کرکٹ کی افیون

[تحریر: لال خان]
ٹی ٹونٹی فائنل میں بھارت کی شکست کے بعد پورے ہندوستان میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ ’’فائنل کتنے میں بکا ہے؟‘‘ عوام کے جذبات اور میچ فکس ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر، ایک بات یقینی ہے کہ اس ایک میچ سے بڑے جواریوں اور سٹہ بازوں نے اربوں کمائے ہوں گے۔ کرکٹ کی یہ ہار اور پیسے کی جیت گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
ہندوستان کے عوام کو نفسیاتی طور پر لاغر رکھنے والی افیون ’’جمہوریت، کرکٹ اور قومی شاونزم‘‘ پر مشتمل ہے۔ افریقہ سے زیادہ غربت برصغیر میں پائی جاتی ہے۔ دنیا کی آدھی غربت اس خطے میں بسنے والی کرہ ارض کی ایک چوتھائی آبادی میں پلتی ہے۔ اتنی ذلتوں کے باوجود بھی یہاں کے عوام ایک طویل عرصے سے کسی بڑی انقلابی تحریک میں نہیں ابھرے ہیں۔ چھوٹی بغاوتیں ضرور ہوئی ہیں۔ مثلاً گزشتہ عرصے میں بنگلہ دیش میں درجنوں عام ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ بھارت میں کاروں کی صنعت کے مزدوروں سے لے کر ائیر انڈیا کے پائیلٹوں تک نے ہڑتالیں کی ہیں۔ پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کے محنت کشوں سے لے کر نوجوان نرسز اور ڈاکٹروں نے اپنے حقوق کے لئے کامیاب جدوجہد کی ہے۔ لیکن بڑے پیمانے پر انقلابی تحریک برپانہ ہونے کی وجوہات میں ٹریڈ یونین قیادت کی مفاد پرستی اور مصالحت کے ساتھ ساتھ برصغیر کے حکمران طبقات اور کارپوریٹ میڈیا کی جانب سے سماج پر مسلط کی جانے والی دانش، ثقافت اور نان ایشوز بھی شامل ہیں۔ حکمران طبقے کی کوشش ہوتی ہے کہ حقیقی مسائل پر عوام کی توجہ کو مسلسل نان ایشوز کے ذریعے زائل کیا جاتا رہے۔ اس سلسلے میں کرکٹ برصغیر کے حکمرانوں اور ریاستوں کا بڑا ہتھیار بن گیا ہے۔
قدیم روم کے شہنشاہوں کا وطیرہ تھا کہ جب سماج میں بھوک بڑھ جاتی تھی تو عوام کو اناج دینے کی بجائے کلازیم میں بھوکے شیروں کے سامنے غلاموں کو پھینک کر تماشا کروایا جاتا تھا۔ آج کرکٹ کا کردار بھی اس تماشے سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پچھلے ایک سال سے مسلسل سیاسی عدم استحکام اور سماجی خلفشار جاری ہے لیکن اسی صورتحال میں ایک کے بعد دوسرا ٹورنامنٹ بھی منعقد ہورہا ہے۔ محنت کش عوام غربت اور استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔ گارمنٹ فیکٹریاں اذیت خانوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ غذائی قلت، بے روزگاری اور عصمت فروشی معمول بن چکی ہے۔ لیکن حکومت کھیل تماشے کروانے میں مصروف ہے۔ حالیہ انتخابات کے یکطرفہ نتائج کے بعد عوامی لیگ کی حکومت کو بڑی عوامی تحریک کا خطرہ لاحق تھا۔ چنانچہ بڑی عیاری سے انہوں نے نازک وقت پر درمیانے طبقے کے لا ابالی پن کو استعمال کرتے ہوئے پوری ’’قوم‘‘ کو کرکٹ کے دھندے پر لگا دیا ہے۔

