[تحریر: لال خان]
افغانستان میں صدارتی انتخابات کا پہلا دور آج جاری ہے۔ یہ برباد ملک ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر لامتناہی قیاس آرائیوں، تجزیوں اور تبصروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اگر کسی امیداوار نے 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہ کئے تو کچھ ماہ بعد دوبارہ ووٹنگ ہوگی۔ موجودہ انتخابات کے نتائج آنے میں تین دن سے ایک ہفتے تک کا وقت لگ سکتا ہے اور تجزیہ نگاروں کے مطابق قوی امکانات یہی ہیں کہ کوئی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکتے گا۔ آخری اطلاعات تک بیلٹ پیپر پر 11 امیداواروں کے نام درج تھے، تاہم کارپوریٹ میڈیا نے تین امیدواروں کو ’’فرنٹ رنر‘‘ بنا دیا ہے۔ پہلے نمبر پر ورلڈ بینک کے سابقہ عہدہ داراور ٹیکنوکریٹ اشرف غنی ہیں۔ موصوف دانشور بھی سمجھے جاتے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے جنگجو سردار رشید دوستم سے الحاق کیا ہے۔ رشید دوستم نجیب اللہ کی کیمونسٹ حکومت کا اہم جرنیل تھا جس کی غداری نے اپریل 1992ء میں نجیب اللہ حکومت گرانے میں اہم کردار اداکیا تھا۔ دوستم ازبک قوم پرست ہے اور اپنی بے رحم فوجی طاقت کی وجہ سے شمالی افغانستان پر خاصا اثرورسوخ رکھتا ہے۔ پانچ سال پہلے تک اشرف غنی کی نظر میں رشید دوستم ایک ’’سفاک قاتل‘‘ تھا۔ لیکن اشرف غنی چونکہ پشتون ہے لہٰذا ازبک آبادی کا ووٹ لینے کے لئے اب ’’ قاتل‘‘ سے الحاق کرنا ضروری ہے۔ اگر اشرف غنی صدر بنتا ہے تو رشید دوستم اسے اپنے جارحانہ مقاصد کے لئے خوب استعمال کرے گا۔
کارپوریٹ میڈیا کے مطابق دوسرا اہم امیدوار ڈاکٹر عبداللہ ہے(جسے مغربی صحابی ’’عبداللہ عبداللہ‘‘ بھی کہتے ہیں)۔ ڈاکٹر عبداللہ کا تعلق سابقہ شمالی اتحاد سے ہے اور وہ 2001ء سے 2005ء تک وزیر خارجہ رہ چکا ہے۔ اس کے علاوہ وہ 2001ء اور 2007ء کے صدارتی انتخابات میں ووٹوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر رہا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ ماضی میں فرانسیسی سامراج کے قریب رہا ہے۔ آج کل اس کے ہندوستانی ریاست سے قریبی مراسم قائم ہیں۔
حامد کرزئی کھل کر کسی کی حمایت نہیں کر رہا ہے لیکن اس کے بڑے بھائی قیوم نے مارچ میں صدارتی انتخابات سے دستبردار ہونے کے بعد ڈاکٹر زلمے رسول کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ زلمے رسول لمبے عرصے تک کرزئی کابینہ کا حصہ رہا ہے اور اب بھی اس کے حامد کرزئی سے قریبی تعلقات ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ کرزئی نے اپنے 13 سالہ دور حکومت میں بے حساب مال بنایا ہے اور اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے لئے وہ ہر صورت اقتدار کے قریب رہنے اور نئی حکومت پر اثر ورسوخ رکھنے کا متمنی ہوگا۔ کرزئی کی طرح دوسرے بے شمار نودولتیے، پولیس افسران، صوبائی گورنر اور ریاستی مشینری کے اہم حصے بھی اپنی لوٹ مار اور بڑے پیمانے کی کرپشن کے پیش نظر موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ حکومتی اور ریاستی عہدوں میں تبدیلی اشرافیہ کی اس پرت کے مالی اور سیاسی مفادات پر کاری ضرب لگا سکتی ہے۔
