بلوچستان کی بیگانگی

[تحریر: لال خان]
گزشتہ ہفتے منعقد ہونے والے ’صاف اور شفاف‘ عام انتخابات میں کچھ پولنگ سٹیشنوں پر سو فیصد سے زیادہ اور کچھ جگہوں پر دو سو فیصد ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آیا۔ بلوچستان میں خاص طور پر صورتحال اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز رہی۔ڈیلی ٹائمز میں چھپی ایک رپورٹ کے مطابق ’’اگرچہ الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹ ڈالنے کی شرح 50 فیصد سے زیادہ تھی، تاہم مقامی بلوچ سیاسی کارکنان کے مطابق یہ شرح محض 3 فیصد رہی۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکیوں اور بلوچستان نیشنل فرنٹ، بلوچ ری پبلیکن پارٹی جیسی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے بلوچ اکثریتی علاقوں میں پہیہ جام ہڑتالوں کی وجہ سے انتخابات سے قبل جلسے جلوس ممکن نہیں ہو سکے اور الیکشن کے روز صوبے بھر میں ووٹ ڈالنے والوں کی شرح بہت ہی کم رہی۔‘‘
1948ء میں بلوچستان کے زیادہ تر حصے کو دھوکہ دہی اور فوجی جارحیت کے ذریعے پاکستان میں شامل کیا گیا اور تب سے یہ صوبہ میدان جنگ بنا ہوا ہے جہاں مسلسل خلفشار اور مسلح لڑائیاں معمول بن چکی ہیں۔1970ء کی دہائی تک قومی آزادی کی ان جنگوں میں بائیں بازو کے رجحانات اور سوشلسٹ نظریات حاوی تھے۔ امریکی سامراج اور ایرانی بادشاہت کی حمایت سے فوجی جارحیت کے ذریعے اس جدوجہد کو بے دردی سے کچلا گیا۔حالیہ عرصے میں بلوچستان میں ریاستی جبر میں اضافہ ہوا ہے۔دوسری طرف سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے قومی آزادی کی تحریکیں دنیا بھر میں نظریاتی تذبذب کا شکار ہیں، بلوچستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔

