ہندوستان: جمہوریت کا انتشار

[تحریر: لال خان]
ہندوستان کی چار ریاستوں میں ہونے والے حالیہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حکمران کانگریس پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مذہبی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے جغرافیائی اعتبار سے بھارت کے سب سے بڑے صوبے مدھیہ پردیش میں نہ صرف اپنی موجودہ حکومت کااقتدار برقرار رکھا بلکہ نشستوں میں اضافہ کیا ہے۔ چھتیس گڑھ میں بھی بی جے پی اپنی حکومت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ راجستھان میں بھی بی جے پی نے اتخاب جیت کر کانگریس کی صوبائی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ تاہم سب سے دلچسپ نتیجہ ہندوستان کے دارلحکومت دہلی کا رہا۔ دہلی ایک صوبائی ریاست کا درجہ بھی رکھتا ہے جس کی 70 نشستوں پر مشتمل صوبائی اسمبلی الگ ہے۔ یہاں مسلسل تین انتخابات میں کانگریس ہی جیت کر حکومت بناتی رہی تھی۔ کانگریس کی صوبائی لیڈر شیلا ڈکشت پچھلے پندرہ سال سے دہلی کی وزیر اعلیٰ تھیں لیکن حالیہ انتخابات میں تمام تجزیوں کے برعکس ’’ عام آدمی پارٹی‘‘ دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے اور اس نے 29 نشستیں حاصل کی ہیں۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے لیڈر اروند کیجریووال نے شیلا ڈکشٹ کو اس کے اپنے حلقے میں بڑی انتخابی شکست سے دوچارکیاہے۔ بی جے پی گو سب سے بڑی پارٹی بن کر آئی ہے لیکن اس کے پا س حکومت بنانے کی اکثریت نہیں ہے۔ عوامی طور پر یہ تاثر پایا جاتا تھا کے بی جے پی کی فتح میں اس کے وزیر اعظم کے لئے نامزد امیدوار اور گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندرا مودی کے کرزمے کا بڑا ہاتھ ہوگا لیکن دہلی کے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار جاوید نقوی کے مطابق’’ اتوار کے نتائج میں ا س کا (مودی) اثرورسوخ مدھیہ پردیش (جہاں کاوزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان مودی کابی جے پی کے اندر سب سے بڑا حریف ہے) میں نہایت کم جبکہ دہلی میں منفی رہا۔ ‘‘ حالیہ صوبائی انتخابات کو مئی2014ء میں منعقد ہونے والے قومی انتخابات کی ڈریس ریہرسل قرار دیا جارہا ہے۔ اگرچہ کارپوریٹ میڈیا اور ہندوستان کے سرمایہ دار طبقے کی بڑی اکثریت مودی کی مکمل حمایت کررہے ہیں لیکن ان انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اگلے سال انتخابات جیتنے کی گارنٹی نہیں ہے۔ درحقیقت ان صوبائی انتخابات میں بی جے پی کی فتح سے زیادہ کانگریس کو شکست ہوئی ہے۔ ابتدائی انتخابی نتائج آنے کے بعد کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے بیان دیا کہ ’’یہ ہار مہنگائی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ہمیں مزید گہری خود تنقیدی کی ضروری ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں لوگ ناخوش تھے۔‘‘
گزشتہ ایک برس میں کانگریس حکومت نے بڑے پیمانے پر غذائی سبسڈیاں دینے کا ایک وسیع پروگرام شروع کیا تھا۔ یہ پروگرام اسی طرز کی خیراتی پالیسی تھی جو پیپلز پارٹی حکومت نے ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کے تحت پاکستان میں شروع کی تھی اور موجودہ ن لیگ حکومت بھی بھیک کے اس پروگرام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے حالیہ انتخابات ظاہر کرتے ہیں کہ عوام ان خیراتی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہیں۔ ہندوستان میں یہ سکیم اکیاسی کروڑ افراد کے لیے شروع کی گئی تھی اور ا ن کو 5 کلو چاول یا گند م سستے داموں مہیا کیا جاتا تھا۔ جس طرح پاکستان میں زداری نے اپنی مرحوم بیوی بے نظیر کے نام پر یہ سکیم جاری کی تھی اسی طرح سونیا نے بھی اپنے سوگواسی خاوند راجیو گاندھی کے نام پر یہ خیراتی پروگرام شروع کروایا تھا۔ ایک بدعنوان ریاستی ڈھانچے اور لالچ کے اس بوسیدہ نظام میں اس قسم کے پروگرام کبھی فعال نہیں ہوتے بلکہ ایک بھوکے اور محروم سماج میں چھینا جھپٹی اور ان سکیموں میں کمیشنوں کی بھینٹ چڑھ کر الٹ اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ہندوستان کے آدھے سے زیادہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 6 کروڑ بچوں کی جسمانی نشوونما نامکمل ہے۔ غذائی قلت سے دماغ مجروح ہوتے ہیں، سیکھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور موت جلد واقع ہوجاتی ہے۔ ہندوستان کی اکثریتی حاملہ خواتین غذا میں پروٹین اور ویٹامن کی کمی، گندے پانی،امتیازی سلوک،گندے ماحول اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 70 فیصد آبادی سینی ٹیشن اور بیت الخلا سے محروم ہے۔ 78 فیصد پینے کا پانی آلودہ ہے اور بیشتر مقامات پر اس میں سیوریج کا پانی ملا ہوا ہے۔ کانگریس کا یہ پروگرام بذات خود ایک ثبوت ہے کہ ہندوستان کی120 کروڑ آبادی میں سے81 کروڑ افراد مناسب غذا سے محروم ہیں۔ اس بھیانک سماجی کیفیت کے باوجود ہندوستانی حکمران انتہا بے شرمی سے ’’چمکتے ہوئے ہندوستان‘‘ کے گن گارہے ہیں۔ ہندوستان کی جمہوریت کی تعریفیں کرتے اور اس کی مثالیں دیتے ہوئے ہماری سیاسی اشرافیہ تھکتی نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں دنیا کی سب سے بڑی غربت پلتی ہے۔ دوسری طرف ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد جاپان سے بھی بڑھ چکی ہے۔
ہندوستان کے حکمران طبقات کا اصل کردار یہ ہے کہ بڑے بڑے بھارتی سرمایہ دار ہندوستان میں سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ فولاد پیدا کرنے والی اجارہ آرسیلور مٹھل کامالک لکشمی مٹھل راجستھان کا رہنے والا ہے لیکن ہندوستان میں اس نے فولاد کی ایک بھٹی تک نہیں لگائی ہے۔ پچھلے 5سال میں بھارتی سرمایہ داروں نے ہر ایک ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے 65 سینٹ بیرون ملک لگائے ہیں۔ روہت والیا کی الپن کیپٹل نے 800 ملین ڈالر کا فرٹیلائز پلانٹ اور 250 ملین ڈالر کا چینی کا کارخانہ متحدہ عرب امارات میں لگایا ہے جہاں سے چینی اور کھاد ہندوستان ایکسپورٹ کی جائے گی۔ جو سرمایہ کاری ہندوستان میں ہوتی بھی ہے اس کے ذریعے ایک طرف ہندوستانی محنت کشوں کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے اور دوسری جانب منافعے بیرون ممالک کے محفوظ بینکوں میں رکھے جاتے ہیں۔ حکومت ہندوستان کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ہندوستانی سرمایہ داروں کا 14 ہزار ارب ڈالر بیرون ملک بینکوں میں جمع ہے جس کا بڑا حصہ کالے دھن پر مشتمل ہے۔
گزشتہ ایک دہائی سے ہندوستان کی معاشی واقتصادی ترقی کا بڑا شور تھا لیکن پچھلے ایک سال میں شرح نمو آدھے سے بھی زیادہ گر گئی ہے۔ روپے کی قیمت میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ نجی سرمایہ کاری میں5سال سے مسلسل کمی آتی جارہی ہے۔ مہنگائی دوگنا ہوگئی ہے۔ برآمدات لڑکھڑا رہی ہیں جبکہ درآمدات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان تاریخ کے سب سے بڑے تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خساروں کا شکار ہے۔ اس سال جون سے ستمبر تک 12 ارب ڈالر بیرونی سرمایہ کار واپس لے گئے ہیں۔ ہندوستان کا 2000ء سے2009ء تک کامعاشی ابھار قرضوں پر مبنی کھپت کی بنیاد پر ایک بلبلے کی طرح تھا۔ اس کی بنیاد پراپرٹی کی سٹہ بازی، تعمیرات اور اثاثوں کی مصنوعی قیمتوں کے ابھار پر تھی نہ کہ تجارتی مصنوعات اور پیدواری معیشت پر۔ اس مصنوعی ابھار سے جو مالیاتی نشہ چڑھا اس سے مزید قرضوں اور ادھار کے رجحانات بڑھے۔ گارڈین کے مطابق’’ افسوس کہ یہ معاشی ابھار بھی ’ضائع‘ ہوگیا۔ معاشی نمو سے آبادی کی بھاری اکثریت کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں ہوئی کیونکہ بنیادی انفراسٹرکچر، غذا، صحت، علاج، سینی ٹیشن اور تعلیم پر سرکاری اخراجات میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ ‘‘
اس معاشی اور اقتصادی بنیاد پر جو سیاست اور ریاست قائم ہوگی اس کا رجعتی اور پرانتشار ہونا ناگزیر ہے۔ منموہمن سنگھ نے 1992ء میں وزیر اعظم نراسمہاراؤ کی حکومت میں ہندوستان میں منڈی کی معیشت کا مکمل طور پر اجرا شروع کیا تھا۔ آج ہندوستان کے کارپوریٹ ان داتا اسکی جگہ نریندرا مودی کو لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی مذہبی جنونیت کی دہشت کے ذریعے سرمایہ داری کی مزید جارحانہ پالیسیاں نافذ کرے،لیکن ہندوستانی سرمایہ داری کا یہ نامیاتی بحران کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گا۔ منڈی میں تمام گنجائشیں ختم ہوچکی ہیں۔ یہ سرمایہ دار اور کتنا استحصال کریں گے؟ کتنی غربت پھیلائیں گے؟ اس بحران کی شدت کو ٹالنے کے لیے مزید کتنے نان ایشو کھڑے کیے جاسکتے ہیں ؟ نریندرامود ی پاکستان دشمنی اوربیرون خطرات کو کس حد تک بڑھا سکے گا؟ بھارتی سرمایہ داری کے چور راستے بند ہوتے جارہے ہیں۔ ہندوستان کے170 ضلعوں میں ریاستی رٹ سرے سے موجود نہیں ہے۔ اوریسا سے لے جارکھنڈ تک ایک سرخ راہداری ہے جہاں عوامی سرکشی اور خانہ جنگی چل رہی ہے۔ ہندوستان کے محنت کشوں کی عظیم تاریخی روایات ہیں۔ 1946ء کے جہازیوں کی بغاوت سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک سے1974ء کی ہڑتالوں تک اس طبقے کی میراث ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہندوستانی محنت کشوں کی سیاسی روایت کمیونسٹ پارٹیاں پارلیمانی گورکھ دھندے میں الجھ کر انقلاب کو فراموش کر چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ظاہری طو رپر بڑے ایشو یعنی کرپشن کے خلاف دہلی کے عوام نے ’’ عام آدمی پارٹی ‘‘ کو ووٹ دیا ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے (کرپشن جس کی ناگزیر ضرورت اورپیداوارہے) بھلا یہ پارٹی غربت اور محرومی کا خاتمہ کیسے کرے گی؟ اگر ہم ہندوستان ،پاکستان اور برصغیر کے دوسرے ممالک کے عوام کا جائزہ لیں تو ہر طرف مسائل اور ان کی وجوہات ایک سی ہیں۔ 1947ء میں ملنے والی آزادی نے یہاں کے عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری لانے کی بجائے ان کو مزید اجیرن بنا دیا ہے۔ اس خطے میں بسنے والی 170 کروڑ انسانوں کی بھاری اکثریت کا اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام نے حشر نشر کردیا ہے۔ 7 ہزار سالہ پرانی تہذیب کو مجروح اور گھائل کیا گیا ہے۔ یہ جعلی تقسیم کب تک برقرار رہ سکے گی؟ برصغیر کے عوام کو جلد یا بدیر سرمایہ داری کی اس وحشت اور بربریت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہوگا۔
استاد دامن نے درست کہا تھا کہ
برباد انہاںآزایاں توں
ہوئے تسی وی او،ہوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی صاف پئی دسدی اے
روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں۔ ۔ ۔

متعلقہ:
بھارت: بڑی جمہوریت کا بڑا ناٹک
ہندوستان کا خلفشار
ہندوستان: معاشی ترقی کے ہاتھوں سماجی بلادکار
بھارت کی تاریکی