سی پیک: راہداری کی بھول بھلیاں؟

| تحریر: لال خان |

آجکل جہاں حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کا بہت شور ہے وہاں پی ٹی آئی اور کسی حد تک دوسری اپوزیشن پارٹیوں کا کرپشن کے خلاف مسلسل واوویلا بھی پرزور انداز میں میڈیا پر جاری ہے۔ لیکن یہ وضاحت کہیں نہیں ملتی کہ ان ترقیاتی منصوبوں سے عام انسانوں کو کتنا فائدہ ہوگا اور کرپشن، جس کے بغیر کوئی معمولی سا کام بھی کرواناممکن نہیں ہے، اسکا خاتمہ کیونکر ممکن ہے۔ کرپشن کی نظام میں دھنستی جڑوں کو کاٹنا اور نظام، جس کے جسم کاایک کلیدی حصہ یہ بدعنوانی ہے، اس کا خاتمہ تو درکنا راس کے بحران کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے بھی یہ کرپشن کا واویلے کرنے والے تیار نہیں ہیں۔
گوادر بندرگاہ سے پہلی چینی برآمدات کی روانگی اور باضابطہ افتتاح کے موقع میاں نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر یہ نوید سنائی کہ سی پیک (CPEC) سے اس ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کے بنیادی صنعتی وسماجی ڈھانچے یا انفراسٹرکچر کی تعمیر ایک مثبت اقدام ہوتا ہے۔ چاہے وہ شاہراہیں ہوں، بجلی کی پیداوار یا تعلیم اور علاج کی سہولیات۔ لیکن سی پیک اور ایسے دوسرے منصوبوں کے بارے میں جہاں اس حکمران طبقے کی حکومت اور اپوزیشن نے محض دعوؤں اور الزامات کا کھلواڑ بنا رکھا ہے، ایسے میں ہر عام انسان یہ سوچتا ہے کہ کیا ان کی محروم ومجبور زندگیوں کو کوئی سہولت، کوئی بہتری نصیب ہوسکے گی؟ میڈیا پر وسیع پراپیگنڈے اور چین کے بارے میں معاشرے پر مسلط تاثر سے عوام کی بیشتر پرتوں میں ایک نئی آس بھی لگ گئی ہے کہ شاید کوئی بہتری آجائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان منصوبوں سے اس معاشی نظام کے اصل فریقین یعنی چینی سرمایہ داروں، پاکستان کے حکمرانوں اور محنت کش طبقات میں سے زیادہ فائدہ کس کو ہوگا؟ عمومی طورپر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ قومی ترقی کی شرح نمو میں اضافے سے پوری قوم ترقی کرتی ہے لیکن اس معاشی نظام کو جس شدت کا بحران لاحق ہے اس میں شرح منافع کے حصول کی ہوس اور بھی شدت اختیارکرجاتی ہے۔ پاکستان کا نظام ایسے ہی بحران سے دوچار ہے جہاں ہر سرمایہ کاری میں مقامی کمیشن ایجنٹوں کی حصہ داری کا تناسب اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اس سے ہونے والی ترقی سے عام انسانوں کی زندگیوں میں بہتری نہیں آسکتی۔
دوسری جانب اگر ہم ’دوستی‘ کے تاثر کا جائزہ لیں تو آج کے سرمایہ دارانہ چین اور پاکستان میں حکمران طبقات اپنے مفادات کے لیے ایسے معاہدے کرتے ہیں لیکن سرمایہ کاری کرنے والی اجارہ داریاں چاہے وہ چینی ہوں یا مغربی، ان کے منافعوں کا حصہ دوتہائی سے زیادہ ہوتا ہے۔ جہاں تک روزگار کی فراہمی کا مسئلہ ہے تو یہاں بھی جو دعوے اور ترقی کے جھانسے دئیے جارہے ہیں ان سے کہیں کم روزگار کی فراہمی ہوسکے گی۔ درمیانی اور اعلیٰ سطح کی تکنیکی ملازمتوں میں اکثریت چینی انجینئروں، تکنیک کاروں، فورمینوں اور منیجروں کی ہی ہوگی۔ سرمائے کے ساتھ چین کی دیوہیکل بے روزگار آبادی کا سیلاب بھی آئے گا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خصوصاً پچھلے 15 سالوں میں تیز شرح سے محنت کشوں کی جگہ مشینوں یا ٹیکنالوجی کا استعمال ان پراجیکٹوں میں ہونا شروع ہوا ہے۔ مثلاً ایک مزدور ویلڈر کی جگہ ایک روبوٹ ویلڈرکے استعمال سے خرچہ 25 ڈالر سے کم ہو کر 2 ڈالر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح تعمیراتی اور دوسری صنعتوں میں ایسے بے پناہ کام ہیں جو ماضی قریب میں مزدوروں سے کروائے جاتے تھے جبکہ شرح منافع میں اضافے کے لئے اب روبوٹ اور دوسری ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے۔ اس سارے عمل میں جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات اور ترقی اس نظام میں انسان کی زندگی کو سہل کرنے کی بجائے معاشی جبر کے طور پر عام انسانوں کی وسیع تر بیروزگاری کا باعث بن رہی ہے۔
