بربادی ہونا ابھی باقی ہے؟ ابھی کون سی امن و آشتی ہے جس کو امریکہ کے جانے سے خطرہ لاحق ہوجائے گا؟ لیکن سب سے اہم سوال سامراجی جارحیت اور بنیاد پرستی کی وحشت میں کچلے جانے والے افغان عوام کے مستقبل کا ہے۔ خطے میں کسی انقلابی تحریک کی عدم موجودگی اور سماجی جمود کے اس عہد میں ایک بار پھر افغان سماج پر دو مختلف رنگوں میں چھپی رجعت اور وحشت کو مسلط کیا جارہا ہے۔ افغانستان کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو باور کروایا جارہا ہے کہ انہیں مذہبی جنونیوں یا سامراجی گماشتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا اور کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ دونوں طرف ذلت، بربریت اور محرومی ہے۔ خود کو ’’طالبان‘‘ کہنے والے کے مختلف گروہ کالے دھن کی لڑائی میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں تو سامراجی طاقتوں کے پراکسی سیاستدان اپنے آقاؤں کے مفادات کے تحت آپس میں سیاسی یا عسکری طور پر برسر پیکار ہیں۔ عوام کی کہیں کوئی نمائندگی، کوئی شنوائی نہیں ہے۔
اسلامی بنیاد پرستی اور سامراج کے جعلی تضاد کو رد کر کے محنت کش عوام کوسوشلسٹ انقلاب کا راستہ دکھانے والوں پر ایک طرف سے ’’کفر‘‘ تو دوسری طرف سے ’’دقیانوسی‘‘ کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ مذہب کے ٹھیکیداروں اورمرتے ہوئے متروک نظام کے رکھوالوں کو شاید وقت نے تھوڑی سی مہلت دے رکھی ہے۔ یہ لوگ محنت کش طبقے کی وقتی بیگانگی اور پسپائی کو حتمی سمجھ کر تاریخ کے خاتمے پر یقین کر بیٹھے ہیں۔ یہ لبرل اشرافیہ اور قدامت پرست ملاعوام کو مجروح، مقید اور کنفیوز کر کے آزادی اور نجات کی امید تک چھین لینا چاہتے ہیں۔ سماج کی سطح پر پژمردگی اور مایوسی طاری کر دی گئی ہے۔ ایک بلند پایہ مگر گمنام شاعر اور ہمارے دوست فیاض شاہ شیرازی کے بقول:
آگہی جرم ہوئی فن کا جنازہ نکلا۔ ۔ ۔
بے حسی اتنی بڑھی خود سے جدا ہوگئے لوگ
تاریکی، رجعت اور ہوس کے پیروکار یہ بھول گئے ہیں افغانستان وہ سر زمین ہے جہاں اس خطے کا پہلا کامیاب سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا تھا۔ ثور انقلاب کی میراث آج بھی نسل در نسل اپنی روح اور جسم پر سرمایہ داری کے زخم سہنے والے افغان عوام کو یہی سبق دے رہی ہے کہ اس نظام میں ترقی، خوشحالی، امن اور آزادی کا حصول ممکن نہیں ہے۔ وہ دن دور نہیں جب افغانستان کے نوجوان ثور انقلاب کی روایات کو ایک بلند پیمانے پر دہرائیں گے۔
متعلقہ:
افغانستان کے صدارتی انتخابات
ثور انقلاب: تاریخ افغانستان کا درخشاں باب
امریکی انخلاء کے بعد افغانستان؟