جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کا تاریخ ساز ’انتفادۂ کشمیر کنونشن‘

رپورٹ: التمش تصدق

جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF) کا بیسواں مرکزی ’’انتفادۂ کشمیر کنونشن‘‘ 25، 26 اگست کو راولاکوٹ میں منعقد کیا گیا۔ ملک میں طلبہ سیاست کی عمومی زوال پذیری اور بحران کے موجودہ عہد میں اِس کنونشن کا کامیاب انعقاد ملکی و عالمی انقلابی سیاست میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بالخصوص لائن آف کنٹرول کے اُس پار بھارتی ریاستی جبر سے نبرد آزما کشمیری نوجوانوں کو یہ کنونشن ایک نئی شکتی دے گا اور دونوں اطراف کے نوجوانوں کی جڑت اور انہیں انقلابی مارکسزم کے نظریات سے سرفراز کرنے کا وسیلہ ثابت ہو گا۔ کنونشن میں پاکستان کے تمام علاقوں سمیت کشمیر کے طول و عرض سے طلبا و طالبات نے بھرپور شرکت کی۔ مجموعی طور پر 2000 سے زائد نوجوانوں نے کنونشن میں شرکت کی۔ معیاری اور مقداری حوالے سے یہ جے کے این ایس ایف کا آج تک کا کامیاب ترین مرکزی کنونشن تھا جس سے کشمیر اور پورے خطے میں انقلابی مارکسزم کی قوتوں کی تعمیر کا عمل تیزی سے آگے بڑھے گا۔

کنونشن کی تیاریوں کا آغاز کئی ہفتے قبل ہی ہو چکا تھا۔ اِس سلسلے میں پاکستان کے زیر تسلط کشمیر کے ہر علاقے کے سکولوں اور کالجوں میں میٹینگز کا طویل سلسلہ کنونشن تک جاری رہا۔ اِس عمل کے دوران کئی نئے تنظیمی یونٹوں کی بنیادیں رکھی گئیں، راولا کوٹ اور مظفر آباد میں شاندار موٹر سائیکل ریلیوں کا انعقاد کیا گیا، کیمپوں اور سٹالوں کا انعقاد کیا گیا، انقلابی لٹریچر بڑے پیمانے پر فروخت کیا گیا اور وسیع پیمانے پر لیف لیٹنگ اور وال چاکنگ کے ذریعے انقلابی نعروں اور مطالبات کا پرچار کیا گیا۔ کنونشن کی یہ مہم نوجوانوں کے لئے مروجہ سیاست کے حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہ تھی۔ کنونشن کی تیاریوں کی مختصر رپورٹ اور تصاویر ہم پہلے ہی اپنے قارئین کے لئے شائع کر چکے ہیں۔
25 اگست کی شام کو کشمیر اور پاکستان بھر سے طلبہ کے قافلے راولاکوٹ میں جمع ہونے لگے جہاں طلبہ یونین کی بحالی اور ہر سطح پر تعلیم کی مفت فراہمی کے مطالبات کے ساتھ ’طلبہ حقوق مشعل بردار ریلی‘ کا اہتمام کیا گیا۔ ریلی میں باغ، پلندری، تھوراڑ، علی سوجل، کھائیگلہ، ہجیرہ، کوٹلی، مظفر آباد، میر پور، راولاکوٹ اور کشمیر کے دیگر علاقوں سمیت پاکستان بھر سے طلبہ نے شرکت کی۔ مشعل بردار ریلی کا اختتام ہِل ٹاپ ہوٹل کے بالائی ہال میں ہوا، جہاں قبل از کنونشن کی تربیتی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ نشست کی صدارت جے کے این ایس ایف کے مرکزی صدر بشارت علی نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی جے کے این ایس ایف کے سابق مرکزی صدر راشد شیخ تھے۔ تربیتی نشست سے انقلابی طلبہ محاذ (RSF) کے مرکزی آرگنائزر اویس قرنی، جے کے پی وائی او کے ببرک خان، این ایس ایف پاکستان کے احمد خان، پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن پشاور کے سنگین باچا، پی ایس ایف جنوبی پنجاب کے شہر یار ذوق، جے کے این ایس ایف کی ریحانہ اختر، جے کے ایس ایل ایف کے عابد، جے ایک این ایس ایف کے التمش تصدق اور دیگر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر مقررین نے طلبہ سیاست کی موجودہ کیفیت، تناظر اور لائحہ عمل پر تفصیلی بحث کی اور طبقاتی بنیادوں پر جڑت بناتے ہوئے تعلیم کے کاروبار، فیسوں میں اضافے، نجکاری، بیروزگاری، قومی و طبقاتی جبر و استحصال اور اِن تمام لعنتوں کی جڑ سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کو نجات کا واحد حل قرار دیا۔ بشارت علی نے جموں کشمیر این ایس ایف کی نئی مرکزی کابینہ کا اعلان کیا جس میں ابرار لطیف نئے مرکزی صدر، راشد باغی سینئر نائب صدر، مروت راٹھور نائب صدر، یاسر حنیف سیکرٹری جنرل، باسط باغی ڈپٹی سیکرٹری جنرل، شاہد چوہدری جوائنٹ سیکرٹری، تیمور سلیم چیف آرگنائزر، فیصل آزاد ڈپٹی چیف آرگنائزر، نقاش امین سیکرٹری اطلاعات، شفقت چیئرمین شعبہ نشرو اشاعت، التمش تصدق ایڈیٹر ’عزم‘، سہیل اسماعیل ڈپٹی ایڈیٹر ’عزم‘، عادل بشیر چیئرمین سٹڈی سرکل، راجہ حسنین ڈپٹی چیئرمین سٹڈ ی سرکل، کفایت اللہ خان چیئرمین مالیاتی بورڈ، ارسلان شانی ڈپٹی چیئرمین مالیاتی بورڈ اور عاصم جمیل ڈپٹی چیئرمین شعبہ نشرو اشاعت منتخب ہوئے۔

شام پانچ بجے شروع ہونے والی اِن تقریبات کا اختتام رات دو بجے ہوا۔ نوجوانوں کا جوش و ولولہ دیدنی تھا۔ تمام وقت سارا ہال انقلابی نعروں اور ترانوں سے گونجتا رہا۔

26 اگست کی صبح مہنگائی، بیروزگاری، طبقاتی نظام تعلیم، دہشت گردی اور قومی و طبقاتی جبر کے خلاف ایک عظیم الشان ریلی کا اہتمام کیا گیا، جو پورے راولاکوٹ شہر کا چکر لگانے کے بعد صابر شہید اسٹیڈیم راولاکوٹ میں اختتام پذیر ہوئی جہاں کنونشن کے مرکزی اجلاس کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔
کنونشن کے مہمانِ خصوصی ایشین مارکسسٹ ریویو کے ایڈیٹر ڈاکٹر لال خان تھے۔ بشارت علی نے نئی مرکزی کا بینہ سے حلف لیا اور نو منتخب مرکزی صدر جے کے این ایس ایف ابرار لطیف کو تقریب کی صدارت کے لیے مدعو کیا۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی انتفادۂ کشمیر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر لال خان نے کہا کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف میں کشمیر عوام قومی جبر کا شکار ہیں، بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری حالیہ تحریک نے دیوہیکل جابر ریاست کو بنیادوں سے ہلا دیا ہے اور دنیا بھر کے نوجوان اسے ایک مشعل راہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں، نہتے نوجوانوں نے دنیا کی پانچویں بڑی فوج اور نریندر مودی کی ہندو بنیاد پرست حکومت کو شکست خوردہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ستر سال میں دنیا میں سب سے زیادہ تحریکیں کشمیر میں چلی ہیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ کشمیر میں ابھرنے والی تحریک کو ہندوستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی طرف سے وسیع حمایت مل رہی ہے، اٹھارہ بھارتی ریاستوں کی یونیورسٹیوں میں اس تحریک کے حق میں ہڑتالیں اور مظاہرے ہوئے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نوجوانوں نے تحریک کے کردار کو بنیادی مطالبات کی بنیاد پر متعین کرتے ہوئے رجعتی عناصر اور رجحانات کو اپنی صفوں سے نکال باہر کیا ہے، انہوں