کیا صادق خان لندن کو تبدیل کرسکتا ہے؟

| تحریر: لال خان |

برطانیہ کے حالیہ علاقائی انتخابات میں ٹوری پارٹی (کنزویٹو پارٹی) کی غلیظ اور برملا نسل پرستانہ انتخابی مہم کے خلاف لیبر پارٹی کے صادق خان نے 5 مئی 2016ء کے لندن کے میئر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور چھیاسی لاکھ آبادی والے بڑے مغربی دارالحکومت کی قیادت کرنے والا پہلا مسلمان پاکستانی نژاد برطانوی بن گیا۔ صادق خان کی فتح پر پاکستانی میڈیا، سیاسی اور مذہبی ٹولے بھی ایک منافقانہ خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں اور اسے ایک ’مسلمان‘ اور پاکستانی نژاد شخص کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ درحقیقت یہ دونوں خیالات لندن کے عوام کے لیے بے معنی تھے۔

Sadiq Khan London mayor (1)
صادق خان

صادق خان کے مقابلے میں ٹوری پارٹی کے زیک گولڈ سمتھ نے دنیا کے نسلی طور پر سب سے Diverse شہر، جس میں دس لاکھ سے زائد مسلمان آبادی بھی رہتی ہے، میں نسل پرستی پر مبنی انتخابی مہم چلائی اور بے شرمی سے مسلمان مخالف تعصبات کو استعمال کیا۔ یہ زہریلی مہم برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے دفتر سے اس کا سیاسی گرو اور پالیسی ساز لنٹون کراسبی منظم کر رہا تھا۔ صادق خان کے خلاف یہ پروپیگنڈا صرف فیس بک تک محدود نہیں تھا بلکہ ٹوری پارٹی کا وزیر اعظم خود پارلیمنٹ میں اسے دہراتا تھا۔ اسے دائیں بازو کے جریدے ایوننگ سٹینڈرڈ نے بھی دہرایا۔ اسی طرح دی میل آن سنڈے، جو ٹوری پارٹی کا گماشتہ جریدہ ہے، نے 7 جولائی کے لندن بم دھماکوں کی تصویر کے ساتھ یہ شہ سرخی لگائی تھی، ’’کیا واقعی ہم دنیا کے سب سے بڑے شہر کو لیبر پارٹی کے حوالے کر رہے ہیں جو دہشت گردوں کو اپنا دوست سمجھتی ہے؟‘‘
ٹوریز (ٹوری پارٹی والے) نے ڈرانے دھمکانے کی سیاست کا سہارا لیا لیکن لندن کے شہریوں نے ان کے نرغے میں آنے سے انکار کردیا۔ طبقاتی جدوجہد کو نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر زائل کرنے کی کوشش کو لندن کے عوام نے ناکام کر دیا۔ زیک گولڈ سمتھ کی نسل پرستی اور صادق خان کے اسلامی شدت پسندوں سے رابطوں کے پروپیگنڈا کو انہوں نے یکسر مسترد کیا۔ اب پرانے ٹوریز اس مہم کو زہریلا اور ناقابل برداشت کہہ کر مذمت کر رہے ہیں لیکن نقصان ہوچکا ہے۔ جمائما خان نے بھی اپنے بھائی زیک گولڈ سمتھ کی انتخابی مہم کو تنقید کا نشانہ بنایا اگرچہ وہ خود صادق خان پر اسلامی شدت پسندوں کو ’آکسیجن اور حمایت‘ فراہم کرنے کا الزام لگا چکی ہے۔ اس نے ٹویٹ کیا، ’’افسوس کی بات ہے کہ زیک کی مہم ویسی نہیں تھی جیسا کہ میں اسے جانتی تھی، یعنی ایک ماحول دوست، آزاد خیال سیاست دان کے طور پر‘‘۔
صادق خان کے لندن کے میئر منتخب ہونے کا نسل یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ صادق خان کی اپنے حریف، زیک گولڈ سمتھ، سے سیاسی برتری یعنی شہری علاقوں میں لیبر پارٹی کی نسبتاً مضبوط بنیادیں اور حمایت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ نتائج جیرمی کوربن کی قیادت میں لیبر پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اظہار ہیں۔
آخری تجزیے میں دونوں حریفوں کے معاشی نظریات میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ کلاسیکی طور پر ٹوری اور لیبر پارٹی کو تقسیم کرنے والے اختلافات تو شاید صادق خان اور گولڈ سمتھ کے درمیان تھے ہی نہیں۔ دونوں نے سرمایہ داری اور آزاد منڈی کے حامیوں کے طور پر اپنی اپنی مہم چلائی، یعنی سرمایہ داروں کے لیے مراعات اور ٹیکسوں میں اضافے کی مخالفت۔ لیبر پارٹی کے بائیں بازو کے رہنما جیرمی کوربین سے فاصلہ رکھنا اور ٹی وی پر واضح انداز میں اس کی بائیں بازو کی پالیسیوں کی مخالفت صادق خان کی طبقاتی مصالحت کی سوچ اور موقع پرستی کو ظاہر کرتی ہے۔
