یونان: سوشلزم یا بربادی!

| تحریر: لال خان |
گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی سیاست، صحافت اور دانش پر دایاں بازو حاوی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی نے ماضی کے ماسکو نواز اور بیجنگ نواز بائیں بازو کو عرصہ قبل نظریاتی طور پر دیوالیہ کر دیا ہے۔ سرمایہ داری کے آگے سر تسلیم خم کرلینے والے سابقہ بائیں بازو کے دانشور بالواسطہ یا براہ راست طور پر مارکس اور لینن کی تضحیک کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹراٹسکی کے لئے تو ان کے دل و دماغ ہمیشہ جاہلانہ نفرت سے بھرے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے 1980ء کی دہائی کے اوائل سے ہی پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور سے انحراف کا آغاز کر دیا تھا۔ محنت کش عوام سے اس غداری نے ہی لبرل اور مذہبی دائیں بازو کی راہ ہموار کی ہے۔ روایتی سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادت کی بے حسی اور حکمران طبقے سے مصالحت نے محنت کش طبقے کے اجتماعی شعور پر یاس، پراگندگی اور ناامیدی مسلط کردی۔ کسی حد تک یہ صورتحال عالمی سطح پر بھی قائم رہی لیکن ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ بہرحال نہیں ہوا۔
2008ء کے مالیاتی کریش نے عالمی تناظر کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔ 2011ء کے بعد ہمیں ایک کے بعد دوسرے خطے میں انقلابی تحریکیں اور عوامی بغاوتیں نظر آرہی ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کا ابھار ریڈیکل بائیں بازو کے نئے رجحانات (خاص کر یورپ میں) کو جنم دے رہا ہے۔ یونان میں سائریزا کی جیت اور سپین میں پوڈیموس کا ابھار ایک نئے سیاسی عمل کا نقطہ آغاز ہے لیکن یہ عمل سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا بلکہ کئی اتار چڑھاؤ آئیں گے۔ تحریک کے مختلف مراحل میں بائیں بازو کی طرف مختلف درجے کا جھکاؤ رکھنے والی پارٹیوں اور رہنماؤں کو مقبولیت ملے گی جبکہ ماضی کی سیاسی روایات مسترد ہوں گی۔ صرف وہی سیاسی قوت کامیاب ہوگی جو محنت کش عوام کی حمایت جیت کر ان کی قیادت کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ یونان کی موجودہ صورتحال واضح کر رہی ہے کہ بائیں بازو کی انتہائی ریڈیکل اصلاح پسند ی بھی سرمایہ داری کے گہرے معاشی بحران اور عوام پر اس کے تباہ کن اثرات کا ازالہ کرنے میں ناکام ہے۔ یورپ میں ہونے والے سیاسی دھماکوں نے پاکستان میں دائیں بازو کے سنجیدہ نظریہ سازوں کو بھی متنبہ کیا ہے جو سامراج کی پیروی میں ’’سوشلزم ختم ہوگیا‘‘ کی خوش فہمی میں مبتلا تھے۔
greece auterity cartoonجرمنی کی زیر قیادت یورو زون کی طرف سے یونان پر گزشتہ چھ سال سے مسلط کردہ آسٹریٹی (عوامی سہولیات اور تنخواہوں وغیرہ پر ریاستی اخراجات میں کٹوتی) کے سماجی و معاشی اثرات دوسری عالمی جنگ سے کم نہیں ہیں۔ یونان معاشی طور پر دیوالیہ ہے، 2008ء کے بعد سے جی ڈی پی کم از کم 25فیصد سکڑا ہے، نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 70 فیصد ہے،بھوک اور غربت کی بیماریاں پھر سے سر اٹھا رہی ہیں۔ معاشی بحالی کی باتیں مذاق بن کے رہ گئی ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ٹیکس ریونیو سکڑ رہا ہے اور قرضہ ناقابل واپسی حد سے تجاوز کر چکا ہے۔ یونان کا حکومتی قرضہ جو آسٹریٹی کے آغاز سے پہلے جی ڈی پی کے 125 فیصد کے مساوی تھا اب 175 فیصد ہوچکا ہے۔ ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ یہ قرضہ واپس نہیں ہوسکتا لیکن فرانس اور جرمنی مزید آسٹریٹی پر زور دے رہے ہیں۔ اس قرضے کو 2020ء تک جی ڈی پی کے 110 فیصد تک لانے کے لئے حکومت کو مزید کٹوتیوں کا حکم دیا جارہا ہے جو یونانی عوام کو بھوکا مارنے کے مترادف ہے۔
یونان میں نئی سائریزا حکومت کا وزیر اعظم الیکسز سپراس اور وزیر خزانہ یانس واروفاکس ’’آبرو مندانہ معاہدے‘‘ کی تلاش میں پیرس، لندن، برسلز، برلن اور روم کا چکر لگا آئے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ یونان کے بیل آؤٹ پلان کی شرائط نرم کرنے کے سب سے بڑے مخالف جرمنی کے وزیر خزانہ نے تلخ لہجہ اختیار کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ ’’حکومت میں آنے کے بعد حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو خواب کی طرح خوشگوار نہیں ہوتے۔ ‘‘سائریزا کی قیادت نے سرمایہ داری کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے ’’کچھ لینے کچھ دینے‘‘ کا جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر واقعی خوفناک ہے۔ یورپی سنٹرل بینک کے ایک کونسل ممبر کے بقول ’’ریڈیکل بائیں بازو نے یونان کے عوام سے جھوٹے وعدے کیے تھے…عوام جلد سمجھ جائیں گے کہ ان سے دھوکہ ہوا ہے…اگر وہ یورو چھوڑتے ہیں تو حالات آج کی نسبت دس گنا خراب ہوجائیں گے۔ دس گنا!‘‘
