ایم کیو ایم: دولت کی سیاست کا تشدد

[تحریر: لال خان]
ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین کے بارے میں بی بی سی کی ڈاکومنٹری فلم کی اشاعت سے پاکستان، خاص کر کراچی میں ایم کیو ایم کے سیاسی کردارکے بارے میں بحث شدت اختیار کر گئی ہے۔ اس ڈاکومنٹری فلم کے مطابق عمران فاروق قتل کیس کے سلسلے میں سکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے الطاف حسین کے گھر پر مارے جانے والے چھاپوں اور تلاشی کے دوران لاکھوں پاؤنڈ کیش برآمد کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے اینکر پرسن نے اس ’’سیاسی جماعت‘‘ کی سرگرمیوں اور مالیاتی معاملات پر کئی سوالات اٹھائے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے سیاسی ناقدین الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت ہمیشہ کی طرح ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ’’بین الاقوامی سازش‘‘ قرار دے رہی ہے اور اسے طالبان کی ایما پر ایم کیو ایم کے میڈیا ٹرائل سے تعبیر کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم باقاعدہ طور پر 1984ء میں ’’مہاجر قومی مومنٹ‘‘ کے نام سے معرض وجود میں آئی تھی۔ 1947ء کی تقسیم کے بعد 90 لاکھ سے زائد مہاجرین اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور وسطی ہندوستان کے مختلف صوبوں سے سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے جن کی اکثریت کراچی اور سندھ کے جنوبی علاقوں میں مقیم ہوگئی۔ مہاجرین میں پڑھے لکھے لوگوں کی بڑی تعداد شامل تھی لہٰذا اردو بولنے والے اس نومولود ریاست کی افسر شاہی میں بڑی آسامیوں پر فائز ہوئے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان بھی مہاجر تھے۔ اسی طرح کراچی کے کاروبار (جو آج کی طرح اس وقت بھی بڑا کاروباری مرکز تھا) میں بھی مہاجرین کا کردار بڑھتا چلا گیا۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں معاشی و اقتصادی بحران بڑھتا چلا گیا جسکی وجہ سے ملازمتیں اور وسائل آبادی کی نسبت کم پڑتے چلے گئے۔ 1958ء کے بعد ایوب آمریت کے دور میں مغرب میں جنگ کے بعد کے معاشی ابھار اور امریکی امداد کے باعث صنعت، انفراسٹرکچر اور دوسرے شعبوں میں ترقی تو ہوئی لیکن عوام اس ترقی کے ثمرات سے مستفید نہ ہوسکے، الٹا محرومی اور طبقاتی خلیج بڑھتی رہی جس سے سماجی تضادات شدت اختیار کر گئے۔ انہی تضادات نے پھٹ کر 1968-69ء میں محنت کشوں اور نوجوانوں کے انقلاب کو جنم دیا لیکن انقلابی قیادت کے فقدان کے باعث اس انقلاب کی پسپائی سماج کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس انقلابی تحریک نے پاکستان کے محنت کشوں کو رنگ، نسل، مذہب، فرقے، ذات پات اور قومیتوں کے تعصبات کے آزاد کر کے طبقاتی بنیادوں پر یکجا کیا تھا، لیکن انقلابی ریلے کی پسپائی کے بعد طبقاتی یکجہتی بکھرنا شروع ہو گئی اور رد انقلابی عہد میں یہ تمام تر تعصبات بلند پیمانے پر سامنے آئے۔ 1970ء کی دہائی میں کوٹہ سسٹم کا اجراء اس بات کا ثبوت تھا کہ بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام عوام کو ترقی کے مساوی مواقع اور ضروریات زندگی فراہم کرنے سے قاصر ہو چکا ہے۔
1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستانی تاریخ کے سیاہ ترین عہد کا آغاز ہوا۔ پاکستان کے محنت کش عوام سے 1968-69ء کی سرکشی اور بغاوت کا بدترین انتقام لیا گیا۔ ضیاالحق کی آمریت کو سب سے بڑا خطرہ محنت کشوں کی ایک اور تحریک سے تھا۔ حکمران طبقے کے مفادات کے تحفظ اور فوجی آمریت کو طول دینے کے لئے ریاست کی جانب سے محنت کشوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ قومیتی، لسانی اور فرقہ وارانہ تضادات کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت موضوعی طور پر ہوا دی گئی جس سے پہلے نہ دیکھی گئی منافرتوں نے جنم لیا۔ 1967ء سے 1972ء تک کراچی کے محنت کش عوام، جو تمام تر تعصبات سے مبرا ہو کر طبقاتی بنیادوں پر جڑے ہوئے تھے اب انہی تعصبات کی بھینٹ چڑھنے لگے۔ یہ نفرتیں آج تک پاکستانی عوام کو تاراج کرہی ہیں اور قتل و غارت گری بڑھتی چلی جارہی ہے۔

انیس سو نوے کے عام انتخابات میں ’’سیکولر‘‘ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کے خلاف آئی ایس آئی کی طرف سے قائم کردہ دائیں بازہ کے ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ زیر نظر تصویر میں نواز شریف اور الطاف حسین ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں

