محکومی کشمیر کا مقدر نہیں!

| تحریر: لال خان |

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اس ہفتے تشدد اور بے رحم ریاستی جبر کا ایک نیا سلسلہ شروع ہواہے جس میں ایک خاتون سمیت چار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مرنے والے ہندواڑہ میں ایک بھارتی فوجی کی جانب سے ایک سکول کی بچی کے ساتھ مبینہ زیادتی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق پولیس اور آرمی کے لیے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری سے بچنا مشکل ہو گا۔ بھارتی فوجی کے اس بہیمانہ جرم کے خلاف عوامی غم و غصے سے بچنے کے لیے ہندواڑاہ اور سری نگر میں کرفیو نافظ کر دیا گیا۔ سری نگر میں سینکڑوں نقاب پوش مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور آنسو گیس کی بارش میں پولیس والوں پر سنگ باری کرتے رہے۔
اب بھارتی ریاست ان ہلاکتوں کی تحقیقات کا حکم دے گی اور یہ معاملہ بھی ان سینکڑوں کیسوں میں شامل ہو جائے گا جن کی تفتیش ابھی تک چل رہی ہے۔ اس طرح کے واقعات میں آرمی ہمیشہ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) کے سہارے بچ جاتی ہے۔ یہ ایکٹ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیا ں کرنے پر تادیبی کاروائی سے عملاً مستثنیٰ کر دیتا ہے۔ 1990ء میں جب بھارتی پارلیمنٹ نے یہ قانون بنایا تو جموں کشمیر کی موجودہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے والد مفتی محمد سعید مرحوم مرکزی وزیر داخلہ تھے۔ اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں بھی انہوں نے اس قانون کو ختم کرنے یا اس کے خلاف احتجاج سے گریز کا راستہ اپنایا۔ اب جموں کشمیر کے مسند اقتدار پر براجمان ان کی صاحبزادی وزیر اعظم نریندرا مودی کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف ہے اور پی ڈی پی اور بی جے پی کے اتحاد کو مظبوط بنارہی ہے۔ ان حکمرانوں کی جنس، مذہب یا قوم کوئی بھی ہو، دنیا بھر کی طرح کشمیر میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی بحران اور ریاست کی وحشت میں کشمیری عوام کی حالت ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
1947ء کی تقسیم سے اب تک جموں کشمیر میں بغاوت اور جدوجہد کسی نہ کسی شکل میں چلتی آ رہی ہے۔ لیکن اس جبر اور استحصال کے خلاف بڑے پیمانے کا عوامی اظہار 1989 ء کا پہلا ’’کشمیری انتفادہ‘‘ تھا۔ مغل بادشاہ جہانگیر نے کشمیر کو ’’دینا میں جنت‘‘ قرار دیا تھا لیکن یہ جنت گزشتہ کئی دہائیوں سے قومی جبر کی تاریکی میں ڈوبی اور خون میں لتھڑی ہوئی ہے۔ نہرو ایک کشمیری پنڈت تھا اور اسے اپنے آبائی علاقے سے بہت محبت تھی۔ نہرو کے بقول کشمیر ’’ایک بے حد حسین عورت جیسا ہے جس کاحسن شخصی خصوصیات اور تمنا سے بالا تر ہے‘‘۔ نہرو کو ’’یہاں کے دریاؤں، وادیوں اور جھیلوں کے حسن کی نسوانیت اور درختوں کی شان و شوکت‘‘ بہت بھاتی تھی۔ اس کے بقول وہ ’’آزادی کی جدوجہد کے دوران سنگلاخ پہاڑوں، گہری کھائیوں، برف پوش چوٹیوں، گلیشیر ز اور ان سے نیچے وادیوں میں بہنے والے تند خو ندی نالوں پر غور فکر کرنے کئی مرتبہ آبائی گھر گیا‘‘۔ لیکن اس نام نہاد آزادی میں صرف چہرے تبدیل ہوئے اور سامراج کا نظام بدستور موجود رہا۔ نہرو اور دوسرے مقامی ہندو اور مسلمان اشرافیہ کے حکمرانوں اور ان کی ریاستوں کا معاشی، سیاسی اور سماجی جبر کشمیر اور اس پورے خطے کے کروڑوں محکوموں پر جاری و ساری رہا۔
مسئلہ کشمیر در اصل برصغیر کی ر جعتی اور خونریز تقسیم کی پیداوار ہے۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی مہلک پالیسی کے تحت برطانوی سامراج نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بر صغیر میں نفرت اور تنازعات کو جاری رکھنے کے لیے کوئی بڑا مسئلہ موجود رہے۔ پچھلے ستر برسوں کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے بد نظم اقتدار کو جاری رکھنے کے لیے ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کو ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ کشمیر بر صغیر کے لیے ایک رستا ہوا زخم بن چکا ہے۔ چار جنگوں اور لا تعداد مذاکرات کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگی، خون ریزی اور تکلیف بڑھتی ہی چلی گئی ہے اور آج یہ 1947ء سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور بد تر شکل اختیار کر چکا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ دونوں اطراف کے حکمران طبقات اسے حل نہیں کرنا چاہتے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ حل کر ہی نہیں سکتے۔ اس کے حل سے وہ بیرونی تضاد ختم ہو جائے گا جسے وہ اندرونی بغاوتوں کو دبانے کے لیے بڑی عیاری سے مسلسل استعمال کرتے آرہے ہیں۔ لیکن کشمیر میں سلگتا قومی سوال اور قومی آزادی کی تحریک وقتاً فوقتاً پھٹ کر یہاں کے حکمرانوں کے معمول میں خلل ڈالتے رہتے ہیں۔ ایک طرف دونوں ممالک کے شدید معاشی بحران سے مجبور ہو کر حکمران طبقات کے کچھ حصے ان تنازعات کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں صرف ہونے والے وسائل کو معیشت میں استعمال کیا جا سکے اور پاک بھارت تجارت سے سرمایہ داروں کو مالیاتی فوائد مل سکیں۔ دوسری جانب حکمرانوں کے سخت گیر اور بنیاد پرست دھڑے کشمیر کی بنیاد پر دشمنی کو اپنے وجودکو قائم رکھنے اور قومی شاونزم اور مذہبی تعصب پر مبنی سیاست کے مالیاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
کشمیر کے عام لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں کی جدوجہد لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کے حکمرانوں کے لیے خطرہ ہے۔ اتار چڑھاؤ کے ساتھ یہ جدوجہد دہائیوں سے جاری ہے اور جاری رہے گی۔ کشمیر میں عوام کی وسیع اکثریت کا تعلق محروم طبقات سے ہے اور اس جدوجہد میں قربانیوں کی طویل داستان ہے۔ ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کے ہاتھوں گزشتہ تین دہائیوں میں65,000 سے زیادہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس لڑائی نے ایک لاکھ بچوں کو یتیم کیا ہے اور 300 سے زیادہ خود کشیاں رپورٹ کی جا چکی ہیں جن میں77 فیصد خواتین ہیں۔ وادی کشمیر میں شاید ہی کوئی خاندان ہو جو اس المیے سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔
دہائیوں کی قربانیوں کے باوجود قومی آزادی سے لے کر خودمختاری تک، کوئی بھی آپشن حقیقت نہیں بن سکا۔ اس کی بنیادی وجہ ایسے تنازعات کو حل کرنے میں سرمایہ دارانہ نظام کی ریاست، سیاست اور سفارت کی نا اہلی اور تاریخی ناکامی ہے۔ جنگیں بے نتیجہ ہیں اور اقوام متحدہ اور سامراجی کنٹرول میں ’’امن‘‘ کی کوششیں بے سود۔ قومی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کا طریقہ کار بھی طاقتوراور دیو ہیکل ریاست کی فوجی قوت کو شکست دینے میں ناکام نظر آتا ہے۔ اس پس منظر میں اب مسئلہ کشمیر روایتی سیاست اور سفارت سے ہٹ کر کہیں زیادہ ریڈیکل اور انقلابی حل کا متقاضی ہے جس کا سرچشمہ صرف عوام ہی ہو سکتے ہیں۔ در حقیقت کشمیر کو سامراجی تسلط، غربت، ذلت اور اس خطے کے حکمران طبقات کے استحصال اور لوٹ مار سے اب ایک انقلاب ہی آزاد کر وا سکتا ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں، طلبہ، خواتین، محنت کشوں اور کسانوں کی جدوجہد کی استقامت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سامراجی ریاستوں اور ان کی کٹھ پتلی مقامی اشرافیہ کے خلاف فتح یاب ہوا جا سکتا ہے۔ یہ جدوجہد سرمایہ داری کی حدود و قیود میں کبھی کامران نہیں ہو سکتی اور اس طرح آخری تجزئیے میں یہ ایک سوشلسٹ کشمیر کی جدوجہد ہے۔ اس اٹل حقیقت کو اس پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت بھی ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ہزار وں قربانیوں اور عزم و ہمت کے باوجود قومی آزادی کی یہ تحریک قیادت کے نظریات اور پروگرام کی کنفیوژن کا شکار بنتی رہی ہے اور زیادہ آگے نہیں بڑھ سکی۔
صرف ہندوستان، پاکستان اور بر صغیر کے دوسرے ممالک کے محکوم اور محنت کش طبقات ہی کشمیر کے محروم عوام کی جدوجہدِ آزادی کو درکارحمایت فراہم کر سکتے ہیں۔ یعنی کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر پورے خطے کے عوام کے ساتھ جوڑ کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ ایک آزاد سوشلسٹ کشمیر برصغیر اور دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت اور یکجہتی سے ہی قائم ہو سکتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب ایک طبقاتی فریضہ ہے اور یہ اس نظام کے رکھوالے لیڈروں کا کام نہیں ہے۔ کشمیر میں ایک انقلابی تبدیلی ہی اس جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچا سکتی ہے اور بر صغیر اور دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکوں، محنت کش طبقات اور نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے۔