نے اپنی جدوجہد کو بنیادی مسائل سے جوڑا ہے اور قومی آزادی کی تحریکیں طبقاتی مسائل کے ساتھ جڑے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں، آج کا یہ کنونشن ان جرات مند نوجوانوں کیلئے واضح پیغام ہے کہ لائن آف کنٹرول کے اِس پار بھی انقلابی نوجوان ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور نظام زر کی ذلتوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ کوئی روایتی نہیں بلکہ غیر معمولی مگر کٹھن حالات میں ہونیوالا ایک غیر معمولی کنونشن ہے، یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب نام نہاد خونی لکیر کے اُس پار نوجوان اِس نظام کے ننگے جبر کے سامنے سینہ سپر ہیں اور ہم تمام رکاوٹوں اور جبر کو چیرتے ہوئے یہاں یہ انقلابی کنونشن منعقد کر رہے ہیں، کشمیر میں جاری تحریک کسی مذہب، مسلک یا نسل کی تحریک نہیں بلکہ انقلاب کی تحریک ہے، ہمارے پاس کوئی جائیدادیں، مال و دولت وغیرہ کچھ نہیں ہے اور جو ہمارے پاس ہے وہ صرف سچ ہے جسے قتل نہیں کیا جا سکتا، ہم ہر حال میں اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے اور قومی و طبقاتی جبر کے خلاف سوشلسٹ انقلاب کی اس جدوجہد میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینگے، زندگی میں سب سے بڑی جدوجہد زندگی سے بڑے مقصد کیلئے جینا اور مرنا ہے اور وہ عظیم لوگ ہیں جنہیں نظریہ اور انقلابی پارٹی میسر آتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف اور پورے برصغیر میں نوجوانوں اور محنت کشوں کے مسائل ایک سے ہیں، ان کے دکھ اور جدوجہد ایک ہے، دونوں اطراف مزاحمت بھی ہو رہی ہے، یہاں ظاہری خاموشی ہے، لیکن یہاں غربت اور لوڈشیڈنگ سمیت دیگر مسائل انتہائی اذیت ناک ہیں، یہ کون سا آزاد کشمیر ہے کہ جہاں کا نوجوان دنیا بھر میں روزگار کیلئے بھٹکتا پھر رہا ہے، ایک نسبتاً خاموش مگر سفاک ریاستی جبر یہاں بھی موجود ہے، یہ کنونشن ایسے حالات میں منعقد ہو رہا ہے جب بنیاد پرست فسطائی عناصر نے گولیوں سے اڑا دینے کی دھمکیاں سرِ عام دی ہیں، لیکن انقلاب کے اِس سفر کو دنیا کی کوئی طاقت روک سکی ہے نہ روک سکتی ہے، اُس پار کے نوجوانوں نے موت کے خوف کو فتح کر لیا ہے اور ثابت کر رہے ہیں کہ اِن خونی لکیروں کو ایک دن مٹنا ہو گا اور ساتھ ہی جبر کے اِس نظام کوبھی اکھاڑ پھینکا جائیگا۔
انتفادۂ کشمیر کنونشن سے صدر جموں کشمیر پیپلز پارٹی سردار خالد ابراہیم خان، چیئرمین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سردار محمد صغیر خان ایڈووکیٹ، پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق ناظم مالاکنڈ غفران احد، نومنتخب صدر این ایس ایف ابرار لطیف، سابق صدور بشارت علی خان اور راشد شیخ، کفایت اللہ، ریحانہ اختر، تیمور سلیم، یاسر حنیف اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا، جبکہ ملائیشیا سے سابق مرکزی صدر امجد شاہسوار کا آڈیو پیغام حاضرین کو سنایا گیا۔ کنونشن میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض خلیل بابر نے انجام دیئے، جبکہ عدنان ساگر نے انقلابی ترانہ پیش کیا۔

