ایران: روحانی حکومت کی پہیلی کھل گئی

[تحریر: حسن سعدی، ترجمہ: حسن جان]
ہر گزرتے دن کے ساتھ روحانی کی حکومت کے بنیادی کردار اور تضادات واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ اب جبکہ اس کی حکومت کے قیام کو کئی مہینے گزر چکے ہیں ہم پہلے سے زیادہ بہتر طریقے سے اس کی حکومت کے تناظر، تجزیہ و تحلیل اور تنقیدی جائزہ لے سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر ایران میں آئندہ ابھرنے والی جد وجہد کی منظر کشی کرسکتے ہیں۔
حسن روحانی کی عالمی اقتصادی فورم ڈیوس میں شرکت اور اسکے خطاب میں وہ تمام تر علامات موجود ہیں جن کی وضاحت اُس کی طرز حکومت اور کردار کو سمجھنے کے لیے لازمی ہیں۔
روحانی نے اپنی تقریر کے ابتدا میں یہ کہا، ’’عالمی اقتصادی بحران کی شکل میں مشکلات کی عالمگیریت نے واضح کر دیا ہے کہ ہم سب ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔ اگر ہم نے عقلمند کپتان کا انتخاب نہیں کیا تو طوفان ہم سب کو بہا لے جائے گا۔‘‘
اسی طرح اسلامی جمہوریہ کے اصطلاحاً ’’شدت پسند‘‘ دھڑے کے بر خلاف جس کی بنیاد ’’ظالم اور مظلوم‘‘ اور ’’اسلام اور کفر‘‘ کے دو نعروں پر ہے، روحانی نے نظام کے زیادہ دور اندیش نمائندے کی حیثیت سے ’’سب کے ایک ہی کشتی کے مسافر ہو نے ‘‘ کی بات کی۔ ’’ سب کے ایک ہی کشتی میں سوار ہونے کی بات ‘‘ ہمارے لیے اس کے علاوہ اور کوئی مطلب نہیں رکھتی کہ ایران کو بیرونی سرمائے کے لیے کھول دیا جائے تاکہ محنت کشوں کا استحصال کر کے ملک کے وسائل کو لوٹا جا سکے۔ ایران کا محنت کش طبقہ، عالمی محنت کش طبقے کی طرح، اُس بڑی کشتی کے اُس حصے میں موجود نہیں ہے جہاں روحانی اور عالمی بورژوازی خوش و خرم ہیں۔
روحانی نے بعد میں کہا، ’’میں اُمید رکھتا ہوں کہ پو ر ی دنیا سے آئے ہو ئے آپ سب رہنماؤں، ذمہ داروں، کاروباری حضرات اور دانشوروں کو دوستی، قربت اور ایک ساتھ کام کرنے اور رہنے کا پیغام دوں۔ ‘‘ روحانی نے واضح طور پر ’’کاروباری حضرات‘‘ جو لفظ ’’سرمایہ دار‘‘ کا خوبصورت نعم البدل ہے، کو دعوت دی کہ وہ اپنا سرمایہ ایران لے آئیں۔
یقیناًسرمایہ داروں کی اس طرح دعوت کا اپنا پس منظر بھی ہے۔ روحانی کے خیال میں ایٹمی مسئلے کا اختتام ہو چکا ہے اور دو طرفہ معاہدہ مسئلے کی آخری قسط ہے۔ اُس نے اس تقریر میں کہا، ’’اس طرح یورپی ممالک کے ساتھ پہلے سے ہمارے گہرے تجارتی اور معاشی مراسم رہے ہیں۔ رواں ہفتے ہونے والے جینوا معاہدے، بعد کے اقدامات اور اقتصادی پابندیوں کے اُٹھ جا نے سے ایران کے یورپ کے ساتھ تعلقات معمول پر آجائیں گے۔ ایران اور امریکہ کے تعلقات بھی پچھلے چند مہینوں کے دوران نئے مر حلے میں داخل ہو چکے ہیں اور پہلی مرتبہ دو نوں اطراف کے سیاست دانوں نے ایٹمی مسئلے پر موجود اختلافات کے خاتمے کے لیے مذاکرات، خیا لات کے تبادلے اور حتیٰ کہ فیصلے لیے ہیں۔‘‘ مند رجہ با لا دو جملو ں میں امریکہ کو یورپی ممالک سے الگ کر نا بلاشبہ کو ئی حادثہ نہیں۔ اس طرح کے طرز بیان کے ذریعے روحانی دراصل امریکی تیل کی کمپنیوں کو خصوصی دعوت دے کر اُن سے قربت کا اظہار کر رہا ہے۔
