قحط کے ماروں کا جرم؟

[تحریر: لال خان]
اس ملک میں جہاں بارش جیسی نعمت بھی زحمت بن جاتی ہے وہاں خشک سالی جیسی ’’قدرتی‘‘ آفت کے اثرات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ تھر میں خشک سالی سے پڑنے والا قحط اب تک سینکڑوں غریبوں کی جان لے چکا ہے۔ چند دن شور مچانے کے بعد میڈیا نمائندگان اور کیمرے یہاں سے چلے جائیں گے لیکن بیماری اور غذائی قلت کے عذاب اس گمنام ویرانے کے باسیوں کو قتل کرتے رہیں گے۔ سیلاب ہوں یا زلزلے، وبائی امراض ہوں یا قحط، مرتا غریب ہی ہے۔ اس خاموش قتل عام پر کبھی کوئی تجزیہ یا تبصرہ نہیں کیا جاتا۔ حکمران طبقات اور ان کے اہل دانش ان آفات کو جتنا بھی ’’قدرتی‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہیں لیکن یہ غریب محنت کش عوام کا مقدر ہیں نہ ہی قہر خداوندی۔ معاشرے کو جدید سائنسی بنیادوں پر ترقی دینے میں ناکام ہوجانے والے حکمران پسماندگی سے جنم لینے والی توہم پرستی اور غیر سائنسی عقیدوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی مذہب اور کبھی لسانی تعصبات کو استعمال کرتے ہوئے ذلت میں مبتلا میں لوگوں کو ہی گناہ گار بنا دیا جاتا ہے۔ پسماندگی اور غربت میں گھرے عوام کو آسودہ زندگی فراہم کرنے کی بجائے محرومی کی دلدل میں اور بھی گہرا دھنسا دیا جاتا ہے۔
نسل انسانی کی تمام تاریخ تسخیر قدرت کی تاریخ ہے۔ انسان اپنی ذہنی اور جسمانی محنت سے ’’انسان‘‘ بنا ہے۔ آج کی سائنس، ٹیکنالوجی اور ایجادات انسان کی موسم، بھوک، جنگلی جانوروں اور بیماریوں کے خلاف لاکھوں سالوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے مجموعی طور پر انسان کی اوسط عمر میں دوگنا سے بھی زائد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن آج یہ نظام ایک طرف ذرائع پیداوار اور تکینک کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہے تو دوسری طرف دولت اور وسائل کی تقسیم میں ناہمواری بڑھتی چلی جارہی ہے۔ تیسری دنیا میں صورتحال ابتر ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے حکمران وہ بنیادی سماجی اور معاشی ڈھانچہ ہی تعمیر نہیں کرسکتے جو جدید سماج کی بنیادبن سکے۔
برصغیر میں اس بوسیدہ نظام کے تحت جس طرز کا ارتقاء ہوا ہے اس میں ناہمواری اور پسماندگی کی انتہاؤں میں جدیدیت کے آثار بھی موجود ہیں۔ ’’غیر ہموار اور مشترک ترقی‘‘ کی علامات سماج کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نفسیات اور رویوں میں بھی موجود ہیں۔ تھر کے قحط زدہ باسی ٹیلی وژن پر آکران تلخ حقائق کو آشکار کررہے ہیں جن پر حکمران طبقات پردہ ڈالے رکھنا چاہتے ہیں۔ مثلاً متاثرین میں سے ایک شخص نے بے باک ہو کر کہا کہ ’’ہماری اس بربادی کے ذمے داران یہی سرمایہ دار اور جاگیر دار ہیں جو اب مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ ہوائی جہازوں اور بڑی بڑی گاڑیوں پر آنے والے لوگ ٹیلی وژن کیمروں کے سامنے پوز بنا کر امداد کا اعلان کرتے ہیں اور فوراً اپنے محلات میں واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ‘‘یہ بیان’ غلطی‘ سے کسی ٹیلی وژن چینل پر نشر تو ہوگیا لیکن اس پر کسی اینکر پرسن یا تجزیہ نگار نے بات کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ یہ ایک فقرہ ثابت کرتا ہے کہ محرومی، مایوسی اور استحصال میں بغاوت کے جراثیم پلتے ہیں۔ پسماندہ تھر کے یہ باسی اتنے بھی جاہل نہیں جتنا انہیں دکھایا جاتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو اس ظالم اور بے رحم سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہے۔ یہ کوئی خدائی قانون نہیں بلکہ مٹھی بھر انسان ہیں جو اس استحصالی نظام کے ذریعے بہتری کی بجائے ابتری پھیلاتے چلے جارہے ہیں۔ جنگیں اور بم دھماکے ہوں یا نام نہاد قدرتی آفات، آخر حکمران طبقے کے کتنے لوگ ان سے متاثر ہوتے ہیں؟ اکثریتی آبادی کے لئے عذاب مسلسل کی وجوہات بالکل واضح ہیں۔ ایک اخباری رپورٹر کو تھر کے بڑے شہر مٹھی کے سول ہسپتال میں کام کرنے والے ایک سینئر ڈاکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’اس خطے میں سوکھا ایک معمول بن چکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ منصوبہ بندی کا نہ ہونا، بد انتظامی اور حکمرانوں کی غفلت ہے۔ مریض ہسپتال تک ہی نہیں پہنچ پاتے کیونکہ ان علاقوں میں سڑکیں اور ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہے۔ اس وجہ سے توہم پرستی کو فروغ ملتا ہے۔ ۔ ۔ کچھ دن بعد ان اموات کو بھلا دیا جاتا ہے لیکن یہ غریب نہ صرف اصل مسئلے کو سمجھتے ہیں بلکہ ان اموات کے ذمہ دار حکمرانوں کی حقیقت سے بھی واقف ہیں۔‘‘
یہ ذلت اور بربادیاں دور دراز کے دیہی علاقوں تک ہی محدود نہیں ہیں۔ بڑے شہروں میں بھی صحت، تعلیم، رہائش، پانی کی فراہمی، نکاس اور ٹرانسپورٹ کا بنیادی انفراسٹرکچر نیم مردہ حالت میں ہے۔ بہتری تو دور کی بات اس بوسیدہ انفراسٹرکچر کو اپنی موجودہ حالت میں برقرار رکھنے کے لئے جو ریاستی سرمایہ کاری درکار ہے وہ بھی نہیں کی جارہی ہے۔ پنجاب کے حکمران یوتھ فیسٹول کا ڈرامہ کررہے ہیں تو سندھ میں ان کے یار دوستوں نے ثقافتی میلے سجائے ہوئے ہیں۔ نواز لیگ کی حکومت کو عالمی ریکارڈ بنانے کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ اس ملک کے حکمرانوں نے جھنڈا لہرانے، ترانہ گانے اور اخروٹ توڑنے کے ریکارڈ بنانے کے ساتھ ساتھ جہالت، بے حسی، سفاکی، بدعنوانی اور بربادی کے تمام عالمی ریکارڈ بھی توڑ دئیے ہیں۔
امداد کے تمام تر اعلانات کے باوجودبھوک اور بیماری میں مبتلا تھر کے باسی ایک کے بعد دوسرے کیمپ میں ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ سرکار تو ابھی تک یہ پتا نہیں لگا سکی کہ اموات کی تعداد کیا ہے اور کتنے لوگ بھوکے یا بیمار ہیں۔ لیکن اس ظلم سے جنم لینے والا غم و غصہ اب بغاوت کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ برباد مائیں اور بیٹیاں ان راستوں کو دھرنے دے کر بند کررہی ہیں جنہیں حکمران اپنی بڑی بڑی گاڑیوں تلے روندتے ہیں۔ اس بار تو حکمران سینکڑوں مسلح افراد کی سیکیورٹی میں اپنی گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں میں فرارا ہوگئے ہیں لیکن یہ کب تک اور کہاں تک بھاگیں گے؟ بغاوت کی چنگاری جب کروڑوں استحصال زدہ انسانوں کے دل و دماغ میں جمع ہونے والی نفرت کے بارود کو آگ لگائے گی تو حکمرانوں اور ان کے وظیفہ خواروں کو بھاگنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ انقلاب کے شعلے انہیں اور ان کے نظام کو جلا کر بھسم کردیں گے۔
پاکستان کے حکمران طبقات دکھ، درد اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے عاری ہیں۔ ان کے تمام تر پراجیکٹ منافعوں اور لوٹ مار کے لئے ہیں۔ یہ لوگ کسی طور انسان کہلوانے کے لائق نہیں ہیں۔ ان کے ناٹک اور نان ایشوز اب عوام کو مزید دھوکہ دینے میں ناکام ہورہے ہیں۔ ان کی جمہوریت نے بھوک اور غربت میں اضافہ ہی کیا ہے۔ ان کی سیاست، منافقت کا دوسرا نام ہے۔ ان کے بیانات، وعدے اور دعوے بیہودہ لطیفوں سے کم نہیں ہیں۔ ان کی ریاست صرف ظلم اور جبر ہی کرسکتی ہے۔ حکمران طبقے اور سرمایہ دارانہ نظام سے کسی بہتری کی امید رکھنا ایک جرم ہے۔ اس نظام کا وجود ہی نسل انسانی کی فلاح کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے۔ حکمرانوں کی وحشی اصلیت اور طریقہ واردات کا پورا دراک جب محنت کش عوام کو ہوگا تو ان کی بغاوت اس نظام کی دیواروں اور چٹانوں کو پاش پاش کردے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان فیصلہ کن لمحات میں بغاوت کے سیلاب کو نجات کے راستے پر موڑنے والی سیاسی قوت موجود ہوگی؟