گرجتے ہیں، برس نہیں سکتے!

| تحریر: لال خان |
لندن سے ایک اور گرج آئی لیکن برسنے سے پہلے ہی پانی پانی ہو گئی۔ الطاف حسین نے فوج کے خلاف بھرپور بڑھک لگائی اور پھر ہمیشہ کی طرح ہوش آنے پر معافی مانگ لی۔ یہ غیر معمولی واقعات بھی اب معمولی ہوکر معمول بن گئے ہیں۔ الطاف حسین نے جتنی بار پارٹی قیادت سے استعفیٰ دے کر واپس لیا ہے وہ کسی ورلڈ ریکارڈ سے کم نہیں۔ جتنی بار رابطہ کمیٹی کو تحلیل کر کے بحال کیا گیا ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ فوج کے خلاف حالیہ بیان کے بعد آئی ایس پی آر نے نسبتاً غیر سفارتی لہجہ اختیار کرتے ہوئے ’’سخت کاروائی‘‘ اور قانونی چارہ جوئی کا عندیہ دیا ہے۔

altaf hussain rabta committee cartoonریاست کے اپنے دھڑوں کے درمیان چور سپاہی کا یہ کھیل کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ عوام اکتا گئے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا ان لایعنی بحثوں کے نیچے اکثریتی آبادی کے حقیقی مسائل کو دبائے ہوئے ہے۔ سکڑتی ہوئی مڈل کلاس کی چھوٹی سی پرت ہے جو درمیانے طبقے کے مخصوص لاابالی پن کی وجہ سے حکمران طبقے کی سیاست میں کچھ دلچسپی لیتی ہے، ان کے سیاسی تماشوں میں ناچ کر بڑھتی ہوئی معاشی گراوٹ سے نکلنے کی امید لگاتی ہے اور پھر مایوس ہو کر کسی نئے سیاسی مداری کی راہ تکنے لگتی ہے۔ محنت کش طبقہ پیسے کی اس سیاست کو بہت پہلے رد کر چکا ہے۔
نظریاتی سیاست کے فقدان میں صرف مالیاتی سیاست باقی بچتی ہے اور مال جب جرائم اور کالی معیشت سے کمایا جانے لگے تو سیاست بھی بدزبان، غنڈہ گرد، بیہودہ اور پرتشدد ہوجاتی ہے۔ ایسے معروض میں سیاسی تجزیوں اور صورتحال کی پرکھ کے معیار بھی گر جاتے ہیں۔ سازشی نظریات (Conpiracy Theory) عام ہوجاتے ہیں۔ ہر قیاس آرائی اسی نقطہ نظر سے کی جانے لگتی ہے۔ ہر پیش رفت کسی ’’پوشیدہ قوت کی سازش‘‘ معلوم ہوتی ہے اور ساری سیاست ’’ایجنسیوں‘‘ کی واردات قرار دی جاتی ہے۔ یہ سوچ اگرچہ مکمل طور پر غلط نہیں ہے لیکن درست تجزیہ بھی اس طریقہ کار سے نہیں کیا جاسکتا۔
کرپشن، مالی لین دین اور کاروباری معاملات اگر اس سیاست کے بنیادی محرکات ہیں تو ایجنسیوں کی سرگرمیاں بھی صرف سیاست تک ہی محدود نہیں ہیں۔ صحافت سمیت ہر سماجی شعبے میں یہ مداخلت نظر آتی ہے۔ ریاست اور سیاست کے بالائی ڈھانچے معیشت کی بنیادوں پر تعمیر ہوتے ہیں۔ معیشت جب کھوکھلی ہوجائے تو بالائی ڈھانچے کیونکر مستحکم ہو سکتے ہیں؟ ایسے ادوار میں وفاداری بھی سیاسی بازار کی جنس بن جاتی ہے، قتل ہوتے اور کروائے جاتے ہیں، ضمیر بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔ اقتدار کے بغیر اگر لوٹ مار کی مطلوبہ شرح حاصل نہ ہو پارہی ہو تو کرسی کے لئے بڑے بڑے سیاسی داؤ لگا دئیے جاتے ہیں۔ سیاست کے پرانتشار سمندر میں لہروں کے بدلتے ہوئے رخ پل بھر میں دوستوں کو دشمن کر دیتے ہیں اور روایتی دشمنوں سے بھی’’ مصالحت‘‘ کر لی جاتی ہے۔ نئے نئے عجیب الخلقت الحاق ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ نئے نفاق جنم لیتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ایسی دوستیوں اور دشمنیوں کا دورانیہ بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا نودولتیا کالی معیشت کی اس مکروہ سیاست میں کود رہا ہے کیونکہ سیاسی اقتدار بدعنوانی اور جرائم سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