آگے چل کر روحانی نے اپنی تقریر میں پالیسیوں کے تسلسل پر زور دیا جو بلاشبہ سرمائے کی طویل المدت تحفظ کے لیے بنیادی معیا رات میں سے ایک ہے۔ وہ مزید کہتا ہے، ’’میں ریاست کے صد ر کی حیثیت سے اس حقیقت سے آگا ہ ہوں کہ حکمرانی میں ’’معاہدوں اور پالیسیوں کے تسلسل‘‘ کی کس حد تک بنیادی اہمیت ہے۔ یہ اُصول داخلی اور بین الاقوامی سطح پر ہمارے لیے بنیا دی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ بیر ونی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے اسلامی جمہوریہ کے اصلاح پسند دھڑے کا سیاسی تناظر ہے کہ ’’پالیسیوں کے تسلسل‘‘ پر سرمایہ کاری کے تحفظ کی بنیادی شرط کے طور پر زور دیا جائے۔
ریاست کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے روحانی ایک مختلف پالیسی اختیار کر رہا ہے۔ اس لیے شام کے بحران کے حل کے لیے آزاد انتخابا ت کی بات کر تا ہے اور کہیں پر بھی اپنی تقریر میں بشار الا سد کا واضح طور پر دفاع نہیں کر تا اور یہی بات نیویارک ٹائمز کو نا راض کر تی لیکن عمومی طور پر شام کے حوالے سے اُس کا موقف بھی’’عالمی برادر ی‘‘ کے موقف سے مختلف نہیں ہے۔
فلسطین کے حوالے سے اس کی خارجہ پالیسی اور زیادہ واضح ہو جا تی ہے۔ روحانی نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں سر سری طور پر اور دوسری جگہ ’’فلسطینی عوام کے حقوق ‘‘ کا جملہ استعمال کیا۔ لیکن اس طرح کی اصطلاح فلسطینی عملداری (Palestinian Authority) یا حتی کہ امریکی ڈیموکریٹس کے موقف سے زیادہ مختلف نہیں۔ اب احمدی نژاد اور اسلامی جمہوریہ کے قدامت پرست دھڑے کے شر انگیز بیانات، ’’ ہا لو کاسٹ ‘‘ اور ’’ صیہونی ریاست ‘‘ کی باتیں نہیں ہوتی۔ اب عالمی رہنماؤں کو ایک ایسی حکومت کا سامنا ہے جو شام اور فلسطین کے بارے میں عالمی سرمایہ داری کے معیا ر کے مطابق نر م رویہ رکھتی ہے۔
روحانی نے حتیٰ کہ اسرائیل کا نام تک نہیں لیا اور سوال و جواب کے سیشن میں اعلان کیا، ’’ماضی میں ہم تمام ممالک سے کشمکش کی کیفیت میں تھے۔ لیکن ہماری خواہش ہے کہ ہمارا مستقبل بہتر ہو، پرانی گرہیں کھول دیں اور تمام ملکوں کے ساتھ مضبوط اور اچھے تعلقات بنائیں۔‘‘ اور جب سوال کیا گیا کہ ’’تمام ممالک‘‘ سے کیا مراد ہے تو اُ س نے جواب دیا، ’’ وہ تمام ممالک جنہیں ہم نے رسمی طور پر تسلیم کیا ہے ‘‘ اس سے نظر آتا ہے کہ روحانی کی حکومت نے رسمی طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا لیکن اس کے غیر رسمی ہونے کی بھی با ت نہیں کی۔ یہ اسرائیل کے بارے میں اسلامی جمہوریہ کی اپنی پچھلے موقف سے پس قدمی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس سے پہلے وزیر خارجہ (جواد ظریف) نے ہولو کاسٹ کے واقع ہونے کو تسلیم کیا تھا اور یہودیوں کے نئے سال کے موقع پر انہیں مبارک باد بھی دی تھی۔
عمومی طور پر حسن روحانی کی باتیں ایک مضبوط، معتدل اور عالمی معیار کی سرمایہ داری کے آغاز کا سندیسہ ہے جو بیرونی سرمائے کی آمد کو خوش آمدید کہتا ہے اور چونکہ خود کو دوسروں کے ساتھ ایک ہی کشتی کے مسافر گردانتا ہے اس لیے شام اور فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے عالمی کوششوں میں حصہ بھی ڈالتا ہے۔
لیکن روحانی کی حکومت کے مکمل مشاہدے کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔
