اداریہ جدوجہد: انتخابی ناٹک

ملتان میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب مخالف جماعتیں اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی کمی کا واویلا کر رہی ہیں۔اسی شور و غل میں آنے والے انتخابات کے معرکے کی تیا ریوں پر بحث مباحثوں کا طوفان برپا ہو چکاہے۔لیکن اس ملک کے محنت کشوں کا سوال یہ ہے کہ ان ضمنی انتخابات سمیت ماضی میں ہونے والے انتخابات سے ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ہر روز تیزی سے گرتے ہوئے معیار زندگی میں ٹھہراؤ کب آیا تھا؟کسی بھی سیاسی پارٹی کے انتخابات میں فتح یاب ہونے سے مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل میں کمی کیوں نہیں آتی؟ اگر جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے تو پھر ان کے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے ہی کیوں چلے جاتے ہیں؟موجودہ حکمرانوں، میڈیا میں بیٹھے دانشوروں اور رائج الوقت سیاسی جماعتوں کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔اسی طرح منتخب نمائندوں کے علاوہ دوسرے ریاستی اداروں کی پھرتیاں بھی ان کی حالت زار میں کوئی بہتری نہیں لا سکیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں دولت مند افراد ہی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں اور اقتدار کے حصول کی اس لڑائی میں محنت کشوں کے ووٹ لے کر جمہوریت کا ناٹک رچاتے ہیں۔ ریاست کے تمام دوسرے اداروں کی ذمہ داری بھی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے اور اسی مقصد کے لیے تمام پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں حکمران طبقہ محنت کش عوام کو یہ جھوٹ باور کراتا ہے کہ وہ بھی ملک کی قانون سازی اور دیگر معاملات میں حصے دار ہے اور اس کے لیے جمہوریت کا فراڈ رچایا جا تا ہے۔اگر ضرورت محسوس ہو تو حکمران طبقات جمہوریت کے فریب کا خاتمہ کر کے آمریت مسلط کر تے ہیں اور اسی طرز حکمرانی سے اپنی حاکمیت جاری رکھتے ہیں۔جب آمریت کے خلاف نفرت کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو پھر دوبارہ جمہوریت کا ڈرامہ شروع کر دیا جاتا ہے۔پاکستان میں گزشتہ 64سالوں سے یہی ہو رہا ہے۔
مشرف آمریت کے خاتمے کے بعد سے اب تک کی جمہوریت نے محنت کش طبقے پرجتنے شدید حملے کیے ہیں اتنے تاریخ میں کبھی نہیں کیے گئے۔روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، بجلی، گیس، پٹرول سمیت بہت سی بنیادی سہولیات عوام سے چھینی جا رہی ہیں۔ ہر آنے والا دن دل اور دماغ پر نئے زخم لگاتا ہے۔نئے دن کا سورج ہر روز اپنے ساتھ غموں اور دکھوں کے طوفان لاتا ہے۔حکمران طبقات محنت کش عوام کے جسموں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچو ڑ لینا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے کتنے بھی مظالم ڈھانے پڑیں، کتنی بھی سفاکی کرنی پڑے، کتنے ہی جھوٹ بولنے پڑیں انہیں اس کی پرواہ نہیں۔
اب آنے والے انتخابات کا ڈھونگ رچانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔حکمران طبقے کے افراد کے لیے یہ انتخابات لوٹ مار میں اپنے حصے میں اضافے کا ذریعہ ہیں۔وہ مختلف سیاسی جماعتوں کا لبادہ اوڑھ کر اس سرکس میں حصہ لیں گے۔لیکن محنت کشوں کے سامنے اس سیاسی عمل کی حقیقت عیاں ہوتی جا رہی ہے۔کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس ان کے مسائل کا حل نہیں۔اس کے علاوہ ان کی اپنی روایت پیپلز پارٹی، جسے انہوں نے اپنے خون سے سینچا تھا حکومت میں ہے اور اس کی قیادت اپنی پارٹی کی بنیادی دستاویزات سے انحراف کر چکی ہے۔ضیا الباطل کی
باقیات آج اس پارٹی پر براجمان ہے اور حالیہ ضمنی انتخابات میں دوبارہ واضح ہوا کہ وہ رضاکارانہ طور پر اس پارٹی کا پیچھا نہیں چھوڑے گی اور نہ ہی ان کے پیٹ کبھی بھریں گے۔ ایسے میں محنت کشوں کوان کے دکھوں کا مداوا کرنے والا مسیحا کہیں نظر نہیں آ رہا۔اس کے علاوہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی بھی حکمران طبقات کو ان کی مرضی کے نتائج دیتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ انتخابات کے نتائج وقت سے بہت پہلے ہی واشنگٹن کے اشاروں پر تیار ہو جاتے ہیں۔ایسی صورتحال میں واضح ہے کہ انتخابات کے ذریعے کسی معمولی سی بھی حقیقی تبدیلی کی امید کرنا بیوقوفی ہے۔
لینن نے کہا تھا کہ جب محنت کش ہاتھوں سے ووٹ ڈالتے ہیں اور کوئی تبدیلی نہیں آتی تو پھر وہ اپنے پیرو ں سے ووٹ ڈالتے ہیں۔پاکستان میں محنت کش طبقے کی جدوجہد اور قربانیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔وہ وقت اب دور نہیں جب یہاں لوگ پیروں سے ووٹ ڈالیں گے، انقلاب برپا کریں گے اور براہ راست اقتدار پر قبضہ کریں گے۔ گزشتہ سال مصر کے تحریر اسکوائر سمیت تیونس اور دیگر ممالک میں ہونے والے واقعات اس کی واضح مثال ہیں۔آج تمام بنیادی مسائل کے حل سمیت معیار زندگی میں معمولی سی بھی بہتری کے لیے اس طبقات پر مبنی نظام کو تبدیل کرنا ہو گا۔ایسا صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ حکمران طبقے کا ہر حربہ، ہر معاشی حملہ، ہر جبر اور ہر ظلم انقلاب کی اس منزل کو مزید قریب لانے کاباعث بنے گا۔اس دفعہ یہاں مارکسی نظریات سے لیس ایک انقلابی قیادت غیر طبقاتی نظام کے قیام کی اس منزل کے حصول میں کامیاب ہو سکتی ہے۔