[تحریر: لال خان]
یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ملکی سیاست کا انتشار ایک بار پھر کسی بڑے خلفشار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لاہور سے روانہ ہونے والے دو، یا شاید ’’ڈھائی‘‘ لانگ مارچوں نے مسلم لیگ نواز حکومت کو چکرا کے رکھ دیا ہے۔ ایک لانگ مارچ کی قیادت کرکٹ سے سیاست کی طرف آنے والے دائیں بازو کے پاپولسٹ رہنما عمران خان کر رہے ہیں۔ دوسرا مارچ لچھے دار لفاظی میں ماہر مولوی طاہر القادری کا ہے۔ بچھی کھچی ق لیگ کا ’’لٹا پھٹا‘‘ قافلہ ان دونوں مارچوں کے بیچ میں کہیں جگہ تلاش کرتا پھر رہا ہے۔ شدید تذبذب سے دوچار شریف برادران ہر حالت میں کرسی کے ساتھ چمٹے رہنے پر بضد معلوم ہوتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں نواز لیگ کو ملنے والا ’’بھاری‘‘ مینڈیٹ ہوا ہو گیا ہے اور اقتدار کسی تنکے کی طرح سیاست کے سیلاب میں بہتا چلا جارہا ہے۔
مشہور زمانہ ’’جمہوریت کا تسلسل‘‘بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ موجودہ حکومت کی ساکھ پہلے چند مہینوں میں ہی گراوٹ کی انتہاؤں کو چھونے لگی تھی۔ اپنے منشور، روایات اور میراث کو کوڑے دان میں پھینک کر پانچ سال تک عوام پر بد ترین معاشی حملے کرنے والی پیپلز پارٹی کا سیاسی کردار اپوزیشن میں اور بھی زیادہ مکروہ ہو گیا ہے۔ بعض اوقات یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی فکر نواز شریف سے زیادہ پیپلز پارٹی پر قابض زرداری ٹولے کو ہے۔ پانچ سال حکومت میں رہنے کے بعد بھی شاید پیپلز پارٹی قیادت کا ’’جمہوری انتقام‘‘ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔
عمران خان کی جانب سے مخصوص حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مطالبے پر مسلسل پسپائی اختیار کرنے والی نوازلیگ نے ’’یوم آزادی‘‘ کی تقریبات کو فوج سے ’’قربت‘‘ کا تاثر دینے کے لئے خوب استعمال کیا ہے۔ ٹیلوژن کیمروں کے سامنے میاں صاحب کی جانب سے جنرل راحیل شریف کے قریب نظر آنے کوششیں بڑی مضحکہ خیز تھیں۔ ان مناظر میں حکومت اور فوج کے بظاہر خوشگوار تعلقات سے زیادہ نواز شریف کے گرتے ہوئے اعتماد اور بڑھتے ہوئے خوف کی جھلک زیادہ نمایاں تھی۔ ڈیڑھ سال پہلے انتخابات میں لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کرنے کے بعد حلف لیتے وقت بھی میاں صاحب کی باڈی لینگویج بڑی نحیف اور پژمردہ تھی۔ معیشت دیوالیہ، ریاست داخلی تضادات سے لبریز، سیاست غیر مستحکم اور سماج برباد ہو تو بڑی اکثریت بڑی بری طرح گلے پڑ جایا کرتی ہے۔ نواز لیگ کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک جلد ہی ہو گیا تھا۔
نہ صرف پاکستان بلکہ بیشتر دوسرے سابقہ نوآبادیاتی تیسری دنیا کے ممالک میں حکمران طبقہ سیاسی قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔ ماضی میں، خاص کر جنگ عظیم دوم کے بعد تین دہائیوں تک جاری رہنے والے عالمی سرمایہ داری کے طویل عروج (Boom) کے دوران، تیسری دنیا کی معیشتیں کم از کم اتنی مستحکم ضرور تھیں کہ حکمران طبقہ سیاست کے بالائی ڈھانچے اپنی ضرورت کے مطابق توڑ مروڑ کے نظام ریاست کو چلا سکتا تھا۔ اس دور میں ہمیں فوجی آمریتیں، پاپولسٹ اصلاح پسندانہ حکومتیں اور نیم جمہوری اقتدار کی کئی شکلیں ملتی ہیں۔ لیکن 1970ء کی دہائی کے وسط تک کینشین ازم اور ریاستی سرمایہ داری کی متروکیت سے جنم لینے والے معاشی بحران کے بعد ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی صحت مند بنیادوں پر معاشی نمو ممکن نہ رہی۔ سرمایہ داری کو چلانے کے لئے ایک بار پھر’’ لبرل ازم‘‘ (نیو لبرل ازم) کا ماڈل اپنایا گیا جس سے مغرب میں معیار زندگی جمود کا شکار ہو گیا اور تیسری دنیا میں سماجی حالات اس بدتری کی طرف گامزن ہوئے جو آج اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔
1980ء کے بعد محنت کش عوام کی بغاوتوں کو خونخوار آمریتوں کے ذریعے دبانا ممکن نہیں رہا کیونکہ ریاستی جبر تحریکوں کو کچلنے کے بجائے زیادہ شدت سے بھڑکانے کا موجب بن رہا تھا۔ ان حالات میں سامراج اور اس کی کاسہ لیس مقامی اشرافیہ نے اپنی لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کو جاری رکھنے کے لئے روایتی اور پاپولسٹ ’’جمہوری‘‘ پارٹیوں اور حکومتوں کو استعمال کرنے کی پالیسی وضع کی۔ لیکن پاکستان میں یہ واردات بھی زیادہ قابل عمل نہ تھی۔ 1990ء کی دہائی میں ایک کے بعد دوسری ’’منتخب‘‘ حکومت، ریاست اور حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے آپسی تصادم کی بھینٹ چڑھ کر مدت پوری کئے بغیر معزول ہوتی رہی۔ پھر قرضوں پر قائم عالمی سرمایہ داری کے مصنوعی عروج کے دوران مشرف کی نیم آمریت نیم جمہوریت مسلط کی گئی۔ اس دور کی نسبتاً بلند معاشی شرح نمو کے ثمرات انتہائی غیر ہموار تھے جس سے سماجی تضادات کم ہونے کی بجائے زیادہ شدید ہوگئے۔
موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں سامراج کے گھاگ پالیسی سازوں نے ’’مصالحت‘‘ (Reconciliation) کا فارمولا ایجاد کیا جس کا مقصد مخلوط حکومتوں کی تشکیل تھا۔ پیپلز پارٹی کا پچھلا اقتداراسی فارمولے کی پیداوار تھا جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتیں بیک وقت حکومت اور اپوزیشن میں موجود تھیں۔ نتیجہ معیشت پربد ترین کرپشن کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی شکل میں برآمد ہوا اور بعض اوقات تو سامراجی آقا بھی بدعنوانی کی اس شدت پر دانت پیستے دکھائی دئیے۔ استحصالی نظام کو چلانے کا یہ سیاسی طریقہ بھی ناکام ثابت ہوا جس کے بعد حکمران طبقے کے حاوی دھڑے ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کے قیام پر مصر دکھائی دئیے تاکہ مرتی ہوئی سرمایہ داری میں جان ڈالنے کے لئے جارحانہ اقدامات کئے جاسکیں۔ لیکن عالمی سطح پر بالعموم اور پاکستان جیسے ممالک میں بالخصوص، سرمایہ دارانہ نظام اس حد تک گل سڑ چکا ہے کہ کسی بھی سیاسی اور معاشی طریقے سے اس کی بحالی اور صحت یابی ناممکن ہے۔
یہ لانگ مارچ کرنے والے کوئی مسیحا نہیں ہیں۔ عمران خان دائیں بازو کا ایک سیاستدان ہے جس کا ’’نظریہ‘‘ مذہبی اور قومی شاونزم پر مشتمل ہے۔ اس کی باتیں اور دعوے معقول سوچ رکھنے والے کسی بھی انسان کے لئے ویسے ہی ناقابل فہم ہیں۔ تحریک انصاف قدامت پرستی، لبرل ازم اور کنفیوژن کا ایک عجیب ملغوبہ ہے جس کی قیادت میں بیٹھے جاگیر دار اور سرمایہ دار آزاد منڈی کی معیشت، بیرونی سرمایہ کاری اور نیولبرل سرمایہ داری کے علمبردار ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے لئے خان صاحب کی بے صبری بے قابو ہو چکی ہے۔ ان کی تقاریر میں عام آدمی کے مسائل اور روز مرہ کی ذلتوں کا کوئی تذکرہ بہر حال نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے معاشی نظام میں سے کرپشن کے خاتمے کے وعدے کر رہے ہیں جو چلتا اور پلتا ہی کرپشن پر ہے۔
