سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا سبق

[تحریر: قمرالزماں خاں]
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے۔ پچھلے سال گیارہ ستمبر کوکراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں علی انٹر پرائزز نامی ایک گارمنٹس فیکٹری میں ایسی آگ بھڑکی کہ بجھنے سے پہلے 289 زندہ انسانوں (سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) اور انکے خاندانوں کے مسقبل کو جلا کر خاکستر کرگئی۔ ایسا ہی واقعہ اسی روز بند روڈ لاہور میں ایک پلاسٹک فیکٹری میں رونما ہوا جہاں پچاس کے قریب مزدور جل کر ہلاک ہوگئے۔ ان سانحات کے بعد وہی ہوا جو ہمارے ہاں کی ریت ہے۔ شروع میں بلند بانگ دعوے کئے گئے۔ ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا سنانے کی بڑھکیں ماری گئیں۔ فیکٹریوں میں سیفٹی قوانین کی پابندی کے لیے دعوے کئے گئے اور نئی قانون سازی کی صدائیں سنائی گئی۔ متاثرین کی اشک شوئی کے لئے ڈینگیں ماریں گئیں۔ معمولی سے معاوضے کے لئے بھی سوگوار خاندانوں کو رسوا کرنے کا کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا گیا۔ یتیم ہونے والے بچوں، بیوہ ہونے والی خواتین اور بے سہارہ ہوجانے والے والدین کی آہوں، سسکیوں اور بے بسی نے پتھروں تک کو رلادیا مگر کسی پر نہیں اثر ہوا تو وہ حکمران طبقہ ہے جس کے نمائندگان نے اس سنگین ترین سانحہ کو محض ایک حادثہ قرار دے کر اپنی ذہنیت کو آشکار کردیا۔ سابق نام نہاد عوامی حکومت کے ایک کٹھ پتلی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے تو اس سانحے کے ذمہ داران کی پہلی پرت سے تعلق رکھنے والے علی انٹر پرائزز کے مالکان پر لگائی جانے والی قتل کی ایف آئی آر کو تبدیل کروا دیا اور حادثے کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دے کر ثابت کردیا کہ مرنے والے انسانوں کی جانیں بے وقعت تھیں اور ان کا جینا یا مرنا کوئی نے معنی۔ اگر دیکھا جائے تو سرمایہ داروں کے نزدیک مزدور بولنے والی مشین ہوتی ہے، ایک ایسی مشین جو کارکردگی اور اپنی قوت محنت کی وجہ سے شرح منافع میں مسلسل اضافے کا باعث بنتی رہتی ہے۔ مگراس مشین( مزدور) کی گھسائی (Depreciation) سرمایہ دار کے لئے تشویش کا باعث نہیں ہوتی۔ ایک بولتی ہوئی مشین اگر گھس گھس کر بالکل بے کار ہوجائے یا دوران کام ٹوٹ (زخمی ہوجائے یاموت کا شکار) ہو جائے تو نہ بولنے والی مشینوں کی طرح سرمایہ دار کو نئی مشین کے لئے رقم نہیں بھرنی پڑتی۔ بے روزگاروں کی وسیع منڈی سے بولنے والی مشینیں پرانی مشین کے بے کار ہونے پر کثرت سے دستیاب ہوجاتی ہیں۔ سرمایہ داری کے قوانین کے تحت مزدور بھی مشینوں اور خام مال کی طرح، سرمایہ دار کو منافع کما کردینے والا ایک عامل ہے نہ کہ ایک انسان۔ اگر غور کیا جائے تو منافع اور شرح منافع کماکر دینے والے تین اہم عاملین انفراسٹرکچر اور مشینوں، خام مال اور محنت کو خلق کرنے والا مزدورمیں سے خام مال اور انفراسٹرکچر کی حفاظت میں کسی قسم کی غفلت نہیں برتی جاتی جبکہ مزدور ایک ایسی جنس اور ایسا عامل ہے جس کی تلفی کے ہر احتمال پر دانستہ آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں۔ یہ ایک سنگین حقیقت ہے جس کا سامنا اکسویں صدی کے مزدور طبقے کو تمام تر اعلی اخلاقیات کے چرچوں اور تہذیب و تمدن کے واویلے کے باوجود کرنا پڑ رہا ہے۔ محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں کی تلفی کسی ایک میدان میں نہیں ہورہی بلکہ غذائی قلت، مہنگے علاج معالجے تک رسائی کا فقدان، عام حادثات، دہشت گردی، خانہ جنگیوں اور جنگوں وغیرہ کا شکار ہونے والوں کا غالب حصہ محنت کشوں اور انکے خاندانوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ عام سماجی زندگی اور معاشرتی ترتیب میں محنت کش طبقہ، مراعات یافتہ طبقے کی نسبت حشرات الارض سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ موجودہ صدی میں سارے براعظموں میں تمدنوں کے ارتقاء کی بے ترتیبی اور ترقی کے مختلف مدارج کے باوجود، انسانی ترقی کی حاصلات تک رسائی کا پہلا حق بہر طور محنت کش طبقے کا نہیں ہے جبکہ یہ ناقابل تردید حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ان حاصلات کا معرض وجود میں آنا ناممکن ہوتا اگر محنت کش طبقے کی ’’محنت‘‘ شامل نہ ہوتی۔ مگر اس حقیقت کا اعتراف ایسے نظام اور سماج میں حکمران طبقہ اور اسکے تنخواہ یافتہ دانشور نہیں کرسکتے جس کا وجود ہی استحصال اور لوٹ مار کے نظریات پر استوار کیا گیا ہو۔
