خطرہ، آگے عالمی بحران ہے!

| تحریر: راب سویل، ترجمہ: حسن جان |

عالمی مالیاتی ادارے کو نہ صرف بار بار اپنی نمو کی پیش گوئیوں کو کم کرنا پڑ رہا ہے بلکہ 2009ء کے بعد پہلی بار عالمی جی ڈی پی میں کمی کی پیش گوئی کرنا پڑ رہی ہے۔ یہ ایک بحران زدہ دنیا کی عکاسی ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے معیشت دانوں کو عالمی معیشت ، جو اپنی ’’بحالی‘‘ کے ساتویں سال میں ہے، کے ایک بحران سے دوسرے بحران میں دھنسنے کی وجہ سے بار بار اپنے الفاظ واپس لینے پڑ رہے ہیں۔ 2008-9ء کا عالمی زوال ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ اس سے ایک طویل بحران کا آغاز ہوا، جسے امریکی سیکرٹری خزانہ لارنس سمرز نے ’’سیکولر جمود‘‘ کا نام دیا تھا۔
مارکسسٹوں نے اس کیفیت کو سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران قرار دیا۔ پیداواری قوتیں یعنی صنعت، تیکنیک اور سائنس، قومی ریاست اور ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت کی حدود سے باہر نکل چکی ہے۔ سرمایہ داری اپنی آخری حدود کو پہنچ چکی ہے، اس کے پاس بے تحاشا پیداواری صلاحیت ہے، حد سے زیادہ صنعت اور ٹیکنالوجی بھی لیکن سرمایہ دارانہ بنیادوں پر۔ منڈی کی ضروریات کے اعتبار سے ہر چیز ’’زائد‘‘ ہے۔ یہی موجودہ بحران کی وضاحت بھی ہے۔ اب دنیا کے دو بڑے بینک اگلے ایک گہرے زوال کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ لارنس سمرز نے خبردار کیا ہے؛ ’’عالمی معیشت کو درپیش خطرات 2008ء میں لیمن برادرز کے دیوالیہ ہونے سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔‘‘ ہم مکمل طور پر متفق ہیں۔
چینی معیشت، جو عالمی نمو کا 30 فیصداور عالمی پیداوار کا 16 فیصد ہے، نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ زوال پذیر ہے جس سے واضح طور پر ایک نئی عالمی کسادبازاری کا میدان سج رہا ہے۔ چینی برآمدات اور درآمدات کئی مہینوں سے گر رہی ہیں۔ گرتی ہوئی طلب کے نتیجے میں اجناس کی قیمتیں بھی گر رہی ہیں۔ یہ زائد پیداوار یا ’’زائد صلاحیت‘‘ ، جیسا کہ سرمایہ دارانہ معیشت دان کہتے ہیں، کے بحران کی علامت ہے۔ چین کی معیشت کے سست ہونے سے عالمی معیشت بھی سست ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ سست رفتاری ایک زوال کو جنم دے سکتی ہے۔
ماضی میں چین نے اپنی معیشت کو ترقی دے کر اور مغربی صنعتی ممالک کے لیے منڈی مہیا کر کے سرمایہ دارانہ نظام کو بچایا۔ چینی ترقی نے اجناس اور خام مال جذب کرکے ابھرتی ہوئی معیشتوں کو تحریک دی۔ 2008ء کے زوال کے اثرات کو چین نے پیداوار میں بھاری سرمایہ کاری کرکے کم کیا۔ یہ ایک برآمداتی معیشت بن گئی جس نے عالمی نمو کو بہت آگے بڑھایا۔ اب سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ سرکاری طور پر چینی معیشت ڈرامائی انداز میں 6.9 فیصدتک گر چکی ہے۔ لیکن سرکاری اعداد وشمار بہت حد تک غلط ہیں۔
چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے امریکی سفیر کو بتایا کہ وہ معاشی ترقی کو تین چیزوں سے ناپتا ہے: بجلی کی کھپت، ریل کی نقل و حمل اور بینکوں سے جاری ہونے والے قرضے۔ اس بنیاد پر فیتھم کے معیشت دانوں نے اعداد و شمار کے تین سیٹ کے ذریعے ’’چائنا مومینٹم انڈیکیٹر‘‘ ترتیب دیا ہے۔ انڈیکیٹر یہ دکھاتا ہے کہ شرح نمو 3.1 فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔ ریل کی نقل و حمل کا حجم بہت ہی کم ہے اور بجلی کی کھپت گر چکی ہے۔ چین جاپان کے راستے پر چل پڑا ہے یعنی طویل مدتی جمود۔ چین میں نمو کے زوال سے چین سے منسلک ممالک بھی بڑی طرح متاثر ہوئے ہیں۔ جنوبی کوریا سب سے زیادہ متاثر ہوگا جس نے 2013ء میں اپنے جی ڈی پی کا 11 فیصد چین کو برآمد کیا۔ ملائیشیا نے جی ڈی پی کا 9.8 فیصد اور تھائی لینڈ نے 6.9 فیصد چین کو برآمد کیا۔ آسٹریلیا، جس کے خام مال نے سالوں تک چینی معیشت کو آگے بڑھایا، نے 2013ء میں اپنی معیشت کے 6 فیصد کے برابر اجناس چین کو بیچیں۔ مگر اب یہ عمل گہرے اثرات کے ساتھ اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ امریکہ کی طرح، جب چین چھینکتا ہے تو پوری دنیا زکام میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
اس سال ابھرتی ہوئی منڈیوں میں تجارت کم ہوئی۔ جون میں برآمدات 8.9 فیصد اور جولائی میں 13.5 فیصد گر گئیں۔ برازیل کے جی ڈی پی میں، ڈالروں میں، 2015ء میں 19.1 فیصد سکڑنے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق روس کی معیشت میں 36 فیصد سکڑنے کے امکانات ہیں۔
فنانشل ٹائمز میں مارٹن ولف نے کہا ہے؛ ’’اجناس برآمد کرنے اور قرضوں میں ڈوبی ابھرتی ہوئی معیشتوں کو اب کٹوتیاں کرنی پڑیں گی جیسا کہ چند سال پہلے بحران زدہ یورو زون ممالک نے کیا تھا۔‘‘ یہ کٹوتیا ں زوال کو مزید گہرا کریں گی۔
2015ء کی دوسری سہ ماہی میں امریکی معیشت 3.9 فیصد بڑھی لیکن یہ زیادہ تر غیر فروخت شدہ اجناس کی وجہ سے ہوا۔ تیسری سہ ماہی میں 1.5 فیصد نمو ہوئی جو زیادہ تر معیشت دانوں کی پیش گوئی 1.7فیصد سے کم تھی اور پچھلی سہ ماہی سے 60 فیصد کم۔ امریکہ میں شرح نمو کم ہورہی ہے اور جاپان اور یورپی یونین میں پہلے ہی کم ہوچکی ہے۔ امریکہ نے بیروزگاری میں 5 فیصد کمی کی شیخی بگھاری ہے لیکن اگر افرادی قوت کا حجم 2008ء کی سطح پر ہو تو بھی بیروزگاری 10 فیصد سے کم نہیں ہو سکتی۔ تمام تضادات مجتمع ہوکر ایک نئے زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مارٹن وولف نے کہا ہے؛ ’’خطرہ یہ ہے کہ عالمی معیشت ایک ایسے جال میں پھنس سکتی ہے جس میں جاپان پچھلے 25 سالوں سے پھنسا ہوا ہے جہاں نمو رُک جاتی ہے لیکن آپ کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘
وولف نے اس کیفیت کو ’’منظم زوال‘‘ کا نام دیا ہے۔ ’طلب میں ایک طویل مدتی زوال آیا ہے‘اور اس کا کوئی حل بھی نہیں ہے۔ یہ سرمائے کے پالیسی سازوں کی مکمل نااہلی کا اظہار ہے۔ عالمی سٹاک مارکیٹیں روزافزوں طور پر غیر مستحکم ہیں لیکن وہ انہیں مسلسل بڑھاوا دے رہے ہیں، بالخصوص امریکہ میں۔ اسٹاک مارکیٹوں کا ابھار اس بات کی علامت ہے کہ سٹاک مارکیٹیں حقیقی معیشت سے کتنی لاتعلق ہوچکی ہیں۔ آمدن میں گراوٹ کے ساتھ ہی امریکی بینک بری خبریں سنا رہے ہیں۔ گولڈ مین سیکس کے منافعوں میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔ جے پی مورگن چیس کی آمدن میں 23 فیصد گراوٹ آئی ہے۔ لیکن ہرجگہ قرضے بڑھ رہے ہیں۔ نجی شعبے کے قرضے خاص طور پر بہت زیادہ ہیں۔ امریکہ میں 2007 میں یہ جی ڈی پی کا 160 فیصداور برطانیہ میں تقریباً جی ڈی پی کا 200 فیصد، جبکہ چین اس سطح کو پہلے ہی پار کرچکا ہے۔ یورپ کو طویل سست نمو اور تفریط زر کا سامنا ہے۔ ولف گینگ منچاؤ کے مطابق اسے ’’دیوالیہ پن اور سیاسی سرکشی کے مستقل خطرے کا سامنا ہے۔‘‘ ان حالات میں قرضوں میں کمی کرنے کی کوشش ’’مشکل اور خطرناک‘‘ ہوگی۔