دوسری طرف ایک نیم حکیم مولوی ہے جس نے سیاست، تصوف، پیری مریدی اور اصلاح پسندی کا ایک ایسا ملغوبہ تیار کر رکھا ہے جو شاید تحریک انصاف سے بھی زیادہ عجیب و غریب ہے۔ طاہر القادری کے نسخے کا ہر جزو دوسرے کی نفی کرتا ہے۔ ایک دائرہ ہے جس میں موصوف خود بھی گھوم رہے ہیں اور اپنے مریدوں کو بھی گھما رہے ہیں۔ عمران خان کے برعکس قادری اگرچہ غربت، بیروزگاری اور محرومی وغیرہ کی بات کرتا ہے لیکن یہ لفاظی، عوام کو نجات کا راستہ دکھانے والے کسی ٹھوس معاشی وسیاسی پروگرام اور لائحہ عمل سے عاری ہے۔ دائیں بازو کے یہ دونوں ’’انقلابی‘‘ جس چیز سے شجر ممنوعہ کی طرح دور بھاگتے ہیں وہ طبقاتی تضاد اور جدوجہد کا تذکرہ اور تناظر ہے۔
قادری کے ’’انقلاب مارچ‘‘ اور عمران خان کے ’’آزادی‘‘ مارچ کا ادغام اسلام آباد پہنچنے کے بعد متوقع ہے۔ دو ’’لانگ‘‘ مارچوں کے اس آمیزے میں سے کیا برآمد ہو گا اور سچائی سے خالی یہ جذبات کب تک قائم رہ سکیں گے، یہ وقت ہی بتائے گا۔ عمران خان اور طاہرالقادی، دونوں کی سیاسی اور سماجی بنیادیں درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے پر مشتمل ہیں لیکن معیشت کا بحران درمیانے طبقے کی اپنی معاشی بنیادوں کو ختم کرتا چلا جارہا ہے۔ ڈوبتے کاروبار، ختم ہوتی ہوئی وائٹ کالر بلیو کالر نوکریوں، گرتا ہوا معیار زندگی اور سیاسی خلا کے ان ادوار میں یہ طبقہ بھونڈے سے بھونڈے سیاسی مداریوں کی طرف بھی متوجہ ہوجاتا ہے۔
پیپلز پارٹی قیادت نواز حکومت کی خدمت اور حمایت میں منصورہ تک جاپہنچی ہے۔ یہ لوگ اس بنیادی اور آخری تضاد کو ہی ختم کر رہے ہیں جو ان کے سیاسی وجود ضمانت ہے۔ زرداری ’’مصالحت کی سیاست‘‘ کی مجرمانہ تھیوری کا سب سے بڑا علمبردار بنا بیٹھا ہے۔ پارٹی کو اپنے خون سے سینچنے والے عوام کو اس جابرانہ نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ روایتی قیادت نے سرمایہ داری کی ذلت کو ہی حتمی اور آخری منزل قرار دے دیا ہے لیکن محنت کش طبقہ اس محرومی اور استحصال کو کبھی اپنا مقدر تسلیم نہیں کرے گا۔ طبقاتی تضاد نہ صرف موجود ہے بلکہ سلگ رہا ہے۔ حکمران طبقے، اس کی ریاست اور نظام کے ساتھ ساتھ ’’مصالحت‘‘ کے نام پر عوام کے زخموں کا سودا کرنے والوں اور ’’انقلاب‘‘ کے نام پر ان زخموں پر نمک چھڑکنے والوں کے خلاف بھی نفرت بھڑک رہی ہے۔ یہ لاوا پھٹے گا۔ ایک انقلابی تحریک میں محنت کشوں کو اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہ اپنی فیکٹریوں، اداروں اور کھیتوں میں ہی اس نظام کا پہیہ جام کر دیں گے۔ 1968-69ء میں یہی ہوا تھا۔ اکیسویں صدی کی نئی نسل اس انقلاب کی روایات کو بلند پیمانے پر زندہ کرے گی!
متعلقہ:
انقلاب آخر ہوتا کیا ہے؟
کیسا آزادی مارچ؟
یہ کیا ہو رہا ہے؟
لانگ مارچ اور ’’تبدیلی‘‘ کی حقیقت
ویڈیو: کیا تبدیلی کا نعرہ لگانے والی سیاسی پارٹیاں کوئی تبدیلی لا سکتی ہیں؟
ویڈیو: کیا تحریک انصاف حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے؟