جرمنی اور فرانس جیسی فیصلہ کن یورپی قوتوں کے فیصلے عوام کی خواہشات اور انتخابات میں ان کے اظہار سے بے بہرہ ہیں۔ بحیثیت مجموعی یورپی یونین کا کام ہی عوام کو لوٹ کر بینکوں کی تجوریاں بھرنا ہے۔ یونان کی طرح تھوڑی سی حکم عدولی کرنے والی حکومت بھی اگر کہیں منتخب ہوتی ہے تو سامراجی مالیاتی ادارے اسے بلیک میل کر کے مطیع ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ کے مطابق 7.2ارب یورو کے امدادی پیکج میں سے 3.6 ارب یورو یونان کو اس شرط پر دئیے گئے ہیں کہ ’’حکومت اپنی مقررہ پالیسی کو تبدیل کرے۔ ‘‘
alexis_tsipras_in_brussels__marian_kamenskyسائریزا کی قیادت اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ چالبازی اور عیاری کے ذریعے یورپی اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست تصادم سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ اسی امید کے ساتھ برسلز گئے تھے کہ دیوالیہ معیشت اور عوام کی حالت زار کا رونا دھونا کر کے جرمن حکمرانوں کو موم کر لیں گے یا پھر یورپی یورنین کے ٹوٹنے کی دھمکی دے کر کچھ رعایات حاصل کریں گے۔ ہتک اور رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
یہ سچ ہے کہ جرمنی خطرناک کھیل کھیل رہا ہے اور یونان کی یورو سے علیحدگی پورے یورو زون کو تباہ کن بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔ بات یورپی یونین کے انہدام سے بھی آگے بڑھ سکتی ہے اور عالمی معیشت زیادہ گہرے بحران کا شکار ہوسکتی ہے۔ یونان اگر سرکاری طور پر دیوالیہ ہونے کا اعلان کرتا ہے تو نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر کے بینک متاثر ہوں گے کیونکہ گلوبلائزیشن کے پیش نظر مالیاتی شعبہ ایک اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے بینکوں کو سہارا دینے کے لئے ریاستوں کو بڑی مقدار میں پیسہ خرچ کرنا پڑے گا جس سے پہلے سے دیوہیکل ریاستی قرضوں کا حجم اور بھی بڑھ جائے گا۔ یورو کے مقابلے میں دراشما (یونان کی پرانی کرنسی) کی قدر انتہائی کم ہوگی اور سرمایہ تیزی سے ملک سے باہر منتقل ہوگا جس سے حالات اور بھی ابتر ہوجائیں گے۔ فنانشل ٹائمر 9فروری کو لکھتا ہے کہ ’’ڈومینو ایفیکٹ سے جنوبی یورپ اور پھر شمالی یورپ متاثر ہوگا جس کے بعد برطانیہ اور شمالی امریکہ بھی نہیں بچیں گے۔ ‘‘
ضروری نہیں کہ سیاست اور معیشت منطق کے تابع ہوں۔ سرمایہ دارانہ سماج کی حرکیات میں ہوس اور لالچ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یورپی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سائریزا کی پسپائی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ پانچ سال سے جاری یونانی ڈرامہ جاری ہے اور فیصلہ کن مراحل میں داخل ہورہا ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ یونان اپناقرضہ ادا نہیں کرسکتا۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس بحران کا کوئی حل نہیں ہے۔ کمزوری جارحیت کو دعوت دیتی ہے۔ سائریزا حکومت کی طرف سے پسپائی کا ہر قدم جرمنی کے مزید تلخ مطالبات کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
TOPSHOTS-GREECE-VOTEسائریزا کی قیادت کی سب سے بڑی غلطی شکست کو فتح بنا کرپیش کرنا ہے۔ ضروری ہے کہ یونان کے عوام کو سچ بتایا جائے، چاہے وہ جتنا ہی کڑوا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایک ٹکٹ میں دو شو نہیں ہوا کرتے۔ سود خور سرمایہ داروں کو خوش کیا جاسکتا ہے یا پھر یونانی عوام کے مفادات کی نمائندگی کی جاسکتی ہے۔ ’’مصالحت‘‘ کا کوئی ’’تیسرا راستہ‘‘ نہیں ہے۔ سائریزا کی حکومت اگر یورپی بینکاروں کے احکامات بجا لانے میں مزید آگے بڑھتی ہے تو یونان کی بربادی میں رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی۔ نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کو یکسر مسترد کر کے یونان اورپورے یورپ کے محنت کش عوام کو سماج کی انقلابی تبدیلی کے لئے متحرک کیا جائے۔ تمام سامراجی قرضے ضبط کئے جائیں، بینکنگ سمیت معیشت کے کلیدی شعبوں کو نیشلائز کر کے عوام کی مرضی اور مفادات کے تحت چلایا جائے۔ سرمایہ داروں کے منافع اور ہوس پر مبنی یورپ کی یونین کو برابری اورحقیقی جمہوریت کی سوشلسٹ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور یورپ کے جدید ذرائع پیداوار کو منصوبہ بند معیشت کے تحت عوام کی ضروریات کے مطابق بروئے کار لایا جائے۔ سائریزا میں سرگرم کمیونسٹ رجحان اسی نظرئیے کی لڑائی پارٹی کے اندر اور باہر لڑ رہا ہے۔

متعلقہ:

یونان: یورپ کی نئی امید؟

یورپ: برداشت، بغاوت اور انقلاب

انقلاب کی طرف بڑھتا یونان

پرانے یورپ میں نیا معمول

یورو کا بحران اور بائیں بازو کا تذبذب