حامدکرزئی کو امریکی سامراج ایک کٹھ پتلی کے طور پر برسر اقتدار لایا تھا۔ لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران امریکی سامراج کی کمزوریوں اور بے بسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے آقاؤں کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ اپنے اقتدار کے دوران کرزئی نے ایک طرف ’’غیر جانبداری‘‘ اور پشتون قوم پرستی کا ناٹک جاری رکھا ہے تو دوسری طرف اپنے مالی مفادات اور کرپشن کے لئے بلیک میلنگ کے مختلف حربے استعمال کرتا رہا ہے۔ بلیک میلنگ کی اسی پالیسی کے تحت اس نے وہ سکیورٹی معاہدہ کرنے سے انکار کیا ہے جس کے تحت 2014ء میں نیٹو کے انخلا کے بعد بھی دس ہزار امریکی اور دو ہزار دوسرے ممالک کے فوجی، افغان ’’فوج‘‘ کو تربیت اور عوام کو ’’تحفظ‘‘ دینے کے لئے افغانستان میں تعینات رہیں گے۔ امریکی سامراج دراصل افغانستان کی فوج کا کنٹرول اور کمان چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ موجودہ کیفیت میں امریکہ کبھی بھی افغانستان کی کرپٹ اور ناقابل اعتبار اشرافیہ کو مکمل طور پر اقتدار منتقل نہیں کرے گا۔
اسٹریٹجک وجوہات کی بناپر افغانستان پر اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لئے برطانوی راج اور زار روس کے درمیان صدیوں تک کھیلی جانی والی ’’گریٹ گیم‘‘ آج ’’نیو گریٹ گیم‘‘ بن چکی ہے۔ اس کھیل میں کئی سامراجی قوتیں اسٹریٹجک برتری کے ساتھ ساتھ قیمتی معدنیات کے زخائر پر تسلط کے لئے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ ایران، پاکستان، چین اور ہندوستان کی ریاستیں بھی اس چالبازی اور پراکسی جنگ میں براہ راست ملوث ہیں۔ 13جون 2010ء کو نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی رپورٹ کے بعد ان قوتوں کی دلچسپی اور بھی بڑھ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں میں 1000 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی معدنیات موجود ہیں۔ پینٹا گون کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق ’’افغانستان ’لیتھیم کا سعودی عرب‘ ہے۔ لیتھیم جدید بیٹریوں میں استعمال ہونے والا اہم معدنی عنصر ہے۔ اس کے علاوہ لوہے، تانبے، سونے اور کوبالٹ کے بھی وسیع زخائر موجود ہیں اور افغانستان ان دھاتوں کی کان کنی کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں شامل ہوسکتاہے۔‘‘ چین، ہندوستان اور دوسرے سامراجی ممالک کے سرمایہ دار اور ملٹی نیشنل اجارہ داریاں ان قیمتی زخائر کی لوٹ مار کے لئے رال ٹپکا رہی ہیں۔ چین نے افغانستان کے صوبے لوگار میں واقع دنیا کے سب سے بڑے تانبے کے زخیرے میس آئناک (Mes Aynak) پر 2008ء سے 2010ء تک 3.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس مقصد کے لئے وزیر معدنیات کو 30 ملین ڈالر کی رشوت دی گئی تھی تاہم سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد وزیر کو برطرف کردیا گیا۔ 2012ء میں چین نے دریائے اموں کے پیندے میں کان کنی کرنے کے لئے حامد کرزئی اور جنرل رشید دوستم کو بھی اسی طرح نوازا ہے۔ اس معاہدے کے بعد لاکھوں بیرل تیل اور گیس کے زخائر چین کے ہتھے چڑھے ہیں۔ اپنے ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 80 کروڑ افراد پر نظر ڈالنے کی بجائے ہندوستانی ریاست نے افغانستان کو 2ارب ڈالر کی ’’امداد‘‘ دی ہے۔ افغانستان میں لوہے کی کانکنی پر ہندوستانی کمپنیاں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ ایران اور پاکستان کی ریاستی اسٹیبلشمنٹ، سرمایہ دار اور عسکری بیوروکریسی بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی تگ و دو کررہے ہیں۔
