ایران: ’’مرگ بر امریکہ‘‘ اب کہاں؟

| تحریر: لال خان |
us iran nuclear deal cartoon (2)لوزین سوئزر لینڈ میں کئی ماہ کے سفارتی مذاکرات کے بعد P5+1 ممالک اور ایران کے درمیان ہونے والے ’’معاہدے‘‘ کی بڑی پذیرائی کی جارہی ہے۔ نہ صرف ریاست پاکستان کے سرکاری ترجمان بلکہ بڑے سیاستدان بھی اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ لیکن جو کچھ طے پایا ہے وہ کوئی ’’معاہدہ‘‘ نہیں ہے بلکہ ایک معاہدے کی طرف فریم ورک پر اتفاق کا سمجھوتہ ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ’’امریکہ، ایران اور دوسری عالمی طاقتوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کے درمیان جو اتفاق رائے ہوا ہے وہ حتمی اور جامع سمجھوتے کو تین ماہ میں مکمل کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔‘‘ پریس کانفرنس میں یورپی یونین کے امور خارجہ کی نمائندہ فیڈریکا موگھرینی کا کہنا ہے کہ ’’ایک فیصلہ کن قدم اٹھایا جاچکا ہے۔‘‘
مذاکرات کے دوران اور سمجھوتے کے بعد بھی اسرائیل کے بنیاد پرست وزیر اعظم نے اس عمل کے خلاف بیان بازی کی جارحانہ مہم جاری رکھی ہے۔ ایران کا علاقائی اثر ورسوخ بڑھنے کے امکانات سے اسرائیل کی عسکری بالادستی کو خطرہ لاحق ہے۔ ایران کی جوہری طاقت اور ایٹم بم بنانے کی صلاحیت کو مبالغہ آرائی سے پیش کرکے اسرائیل کے حکمران مغرب میں اپنی حمایت بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں۔ خاص کر امریکی سیاسی و ریاستی اسٹیبلشمنٹ کا ری پبلکن دایاں بازو اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش نظر آرہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے اپنے پاس اس وقت 200 سے زائد ایٹمی وار ہیڈ ہیں۔ امریکی سی آئی اے کی خفیہ رپورٹ کے مطابق آج سے 28 سال قبل ہی اسرائیل ایک ہزار ایٹم بموں سے زیادہ تباہی پھیلانے والا ہائیڈروجن بم بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مغربی سامراج کی اسرائیل کو حاصل آشیر آباد کی وجہ سے کارپوریٹ میڈیا پر اس سارے عمل کو بڑی حد تک پوشیدہ رکھا گیا۔ اتنے بڑے اور تباہ کن ایٹمی پروگرام پر سامراج کی یہ مجرمانہ خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ سامراجی قوتوں کے مالی اور اسٹریٹجک مفادات کے سامنے ’’انسانی حقوق‘‘ سے لے کر ’’عالمی امن‘‘ تک، سب کچھ ہیچ ہے۔
باراک اوباما حکومت، ایران کے ساتھ معاہدے کے لئے اس لئے زور لگارہی ہے کہ عالمی سطح پر بالعموم اور مشرق وسطیٰ میں بالخصوص، امریکی سامراج کی تمام سفارتی اور عسکری پالیسیاں بری طرح سے ناکام ہورہی ہیں۔ شام پر حملے کی تیاری مکمل کر کے بحری بیڑے بھیج دینے کے بعد بالکل آخری وقت پر امریکہ کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔عراق کی صورتحال سب سے سامنے ہے۔فلسطین اسرائیل ’’مذاکرات‘‘ ڈرامے کی حد تک بھی امریکی حکمران نہیں کروا پا رہے ہیں۔ اوباما کے اقتدار میں فلسطینیوں کی زندگی اور اسرائیل کی جارحیت بد سے بد تر ہی ہوئے ہیں۔ ہر طرف سے نامرادی کا سامنا کرنے کے بعد اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے اوباما حکومت یہ ’’تاریخی معاہدہ‘‘ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بوڑھے امریکی سامراج کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کا مذہبی جنونی حکمران دھڑا اس حد تک سرکش ہو چکا ہے کہ امریکی صدر کو چڑانے کے لئے اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر ری پبلکن پارٹی کی مدد سے نیتن یاہو نے نہ صرف امریکی کانگریس سے خطاب کیا بلکہ اوباما کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ شاید ہی امریکہ کی تاریخ میں اس کے ’’اتحادی‘‘اسرائیل کی جانب سے امریکی صدر کی اتنی تذلیل کی گئی ہو۔ یہ سب کچھ اس مہلک بیماری کی سیاسی، سفارتی اور عسکری علامات ہیں جو امریکہ کی معیشت کو مفلوج کرتی جارہی ہے۔ امریکی سامراج کی بے بسی کا فائدہ صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ اس کے کئی دوسرے ’’اتحادی‘‘ ممالک بھی اٹھا رہے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں شرمناک شکست کے بعد علاقائی طاقتوں کی یہ خود سری خاصی بڑھ چکی ہے۔ روم سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک، ہر سامراجی طاقت اسی انجام سے دوچار ہوئی ہے۔
