برباد بستیوں میں بربادی کے سامان

| تحریر: لال خان |
defence budget cartoonامریکہ سے ایک ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کی خبر پر بہت کم لوگوں نے توجہ بھی دی ہوگی۔جمود کے اس عہد میں حکمرانوں کی سیاست اور ریاست سے عوام کی اکثریت لاتعلق ہے۔ اس ڈیل نے ’’جذبہ حب الوطنی‘‘ کو ابھارا ہے نہ ہی میڈیا کوئی ’’جوش و جذبہ‘‘ پیدا کرنے میں کامیاب رہا۔ تاہم یہ سوال اٹھانے والے بھی کم ہی تھے کہ بے قابو ہوتے ہوئے ریاستی قرضے، تباہ حال معیشت اور بدحال عوام کے مسائل سو ارب روپے کے ان ہتھیاروں سے کیونکر حل ہو سکیں گے؟ ’’فتح‘‘ کے تمام تر دعووں کے باوجود ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ لاحاصل ہے اور رہے گی۔ ایک بے قاعدہ باقاعدگی سے خود کش حملوں اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ اب یہ جدید اور مہنگے ہتھیار اس جنگ کا توازن تبدیل کرنے میں کیا کردار ادا کر پائیں گے؟ صورتحال کی طرح اس سوال کا جواب بھی مبہم اور مایوس کن ہی ہے۔
حالیہ معاہدے کے تحت پندرہ AH-1Z لڑاکا ہیلی کاپٹر اور ایک ہزار AGM-114R ہیل فائر میزائل بمعہ متعلقہ ساز و سامان، تربیت اور تکنیکی معاونت کے خریدے جائیں گے جن کی مجموعی مالیت 952 ملین ڈالر ہے۔ 32 ہیلی کاپٹر انجن، 36 مشن کمپیوٹر، 32 ڈسپلے سکرین ہیلمٹ، 17 جدید میزائل وارننگ سسٹم وغیرہ بھی پیکج میں شامل ہیں۔ یہ اسلحہ بیل کاپٹر، ٹیکسٹرون، بوئنگ، جنرل الیکٹرک اور لوک ہیڈ مارٹن سے خریدا جارہا ہے جن کا شمار دنیا کی بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں ہوتا ہے۔
داخلی انتشار، دہشت گردی، جرائم، تشدداور بدعنوانی کے شکار اس ملک کے بجٹ میں ملٹری کے لئے 700 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جبکہ 34 سال میں بیرونی دشمن کے ساتھ کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بر عکس داخلی سکیورٹی اور پولیس کے لئے صرف 80 ارب روپے مختص کیے گئے، ہر چوک پر منہ سونگھنے اور جامہ تلاشی لے کر رسوا کرنے کے لئے شاید اتنا ہی بجٹ درکار ہوتا ہے۔ اگلے کچھ ہفتوں میں چین سے آب دوزیں بھی خریدی جارہی ہیں جن کی مالیت 5 سے 7 سو ارب روپے ہے۔ صحت اور تعلیم پر پاکستان کے ریاستی اخراجات دنیا میں کم ترین ہیں۔ ہندوستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے لیکن دونوں ’’جوہری طاقتیں‘‘ اسلحے کی دوڑ میں پانی کی طرح عوام کا پیسہ بہا رہی ہیں۔
ہندوستان اگلے دس سال میں اپنی ’’دفاعی صلاحیت‘‘ کو جدید بنانے کے لئے 100 ارب ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں ہندوستانی روپے کی قدر گر کر 62روپے فی ڈالر تک پہنچ گئی ہے جس کے پیش نظر دفاعی اخراجات بھی مسلسل بڑھائے جارہے ہیں۔ ہتھیاروں کی عالمی قیمتوں میں سالانہ افراط زر کی شرح 12 سے 15 فیصد ہے۔ 25 اکتوبر 2014ء کو جاری ہونے والے ’’بھارتی ڈیفنس اکویزیشن کونسل‘‘ کے بیان کے مطابق اسلحہ سازی کے 13 ارب ڈالر کے منصوبے منظور کیے گئے ہیں۔ کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ 50 ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے چھ آبدوزیں ملک میں تیار کی جائیں گی۔ علاوہ ازیں آٹھ ہزار سے زائد اینٹی ٹینک میزائل اسرائیل سے 32 سو کروڑکے عوض خریدے جائیں گے۔662 کروڑ کی ساڑھے تین سو بکتر بند گاڑیوں اور ’’ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ‘‘ سے 18 سو کروڑ کے 12 جاسوسی تیاروں کی خریداری بھی منصوبے میں شامل ہے۔
defence expenditure cartoonاس دنیا میں جہاں اربوں لوگ بھوک اور غربت کا شکار ہیں، جوہری طاقتیں 300 ملین ڈالر روزانہ صرف اپنی نیوکلیئر فورسز پر خرچ کرتی ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار اور جدت پر آنے والے اخراجات عوام کی تعلیم، صحت اور دوسرے سماجی شعبوں کا بجٹ بھی چوس لیتے ہیں۔ عالمی سطح پر 12 ملین ڈالر فی گھنٹہ ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ 2010ء میں ہندوستان نے 4.9 ارب ڈالر، اسرائیل نے 1.9 ارب ڈالر اور پاکستان نے 2.2 ارب ڈالر ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کیے۔