فنانشل ٹائمز نے حال ہی میں صادق خان کے مستقبل کے بارے میں لکھا، ’’وہ ناقابل اعتبار ہے۔ یہ ممکن ہے کہ لندن کو کسی حد تک افورڈیبل بنایا جائے۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ لند ن کو بالکل افورڈیبل بنایا جائے۔ جب تک یہ شہر عالمی معیار کا ہے، زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں رہنا چاہیں گے جس سے یہ مزید مہنگا ہوگا۔ کچھ دولت مند ہیں، اس سے زیادہ لوگ بڑی آمدنی والے پروفیشنلز ہیں اور اس سے بھی زیادہ لوگ کم آمدنی والے محنت کش ہیں۔ بے تحاشہ نابرابری اور مہنگائی حکمرانوں کے شہروں کا خاصہ ہیں۔ لندن دنیا میں سب سے آزاد خیال شہر ہے لیکن دولت کے معاملات میں یہ انوکھا ہے جیسا کہ نیویارک اور ٹوکیو اپنے خالی مکانات اور فضول خرچی کے لیے مشہور ہے‘‘۔ فنانشل ٹائمز مزید لکھتا ہے: ’’حقیقت پسندی سے کام لیا جائے۔ نئے گھر بنائے جائیں … کم آبادی لندن کو دوسرے بڑے شہروں سے مختلف کرتی ہے، اگر آبادی آٹھ ہندسوں (یعنی ایک کروڑ سے اوپر) تک پہنچ گئی تو صورتحال اسی طرح برقرار نہیں رہ سکتی۔ صادق خان کچھ ڈویلپرز سے سستی ہاؤسنگ تعمیر کرواسکتا ہے اگرچہ مزاحمت کی صورت میں (صادق خان کی جانب سے) منصوبوں کی اجازت روک دینے کے عمل سے (گھروں کی) قلت در قلت کا مسئلہ برقرار رہے گا۔ لندن والے اب بھی اور صادق خان کے چار یا آٹھ سال کے بعد بھی غیر مطمئن ہوں گے … پرانا لند افورڈیبل تھا اور اس میں لوگ رہتے نہیں تھے لیکن اب نئے اور انتہائی مہنگے لندن کی آبادی موجودہ میئر کے ریٹائر ہونے تک ایک کروڑ ہو جائے گی‘‘۔
یہ بات صحیح ہے کہ صادق خان نے ٹونی بلیر کی کچھ پالیسیوں کی مخالفت کی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صادق خان ایک مضبوط بائیں بازو کا آدمی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس نے لیبر پارٹی کی قیادت کی دوڑ میں بائیں بازو کے امیدوار کی حیثیت سے جیرمی کوربن کو نامزد کیا تھا لیکن اس نے ووٹ معتدل بائیں بازو (’’سافٹ لیفٹ‘‘) کے ایک اور امیدوار کو دیا۔ حتیٰ کہ لیبرپارٹی کے ’’سافٹ لیفٹ‘‘ سے تعلق رکھنے والا سابق رہنما ایڈ ملی بینڈ اس سے زیادہ ریڈیکل اور اس سے بڑھ کر سرمایہ داروں اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرتا تھا۔ اس کے برعکس صادق خان نے اپنی مہم ایک انتہائی لبرل سیاسی پروگرام کے گرد چلائی اور لیبر پارٹی کی موجودہ بائیں بازو کی قیادت سے خود کو الگ رکھنے کی کوشش کی۔ مہنگائی کے پیش نظر لندن میں محنت کشوں کی زندگی بہت دشوار ہے، سرمایہ دار یا امرا ہی یہاں عیاشی کر سکتے ہیں اور پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں۔ محنت کش طبقے کو معاشی طور پر برباد کر کے سماجی طور پر بیگانہ کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے آج لندن کو امیروں کا شہر سمجھا جاتا ہے لیکن ان انتخابات میں کامیابی کے بعد لندن اب لیبر پارٹی کا شہر بھی ہے۔ ان انتخابات میں نسلی اور مذہبی اقلیتوں میں لیبر پارٹی کی مقبولیت بھی ظاہر ہوئی ہے۔ صادق خان نے گولڈ سمتھ کو اسی مارجن (تین لاکھ دس ہزار ووٹ) سے ہرایا جس مارجن سے لیبر پارٹی نے پچھلے سال کے عام انتخابات میں لندن میں ٹوری پارٹی کو شکست دی تھی۔ اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ لندن کے باسیوں میں یہ ادراک بھی جاگ اٹھا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال، انتہائی مہنگی رہائش اور چند ہاتھوں میں بے تحاشا دولت کے انباروں کے خلاف کچھ کرنا پڑے گا۔
اگر صادق خان سرمایہ دار نواز ٹیکس اور سٹی (لندن کی وال سٹریٹ) کی کاسہ لیسی کی پالیسیاں اپناتا ہے تو وہ اپنے پیش رو ٹوری پارٹی کے میئر بورس جونسن سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ آج یونان میں سائریزا کی شکل میں اور دوسری جگہوں پر بائیں بازو کی ریڈیکل اصلاح پسندی بھی شرمناک طریقے سے ناکام ہو رہی ہے اور بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کی گنجائش بالکل بھی موجود نہیں ہے، ایسے میں صادق خان جیسا دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والا ’’سافٹ لیفٹ‘‘ کا اصلاح پسند لندن کے باسیوں کے لیے ناگزیر طور پر مایوسی کا سبب ہی بنے گا۔