پیپلز پارٹی کا مستقبل

’’پیپلز پارٹی کی چھیالیس سالہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے محنت کشوں اور پارٹی کارکنان نے اپنی سیاسی روایت کے لئے کبھی کسی قربانی سے دریغ سے نہیں کیا لیکن قیادت نے ان قربانیوں کو سر بازار نیلام کیا ہے‘‘

[تحریر: لال خان]
حالیہ ضمنی انتخابات میں چند نشستوں پر پیپلز پارٹی کی کامیابی کو بعض سیاستدان اور تجزیہ نگار پارٹی کی احیا سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھاری اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ حکومت بہت تیزی سے عوام میں اپنی ساکھ کھو رہی ہے۔ برسر اقتدار آتے ہی عوام پر نواز لیگ کے معاشی حملوں سے عام آدمی کے گزر اوقات مشکل اور زندگی تلخ تر ہوگئی ہے، لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی خودکار طریقے سے دوبارہ اکثریتی عوام کی حمایت حاصل کر لے گی۔ مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ کو ملنے والے ووٹ کسی امید کی بجائے پیپلز پارٹی سے عوام کی مایوسی اور بدظنی کا ہی نتیجہ تھے۔
پیپلز پارٹی پاکستان کے محنت کش عوام اور غریبوں کی سیاسی روایت ہے۔ دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں، عوامی شعور میں پیپلز پارٹی کے بارے بائیں بازو کا تصور موجود ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ 1988ء کے بعد سے پیپلز پارٹی قیادت کا دائیں جانب جھکاؤ مسلسل بڑھتا رہا ہے۔ ضیا آمریت کے خاتمے کے بعد سے پیپلز پارٹی نے اپنے ہر دور حکومت میں نجکاری جیسی مزدور دشمن پالیسیاں نافذ کی ہیں اور اس کے بیشتر اقدامات پارٹی کے تاسیسی پروگرام اور 1970ء کے انتخابی منشور سے متضاد رہے ہیں۔ قیادت پیپلز پارٹی کی روایتی حیثیت کو حتمی اور ابدی سمجھتی رہی ہے۔ ان کو یہ گھمنڈ ہو گیا تھا کہ وہ چاہے پاکستان کے مزدوروں اور کسانوں پر کتنے ہی معاشی حملے کریں، کتنی ہی ڈھٹائی سے فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے مصالحت کرلیں، آخری حدوں تک امریکی سامراج کی گماشتگی کریں، ضیا الحق کی سیاسی باقیات کو پارٹی کی قیادت میں شامل کرلیں۔ ۔ ۔ غریب لوگوں نے ووٹ تو پیپلز پارٹی کو ہی دینا ہے! لیکن عوام اب اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں۔ 1997ء اور2013ء میں پیپلزپارٹی کی بدترین شکستیں، اپنی روایت سے محنت کشوں کی ناراضگی، اکتاہٹ اور غم و غصے کا اظہار تھیں۔ طبقاتی شعور رکھنے والے محنت کشوں نے انتخابات سے لاتعلقی اور ووٹ نہ دے کر پارٹی قیادت سے احتجاج کیا، جبکہ بہت سے دوسرے لوگوں نے فوری مفادات کے لئے دائیں بازو کی پارٹیوں کو ووٹ دئے۔ اس عرصے میں تحریک انصاف جیسے سیاسی مظاہر بھی عارضی طور پر ابھرے لیکن کسی نظرئے اور ٹھوس پروگرام کی عدم موجودگی میں روایت نہ بن پائے۔
اگر پیپلز پارٹی کی تاریخ، ایک انقلابی تحریک کے نتیجے میں اس کے جنم، پارٹی کے ابتدائی تنظیمی ڈھانچے اوربنیادی منشورپر نظر ڈالی جائے تو ’آج کی پیپلز پارٹی‘ بالکل مختلف سیاسی جماعت معلوم ہوتی ہے، چیئرمین بھٹو کی پیپلز پارٹی سے اس کی کوئی مشابہت نہیں ہے۔ کرسٹینا لیمب نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ویٹنگ فار اللہ‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’اگر ذولفقار علی بھٹو اپنی لحد سے نکل کر آج کی پیپلز پارٹی کو دیکھیں تو وہ پہچان ہی نہ سکیں گے کہ یہ ان کی بنائی ہوئی پارٹی ہے۔ ‘‘یہ کتاب بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں لکھی گئی تھی، جس کے بعد سے پارٹی قیادت کے نظریاتی دیوالیہ پن اور پارٹی کے بنیادی منشور سے انحراف میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی کا قیام 30 نومبر 1967ء کومنعقد ہونے والے تاسیسی اجلاس کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔ پارٹی کی تاسیسی دستاویز میں واضح طور پر درج ہے کہ ’’پارٹی پالیسیوں کا حتمی مقصد ایک طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو ہمارے عہد میں صرف سوشلزم کے ذریعے ممکن ہے۔ ‘‘پارٹی کے تاسیسی اجلاس کے کچھ عرصے بعد جب پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک ابھری۔ محنت کشوں، نوجوانوں اور کسانوں نے تاریخ کے میدان میں داخل ہو کر ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کر دیا، ان انقلابی حالات میں صرف پیپلز پارٹی کا بنیادی سوشلسٹ منشور ہی سماج کو یکسر تبدیل کر دینے کی عوامی امنگوں پر پورا اترتا تھا۔ 