بنگلہ دیش: اشتعال انگیز انتخابات

[تحریر: لال خان]
بنگلہ دیش میں 5 جنوری 2014ء کو ہونے والے عام انتخابات کا متنازعہ ہونا کئی ماہ پہلے ہی ناگزیر اور یقینی ہو چکا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے ماہ کے پرتشدد مظاہروں اور ریاستی جبر میں 155 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ انتخابات کے دن ہونے والے ہنگاموں میں24 مزید لوگ مارے گئے ہیں۔ مظاہرین نے پٹرول بموں کا استعمال کرتے ہوئے دو سو سے زائد پولنگ سٹیشنوں اور درجنوں بسوں کو جلا دیا۔ کل 300 نشستوں میں سے صرف 147 پر انتخابی مقابلہ ہوا جبکہ باقی 153 نشستوں پر عوامی لیگ یا اس کی اتحادی جماعتوں کے امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوگئے۔ ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ حسینہ واجد نے نتائج آنے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں عوامی لیگ کی کامیابی کو ’’جمہوریت کی فتح‘‘ قرار دیا ہے جبکہ اپوزیشن پر ’’جمہوریت کے عمل‘‘ میں منفی کردار ادا کرنے کاالزام عائد کیا ہے۔
عوامی لیگ پچھلے عرصے میں بنگلہ دیش کے سرمایہ داروں کے ایک دھڑے کی نمائندہ سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ دوسری طرف خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اور اس کی اتحادی جماعت اسلامی بالادست طبقات کی نسبتاً قدامت پرست پرتوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور کارپوریٹ میڈیا ان دونوں سیاسی جماعتوں کو اپوزیشن کے طور پر پیش کرتا ہے۔ 2009ء کے انتخابات میں بڑی اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ نے برسر اقتدار آنے کے بعد آئین میں سے الیکشن سے قبل نگران حکومت کی شرط کو ختم کردیا تھا۔ اپوزیشن نے حالیہ انتخابات سے کئی ماہ پیشتر ہی اس مطالبے کے گرد سیاسی مہم کا آغاز کر دیا تھا کہ انتخابات ’’غیر جانبدارنگران حکومت‘‘ کے تحت کروائے جائیں۔ اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر اپوزیشن نے نہ صرف انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا بلکہ احتجاجی تحریک کے ذریعے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی کی۔
بنگلہ دیش کا شمار ایشیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ پچھلی ایک دہائی کے دوران معیشت کی شرح نمو اگرچہ 6فیصد سے زائد رہی ہے لیکن اس معاشی ترقی نے سماجی زندگی میں کسی بہتری کی بجائے طبقاتی تضادات کو زیادہ شدید کر دیا ہے۔ ایک عام شہری آج بھی غربت اور محرومی کی اذیتوں سے دوچار ہے۔ ہنری کسنجر نے بنگلہ دیش کو ’’غذا کی ٹوکری‘‘ قرار دیا تھا۔ سامراجی مالیاتی ادارے کچھ عرصے سے بنگلہ دیش کو ’’ابھرتا ہوا ٹائیگر‘‘ بھی قرار دے رہے ہیں لیکن یہ القابات زمینی حقائق سے متضاد ہیں۔ 154 ملین کی کل آبادی میں سے 109 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں اورمعاشی شرح نمو کے تمام تر ثمرات اقلیتی طبقے نے ہی سمیٹے ہیں۔
پاکستان سے علیحدگی کے 42سال بعد بنگلہ دیش اپنی تاریخ کے بدترین سماجی انتشار، فسادات اور ہنگاموں کی لپیٹ میں ہے۔ 2013ء میں سیاسی پارٹیوں کی اجازت اور معاونت کے بغیر محنت کشوں نے 71 عام ہڑتالیں کی ہیں۔ یہ تعداد یونان میں ہونے والی 29عام ہڑتالوں سے بھی زیادہ ہے جسے یورپ میں ایک ریکارڈ سمجھا جارہا ہے۔ سب سے زیادہ تحریکیں گارمنٹس کی صنعت کے محنت کشوں نے برپا کی ہیں جو کہ انتہائی اذیت ناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ بنگلہ دیش کی معیشت میں گارمنٹس کی صنعت کا کردار کلیدی ہے۔ بنگلہ دیش چین کے بعد گارمنٹس برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جس کی 80فیصد برآمدات اسی شعبے سے تعلق رکھتی ہیں۔ حالیہ انتشار کے باعث بنگلہ دیش کی معیشت کو 4ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جبکہ گارمنٹس کی صنعت کو ایک ارب ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ صنعتی میدان میں چلنے والی محنت کشوں کی تحریکوں اور بغاوتوں کو سیاسی راستہ نہیں مل پارہا ہے۔ سیاسی میدان میں حکومت کی مذاحمت اور مخالفت پر سارا کنٹرول بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کا ہے۔ ایک ہی وقت میں دو مختلف تحریکوں کی طرز، سمت اور مقاصد میں ٹکراؤ نے سماج میں خلفشار اور انارکی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ملک بھر میں کسان دودھ اور زرعی پیداوار کو تلف کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان اجناس کو شہروں تک لے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہے۔ غذائی اجناس کی ترسیل بند ہونے سے شہروں میں مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