ضیاالحق اور عمران خان

پاکستان میں کرکٹ کا سیاسی و سفارتی استعمال ضیاالحق کے دور میں شروع ہوا تھا۔ ضیاآمریت کے خلاف عوام کی نفرت مختلف سطحوں پر چھوٹی بڑی بغاوتوں کی شکل میں مسلسل اپنا اظہار کرتی رہی۔ عوام کے غصے اور توجہ کا رخ موڑنے کے لئے ضیاالحق کے گھاگ مشیر، جرنل مجیب الرحمٰن نے کرکٹ کے سیاسی استعمال کی پالیسی وضع کی تھی۔ مذہب، قوم پرستی اور لسانی تعصبات کے ساتھ ساتھ محب الوطنی کا جنون طاری رکھنے کے لئے کرکٹ کا یہ استعمال آج تک جاری ہے۔ سماجی گھٹن، ثقافتی گراوٹ اور معاشی تنگدستی نے ایک ایک کر کے عوام سے صحت مندانہ تفریح کے تمام ذرائع چھین لئے ہیں۔ لوگ صرف مساجد، درگاہوں یا جنازوں میں ہی اکٹھے ہوپاتے ہیں۔ وہاں بھی بم دھماکے اور دہشت گردی کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ مذہب کے علاوہ ہر دوسری ثقافتی یا تہذیبی سرگرمی صرف بالادست یا بالائی درمیانے طبقے کو ہی میسر ہے۔ فلم انڈسٹری برباد اور سینما کلچر ختم ہوگیا ہے۔ میوزک، ادب اور دوسرے فنون لطیفہ مہنگے ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مسخ اور بھدے ہوگئے ہیں۔ ان میں نہ تو دلکشی اور کشش باقی رہی ہے اور نہ ہی لوگوں کی جیب میں ان تک رسائی کے پیسے۔ ایسے میں لے دے کے کرکٹ ہی بچی ہے جسے میڈیا نے زندگی موت کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ ہر پروگرام، ہر ہیڈلائن میں کرکٹ ہی کرکٹ ہے۔ ایک جنگ کا سا سماں پیدا کردیا جاتا ہے۔ ایک ہاتھ میں تسبیح، دوسرے میں ریمورٹ کنٹرول اور زبان پر گالیوں کے مناظر ہر گھر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ بیماری درمیانے طبقے سے کسی حد تک محنت کش طبقے میں بھی سرائیت کرگئی ہے کیونکہ جمود کے عہد میں محنت کشوں پر بھی درمیانے اور حکمران طبقے کی نفسیات مسلط رہتی ہے۔
جہاں کرکٹ کے ذریعے عوام کا نفسیاتی بلادکار کیا جارہا ہے وہاں اس کھیل کے ساتھ بھی پچھلی پانچ دہائیوں میں بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ 1970ء کی دہائی تک کرکٹ کی اپنی ثقافت اور معیار تھے۔ یہ کھیل تماشائیوں کو ذہنی تناؤ اور بلند فشار خون کی بجائے سکون اور آسودگی دیتا تھا۔ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ اکثر ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوجایا کرتے تھے لیکن اس وقت شاید ’’ہار جیت ‘‘ کچھ زیادہ معنی بھی نہیں رکھتی تھی۔ کرکٹ کو جنگ و جدل کی بجائے ایک نفیس کھیل سمجھا جاتا تھا۔ شائقین کھلاڑیوں کے ہنر، تکنیک اور کھیلنے کے انفرادی سٹائل سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ کھلاڑی بھی مہذب، شائستہ اور پرتحمل تھے۔ پیسے اور شہرت کے جنون پر شوق اور سپورٹس مین سپرٹ حاوی تھا۔ میچ فکسنگ، جوے اور سٹے کا تصور تک نہیں تھا۔ اس وقت تک کرکٹ کمرشلائز نہیں ہوا تھا۔