افغانستان کے عوام کے لئے اپنے ہی ملک کی معدنیات، وسائل اور اسٹریٹجک اہمیت وبال جان بن گئی ہے۔ اس بربادی اور خونریزی کا آغاز 3 جولائی 1979ء کو امریکی CIA کے خفیہ ’’آپریشن سائیکلون‘‘ کے ساتھ ہواتھا۔ ثور انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی PDPA کی حکومت گرانے کے لئے امریکی سامراج، خلیجی بادشاہتوں اور پاکستانی ریاست نے ’’مجاہدین‘‘ پیدا کئے۔ آج یہی مجاہدین ’’طالبان‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں جن کے کئی دھڑے مختلف سامراج قوتوں کے لئے خون ریزی کر رہے ہیں۔ موجودہ کیفیت میں یہ واضح ہورہا ہے کہ ’’اپنے‘‘ طالبان کے ذریعے حاکمیت قائم کرنے کی کچھ ریاستوں کی پالیسی زیادہ کارگر نہیں رہی ہے۔ طالبان کا دوبارہ افغانستان پر قبضہ زیادہ ممکنہ تناظر نہیں ہے۔ افغانستان کے عوام اگر سامراج سے نفرت کرتے ہیں تو مذہبی انتہا پسندی سے بھی بیزار ہیں۔
افغانستان کے انتخابات دراصل سامراجی جکڑ کو ’’جمہوری دستانہ‘‘ پہنانے کی کوشش ہیں۔ ’’ہیومین رائٹس واچ‘‘کے مطابق افغان پارلیمنٹ کے 80 فیصد ممبران منشیات کے دھندے میں ملوث جنگی سردار ہیں۔ خواتین کی حقوق کی آواز بلند کرنے والی بے باک رکن پارلیمنٹ ملالائی جویا کے الفاظ میں ’’افغان پارلیمنٹ ایک ڈرامہ ہے۔‘‘ امریکی سامراج کے اپنے نمائندوں نے 2009ء کے انتخابات کو ’’دھاندلی کی انتہا‘‘ قرار دیا تھا۔ حالیہ انتخابات کے بارے میں مشہور جریدہ ’’اکانومسٹ‘‘ لکھتا ہے کہ ’’ الیکشن کمیشن کے سابقہ سربراہ کے مطابق افغانستان کا ہر انتخاب فراڈ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ نتیجہ کچھ بھی ہو یہ انتخابات انتہائی پرانتشار اور گندے ہوں گے۔‘‘
دنیا میں ہیروئن کی کل پیداوار کا 90 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کاروبار پر زیادہ تر طالبان اور ان کے حلیف جنگجو سرداروں کا قبضہ ہے۔ یہ ’’نارکو معیشت‘‘ اور افغان ریاست ایک دوسرے میں گھلے ملے ہوئے ہیں۔ سامراج کی ’’جمہوریت‘‘ ہو یا طالبان کی وحشت، افغان عوام کی نمائندگی کہیں نہیں ہے۔ لیکن یہ سمجھنا کہ افغانستان کے عوام ان رجعتی قوتوں سے ہار مان بیٹھے ہیں، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ سرمایہ داری اور جاگیر داری کو اکھاڑ دینے والا جنوبی ایشیا کا پہلا انقلاب اپریل 1978ء میں افغانستان میں ہی ہوا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام اور PDPA حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے جس نے مذہبی جنونیوں کی بربریت اور سامراج کی درندگی دیکھی ہے۔ یہ نوجوان اس دوہرے جبر سے آزادی اور نجات کی تلاش میں ہیں۔ افغانستان کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس بے ہنگم خون ریزی اور پاگل پن میں بھی ایک طریقہ کارموجود ہے۔ سامراج اور مذہبی انتہا پسند، دونوں سرمائے کے محافظ ہیں۔ صرف ایک طبقاتی جنگ افغانستان کو رجعت، بربریت اور خون ریزی سے آزادی دلا سکتی ہے۔ انقلاب کی یہ لڑائی پورے خطے کے محنت کشوں اور مظلوموں کی مشترکہ جدوجہد سے ہی جیتی جاسکتی ہے۔
متعلقہ:
امریکی انخلاء کے بعد افغانستان؟
افغانستان: امن کے ناٹک
افغانستان: ظلم رہے اور امن بھی ہو؟
افغانستان :انقلاب سے رد انقلاب تک