یہ اعداد و شمار انتہائی محتاط ہیں اور حقیقی اخراجات کی صرف ایک جھلک دکھاتے ہیں کیونکہ خفیہ منصوبوں پر آنے والے اخراجات کو بھی انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے یا دوسرے کھاتوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلحے کی خریدو فروخت کے معاہدوں میں بھی اربوں ڈالر رشوت یا ’’کک بیکس‘‘ (قانونی رشوت) کی نذر ہو کر آف شور بینکوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان ٹیکس ہیونز کا مقصد ہی دنیا بھر میں حکمران طبقے اور ریاستی اہلکاروں کی لوٹ مار کو چھپانا اور محفوظ بنانا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس رقم کا آدھا حصہ بھی عوام پر خرچ کیا جائے تو صرف پانچ سالوں میں دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ برصغیر میں دنیا کی 22 فیصد آبادی رہتی ہے لیکن دنیا کی آدھی بھوک یہاں پلتی ہے۔2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد مغربی ممالک میں آسٹریٹی کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ایک تحریر بہت واضح نظر آئی ہے: ’’کیا وجہ ہے کہ ریاست کے پاس جنگ کے لئے تو ہمیشہ پیسے ہوتے ہیں لیکن تعلیم کے لئے نہیں؟‘‘
2010ء میں افریقہ کو ملنے والی کل ترقیاتی امداد سے دوگنا اور 16 کروڑ نفوس پر مشتمل بنگلہ دیش کے جی ڈی پی کے مساوی اخراجات جوہری ہتھیاروں پر کیے گئے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے انسداد کے لئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کا سالانہ بجٹ 10 ملین ڈالر ہے جو کہ ایٹمی ہتھیاروں پر فی گھنٹہ خرچ ہونے والی رقم سے بھی کم ہے۔ جوہری منصوبوں کے اخراجات گزشتہ پانچ سالوں میں تیزی سے بڑھے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق ’’سرد جنگ کے اختتام پر امن کی امید قائم ہوئی تھی لیکن آج بیس ہزار نیوکلیئر وار ہیڈ دنیا بھر میں موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر صرف ایک بٹن دبا کر چلانے کے لئے تیار ہیں اور نسل انسان کا وجود خطرے میں ہے۔‘‘
پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں کا مسئلہ ہے کہ وہ کھلی جنگ لڑ سکتے ہیں نہ دیرپا امن قائم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا پچھلے تیس سالوں میں ’’جنگی صورتحال‘‘ اور ’’امن مذاکرات کے لئے مذاکرات‘‘ کا سلسلہ متواتر جاری رہاہے۔ غربت، استحصال اور جبرمیں امن بھلا کیسے قائم ہوسکتا ہے؟دونوں طرف سے ’’غربت کے خاتمے کا عزم‘‘ ظاہر کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ’’دفاع‘‘ کے نام پر اسلحہ سازی کے اخراجات بھی بڑھا دئیے جاتے ہیں۔ دونوں کا شمار غریب ترین ممالک کے ساتھ ساتھ اسلحے کے دس بڑے خریدار ممالک میں بھی ہوتا ہے۔ دونوں طرف عوام غریب تر جبکہ حکمران امیر سے امیر تر ہورہے ہیں۔
امریکہ، روس، چین اور یورپ جیسے اسلحے کے بڑے برآمد کنندگان بھی جنوب ایشیا کے معاملے میں ایسے ہی تذبذب کا شکار ہے۔ ایک طرف یہ سامراجی قوتیں اس خطے میں کھلی جنگ نہیں چاہتی کیونکہ اس سے ان کی اپنی سرمایہ کاری، اسٹریٹجک مفادات اور لوٹ مار کو خطرہ لاحق ہے۔ لیکن دیرپا اور دور رس امن بھی ان کے فائدے میں نہیں کیونکہ ان کی اسلحہ ساز صنعت کے منافعوں پر ضرب لگے گی۔ امریکی کانگریس سے لے کر چین کی ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ کے پولٹ بیورو تک، اسلحہ ساز کمپنیوں اور کارپوریٹ اجارہ داریوں کے سیاسی ایجنٹ ہی سامراجی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں۔
pak india peace talksکشمیر سے لے کر سرکریک تک، منافع کی ہوس پر مبنی اس استحصالی نظام کی سفارت کوئی ایک تنازعہ بھی حل کرنے سے قاصر ہے۔ دونوں ممالک کے عوام سسک رہے ہیں اور حکمران میزائل ٹیسٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف ’’سیکولر‘‘ بھارت ہے اور دوسری طرف مذہبی بنیاد پرستی سے جنگ کی دعویدار ریاست، اور دونوں نے اپنے ہتھیاروں کے نام مذہبی منافرت اور قومی شاونزم کے تحت رکھے ہیں۔ عوام کا خون پسینہ جن ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں پر لگایا جارہاہے ان کے چلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کا مقصد صرف قوم پرستی اور مذہبی تعصب کو ہوا دے کر عوامی بغاوت اور طبقاتی تضادات کو زائل کرنا ہے۔ لیکن ایٹمی ہتھیاروں کے باوجودبڑی جنگ خارج از امکان نہیں ہے۔ سرمائے کی ہوس سے اندھے یہ حکمران خاصے جاہل بھی ہیں۔ جنوب ایشیا کے محنت کش عوام اور نوجوان ہی انقلاب برپا کر کے اس نظام کو اکھاڑ سکتے ہیں جو محرومی اور غربت کے زخموں پر جنگی جنون اور مہنگے ہتھیاروں کی نمک پاشی کر رہا ہے۔

متعلقہ:

خوف کا کاروبار

سلسلے یہ ملاقاتوں کے۔ ۔ ۔

پاک بھارت تعلقات: کشیدگی کی بیہودگی

ایٹمی طاقت کی مفلسی

پاکستان: کرائے کی معیشت اور بجٹ کا دھوکہ