1948ء سے 1974ء تک قائم رہنے والے عالمی سرمایہ داری کے معاشی عروج کے بہت سے سماجی اور ثقافتی مضمرات بھی تھے۔ پاکستان جیسے ممالک میں اگرچہ اس معاشی عروج کے ثانوی نتائج ہی پہنچے اور انڈسٹرلائزیشن سے ہموار اور صحت مند سماجی ترقی نہ ہوسکی لیکن آج کی نسبت عدم استحکام اور افرا تفری بہت کم تھی۔ لیکن 1974ء کے معاشی بحران کے بعد نجکاری، ٹریکل ڈاؤن اکانومی اور آزاد منڈی کا جو وحشیانہ معاشی ماڈل اپنایا گیا اس کے نتیجے میں سماج کے ہر شعبے میں پیسے اور سرمائے کا زہر سرائیت کرگیا۔ فلم، ثقافت، صحافت، مذہب، سیاست اور کھیل کی اقدار اور معیار ہی بدل گئے۔ لالچ، ہوس اور منافع کی اس شدت نے ہر سماجی سرگرمی کو سرمائے کا مطیع بنا دیا۔ آج کرکٹ بھی ایک کاروبار بن گیا ہے۔ پیشہ ور جواریوں سے لے کر سیاست دان، ریاستی اہلکاراور فنکار، اسے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کی صنعت کی طور پر استعمال کررہے ہیں۔
کرکٹ کی باقاعدہ کمرشلائزیشن 1970ء کی دہائی میں شروع ہوئی تھی۔ دن ڈے کرکٹ کا آغاز آسٹریلیا کے بڑے سرمایہ دارکیری پیکر نے کروایا تھا۔ پہلے پہل آئی سی سی نے اس رجحان کو روکنے کی کوشش کی لیکن سرمائے نے اس ادارے کو بھی ہڑپ کرلیا۔ ون ڈے کے بعد اس کھیل کو مزید منافع بخش بنانے کے لئے T-20 کا آغاز کیا گیا۔ پھر آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹ شروع ہوئے جہاں طوائفوں کی طرح کھلاڑیوں کی بولیاں لگائی جانے لگیں۔ دولت کی ہوس نے سماج کے ہر شعبے کی طرح کرکٹ کو بھی برباد کر دیا۔ حالیہ دنوں میں ’’بگ تھری‘‘ کا معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح کھیل دولت کے شکنجے میں جکڑا جاچکا ہے۔
سیاسی حوالے سے بات کی جائے تو برصغیر کی ریاستیں کرکٹ کو قومی شاونزم ابھارنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ اس خطے کے حکمران طبقات چونکہ یورپ کی طرز پر جدید اور یکجا قومی ریاست تعمیر نہیں کر سکے ہیں لہٰذا عوام میں ’’ایک قوم‘‘ ہونے کا تاثر پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ جیت کی صورت میں بدعنوانی کے ریکارڈ قائم کرنے والے مافیا سرمایہ دار اپنی ڈاکہ زنی پر ’’قوم سے محبت‘‘ کا غلاف چڑھا کر کھلاڑیوں کے لئے انعامات کا اعلان کرتے ہیں۔ ہار کی صورت میں لعن طعن، گالی گلوچ، بیہودہ الزامات اور لایعنی تبصروں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
دولت میں مسلسل اضافے کا جنون انسان کو انتشار، ذلت اور خودغرضی کے جس راستے پر لے آیا ہے وہاں سے واپسی اس نظام کے زیر اثر ممکن نہیں ہے۔ انسانیت کے ساتھ کرکٹ اور کھیل بھی اپنی بربادی پر ماتم کناں ہے۔ کرکٹ اور دوسری کھیلوں کو کاروبار اور سٹہ بازی کی زنجیروں سے آزاد کر کے صحت مند تفریح بنانے کی اولین شرط اس نظام زر سے نجات ہے۔

متعلقہ:
بے شرم حکمرانوں کے واہیات تماشے