پھر مسئلہ قرضے کا ہے۔ موجودہ حکومت کے وزیروں اور مشیروں کے متضاد بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پوری کاوشوں کے باوجود وہ یہ خفیہ رکھنے میں ناکام رہے کہ چین کے نیم سرکاری اور نجی بینکوں کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیر ملکی بینکوں سے جس شرح سود پر قرضہ حاصل کیا جارہا ہے وہ عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کی شرح سود سے بھی زیادہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے سے موجود بیرونی اور داخلی قرضوں کے بوجھ سے عوام کراہ رہے ہیں اس پر سی پیک کے قرضے اور ان کا سود اس بوجھ میں مزید اضافہ کر کے عام انسانوں کی معاشی زندگیوں کو مزید کس قدر تلخ بنا دے گا۔
پاکستام کے مختلف اداروں، پارٹیوں، حکومتوں اور کمپنیوں کی اس منصوبے میں دلچسپی وہ ٹھیکے ہیں جو چینی نجی ٹھیکیداری کی کمپنیاں آگے چھوٹے ٹھیکوں (Sublet) کے طور پر ان کو دیں گی۔ یہ ریاستی اور سیاسی ٹھیکیدار پھر آگے سے مزید ٹکڑے کرکے اگلے ٹھیکیدار وں کو یہ دیں گے۔ اس واردات سے یہ اندزہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ زرعی شعبے میں آڑھتیوں کے کاروبار کی طرح اس تعمیرات کی ٹھیکے داری کی کتنی سطحیں اور کتنے فریق اوپر سے نیچے تک ہونگے۔ نچلوں کا منافع سب سے کم ہوگا۔ اوریہی نچلی پرتیں مزدوروں کو ٹھیکے پر بھرتی کرتی ہیں۔ پھر اس ٹھیکیداری کے تحت مزدوروں اور محنت کشوں کو کتنی اجرت حاصل ہوگی اس کا اندازہ لگانا بھی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ دوسری جانب ان ٹھیکوں کے حصول کے لیے کتنی سطحوں پر کتنی رشوت اور کرپشن ہوگی، کتنے کمیشن چلیں گے، اس سب کی قیمت بھی آخری تجزیے میں ان مزدوروں اور عوام کو ادا کرنا پڑے گی۔
جہاں تک عمومی تجارت کا تعلق ہے تو اس راہ داری سے جہاں تھوڑا بہت ٹول ٹیکس وغیرہ حاصل ہوگا اس سے قرضوں پر سود کی ادائیگی بھی مشکل ہوگی۔ لیکن دوسری جانب چین سے آنے والی ساری مصنوعات گوادر سے افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ روانہ تو نہیں ہوجائیں گی۔ ان میں سے ایسی مصنوعات بھی ہونگی جو پاکستان کی اپنی منڈی میں فروخت ہونگی۔ ا س سے یہاں کی مقامی صنعت کو جس منڈی کے مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا اس کے لیے نہ ان میں مالیاتی وسائل اور نہ ہی تکنیکی صلاحیت موجود ہے۔ جہاں تک بلوچستان اور دوسرے کم ترقی یافتہ صوبوں کی سیاسی مانگیں ہیں وہ اپنی جگہ ایک حق رکھتی ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس منصوبے سے شاید عارضی طور پر ریاست اور نظام کو کچھ آسرا مل جائے لیکن لمبے عرصے میں تضادات شدید تر ہی ہوں گے۔ اس معاشی نظام میں پسے ہوئے عوام کے عذابوں میں کمی ممکن نہیں ہے۔
یہ 1978ء سے پہلے کا منصوبہ بند معیشت والا چین نہیں ہے جو ٹیکسلا ہیوی مکینیکل کمپلیکس جیسی بھاری صنعت قرضوں کی بجائے براہِ راست بلا سود امداد پر لگایا کرتا تھا۔ یہ ایک جارحانہ سرمایہ داری کی معیشت والا چین ہے جہاں ہر سرمایہ کاری کا حتمی اور اولین مقصد شرح منافع کا حصول ہی ہوتا ہے۔ اس نظام کی سوچ کے تحت کسی محبت یا ہمدردی کے لیے ’امداد‘ نہیں دی جاتی بلکہ مادی مفادات کے لیے ہر سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔
آخری تجزیے میں پیسے کہیں سے بھی انویسٹ ہوں اس کی ادائیگی تو یہاں کی معیشت اور دولت سے ہونی ہے۔ اس دولت کی پیداوار کا واحد ذریعہ انسانی محنت ہے۔ اس نظام زر میں یہی انسانی محنت سب سے زیادہ خوار اور محروم ہے۔ یہ سب تعمیرات اس منافع، سود خوری اور ٹھیکیداری کی سرمایہ کاری کے بغیر بھی ہوسکتی ہیں۔ اگر معیشت میں سے منافع اور نجی ملکیت کا عنصر نکال دیا جائے تو بہت کم عرصے میں آج سے کئی گنا زیادہ تعمیرات انسانی ضروریات کے تحت کی جا سکتی ہیں۔ سماج کی تمام تر دولت تخلیق کرنے والے محنت کش اسے چلا بھی سکتے ہیں، انسانیت کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی سیاسی اور اقتصادی پالیسیاں اور قیادت وہ ایک اشتراکی ملکیت کے سماج میں کہیں بلند سطح پر دے سکتے ہیں۔ یہیں سے معاشرے میں مانگ اور محرومی کے خاتمے کا آغاز ہوتا ہے اور محنت کش طبقے کا راج انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ کردیتاہے۔