سردار خالد ابراہیم نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیشتر باتوں پر اختلاف کے باوجود ایک بات سے متفق ہیں کہ انقلابی ساتھی اکثریت کی حاکمیت کیلئے اقلیتی سرمایہ دار طبقے کیخلاف جدوجہد کو منظم کئے ہوئے ہیں، انہوں نے کہا طبقاتی مطالبات اور مسائل سے جوڑے بغیر کوئی قومی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، یہ آزادی نام نہاد ہے جس میں ریاستی جبر بھی موجود ہے اور لوگ اذیت ناک مسائل سے دوچار ہیں، سیاست اور مذہب کو الگ ہونا چاہیے، نوازشریف کو تین مرتبہ اقتدار صرف اس لئے ملا کہ وہ بڑے صوبے کے بڑے شہر کے بڑے سرمایہ دار تھے، آج وہ انقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں تو ہم انہیں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ انقلاب انہی کیخلاف آنا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی کارکن کسی ریاستی عنصر کی ڈکٹیشن پر کام نہ کریں، سامراجی و ریاستی آلہ کاروں کو بے نقاب کیا جائے، یہاں جو کوئی جبر اور استحصال کے خلاف بات کرتا ہے اس پر دہریت اور کفرکا لیبل چسپاں کیا جاتا ہے، اس علاقہ کو وانا اور وزیرستان بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ایسا نہ پہلے کبھی ہونے دیا ہے نہ اب ہونے دیں گے، تمام ترقی پسند قوتوں کو یکجا ہو کر اِن آلہ کار رجعتی قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہونا ہو گا۔
نو منتخب چیئرمین ابرار لطیف نے اپنے اختتامی خطاب میں کہا کہ جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن انقلابی روایات کی امین اور علمبردار ہے۔ انہوں نے قومی و طبقاتی آزادی اور نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب کو قرار دیا اور اعادہ کیا کہ مارکسزم کے سائنسی نظریات پر کشمیر، پاکستان اور پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف طبقاتی جدوجہد جاری رہے گی۔
جیسا کہ متوقع تھا کہ بنیاد پرست، رجعتی اور فسطائی عناصر نے کنونشن کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اِس سلسلے میں جمعہ کے اجتماعات میں کچھ ملاؤں نے کفر کے باقاعدہ فتوے جاری کئے اور شرکا کو قتل کرنے کی دھمکیاں تک دی گئیں۔ اِسی طرح غیر ملکی فنڈنگ سے سرگرم کچھ نام نہاد ’انقلابی‘ عناصر، جن کا واحد اور حقیقی مقصد پاکستان اور دنیا بھر میں انقلابی قوتوں کو سبوتاژ کرنا ہے، نے جے کے این ایس ایف اور کچھ نمایاں کامریڈوں کے خلاف مقامی انتظامیہ اور ریاستی ایجنسیوں کو درخواستیں تک جمع کروائیں۔ ایسے غلیظ اور گھٹیا ہتھکنڈے انقلاب کے نام پر انقلاب کے خلاف سرگرم اِن عناصر کے حقیقی چہرے کو خوب بے نقاب کرتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اِن انقلاب دشمن عناصر کے گھناؤنے چہرے کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جا ئے گا۔
تمام تر سماجی و معاشی مشکلات اور دشمنوں کے حملوں کے باوجود جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کا تاریخی کنونشن نہ صرف کشمیر بلکہ خطے کی طلبہ سیاست کے سفر میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس کنونشن کا پیغام پوری دنیا میں انقلابی نوجوانوں کو نیا عزم، حوصلہ اور شکتی دے گا اور اِس خطے میں طبقاتی جدوجہد کو سوشلسٹ فتح کی منزل سے ہمکنار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