پیکج کا بوجھ

| تحریر: لال خان |

زرعی پیکج پر حکمرانوں کے برسرِ اقتدار ٹولے کا بہت شور ہے۔ پراپیگنڈے کی یلغار ہے۔ ٹیلی ویژن اور میڈیا کے دوسرے ذرائع پر اشتہاروں کی بھر مار نہ جانے اس پیکج کا کتنا حصہ کھاگئی ہوگی۔
ظاہری طور پر یہ پیکیج کسانوں کے احتجاج کے جواب میں نواز لیگ حکومت کی جانب سے کسانوں کی مانگوں کو تسلیم کرنے اور ان کے لیے ہمدردی کا ایک اظہار بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ پراجیکٹوں اور پیکجوں کا ایک طویل سلسلہ شریف برادران نے مسلسل جاری کررکھا ہے۔ شعبے ان کے پسند کے ہیں اور ان سے زیادہ تر مستفید ہونے والے درمیانے طبقے کے کچھ حصے ان ہی کے سیاسی حمایتی گردانے جاتے ہیں۔ دوسری جانب مالیاتی سرمائے کی اس سیاست میں برائے نام ’’اپوزیشن پارٹیوں‘‘ نے بھی اپنی سیاسی ساکھ میں بہتری اور زیادہ حصہ داری کے لئے تنقید کی مہم چلائی ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی سے لے کر تحریک انصاف تک، اس نام نہاد حزبِ مخالف نے زیادہ سے زیادہ جو ’’سیاسی دانشمندی‘‘ کے مظاہرے کی بنیاد پر دلیل دی ہے وہ یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے اس پیکیج کے 341 ارب روپے کو جائز و ناجائز طریقے سے استعمال کیا جائے گا۔ یہ دلیل کسی حد تک درست بھی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس زرعی پیکج پر سیاسی پارٹیوں کے درمیان بحث اور کھینچا تانی سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی اشرافیہ اس ملکی کی بھاری آبادی کی کیفیت‘ اذیت ناک مسائل اور انکی درست تشخیص سے کتنے بے مہر اور لاعلم ہیں۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو بھی واضح کرتی ہے کہ جب سیاست نظریات سے خالی ہو جائے تو سماجی اور معاشی تجزیہ کاری کی اہلیت ہی دم توڑدیتی ہے۔
’’عوام‘‘ ایک نہایت ہی مبہم اورسماجی تجزیے کا سطحی شبد ہے۔ آج کے حکمران اور ان کے دانشور بالکل بے خبر معلوم ہوتے ہیں کہ عوام کن طبقات میں بٹے اور جکڑے ہوئے ہیں، سماجی پرتوں اور حالاتِ زندگی میں کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور زرعی مسئلے سمیت دوسرے سماجی مسائل کی شکل کس طرح تبدیل ہوچکی ہے۔ بیماری میں کون سی پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں جب یہی پتا نہیں تو درد کی اصل تشخیص اور پھر علاج کیسے ہوسکے گا؟ پہلے تو لفظ ’’کسان‘‘ کا ہی جائزہ لیں۔ ایک ایکڑ اراضی کا مالک بھی کسان کہلاتا ہے اور دس یا بیس ایکڑ کامالک بھی کسان ہی کہلوانا پسند کرتا ہے۔ دولفظ ہیں:’’کسان ‘‘اور ’’دہقان‘‘، فیض صاحب نے اپنی شاعری میں زیادہ دہقان کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ایک کمیونسٹ ہونے کے ناطے وہ اس تفریق کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے تھے۔ اپنی نظم ’’انتساب ‘‘میں لکھتے ہیں :

بادشاہِ جہاں‘ والیِ ماسوا نائب اللہِ فی ارددہقان کے نام!