2016ء میں کٹوتیوں میں تیزی لانے کے لیے یورپی یونین کی اقتصادی سخت گیر ی نافذالعمل ہوجائے گی۔ منچاؤ کے مطابق ’’معاملے کا عرق یہ ہے کہ بعد از بحران کی کٹوتیاں بیس سال پہلے جاپان میں ہونے والی کٹوتیوں سے زیادہ وحشیانہ ہوں گی۔ اس طرح کے حالات میں مجھے یہ توقع ہے کہ سیاسی رد عمل زیادہ شدید ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ اثاثوں کی فروخت (Delevraging) سے کچھ بات بن جائے لیکن سیاسی طور پر یہ حربہ موثر نہیں ہے۔ سیاسی عدم استحکام کو کم کرکے وہ معاشی عدم استحکام کو جنم دیں گے۔‘‘
کاروبار سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ ہر جگہ طلب کے گرنے کی وجہ سے امریکی درآمدات اور برآمدات گر رہی ہیں۔ اس سے آمدن میں گراوٹ آئی ہے۔ کم فروخت کا مطلب کم آمدنی۔ ناقابل یقین طور پر کمپنیوں کے منافعے پیداواری اخراجات میں کٹوتیوں اور سستے قرضوں کی وجہ سے گرنے کی بجائے بڑھ گئے ہیں۔ درحقیقت آمدن اور منافع کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوگئی ہے جو زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی۔ یہ اس کارٹون کی طرح ہے جو قانون ثقل کے برخلاف فضا میں چل رہا ہوتا ہے۔ انہوں نے آسان منافعوں کا راستہ ڈھونڈا ہے لیکن اس کی ایک حد ہوتی ہے۔ بالآخر منافعے گریں گے۔
یہ حالات ایک صحت مند معیشت کی طرف نہیں جاتے۔ لیکن کچھ عرصے کے لیے یہ مصنوعی طور پر ایک صحت مند سٹاک مارکیٹ تخلیق کرنے کے لیے کافی ہے۔ منڈی معیشت کو درپیش حقیقی بحران سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جہاں کمپنی کی آمدن گر رہی ہے، کمپنیوں کی تعداد گر رہی ہے لیکن مارکیٹ ابھر رہی ہے۔ جلد یا بدیر یہ سٹاک مارکیٹ کریش کو جنم دے گی۔
طلب اور سرمایہ کاری کے گرنے کی وجہ سے حقیقی معیشت زوال پذیر ہے۔ مارٹن وولف نے لکھا ہے، ’’2007ء تک درکار عالمی طلب قرضوں اور تعمیرات میں پھیلاؤ، خاص طور پر امریکہ اور سپین میں، کے ذریعے کی گئی۔ 2007-9ء میں مغربی ممالک کے بحران اور 2010-13ء میں یوروزون کے بحران میں یہ انجن بھی فیل ہوگیا۔ اس سے کم مدتی صفر شرح سود اور طویل مدتی حقیقی صفر شرح سود کی کیفیت نے جنم لیا۔ اس دن سے ان معیشتوں میں طلب اور ممکنہ اور حقیقی پیداوار تنزلی کا شکار ہیں۔ ‘‘اس کیفیت کو ’’زومبی‘‘ سرمایہ داری کا نام دیا گیا ہے جس میں تاریخی طور پر کم ترین شرح سود کے ذریعے مشکلات میں کمپنیوں کو سہارا دیا گیاہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ایک زوال کا کردار ’’تخلیقی بربادی‘‘ کے ذریعے معیشت کو صاف کرنا ہے۔ لیکن بے تحاشا زائد گنجائش منافع کے نظام پر بوجھ ہے۔
مارٹن وولف فنانشل ٹائمز میں لکھتا ہے؛ ’’مجموعی طور پر عالمی رسد کی زائد کیفیت مزید بد تر ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر افراط میں کمی کا دباؤ بڑھنے کی توقع ہے۔‘‘ دوسرے الفاظ میں ہر طرف زائد پیداوار ہے۔ ہمیں کم نمو، کم افراط زر اور صفر شرح سود کا سامنا ہے جو طویل جمود اور زوال میں اضافہ کرتی ہے۔
جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی،’’یہ سرمایہ دارانہ پیداوار کی فطرت ہے کہ وہ منڈی کی حدود کو خاطر میں لائے بغیر پیداوار کرتی ہے۔ منڈی پیداوار کی نسبت کم رفتار سے پھیلتی ہے۔ ایک ایسا لمحہ آتا ہے جب منڈی پیداوار کے لیے بہت کم پڑجاتی ہے۔ ایسا معاشی سائیکل کے اختتام پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ منڈی بھر گئی ہے۔ زائد پیداوار واضح ہے۔‘‘ (مارکس، قدر زائد کے نظریات)
سرمایہ داروں کو اپنے ہی نظام پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ سرمایہ کاری کرنے کی بجائے کھربوں ڈالر ایسے ہی پڑے ہوئے ہیں۔ کیوں سرمایہ کاری کریں جب کوئی طلب ہی نہیں ہے۔ اس کے بجائے وہ اپنے پیسوں سے حکومتی بانڈز خریدتے ہیں جو ایک محفوظ سرمایہ کاری ہے۔
