اداریہ جدوجہد: برداشت۔۔۔ ؟

جہاں غربت‘ مہنگائی ‘بیروزگاری اور سماجی ذلت کے مسائل کے تابڑ توڑ حملوں سے محنت کش عوام مجروح ‘ ہلکان اور گھائل ہورہے ہیں وہاں نان ایشوز کی معاشرتی نفسیات پر بھرمار ان زخموں پرنمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
میموگیٹ سے سینٹ کے مکارانہ الیکشنوں تک سے اس ملک کی وسیع تر استحصال زدہ اکثریت کا بھلا کیا واسطہ ہے ۔ ملکی سا لمیت‘ تقدس ’حب الوطنی ‘اچھی گورننس ‘قومی وقار ‘ عزت واحترام ‘ مذہبی اخلاقیات‘ خارجہ پالیسیاں‘ تجارتی معاہدے ‘ جمہوریت اور اقتدار جیسے معاملات ان روٹی روزی سے بیزار انسانوں کے لئے کتنے بے معنی اور مضحکہ خیز شبد بن کررہے جاتے ہیں۔یہ تو بل دے کر بھی بجلی اور گیس سے محروم رہنے والی قوم ہے۔علاج کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ ہر روز 1132بچے غربت سے مرجاتے ہیں اور ہر تین منٹ میں ایک خاتون صحت کی سہولیات کے فقدان سے زندگی کو جنم دیتے ہوئے خود زندگانی سے محروم ہوجاتی ہے۔ ہر ماہ تیل کی قیمتوں کے اضافے کا اسی طرح انتظار ہوتا ہے جیسے کسی وار میں لگنے والے زخم کے لیے جسم کو تیار کرنا ہوتا ہے۔ ہر گھنٹے میں مہنگائی کرنے والے اقتدار کے لیے سال کابجٹ دینا مضحکہ خیز ہی نہیں شرمناک نہیں اور کیاہے! تعلیم کے کاروبار سے جو علم کا اندھیرا تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جارہا ہے اس میں کتنے ننھے چراغ گل ہورہے ہیں۔ گندگی اور غلاظت کی بیماریوں کی وبائیں اب ہر موسم کا معمول بن گئی ہیں ۔ دہشت گردی اور جنگوں کی بھی یہ خصلت ہے کہ زیادہ تر غریبوں کا ہی لہو بہاتی ہیں۔ ٹیلی ویژن پر حکمرانوں کی لاامتناعی بے معنی اور بے ہودہ بحثوں کے تماشوں سے معاشرہ اکتا چکا ہے۔ زندگی ایک بوجھ ایک بیزاری بن کر رہ گئی ہے۔ اس معاشرے میں عام انسانوں کا جینا محال ہے اور حکمران ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ ا س فرسودہ سیاست کے بے ہودہ کھیل میں نئے نئے داؤ آزمائے جارہے ہیں‘ دھوکے اور فریب دیے جا رہے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ حکومت اور اپوزیشن اقتدار یا جلا وطنی میں دولت کے ڈھیر لگاتی جارہی ہیں۔ وفاداریوں کے بدلنے اور خریدوفروخت کا بازار گرم ہے ۔ فوجی اشرافیہ اسلحے کے سودوں کے کمیشنوں سے محلات اور اپنی اولادوں کو مغرب کی بے انتہا مہنگی یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوارہی ہے۔ ہر کوئی ایم بی اے کررہا ہے جبکہ فیکٹریاں اور کاروبار بند ہورہے ہیں تو سرمایہ داری کے شدید بحران میں معیشت ڈوب چلی ہے۔اس لیے حکمرانوں کی ایم بی اے اولادوں کے لیے اگر کوئی کاروبار رہ جائے گا اور جو چل رہا ہے وہ کالے دھن کی معیشت پر ہی مبنی ہے۔ اور اس کاروبار میں تعلیم ڈگریاں اتنا کام نہیں دیتیں جتنا اسلحہ اور بارود کا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن پھر حکمرانوں نے تو صرف مال بنانا ہے۔ فیکٹریوں سے منافع حاصل نہیں ہوتا تو نہ ہو ان کو بند کردیں گے۔ زرعی اور صنعتی پیداوار گرتی ہے تو گرتی رہے ان کو تو سروکار صرف دولت اور غرض صرف شرح منافع سے ہے ۔ سماجی وصنعتی انفراسٹرکچر ٹوٹتا بکھرتا ہے تو انکی بلا سے۔ ان کی شاہراہیں‘ گاڑیاں‘ جنریٹر موجود ہیں ۔ ان کو بنانے اور چلانے کے لیے تو صرف پیسہ ہی درکار ہے۔ اور یہ انکے پاس بہت ہے۔ اس ملک کے 28 افراد اس ملک کو کتنی مرتبہ خرید سکتے ہیں۔20کروڑ جائیں بھاڑ میں!
لیکن آج کے دانشور وں کوپھر بھی شکوہ غریبوں اور محنت کشوں سے ہی ہے۔ کہ اس ناانصافی اور سیاسی وسماجی بلادکار کے خلاف اٹھتے کیوں نہیں؟ بغاوت کیوں نہیں کرتے؟
یہاں کے عوام کی آخر اصل حالت کیا ہے؟ ان کی کیفیت کیا ہے۔جہاں بھوک اور مہنگائی ان کے لیے عذاب مسلسل ہیں وہاں جب ان کی نوکری چلی جاتی ہے تو ان کی سا لمیت قتل ہوجاتی ہے۔ جس دن وہ بیمار ہوجاتے ہیں اس دن انکی عزت نفس مرجاتی ہے۔ جس دن محنت کش خواتین اور بچیاں بلادکار یا جسم فروشی کا شکار ہوجاتی ہیں اس دن ان کا تقدس بس مٹ جاتاہے۔ ہر روز یہ ستم بڑھ رہے ہیں کم نہیں ہوتے۔ نہ ہی اس نظام میں ہونگے۔ لیکن ان زخموں نے روح ‘احساس اور جسم پر جو گھاؤ لگائے ہیں انکے درد اور تکلیف سے یہ معاشرہ کراہ رہا ہے۔لیکن یہ ہمیشہ تو کراہتا ‘ سسکتا اور تڑپتا نہیں رہے گا۔ یہ غم‘ یہ درد ‘ یہ دکھ ‘ یہ اذیت ایک غصے اور بغاوت کے لاوے کی طرح ان کے ذہن اور ضمیر میں کھول رہا ہے۔ یہ پھٹے گا ضرور لیکن اس مرتبہ یہ محنت کش طبقات ہر پارٹی کی قیادت کو بھانپ چکے ہیں۔دولت کی جمہوریت کو بھانپ چکے ہیں ۔ آمریت کو برداشت کرچکے ہیں۔ ملاؤں کے فریب کو جانچ گئے ہیں۔ قوم پرستی کے دھوکے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ اس نظام کا ہررجحان ہر ہتھکنڈا ننگا ہوچکا ہے۔ محنت کشوں کو جتنا بددل اور برباد کیا گیا اس کا انتقام بھی اتنا ہی شدید ہوگا۔ حکمران طبقات اور انکی ریاست کا انجام بھی بہت عبرتناک ہوگا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ سرعام ہوگا۔ یہ عمل سوشلسٹ انقلاب ہوگا ‘ جس سے نسل انسان کامستقبل تابناک ہوگا۔