پھر یہاں ایک عدد ’’بایاں بازو‘‘ بھی ہے جو بڑی حد تک ’سابقہ‘ ہو چکا ہے۔ سوویت یونین اور چین میں سٹالن ازم کے زوال کے بعد اس ’’بائیں بازو‘‘ کے بڑے بڑے مفکر نظریات کو خیر آباد کہہ کر ’’جمہوریت‘‘ اور ’’سیکولرازم‘‘ کے گرویدہ ہوگئے۔ ان کی بڑی تعداد این جی اوز کھول کر سامراج کی خدمت گزار بن گئی۔ اخلاق اور اقدار کی تنزلی کی کوئی حد نہ رہی۔ ان میں سے بیشتر تو محنت کش طبقے کے وجود کو ہی مسترد کر چکے ہیں۔ ’’عملیت پسندی‘‘ کے تحت انہوں نے ہر اصول کو روند کر ضمیر کی باقیات کا بھی گلا گھونٹ دیا ہے۔ مارکسزم کی تضحیک کرنا، لینن اور ٹراٹسکی کو غلط اور فرسودہ قرار دینا ان کا شیوہ ہے اور سوشلزم کا تمسخر اڑانا ذریعہ معاش۔ وقت اور حالات کی تلخی اگر ’’بایاں بازو‘‘ ہونے کے بہت سے دعوے دار نہیں جھیل پائے ہیں تو مذہبی دایاں بازو بھی کھوکھلا ہو کر ٹوٹ پھوٹ رہا ہے۔ ماضی بعید کے رجعتی عقائد کو حال پر مسلط کرنے میں ناکام ایسے رجعتی رجحانات اب بڑی حد تک ’’کمرشلائز‘‘ ہو چکے ہیں۔ مذہبی رہنما ؤں کو خود اپنے عقائد پر یقین نہیں ہے اور مذہبی سیاست میں دولت کی تیز سرایت کے نتیجے میں فرقہ واریت نے خلفشار پیدا کر دیا ہے۔ مذہب کے منافع بخش کاروبار نے نہ صرف متروک فرقوں میں نئی جان ڈال دی ہے بلکہ نیا سے نیا فرقہ بنتا چلا جارہا ہے۔ محاورے میں ملاں کی مسجد ڈیڑھ اینٹ کی تھی، اب اس سے بھی کہیں چھوٹی ہوگئی ہے۔
pakistan terrorism cartoonدہشت اور دولت کا تعلق براہ راست ہے۔ دہشت گردی کی کاروائیوں میں جتنی بھاری سرمایہ کاری درکار ہے وہ کوئی بھاری دولت والا ہی کرسکتا ہے۔ مرنے اور مارنے والے بہرحال غریب ہی ہیں۔ دہشت گردی کو فنانس کرنے والے زرداروں کا مقصدبھی دین یا کسی مخصوص عقیدے کی خدمت نہیں ہے بلکہ دوسرے شعبوں کی طرح دہشت گردی میں بھی باقاعدہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے جس کا مقصد منافع کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔
آج کل یہ چرچا بھی بہت ہے کہ دائیں اور بائیں بازو کی باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں اور ’’مصالحت‘‘ ہی سیاست کی واحد بنیاد ہے۔ اگر پیپلز پارٹی یا اے این پی جیسی نام نہاد ’’سیکولر‘‘ یا ’’لبرل‘‘ پارٹیوں کا جائزہ لیں تو ان کی قیادت ’بایاں بازو‘ ہونے سے صاف انکاری ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ یا تحریک انصاف جیسی نیم مذہبی رجحانات کی حامل پارٹیاں خود کو ’دایاں بازو‘ کہلانے سے گریزاں ہیں۔ یہ سب کی سب پارٹیاں ’’پوسٹ ماڈرن‘‘ عہد کی ’’غیر نظریاتی پارٹی ‘‘ بننے کی کوشش کرتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ساتھ ہی ساتھ ’’نظریات‘‘ کا شور بھی مچایا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم اس روایت کی کلاسیکی مثال ہے۔ اس کی بنیاد دائیں بازو کی اسلامی جمعیت طلبہ اور بائیں بازو کی این ایس ایف کے سابق کیڈروں کے ملغوبے پر مبنی تھی۔ اسے واقعتاً ضیا الحق کے دور میں ایجنسیوں نے پروان چڑھایا تھا۔ تحریک کی پسپائی، سماج پر حاوی پراگندگی، سیاسی خلا اور مہاجر آبادی کی بیگانگی کی وجہ سے لسانی تعصبات کے لئے موافق معروضی حالات پہلے سے موجود تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ کراچی کے کاروباری طبقے کے ہاتھوں استعمال اور مالی مفادات نے اس کا کردار لسانی فرقہ واریت سے بڑھا کر فسطائیت میں تبدیل کردیا۔ اس کے بعد تین دہائیوں سے کراچی اور شہری سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اس ماضی سے آج کا حال چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکا اور اس حال کو یکسر تبدیل کئے بغیر کسی بہتر مستقبل کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ حکمران طبقے کی سیاست کے سارے ڈھانچے اگر نظریات سے عاری ہو چکے ہیں تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ سماج میں سے طبقات اور طبقاتی تضادات ختم ہو گئے ہیں۔ ’’غیر نظریاتی‘‘ ہونے کا دعویدار ہر رجحان دانستہ یا نادانستہ طور پر حکمران طبقے اور سرمایہ دارانہ نظام کے نظریات پر گامزن ہوتا ہے۔ طبقاتی سماج میں خود کو ’’غیر نظریاتی‘‘ قرار دینا سراسر منافقت ہے۔ ہر سیاسی اقدام اور معاشی پالیسی دو متضاد اور متصادم طبقات میں سے کسی ایک کے مفادات کی نمائندہ ہوتی ہے۔ جب تک سماج میں طبقات موجود ہیں ، سیاست میں سے نظریات ختم نہیں ہو سکتے۔ محنت کش عوام کی نجات ایسے انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کی بنیاد مارکسزم کے سائنسی نظریات ہوں۔
تاریخ نہایت ہی کفایت شعار ہوتی ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں جن نظریات کی سیاست ختم ہوئی ہے وہ نہایت ہی غلیظ اور فرسودہ تھے۔ بائیں بازو کی اصلاح پسندی، سٹالن ازم اور سوشل ڈیموکریسی کو بے نقاب کر کے تاریخ نے محنت کش طبقے کو نظریاتی ابہام اور تذبذب کی جکڑ سے آزاد کیا ہے۔ آج اگر حکمرانوں کی سیاست گل سڑ چکی ہے تو ان کے نظام کو سماج پر مسلط کرنے والی ریاست بھی زوال اور انتشار در انتشار کا شکار ہے۔ اپنی بوکھلاہٹ میں کبھی بیان بازی تو کبھی آپریشن کے ذریعے یہ حکمران حالات کو سنبھالنے کی بجائے مزید بگاڑ رہے ہیں۔ بہتری کی گنجائش اس کے نظام میں سے کب کی ختم ہو چکی ہے۔ جب تک یہ فرسودہ نظام نہیں بدلے گا، حالات نہیں بدلیں گے!

متعلقہ:

بھتہ خور سیاست

ایم کیو ایم: جب بات بگڑ جائے!

مافیا کی سیاست

کراچی آپریشن اور ایم کیو ایم: ریاست کا سایہ، کچھ اپنا کچھ پرایا!

سوشل ڈیموکریسی: انقلابی سوشلزم کا سبوتاژ!