ماضی میں عالمی تجارت عالمی پیداوار کو مہمیز دے رہی تھی۔ یہ اب رک چکی ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم کے مطابق عالمی تجارت 2008ء سے پہلے سالانہ 6 فیصد بڑھی۔ پچھلے تین سالوں میں یہ کم ہوکر 2.4 فیصد ہوگئی ہے۔ اب 2015ء کے پہلے چھ ماہ میں 2009ء سے اب تک کی سب سے بری کارکردگی دیکھنے میں آئی ہے۔ چین بے تحاشا سرمایہ کاری اور برآمدات پر انحصار سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین میں زیادہ اجرتوں کی وجہ سے امریکہ اور جاپان جیسے ممالک اپنی سرمایہ کاری واپس اپنے ملک لے جارہے ہیں۔ 2015ء مسلسل پانچواں سال ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں اوسط نمو گر گئی ہے جس سے عالمی نمو بھی زوال کا شکار ہوگئی ہے۔
عالمگیریت کی رفتار کم ہورہی ہے۔ عالمی تجارت رک رہی ہے۔ مئی 2015ء میں عالمی تجارت 1.2 فیصد کم ہوئی۔ 2015ء کے پہلے پانچ ماہ میں سے چار میں اس کا حجم کم ہوا ہے۔ دوحہ مذاکرات پچھلے چودہ سالوں سے جاری تھے جو اب رک گئے ہیں۔ اب ہمیں علاقائی بلاک بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ تازہ ترین مثال TPP ہے جو دنیا کی 40 فیصد معیشت پر مشتمل ہے لیکن بہت سے ممالک، بشمول امریکہ، نے اس کی ابھی تصدیق کرنی ہے۔ لیکن کوئی بھی چیز حتمی نہیں ہے۔ بالخصوص ایک سرکش کانگریس کی موجودگی میں ممکن ہے کہ اس کام سے پہلے اوباما کی مدت صدارت ختم ہوجائے۔
عالمی سرمایہ کاری، جو کسی معاشی ابھار کی کنجی ہے، مسلسل گر رہی ہے۔ کئی سالوں تک ابھرتی ہوئی معیشتوں نے زبردست سرمایہ کاری کی لیکن اب یہ عمل معیشتوں میں موجود زائد پیداواری صلاحیت کی وجہ سے سست پڑچکا ہے۔ تجارت کم ہوچکی ہے کیونکہ زیادہ تر تجارت کیپٹل گُڈز (Capital Goods) کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ امریکہ میں پیداواریت کی شرح انتہائی کم 0.6 فیصد سالانہ ہے۔ اس کا مطلب معیار زندگی کی گراوٹ ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ معیار زندگی 2008ء کی نسبت زیادہ سست رفتاری سے آگے بڑھے گا۔ یہ محنت کشوں کے لیے ایک تلخ حقیقت ہے۔ سب متفق ہیں کہ 2008ء کے بحران نے مستقل طور پر شرح نمو کو گرا دیا ہے۔ اس سے سرمایہ دارانہ بحران کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ طویل جمود کا یہی مطلب ہے۔ جد ید سرمایہ دارانہ ممالک میں نمو میں، آج اور 2020ء کے درمیان، سالانہ 1.6 فیصد کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ یہ 2008ء کے بحران سے پہلے کی ممکنہ پیداواری شرح 2.25 فیصد سے بہت کم ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے کی رپورٹ میں صرف مایوسی ہے۔ انہوں نے اپنی پیش گوئیاں بار بار کم کی ہیں اور اس سال 2008ء کے بعد سب سے کم نمو کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ عالمی معیشت کی عمومی کمزوری کے باعث اس سال امریکہ میں برآمدات اور درآمدات گر گئی ہیں۔ اس سے امریکی لیبر مارکیٹ متاثر ہوئی ہے اور وہ بھی کمزور پڑ گئی ہے۔ فنانشل ٹائمز نے لکھا ہے، ’’جولائی سے آئی ایم ایف کی تمام پیش گوئیاں منفی ہیں۔‘‘
یہ حالیہ عہد میں عالمی سرمایہ داری کی حقیقی بد حالی کی عکاس ہے۔ یہ عدم استحکام ایک نئے عالمی زوال کو جنم دے گا۔ لیکن اس بار حکمرانوں کے پاس وہ ذرائع نہیں ہے کہ ایک زوال کو شدید زوال میں تبدیل ہونے سے روکے۔ جب تک سرمایہ داری موجود ہے، بحران اور کٹوتیاں روز کا معمول رہیں گی۔ اس وحشت کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