پچھلے چند سالوں میں جس بے ہودہ، بے ہنگم اور ظالمانہ انداز میں مالیاتی سرمائے نے دیہی زندگی میں سرایت کی ہے‘ اس سے نہ صرف طبقاتی تقسیم اور لین دین کے رشتے بھی پیسے کے کردار سے نہ صرف مجروع ہوئے ہیں بلکہ نہایت ہی سفاک ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہاں کی تاخیر زدہ اور گلی سڑی سرمایہ داری کے زہر نے ہر شعبے کی ہر پرت میں رچ بس کر پرانے طرزِ پیداوار اورتبادلے کے رشتوں کو مسخ اور مجروح تو کیا ہے لیکن کسی زرعی انقلاب سے زراعت اور دیہی زندگی کو عمومی طور پر جدید خطوط پر نہ تو استوار کرسکی ہے، نہ ہی جدید انفراسٹرکچر اور سہولیات فراہم ہو سکے جس سے ایسے حالات جنم لیے جو دیہی سوچوں اور نفسیات کو جدید اور ترقی پسندانہ بنا سکتے۔ اس کے برعکس اسی مالیاتی سرمائے کی یلغار نے اتنا بگاڑ پیدا کردیا ہے کہ دیہی علاقے کی سماجی وثقافتی زندگی تلخ اور رجعت کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ پسماندگی کی اس بحر میں موبائل فون سے لے کر جدید اوزار اور الیکٹرانکس متعارف تو ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کی سرایت اتنی سطحی اور محدود تھی کہ اس سے دیہی سماجوں کے تضادات، لالچ اور ’’زن، زر، زمین‘‘ کے تنازعات زیادہ بھڑک کر زندگی کو عذابِ مسلسل بنا رہے ہیں۔ اب وہ کلاسیکی دہقان تقسیم ہو کر دو قسم کی پرتوں میں بٹ گیا ہے۔ کچھ اس دولت کے تسلط کے پیادے بنا دئے گئے ہیں لیکن دہقانوں کی اکثریت دیہاڑی دار مزدور بن کر رہ گئے ہیں۔ انکی مشقت کی ذلت اس استحصال کی ظلمت کی عکاسی کرتی ہے جس میں اس دیہی معاشرے کو غرق کردیا گیا ہے۔
منافع خوری کے نشے میں دھت بہت سے کارپوریٹ کارٹلز نے بھی اس دیہی سماج کا لہو چوسنے کے لیے سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے ساتھ ہیکئی طفیلی پرتیں پیدا ہوئی ہیں جوآڑھتیوں سے لے کر زرعی منڈیوں کے ان داتاؤں پر مبنی ہیں۔ بہت سے مرحلوں سے گزرنے والی اس زرعی پیداوار کی ترسیل کے ہر مرحلے پر ایک نئے آڑھتی ‘ سود خور ‘ڈیلر‘ منڈی کے جغادری اور ٹھیکیدار کے ہاتھوں مزید ڈسی جاتی ہے۔ پھر کھاد اور زرعی آلات کی اجارہ داریاں اپنا جبر مسلسل بڑھاتی رہتی ہیں۔ زرعی شعبے میں جو میکانائزیشن ہوئی ہے وہ نہ صرف ادھوری ہے بلکہ مسخ شدہ اور قلت زدہ ہے۔ چھوٹے زمین کے ٹکڑے رکھنے والے کسان بھی اب کلاسیکی کسان نہیں رہے بلکہ مذکورہ بالا مافیاؤں کے استحصال کی انتہاؤں سے گزر کر اپنی روزی روٹی بھی پوری طرح حاصل نہیں کرسکتے۔
نواز شریف کے اس پیکج سے بھی زیادہ مستفید یہ آڑھتی ‘ کھاد وغیرہ کے ڈیلر‘ سود خور‘ رسہ گیر اور منڈیوں کے بدمعاش ہی ہونگے جو مختلف ’’سیاسی‘‘ پارٹیوں کے عہدیدار اور تھانہ کچہری میں اثرورسوخ رکھنے والے رسہ گیر ہیں۔ دوسری جانب اس پیکج سے ان زرعی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے منافعوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ٹریکٹر، ہاروسٹر اور دوسرے زرعی آلات کو ٹھیکے پر چلانے والے بھی آمدن میں بہت اضافوں سے نوازے جائیں گے۔ اگر کسی کو نہ ہونے کے برابر اس پیکج سے ملے گا بھی تو وہ بے زمین یا چھوٹے کسان یا سابقہ دہقان اور حالیہ دیہاڑی دار کھیت مزدور ہی ہوں گے، انہیں بھیک برابر مالی فائدہ بھی شاید ہی مل پائے گا۔
زرعی شعبے میں یہ ناکامی بنیادی طور پر اس پاکستانی سرمایہ داری کی بربادی کی علامت ہے جس میں انفراسٹرکچر، چاہے وہ جدید آبپاشی کا ہو یا پھر زرعی مشینری کا، پر سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ اور وسائل ہی نہیں تھے۔ نہ یہ ہی یہاں کا نااہل اور کرپٹ سرمایہ دار طبقہ گورے کے اس پیوند شدہ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کرسکا ہے۔ جس ریاست کو کارپوریٹ سرمایہ دار لوٹ کر دیوالیہ کر چکے ہیں اس سے زرعی انقلاب کی توقع محض خود فریبی ہے۔ لیکن تاریخ اپنے آپ کو ہو بہو اگر دہراتی نہیں ہے تو وہ پیچھے کی جانب بھی چل نہیں سکتی۔ اب دوبارہ ڈھوروں والے دہقانوں کا دور تو واپس آنے سے رہا۔ موجودہ کیفیت نے دیہاتوں میں جس غلاظت‘لالچ‘ بیماری‘افلاس اور ذلت کو جنم دیا ہے اس میں انسان کا دم گھٹنے لگا ہے۔ دیہاتوں کا امن اور چین، خوشگوار ماحول اور تازہ فضا، مخلص رشتے اور اصول وعزت سب کے سب محض ماضی کے افسانے بن کر رہ گئے ہیں۔ لیکن اس اذیت کو ختم صرف ایک زرعی انقلاب کے ذریعے کیا جاسکتا ہے جس کے تحت تمام زرعی زمین پر کھیت مزدوروں کاجمہوری کنٹرول اور اشتراکی ملکیت ہو۔ زمینوں کی تقسیم کا مرحلہ کب کا گزر چکا ہے، اب بڑے فارموں پر جدید ترین مشینری اور ٹیکنالوجی سے کئی گنا زیادہ پیداوار ہوسکتی ہے۔ آج جبکہ اقوام متحدہ اور حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی غذائی قلت یا نیم قلت کا شکار ہے تو یہ اس نظام کے منہ پر ایک تمانچہ ہے۔ ایک منصوبہ بند معیشت میں پیداور اتنی زیادہ، اتنی سستی اور اتنی بہتات میں ہوسکتی ہے کہ بھوک، ننگ، افلاس اور محرومی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ زرعی انقلاب سرمایہ داری کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔ یہ حکمران طبقہ اس قابل تھا،نہ ہے اور ہو سکتا ہے۔ قومی جمہوری انقلاب کے دوسرے ادھورے فرائض کی طرح یہ زرعی انقلاب کا فریضہ بھی تاریخ نے تیسری دنیا میں سوشلسٹ انقلاب کے فرائض میں شامل کردیا ہے۔