ہمیں معاشی پالیسیوں اور 2015ء کے مجوزہ بجٹ پر بھی نظر ڈالنا ہو گی۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق آٹھ سالہ جنگ (ایران۔ عراق جنگ) کے بعد یہ ایران کی تاریخ کا سب سے چھوٹا بجٹ ہے۔ کیونکہ ملکی بجٹ 30 فیصد افراط زر کے باوجود 2014ء کے مقابلے میں 8 فیصد سکڑ گیا ہے اور یہ 1990ء سے 2014ء تک کبھی نہیں دیکھا گیا۔
بجٹ میں پہلی چیز جو واضح طور پر نظر آتی ہے وہ ریاست کی ٹیکسوں کی آمدن میں 17 فیصداضافے کی تجویز ہے۔ پارلیمنٹ کی اقتصادی کمیٹی کے رکن رجبی کے مطابق اس انکم ٹیکس کا 35 فیصد مزدوروں اور محنت کشوں کی تنخواہوں سے حا صل ہو گا۔ جس کا مطلب آمدنی کی کمی، لو گوں کی قوت خرید میں گراوٹ اور بحران کی شدت میں اضافہ ہے۔
اس کے علاوہ حکومت نے اگلے سال کی افراط زر کی شرح کا ہدف 21 سے 26 فیصدمقرر کیا ہے جبکہ محنت کشوں کی تنخواہوں میں 18 فیصد اضافے کی توقع ہے جس کے نتیجے میں اگلے مالی سال کے دوران غربت مزید بڑھے گی۔
حکومت کا توانائی کے ذرائع (پیٹرول، تیل، بجلی، گیس، پانی وغیرہ ) کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز بھی محنت کشوں کے بوجھ کو بڑھا کر پیداواری شعبے کے سرمایہ داروں کے بوجھ کو کم کر نا ہے۔ روحانی نے 29 جنوری کو کابینہ اور پارلیمنٹ کے سامنے پیداواری شعبے کے سرمایہ داروں کا دفاع کر تے ہوئے کہا، ’’ہمیں توانائی کے اُن ذرائع کی قیمتوں میں تبدیلی کے حوالے سے نرم رویہ اختیار کر نا چاہئے جن کا پیداوار کے ساتھ براہ راست تعلق ہے تا کہ پیداوار میں خلل پیدا نہ ہو۔‘‘ وہ مزید کہتا ہے، ’’جن چیزوں کا پیداوار سے کوئی خاص تعلق نہیں، جیسے پیٹرول، اُس معاملے میں ہمیں قیمتوں میں بھر پور اضافہ کر نا ہو گا۔ ‘‘ چنانچہ پارلیمنٹ کی بجٹ کمیٹی کا رکن عثمانی کہتا ہے، ’’ نئے سال میں توانائی کی قیمتوں میں 40 فیصد سے 45 فیصد اضافہ ہوگا۔‘‘ جبکہ تنخواہوں میں محض 18 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر طور پر غربت اور خوفناک افراط زر پر منتج ہو گا۔
حکومت نے افراط زر کے باوجود سال 2015ء کے مالی سال میں فی کس امدادی رقم 18ڈالر کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جس سے عوام کی عمومی حالت اور قوت خرید مزید خراب ہوگی۔ کیونکہ حکومتی کمیشن برائے پلاننگ اور بجٹ کے ترجمان علی رضا کا تب کے مطابق 2014 ء کے مالی سال میں افراط زر کی شرح 30 فیصد ہے اور 2015ء میں 21 فیصدسے 26 فیصد تک ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیمتیں بڑھتی رہیں گی جبکہ امدادی رقوم میں کو ئی تبدیلی نہیں ہو گی۔
روحانی کی حکومت نے دوبارہ امدادی سامان کی فراہمی کی پالیسی کا آغاز کیا ہے اور پہلی امدادی اجناس کے پیکج میں آدھ پاؤ خوردنی تیل، 10 کلو چاول، چار کلو مرغی کا گوشت، 800 گرام پنیر اور آدھ پاؤ انڈے شامل ہیں۔ جبکہ ایسے پینشنرز اور سوشل سیکیورٹی پر رہنے والے لوگ جن کی ماہانہ تنخواہ دو سو ڈالر (پانچ لاکھ تومان) سے زیادہ ہے، اس امدادی اجناس کے پروگرام سے محروم رہیں گے۔ اس بنیاد پر ایران کے محنت کش طبقے کے 13ملین افراد بھی ’’اُمید اور تدبیر کی حکومت ‘‘ کے اجرا کردہ امدادی اجناس سے محروم رہیں گے کیونکہ بر سر روزگار محنت کشوں کی واضح اکثریت کی تنخواہ پانچ لاکھ تومان سے’ذرا زیادہ‘ ہے۔