پچھلے پانچ سال میں محنت کشوں کی کم از کم اجرت میں 76 فیصد اضافہ کیا گیا ہے لیکن اس اضافے کے باوجود بھی یہ اجرت صرف 68 ڈالر ماہانہ (تقریباً 7000 پاکستانی روپے) بنتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار اور دعووں سے ہٹ کر بات کی جائے تو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ یہ کم سے کم اجرت بھی محنت کشوں کی قلیل تعداد کو ہی میسر ہے۔ محنت کشوں کی طرف ریاست کا رویہ مئی 2013ء میں عیاں ہوا تھا جب ایک گارمنٹس فیکٹری کے زمین بوس ہونے سے 1135 مزدور ہلاک ہوگئے تھے۔ اس سے قبل نومبر 2012ء میں ایک فیکٹری میں آتشزدگی نے 111 محنت کشوں کی جان لے لی تھی۔ حکومت خاموش تماشائی بنی رہی، ان سانحات کے ذمہ داران کو نہ تو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ حکومتوں کی طرح بنگلہ دیش اور پاکستان کے سرمایہ داروں میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے جنہیں صرف شرح منافع میں اضافے سے غرض ہے۔ سینکڑوں ہلاکتوں کے باوجود مزدوروں کی حفاظت کے آلات،فیکٹریوں میں ایمرجنسی انخلا کے دروازے اور دوسرے حفاظتی انتظامات سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ انسپکیشن کے ملکی اور غیر ملکی ادارے سیفٹی سرٹیفکیٹ بیچ کر چلے جاتے ہیں۔ حکومت چاہے عوامی لیگ کی ہو یا بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی، انہی سرمایہ داروں کے مفادات اور منافعوں میں اضافے کے لئے کام کرتی ہے لیکن موت کے سائے تلے بدترین حالات اور کم ترین اجرتوں پر کام کرنے والے مزدور اس صورتحال کو کب تک برداشت کریں گے؟ بنگلہ دیش کے ڈویلپمنٹ سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر زید بخت کے مطابق ’’یہ کیفیت شدید عدم استحکام کو جنم دے سکتی ہے۔ اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو صورتحال ناقابل واپسی ہوجائے گی۔‘‘
ایک دوسرے سے برسر پیکار حکمران طبقات کے دونوں دھڑے محنت کش عوام کی بڑی بغاوت کے خطرے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لئے حکمرانوں کی آپسی لڑائی میں فوج کی براہ راست مداخلت کا امکان بھی موجود ہے۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش کی تاریخ بھی فوجی آمریتوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں فوج اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ آمریت کو لمبے عرصے تک مسلط رکھ سکے اور کسی قسم کی فوجی مداخلت استحکام کی بجائے انتشار اور عدم استحکام میں اضافے کا باعث بنے گی۔ عوامی لیگ کی جانب سے ایمرجنسی مسلط کرکے اپوزیشن کو کچلنے کی قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں۔ جماعت اسلامی بھی عوامی لیگ حکومت کے خلاف اپنے روایتی پرتشدد طریقوں سے برسر پیکار ہے۔ معاملات جہاں تک پہنچ چکے ہیں وہاں کسی مصالحت یا سمجھوتے کی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے۔ عوامی لیگ کو ڈر ہے کہ کسی پسپائی کی صورت میں جماعت اسلامی اور نیشنل پارٹی زیادہ جارحانہ طریقے سے جوابی وار کریں گے۔ اس لئے یہ تصادم ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گا۔ دوسری طرف حکومتی دعووں کے برعکس معیشت کی شرح نمو گررہی ہے اور یہ گراوٹ آنے والے عرصے میں زیادہ تیز ہوگی۔ اگر 6 فیصد شرح نمو میں عوام بدحال ہیں تو اس کے گرنے سے ان کا کیا حال ہوگا؟
عالمی سامراج کو صورتحال کی نزاکت کا اچھی طرح ادراک ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون امریکی سامراج کی ایما پر حسینہ واجد اور خالدہ ضیا کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہندوستان بھی حسینہ واجد پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے مصالحت کے لئے دباؤ ڈال سکتا ہے۔ حالیہ انتخابات کو عوام کی اکثریت نے رد کر دیا ہے۔ عوام کے غم و غصہ اور بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے اور ایک ایسی عوامی تحریک کا امکان موجود ہے جو خالدہ ضیا یا نام نہاد اپوزیشن کے کنٹرول میں بھی نہیں رہے گی۔ سامراج دباؤ کے تحت اگر دونوں جماعتوں میں کوئی معاہدہ ہو بھی جاتاہے تو نئے انتخابات کی تاریخ اور طریقہ کار پر پھر سے اختلافات جنم لیں گے اور ٹکراؤ کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ حکمران طبقات کے سیاسی نمائندوں میں کوئی سمجھوتہ ہو یا نہ ہو، حالیہ انتخابات نے سرمائے کی جمہوریت کی حقیقت عوام کے سامنے بے نقاب کر دی ہے۔ بنگلہ دیش کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو یہ ادراک ہوتاجارہا ہے کہ یہ نظام انہیں ذلت اور غربت کے سواکچھ نہیں دے سکتا اور اسے بدلے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے!

متعلقہ:
بنگلہ دیش کا خلفشار
سقوط بنگال کی اوجھل تاریخ
بنگلہ دیش: مستقبل پر چھایا ماضی کا آسیب