1968ء میں ہالا میں منعقد ہونے والی پارٹی کانفرنس میں بنیادی بحث اس سوال پر تھی کہ پارٹی کو انقلاب پرچی کے ذریعے کرنا ہے یا برچھی کے ذریعے۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی قیادت اس وقت سوشلسٹ انقلاب کا نام لینے سے گریزاں ہے جب دائیں بازو کا ہر لیڈر ’’انقلاب‘‘ کے نام پر اپنی سیاست چمکا رہا ہے، حالانکہ صرف پیپلز پارٹی کا بنیادی پروگرام انقلابی سوشلزم کا نظریہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے جنگ سے تباہ حال سرمایہ دارانہ ریاستی ڈھانچے کے ذریعے اصلاحات کرنے کی کوشش کی۔ عوامی دباؤ کے تحت چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے ریڈیکل اصلاحات کی گئیں۔ بھاری صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا، بنکوں اور انشورنس کمپنیوں کو قومیا کر بہت سا سرمایہ ضبط کیا گیا، زرعی اصلاحات کا آغاز ہوا، تعلیم اور علاج کے لئے بجٹ کا 43فیصد مختص کیا گیا، عوام کو سستی ٹرانسپورٹ اور خوارک سمیت بے شمار دوسری سہولیات دی گئیں لیکن سرمایہ داری کو جڑ سے ختم نہیں کیا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست میں رہتے ہوئے بائیں بازو کی اصلاحات کی ناکامی ناگزیر تھی۔ 1789ء کے عظیم انقلاب فرانس کے بعد قائم ہونے والی قومی اسمبلی کے سپیکر سین یاؤسٹ نے لکھا تھا کہ ’’ادھورا انقلاب کرنے والے اپنی قبر خود کھودتے ہیں۔ ‘‘جس فوج کو بھٹو نے جنگ کی تباہ حالی سے نکال کر بحال کیا تھا اسی کی قیادت نے سامراج اور پاکستان کے حکمران طبقات کی ایما پر نہ صرف پیپلز پارٹی حکومت کا تختہ الٹا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا۔ شہادت سے قبل بھٹو نے جیل میں تحریر کی گئی اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ’’میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوا ہوں کہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو تعمیر کرنے کے لئے دو طبقات میں مصالحت کروانے کی کوشش کی۔ طبقاتی مصالحت یوٹوپیا ہے۔ طبقاتی کشمکش نا قابل مصالحت ہے اور اس کا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں ہی برآمد ہوگا۔‘‘
ضیا الحق کی رجعتی اور وحشیانہ آمریت اور بھٹو کے عدالتی قتل سے انقلابی اسباق اخذ کرنے کی بجائے نئی قیادت نے مصالحت کا راستہ اپنایا۔ قیادت کی مصالحانہ پالیسیوں کا نتیجہ مزید سانحوں، شکستوں اور پارٹی پر زیادہ وحشیانہ حملوں کی صورت میں برآمد ہوا۔ آج پاکستان کا معاشی نظام اور سماجی انفراسٹرکچر 1960ء اور 70ء کی دہائیوں کی نسبت کہیں زیادہ گل سڑ چکا ہے۔ عالمی طور پر متروکیت کا شکار اس نظام میں اصلاحات کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ عوام کا ہرمسئلہ، ہر زخم، ہر گھاؤ ایک انقلاب کے ذریعے پیداواری اور ملکیتی رشتوں میں تبدیلی کا متقاضی ہے۔
آج پیپلز پارٹی کے پاس اپنے بنیادی منشور، سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کی سنہری روایات اور محنت کشوں سے دوبارہ رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی چھیالیس سالہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے محنت کشوں اور پارٹی کارکنان نے اپنی سیاسی روایت کے لئے کبھی کسی قربانی سے دریغ سے نہیں کیا لیکن قیادت نے ان قربانیوں کو سر بازار نیلام کیا ہے۔ آج پارٹی قیادت کے وہ دم چھلے پاکستانی عوام اور پارٹی کارکنان کے سب سے بڑے مجرم ہیں جو بائیں بازو کا ناٹک کر کے قیادت کی دائیں بازو کی مجرمانہ پالیسیوں کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔
محنت کش طبقہ لا متناہی طور پر اپنی سیاسی روایتوں سے چپکا نہیں رہتا۔ معاشی و سماجی نجات کے لئے آسان راستوں کی ناکامیوں کے بعد اس کے پاس صرف ایک راستہ بچتا ہے، انقلاب کا راستہ۔ حالات محنت کشوں کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے خون سے سینچی ہوئی روایات کو توڑ کر نئی روایت اور سیاسی قوت تراش لائیں۔ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی حقیقی طاقت قیادت پر براجمان جاگیر دار، سرمایہ دار اور مفاد پرست نہیں بلکہ پاکستان کے محنت کش اور استحصال زدہ عوام ہیں، انہی کی امنگوں پر پورا اترتے ہوئے پارٹی سیاسی افق پر دوبارہ ابھر سکتی ہے۔ پارٹی کی بقا کا صرف یہی ایک راستہ اور صورت ہے، وگرنہ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں!

متعلقہ:
پاکستان پیپلز پارٹی: ثریا سے زمیں پر۔۔۔۔
الیکشن 2013ء اور پیپلز پارٹی
پیپلز پارٹی کی قیادت سے چند سوالات
بھٹو! تیرا وعدہ کون نبھائے گا؟
پنجاب میں گورنر کی تبدیلی؛ پیپلز پارٹی قیادت بد ترین موقع پرستی کا شکار
پاکستان پیپلز پارٹی کی میراث