بلوچ حریت پسند الیکشنوں کے خلاف وال چاکنگ کرتے ہوئے

حالیہ انتخابات کے نتائج بد انتظامی کا شکار ہو گئے ہیں جس کی وجہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سامراجی آقاؤں کے مابین در پردہ تنازعات ہیں۔ایک دائیں بازو کی جماعت کا اقتدار پر مکمل قبضہ پاکستانی ریاست اور سامراجی آقاؤں کے لئے خطرنات صورتحال کو جنم دے سکتا ہے کیونکہ اس صورت میں سامراجی اداروں کے تباہ کن احکامات، پچھلے پانچ سالوں کی نسبت، زیادہ بے دردی سے سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی جس سے سطح کے نیچے پنپتا ہوا عوامی غم و غصہ اشتعال انگیز سطح تک پہنچ سکتا ہے۔اسی طرح ریاست اور سیاسی اشرافیہ کے مابین اندرونی تضادات بھی پھٹ سکتے ہیں، اس صورت میں بھی سماج میں عدم استحکام اور انتشار بڑھے گا اور یہ سامراجیوں اور حکمران طبقے کے مفادات کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ایسا دکھائی دے رہا کہ مسلم لیگ (ن) بلوچستان کی صوبائی حکومت میں پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے ساتھ شریک اقتدار ہو گی۔پختون اور پنجابی سیاسی جماعتوں کے بلوچستان میں برسر اقتدار آنے سے قومی سوال حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوگا۔ریاست کے کچھ مخصوص حصے ہمیشہ سے بلوچستان میں بلوچ پشتون تنازعے کو ہوا دے رہے ہیں لیکن فی الحال اس عمل کو بہت آگے تک نہیں لے جایا گیا، لیکن موجودہ صورتحال میں یہ جعلی تنازعہ بے قابو ہو کر بلوچستان کے عوام کو برباد کردینے والی خونریز لڑائی میں ایک نئی جہت کا اضافہ کر سکتا ہے۔اپنے پیش رو کی طرح نواز شریف بھی’آغازِ حقوقِ بلوچستان‘ جیسا گھِسا پِٹاڈھونگ رچائے گا۔یہ ریاست کے مختلف اداروں کی جانب سے روا رکھے گئے ننگے قومی جبر اور ریاستی استبداد پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہو گی۔
پہلے ہی بلوچستان کے عوام، دو درپردہ (پراکسی) جنگوں کے ہاتھوں تاراج ہو رہے ہیں۔ماضی میں قومی و سماجی آزادی کے حصول کے لیے بلوچ نوجوانوں اور مجبور عوام کی یہ لڑائی جابر ریاستی قوتوں کے خلاف تھی لیکن موجودہ عہد میں کئی دوسرے عناصر کی شمولیت نے صورتحال کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔سامراجی قوتوں کے چیلے مختلف نظریاتی لبادے اوڑھ کر (مثلاً لشکرِ جھنگوی وغیرہ) ریاست سے بھی کہیں زیادہ جبر اور بربریت کر رہے ہیں۔ہزارہ برادری کا درندہ صفت قتلِ عام اسی پاگل پن کی پیداوار ہے۔ان جنونی دہشت گرد گروہوں کو نہ صرف پاکستانی ریاست کے کچھ حصوں کی حمایت حاصل ہے بلکہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی رجعتی بادشاہتیں بڑے پیمانے پر ان سنی فرقہ وارانہ تنظیموں کی معالی معاونت کرتی ہیں۔ شیعہ جنونی تنظیموں کی معاونت ایرانی ملا ریاست کرتی ہے۔
2008ء کے عالمی مالیاتی انہدام کے بعد سے سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے بحران کے باعث کارپوریٹ کمپنیاں گِدھوں کی طرح وسائل کی لوٹ مار اورمختلف زمینی خطوں کا بلادکار کرنے کے لیے نئے علاقوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔معدنی وسائل سے مالا مال بلوچستان بھی ان گدھوں کے شکاروں میں سے ایک ہے۔چینیوں نے پاکستانی ریاست کے اندربہت کلیدی جگہ بنا لی ہے۔اس کاواضح ثبوت یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی فوج اسلحے اور سازو سامان کا 42 فیصد چین جبکہ 36 فیصد امریکہ سے خریدتی ہے۔چینی اشرافیہ سونے، تانبے، لتھیئم اور دیگر معدنی زخائر میں اپنی سرمایہ کاری اور کنٹرول کو بڑھانا چاہتی ہے جن کی مالیت  1.5 ہزارسے لیکر 3 ہزار ارب ڈالر ہے۔ چینی، بلوچستان کی معدنی دولت لوٹنے کے لئے بے قرار ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ گوادر کی بندر گاہ کے ذریعے خلیج اور مشرقِ وسطیٰ کی منڈیوں تک زیادہ منافع بخش تجارتی راستے بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔گوادر سینکیانگ شاہراہ، جسے نئی شاہراہِ ریشم بھی کہا جارہا ہے، کی تعمیر سے چین اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان تجارتی فاصلہ 2000  کلو میٹر کم ہو جائے گا۔چین کا خطے میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔
بلوچستان میں جاری نئے عظیم کھیل (Great Game) میں سعودی عرب و ایران، امریکی و چینی سامراج، مغربی کانکنی کی کمپنیاں، ہندوستانی اور روسی کارپوریشنیں، سب حصہ دار ہیں۔امریکی سامراج کچھ آزادی پسند مسلح گروہوں کی پشت پناہی بھی کررہا ہے۔گزشتہ برس ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے امریکی رکنِ پارلیمان ڈانا رور بیکر، جو پارلیمانی سب کمیٹی برائے خارجہ امور کا رکن بھی ہے، نے امریکی کانگریس میں ایک قراداد پیش کی جس کی رو سے’’بلوچستان کے عوام کو حقِ خود ارادیت اور علیحدہ ملک کا حق حاصل ہونا چاہیے۔‘‘افغانستان اور عراق کو تاراج کرنے والے امریکی سامراج کے ایک نمائندے کا ایسا بیان، بلوچستان کے نوجوانوں اور مجبور عوام کی توہین ہے جو نسل در نسل اپنی قومی اور سماجی و معاشی نجات کے لیے جدوجہد کرتے اور عظیم قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔جدوجہد میں شامل بلوچ نوجوان آج ایک بار پھر 1960ء اور1970ء کی دہائی کے انقلابی نظریات کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔وہ سامراج کی مکارانہ لفاظی اور دعووں کے فریب میں نہیں آئیں گے۔تاریخ گواہ ہے کہ سامراج نے ہمیشہ قومی سوال کو ملک بنانے اور توڑنے کے لیے استعمال کیا ہے جس کا مقصد منڈیوں کو پھیلانا، بے منافعوں کے حصول، وسائل کی لوٹ مار اور دولت پر قبضے کے لیے سیاسی بالادستی کا حصول ہوتا ہے۔
پاکستان کی نئی حکومت ملکی تاریخ کے بدترین سماجی اور معاشی حالات میں بر سرِ اقتدار آ رہی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے بلوچستان میں غربت، ذلت اور محرومی میں اضافہ ہو گا۔قومی محرومی اور سماجی و معاشی استبداد کے جذبات مسلح جدوجہد اور پاکستانی ریاست سے نفرت کو ہوا دیں گے۔ کئی مخالف قوتوں کی کئی سمتوں اور کئی محاذوں پر جاری لڑائی کے بیچ میں مسلم لیگ نواز کی حکومت جلد ہی خود کو دلدل میں دھنسا ہوا پائے گی۔ سیاسی حل اور مذاکرات کے ذریعے امن کا حصول تقریباً نا ممکن ہے اور اس کے نتیجے میں ریاستی تشدد، ظلم اور جبر میں اضافہ ہو گا۔سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے بلوچ نوجوان اور عوام اپنے قومی اور معاشی حقوق کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے۔بلوچستان میں جاری ظلم میں بھی وہی رجعتی قوتیں ملوث ہیں جو ملک کے دیگر حصوں میں بہیمانہ طبقاتی جبر اور استحصال کر رہی ہیں۔قومی آزادی کی جدوجہد کے دریا کو طبقاتی جدوجہد کے ساگر میں شامل ہونا ہو گا۔صرف ان بنیادوں پر ہی جابر حکومتوں اورریاستی نظام کا تختہ الٹا جا سکتا ہے۔یہ انقلابی فتح جنوبی ایشیا کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی بنیاد بنے گی جہاں ہر قومیت کو حقِ خود ارادیت کے استعمال کی مکمل آزادی حاصل ہو گی۔

متعلقہ:
خون میں ڈوبا بلوچستان

بلوچستان: ریاستی جبر کیخلاف ابھرتے انقلابی رحجانات

پاکستان: سلگتی ہوئی جہنم سے چھٹکارا کون دلائے گا؟

بلوچستان میں یوم مئی کی تقاریب

کوئٹہ میں سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