بلدیہ ٹاؤن کے سانحے کے بعد یہ حقیقت منظر عام پر زیادہ شدت سے آئی ہے کہ ملک بھر میں موجود لاکھوں کارخانوں اور اداروں میں آتش زدگی اورحادثات کی صورت میں کسی قسم کے حفاظتی اقدامات کا نظام موجود نہیں ہے۔ ننانوے فی صد کارخانوں میں تو سیفٹی کا باقاعدہ سیکشن ہی موجود نہیں ہے۔ اسی طرح فیکٹریوں کی عمارات، فیکٹری ایکٹ کے تحت بنانے کا نہ تو رواج موجود ہے اور نہ ہی اس ایکٹ پر عمل درآمد کرانے کا کوئی ریاستی آپریٹس موجود ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ملک بھر میں غالب اکثریت ان کارخانوں، فیکٹریوں، اداروں کی ہے جو 1936ء کے فیکٹری ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔ ملک بھر میں مزدوروں کے حقوق اور تحفظ کے لئے بنائے گئے مختلف نوع کے ادارے مزدوروں سے یکسر بے گانہ ہیں۔ ان اداروں کی حیثیت ایسی بے اختیار اور غیر موثر ریاستی مشینری کی ہے جو کارخانہ مالکان اور آجر سے ماہوار بھتہ وصول کرکے اپنی آنکھیں اور کان بند رکھتے ہیں۔ لیبر کورٹس کسی بھی مزدور کو اس کا حق دلوانے سے قاصر ہیں۔ ملک کے عمومی قوانین مزدور مخالف اور سرمایہ داروں کی من مانیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ منڈی کی معیشت کے ذرائع ابلاغ اشتہارات اور مالی مفادات کی موجودگی میں وہی سلوک مزدوروں کے ساتھ کرتے ہیں جس سے اشتہار دینے والے ادارے اور کمپنیوں کے مفادات متاثر نہ ہوتے ہوں، لہٰذہ کسی بھی ادارے کی مزدور دشمنی یا ظلم وستم کے واقعات پر رپورٹنگ اس انداز میں کی جاتی ہے کہ جبر اور استحصال کی شدت نظر نہ آئے اور نہ ہی ادارے کا نام واضع ہوسکے۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور سانحہ لاہور ایک سال پہلے رونما ہوئے تھے، اس عرصے میں کئی فیکٹریوں میں ایسے خونی حادثات ہوئے، مزدو رہلاک ہوئے اور انکے خاندان برباد ہوگئے، خبریں منظر عام پر آئیں اور پھر ردی کے ڈھیروں میں گم ہوگئیں۔ سرمایہ داروں، مل مالکان، آجروں اورحکمرانوں کی زندگیاں معمول کے مطابق پھلتی پھولتی رہیں۔ یہی سرمایہ داری نظام کا نظریہ، نقطہ نظر اور طریقہ کار ہے۔ ایسا تب تک ہوتا رہے گا جب تک استحصال کے ایندھن سے چلنے والا سرمایہ داری نظام موجود رہے گا۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا بدلہ سماج بدل کر ہی لیا جاسکتا ہے۔
فیصلہ پھر اکثریتی محنت کش طبقے نے کرنا ہے کہ اس نے ’’بولنے والی مشین‘‘ کے طور پر شرح منافع کما کر سرمایہ داروں کو دینا ہے اور گھس گھس کر، ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر جانا ہے یا پھر مشین ہونے سے انکار کرتے ہوئے اپنے لئے انسان کا رتبہ حاصل کرنا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے منڈی کی معیشت اور سرمایہ داری کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ اس باطل نظام کا خاتمہ اس لمحے کا منتظر ہے جب محنت کش خود کو بطور طبقہ محسوس کرکے اپنے استحصال کرنے والوں کے خلاف جدوجہد کا آغاز کریں گے۔ ایک ایسا نظام جس میں اکثریت، سماج کے تمام اصولوں کو وضع کرے اور محنت کشوں کی محنت کے ثمرات پورے سماج تک منتقل ہوں، ایک ایسا سماج تخلیق کرے گا جہاں نہ کوئی کسی کا استحصال کرسکے گا اور نہ ہی بلدیہ ٹاؤن جیسے واقعات معمول زندگی بن سکیں گے۔ ایک سوشلسٹ سماج کی تشکیل ہی درندگی پر مبنی منافع اور شرح مفافع کی نفسیات اور لالچ کا خاتمہ کرکے حقیقی معنوں میں انسانی تاریخ کا آغاز کرسکتی ہے۔

متعلقہ: سانحہ بلدیہ ٹاؤن: وہ جھلسے بدن آج بھی سلگ رہے ہیں!