ضیاالحق کے عہد میں مہاجر عوام میں پائے جانے والے محرومی کے جذبات کو استعمال کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے لسانی سیاست کو پروان چڑھایا لیکن محرومی کے اس نظام میں لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر کسی قوم کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ نظام کو بدلنے کے لئے محروم طبقات کی طبقاتی جدوجہد لازمی ہوتی ہے۔ پاکستان میں بائیں بازو کی تنزلی، نظریاتی غلطیوں اور لسانیت سے مبرا ہو کر محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر جوڑنے میں ناکامی کی وجہ سے جو سیاسی خلا پیدا ہوا اسے ریاست کی سرپرستی میں فرقہ واریت اور لسانیت کی سیاست نے پر کرنا شروع کر دیا۔
ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور اس طرح کی دوسری سیاسی جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ اور مالیاتی سرمائے کی تابع تھیں۔ ابتدا میں انہیں بڑے کاروباری حضرات کی فنڈنگ حاصل تھی لیکن پاکستان سرمایہ داری کے مسلسل زوال کے باعث قانونی یا سفید معیشت اور کاروبار سکڑنے لگے جس سے غیر سرکاری یا کالی معیشت کا تیز ترین پھیلاؤ ہوا۔ 1978ء میں کالی معیشت، کل ملکی معیشت کا صرف 5فیصد تھی جو آج 73 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ضیاالحق کے دور میں افغان ڈالر جہاد کی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سی آئی اے کی پشت پناہی سے کالے دھن کو پروان چڑھایا گیا۔ سماج سے تیزی سے پھیلتے ہوئے کالے دھن کے کینسر کی سیاست اور ریاست میں سرائیت ناگزیر تھی چنانچہ ریاست اندر سے کھوکھلی ہوتی گئی جبکہ سیاست نظریات کی بجائے مکمل طور پر مالیاتی سرمائے کے گرد گھومنے لگی۔ مذہبی جنونیت اور دہشت گردی کی قوت محرکہ اگرچہ یہی کالا دھن ہے لیکن ’غیر مذہبی‘ سیاسی پارٹیوں میں بھی اس کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ کالے دھن کے اس کینسر کا حجم قانونی ملکی معیشت کے جسم سے کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ یہ کالی معیشت غیر قانونی کاروبار، منشیات، اغوا برائے تاوان، جرائم، بھتہ خوری، کرپشن، سمگلنگ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اس کھیل میں سرکاری و غیر سرکاری کھلاڑی، سب شامل ہیں۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ مختلف سیاسی اور غیر سیاسی گروہوں، دھڑوں اور مافیاؤں کے درمیان کالے دھن کی حصہ داریوں پر پیدا ہونے والے تنازعات خونریزی اور تشدد کو جنم دیتے ہیں۔ لوٹ مار کے یہ تنازعات اور لڑائیاں آج سیاست پر حاوی ہیں۔ انتخابی نتائج سے لے کر حکومتی ’قانون سازیاں‘اور ریاستی پالیسیاں، سب اسی کالے دھن اورلوٹ مار کے گرد گھومتا ہے۔
ایم کیو ایم گزشتہ تقریباً 20 سال سے مسلسل اقتدار میں ہے لیکن اس عرصے میں کراچی کے عوام کی زندگی بدتر ہی ہوئی ہے۔ عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے جس سے ایم کیو ایم کی سماجی بنیادیں کسی حد تک کمزور ہوئی ہیں۔ ایم کیو ایم کا وجود مسلسل اقتدار میں رہنے سے مشروط ہے۔ دوسری طرف موجودہ کیفیت میں ایم کیو ایم کے داخلی تضادات شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ دھڑے بندیاں تو پہلے سے موجود تھیں لیکن معاشی و سماجی بحران کی شدت اور مہاجر عوام کی حمایت میں کمی آنے کی وجہ سے داخلی لڑائیاں تیز ہوگئی ہیں۔
اس نظام کے بحران میں کوئی کمی نہیں آنے والی اور اس میں رہتے ہوئے تشدد اور خونریزی میں اضافہ ہوگا۔ جب تک علامات کی بجائے مرض کا علاج نہیں کیا جائے گالسانی، قومیتی اور فرقہ وارانہ تعصبات کراچی اور پاکستان کے عوام کو تاراج کرتے رہیں گے۔ انتظامی اصلاحات، قانون سازیاں اور اس طرح کے دوسرے جعلی اقدامات سے کوئی بہتری نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کی مافیا سرمایہ داری کا کینسر اب اسپرین کی گولیوں سے ٹھیک ہونے والا نہیں۔ اس کے لئے جراحی کی ضرورت ہے اور اس جراحی کا اوزار صرف سوشلسٹ انقلاب ہے۔
کراچی پاکستان کے پرولتاریہ کا گڑھ ہے۔ اسے روسی انقلاب کے مرکز پیٹروگراڈ سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ کراچی کو جلانے والے تمام عذابوں سے چھٹکارا پانے کے لئے محنت کشوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ جس دن محنت کش طبقے کو اپنی طاقت کا احساس ہوگیا اس دن ان کے شعور میں برق رفتار تبدیلی جنم لے گی۔ آگے کی جانب شعور کی یہی جست اس تحریک کو جنم دے گی جو کالے دھن کی معیشت پر مبنی اس مجرمانہ سیاست کو اکھاڑ کر سماجی ارتقا کو آگے بڑھائے گی، کراچی ایک بار پھر روشن ہو کر خوشحالی اور امن و آشتی کا گہوارہ بنے گا۔