جہاں تک افراط زر کے کنٹرول کی بات ہے، احمدی نژاد کے بر عکس جو نوٹ چھاپ کر معاشی ترقی حاصل کرنے کے چکروں میں تھا اور جس کا نتیجہ آسمان سے بات کر تی افراط زر اور بد ترین غربت کی صورت میں نکلا، روحانی کا منصوبہ یہ ہے کہ انکم ٹیکس اور توانائی کی قیمتوں کو بڑھا کر بتدریج پیسے جمع کر کے پہلے تو افراط زر کو قابو میں لائے اور دوسرے مرحلے میں بجٹ کے حجم کی کمی کو پورا کرے۔ ممکن ہے کہ اس طریقے سے مختصر مدت میں افراطِ زر کو کچھ کم کرلیا جائے لیکن اُس کی بجٹ کے سکڑاؤ کی پالیسی لوگوں کی قوت خرید کو مزید کم کر دے گی جو ایران میں بحران اور کساد بازاری کو پہلے سے بھی زیادہ کر دے گی۔
یہ بات واضح ہے کہ روحانی کی معاشی پالیسیا ں ڈیوس میں بیرونی سرمایہ کاروں کو دی گئی دعوت کے لیے راہ ہموار کر رہی ہیں۔ چند سالوں سے کٹوتیوں (Austerity) کی پالیسیوں کی وجہ سے محنت کش طبقہ مزید غریب اور قوت محنت مزید سستی ہوئی اوریہ پیداواری شعبے میں بیرونی سرمایہ داروں کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور اُس کو عالمی سطح پر لانے کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی اُجرت کو بھی کم کریں تا کہ چین، ویتنام، بنگلادیش وغیرہ کی طرح ایران میں ’سازگار ماحول‘ تیار کیا جاسکے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سستی محنت کے علاوہ ایران کے پاس توانائی مثلاً تیل اور گیس کے ذخائر بھی موجود ہیں۔
لیکن اس کھیل میں صرف روحانی اور اس کی حکومت شامل نہیں ہیں۔ آج تک کے تمام سماجوں کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ ان پالیسیوں کے سامنے ایران کا محنت کش طبقہ کھڑا ہے۔ ’’تد بیرکی حکومت‘‘ کے ساتھ لوگوں کا ماہ عسل (ہنی مون) بہت جلد ختم ہو گا۔ پھر ٹکراؤگزیر ہے۔ لو گ حکومت کے خلاف اُبھریں گے۔ طبقاتی جد وجہد کا تناظر محنت کشوں اور نوجوانوں کی سستی محنت اور بڑھتی ہو ئی غربت کے خلاف جنگ سے عبارت ہے۔ احتجاج اور ہڑتا لو ں کے دن آنے والے ہیں۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کو اس تحریک کے رخ کو بھانپنا ہو گا اور اسے طبقاتی رنگ دینا ہو گا۔
ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ ’’مبارزہ طبقاتی‘‘ کے مارکسسٹ اصلاح پسندوں کے بر عکس اول تو روحانی کی حکومت کے بارے میں کسی اُمید اور غلط فہمی کے شکار نہیں ہیں اور دوم نہ ہی بائیں بازو کے حزب اختلاف کی اکثریت کے نام نہاد انقلابیوں کی طرح موجودہ معروض کے بارے میں فقرہ بازی کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے ان کے لیے معروض کا تجزیہ کو ئی معنی نہیں رکھتا۔ اُن کے ذہن ’’ کٹھ پتلیوں کا انتخاب ‘‘، ’’ریاست کے دو دھڑوں کی لڑائی‘‘، ’’مُلا روحانی‘‘، ’’ایک ہی سکے کے دو رُخ‘‘، ’’انقلابیوں کی ذمہ داری‘‘ اور ’’اگلے چھ ما ہ میں ریاست کا انہدام‘‘ جیسے فقروں سے لبریزہیں۔ ان کے پاس سوائے ’’خبر دار کرنے‘‘ اور ’’راز افشا کرنے‘‘ کے اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
لیکن ’’مبارزہ طبقاتی‘‘ ایک مختلف روایت سے اُبھری ہے۔ ہمارے نزدیک معروض کا طبقاتی تجزیہ، ایران اور دنیا کی موجودہ صورت حال کی صحیح تصویر کشی کے بغیر ہر طرح کے تناظر اور انقلابی پروگرام بے معنی ہیں۔ مبارزہ طبقاتی اس پورے عمل میں محنت کشوں اور نوجوانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔

متعلقہ:
مجبوری کے معاہدے