us iran nuclear deal cartoon (1)دوسر ی طرف ایرانی ملا کریسی بھی اس متوقع معاہدے کو اپنے داخلی اور خارجی مفادات کے لئے استعمال کرنے کی واردات کر رہی ہے۔ اس معاہدے کے ذریعے ایرانی ریاست کے جوہری پروگرام اور اثاثوں کو تحفظ ملے گا۔ اگلے 10 سے 15 سال تک اگرچہ وہ پلوٹونیم یا یورینیم کی افزودگی روکنے کے پابند ہوں گے لیکن بدلے میں جوہری تنصیبات پر حملہ نہ ہونے کی گارنٹی دی جائے گی۔ معاشی پابندیاں اٹھنے سے بھی ایرانی ارب پتی ملاؤں اور حکمران طبقے کو فائدہ ہوگا جس کے ثمرات غریب ایرانیوں اور محنت کشو ں تک پہنچنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ نتیجتاً طبقاتی تضاد اور بھی شدید ہو گا اور ملا اشرافیہ سے عوام کی نفرت بڑھے گی۔ ایرانی حکمران خواب دیکھ رہے ہیں کہ اس معاہدے کے ذریعے وہ پہلوی بادشاہت کی طرح خطے پر امریکی تسلط میں حصہ دار بن جائیں گے جو کہ خارج از امکان نہیں ہے۔
اپنی لوٹ مار، اقتدار اور ایرانی عوام پر جبر و تشدد کو جواز فراہم کرنے کے لئے یہ ملا اشرافیہ گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل خارجی دشمن تراشنے اور نئے محاذ کھولنے کی حکمت عملی اپناتی رہی ہے۔ ان جعلی دشمنیوں میں امریکہ مخالفت سب سے اہم تھی اور افغانستان اور عراق میں امریکی سامراج کی درپردہ حمایت کے باوجود ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کے نعرے کے ذریعے ایرانی عوام کو فریب دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ دولت اور طاقت کی ہوس میں امریکہ سے ’’مصالحت‘‘ کے ذریعے ریاستی جبر کا سب سے بڑا جواز ختم کرکے یہ ملا اپنے پیر پر ہی کلہاڑی مار رہے ہیں۔ امریکہ دشمنی سے پسپائی کا ازالہ کرنے کے لئے ایرانی ریاست شیعہ سنی تضاد اور سعودی عرب دشمنی کو ابھارنے کی کوشش کرے گی جس سے خطے کا خلفشار بڑھے گا، پراکسی جنگیں شدت اور وسعت اختیار کریں گی۔
خلیجی حکمرانوں کی اسرائیل سے ظاہری سی رقابت بھی اب قصہ ماضی بن چکی ہے۔ شام ہو یا یمن، اسرائیل کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ خطے میں اس وقت تین بڑے متحارب اتحاد پراکسی جنگوں میں سرگرم ہیں۔ پہلا اتحاد ترکی، قطر اور اخوان المسلمین کا ہے جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کے الحاق سے برسر پیکار ہے۔ اب علاقائی قوت کے طور پر ایران کا اثرو رسوخ بڑھ رہا ہے جس کا ایک دوسرے سے برسرپیکار ان دو اتحادوں سے بالواسطہ ٹکراؤ تیزی سے براہ راست جنگ (خاص کر یمن اور عراق میں) میں تبدیل ہورہا ہے۔ سنی، شیعہ، وہابی اور سلفی فرقوں کے نام پر لڑی جانے والی پراکسی جنگوں کی آگ پھیلتی جارہی ہے۔ عالمی اور علاقائی سامراجی گدھ ان ممالک کو نوچ رہے ہیں ۔ تیل اور دوسری معدنیات کی دولت اور اسٹریٹجک اہمیت کو اس نظام نے خطے کے عوام کے لئے عذاب بنا کے رکھ دیا ہے۔
لیکن مشرق وسطیٰ کو برباد کرنے والے ان حکمرانوں کے خلاف ان کے اپنے ممالک میں شدید نفرت موجود ہے۔ اسرائیل میں صیہونی ریاست کے خلاف ایک اور تحریک پک رہی ہے۔ 2011ء کے عرب انقلاب کے دوران پورے خطے میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی بغاوت اور اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی صلاحیت کا مظاہرہ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ عالمی سرمایہ داری کا بحران جوں جوں بڑھے گا، سامراجی قوتوں کے اتحادبننے اور ٹوٹنے کا عمل اتنا ہی تیز ہو گا۔ مالی مفادات کے لئے حکمرانوں کی وفاداریاں بدلتی رہیں گی۔ یہ حکمران طبقے کے مفادات ہیں جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ عوام کے مفادات سے متضاد ہیں۔
middle east time bomb cartoonصورتحال جتنی تیزی سے بدل رہی ہے اس کے پیش نظر امریکہ ایران معاہدے کی تکمیل سے پہلے ہی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں جو ان سامراجی معاہدوں کے پڑخچے اڑا دیں گے۔ ایرانی ملا اشرافیہ کے خلاف 2009ء میں بڑے عوامی مظاہرے ہوئے تھے۔ اس کے بعد بھی مختلف چھوٹی تحریکیں ابھرتی رہی ہیں۔ ایک بڑی عوامی بغاوت کے ابھرنے کے وسیع امکانات اب بھی موجود ہیں جو پوری ریاست کو اکھاڑ سکتی ہے۔ اسی طرح عرب انقلاب کی نئی لہر عرب اور خلیج کے وحشی حکمرانوں کے تخت گرا سکتی ہے۔ 2011ء کی تحریک زائل ہونے سے جو وحشت مسلط ہوئی ہے اس کا ازالہ ایک اور انقلاب ہی کر سکتا ہے جسے بالشویزم کے نظریات سے لیس کر کے اس نظام زر کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے جو تمام تر بربادی اور خونریزی کی بنیادی وجہ ہے۔

متعلقہ:

داخلی بحران کے سفارتی مضمرات

مجبوری کے معاہدے

شام: اسد کیوں جیت رہا ہے؟

ایران: موجودہ صورتحال کی ایک جھلک

مشرقِ وسطیٰ: سامراجی کٹھ پتلیوں کا میدان جنگ