پاکستان: موت کا جمہوری رقص

[تحریر: پارس جان،   8  مارچ  2013ء]

سنا ہے کہ اگلے وقتوں میں نوحہ گری ایک باقاعدہ پیشہ ہوا کرتا تھا۔ کسی بھی افسوسناک واقعے پرنوحہ گروں کی پیشہ وارانہ خدمات حاصل کی جاسکتی تھیں۔ یہ پیشہ تو زمانے کے چہرے کی سلوٹوں میں کہیں دفن ہو گیا مگر اس کی باقیات آج بھی مخفی انداز میں رسو م و رواج کے لبادے میں کارفرما ہیں مگر ان کا دائرہ کار انتہائی محدود ہو گیا ہے۔ آج اگر اس پیشے کو دوبارہ رائج کر د یا جائے تو شاید پاکستان میں بیروزگاری کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں کہاں اس کی طلب موجود نہیں ؟ حادثے اور سانحے لمحات کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہے ہیں۔ لوگ ہنستے تو ہیں مگر اس ہنسی میں تسکین نہیں۔ رونے سے بھی کہاں غم غلط ہوتا ہے۔ زندگیاں بے لذت گناہوں کی طرح سرزد ہوتی جا رہی ہیں۔ لفظوں میں وہ شکتی کہاں کہ اس اذیت کو بیان کر سکیں جس سے اکثریت گزر رہی ہے۔ زبانوں کا دامن چھوٹا پڑ گیا ہے۔ کر ب و آلام کی غمازی کے لیے جتنے بھی لفظ اور محاورے مستعمل ہیں وہ اپنی افادیت سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ سانحہ کہا ہی معمول سے ہٹ کر ہونے والے کسی دردناک واقعے کو جاتا ہے لیکن جس سماج میں یہ معمول بن جائے اس کا تناظر انتہائی پر پیچ اور گنجھلک ہو جاتا ہے۔
کراچی میں ابھی مخصوص زبانیں بولنے کے نا قابلِ معافی جرم کی پاداش میں لاشیں گرنے کا سلسلہ تھما ہی کب تھا کہ اب کسی مخصوص عقیدے اور مسلک سے تعلق رکھنے اور پھر اس کا جزیہ بھی ادا نہ کرنے کی بنا پر بربریت کا بازار گرم کر دیا گیا ہے۔ انفرادی طور پر ٹارگٹ ہونے والے افراد کی تعداد تو مسلسل بڑھتی جا ہی رہی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بڑے قتلِ عام کے ہولناک واقعات بھی ایک تسلسل کے ساتھ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عرب کے وحشی بدو اور قدیم پسماندہ سماجوں میں بھی معاشی سرگرمی کے مراکز کو شر انگیزی اور قتل و غارت سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی مگرپاکستانی سرمایہ داری کا بحران اتنا بے قابو ہو چکا ہے کہ وہ اپنی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو ہی توڑتے چلے جا رہے ہیں۔ کروڑوں ڈالر تیزی سے ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ صنعتی اور تجارتی سرگرمی تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔ پھر اس حکمران طبقے کے سب سے لاڈلے مسخرے سے 45 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کا شوشہ ریلیز کروایا جاتا ہے تاکہ اعتماد کی فضا بنا کر سرمائے کے انخلا کو روکا جا سکے مگر سرمائے کی اپنی منطق اور کارستانی ہوتی ہے اور پھر اس جھوٹ کا پردہ فاش ہونے پر بھی کسی میں تھوڑا سا شرمندہ ہونے کی اخلاقی جرات بھی تو نہیں۔ کراچی میں ہونے والے حالیہ واقعات کے بعد یہ مزید وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ معیشت کا وینٹی لیٹر بھی شدید خطرے میں ہے۔ سانحہ عباس ٹاؤن اور اس کے بعد سہراب گوٹھ میں ہونے والے جلاؤ گھیراؤ کے ردِ عمل میں مسلح گروپوں میں گھنٹوں جاری رہنے والا خونی تصادم اور رینجرز اور پولیس کا خاموش تماشائیوں کا کردار، یہ سب عوامل نیم خانہ جنگی کی ابتدائی علامات نہیں تو اور کیا ہیں۔ مگر اس کا تعلق محض کراچی کی سیاسی اور معاشی بنیادوں سے نہیں بلکہ یہ اس عمومی خلفشار کا ہی تسلسل ہے جو نہ صرف پورے ملک بلکہ سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا جا رہا ہے۔
جمہوریت کے معذرت خواہوں اور مڈل کلاس کے سستی شہرت یافتہ دانشوروں کی توقعات کے برعکس انتخابات، پارلیمانیت اور جمہوریت کے لیے اس ملک کے کسی بھی ایک حقیقی مسئلے کا حل نکالنا تو درکنار ان مسائل کا ادراک تک ممکن نہیں رہا۔ یہاں حکومتیں ہمیشہ سامراجی آقاؤں کی آشیر باد سے بنائی جاتی ہیں اور وہ اگر مناسب سمجھیں تو اس کے لیے انتخابات کا تکلف بھی برتتے رہے ہیں۔ اور جب بھی ان کو شک پڑتا تھا کہ جمہوریت کے ذریعے ان کے ایجنڈے کی تکمیل خطرے میں ہے تو وہ کسی بھی وفادار اور باصلاحیت جرنیل کو خدمت کا موقع دے دیا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ سارا عمل تشکیک کا شکار ہو چکا ہے کیونکہ با اثر اور متحارب فریقین کی تعداد اور ان کے کردار میں بے پناہ اضافہ ہو جانے کے باعث ایک تو امریکی کسی بھی سول قیادت پر مکمل طور پر مطمئن نہیں ہو پا رہے اور دوسرا فوج میں تضادات اس حد تک شدت اختیار کر گئے ہیں کہ اگر امریکی آشیر باد سے کوئی فوجی مہم جوئی کی بھی جاتی ہے تو یہ اندیشہ ہے کہ مخالف اور متحارب دھڑے کی طرف سے ناگزیر طور پر ہونے والی مزاحمت سے فوج ہی منقسم ہو جائے۔ اس لیے مختلف قوتوں کی انتخابات کروانے اور متحارب قوتوں کی انتخابات کو رکوانے کی بے صبری بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کر دیا گیاہے جو امریکہ نواز ریاستی دھڑے کی بڑی شکست ہے مگر اب گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد کے نتیجے میں امریکہ کی طرف سے پابندیاں لگائے جانے کے قوی امکانات ہیں جس سے معاشی بحران مشتعل ہو کر سماجی انتشار میں کئی گنا اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ خود ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں افراطِ زر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق  26 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔
یہ بھی کتنا بڑا سیاسی مضحکہ ہے کہ یہ سب اقدامات امریکہ کی چہیتی پیپلز پارٹی کی حکومت میں کیے جا رہے ہیں۔ بینظیر کے قتل کے بعد پانچ سالہ اقتدار نے پارٹی کے اندر دراڑوں کو واضح کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا بطور پارٹی تشخص اقتدار کے کچے دھاگے سے لٹک رہا ہے۔ اقتدار سے اگر پارٹی کو بے دخل ہو نا پڑتا ہے تو ٹوٹ پھوٹ ہو سکتی ہے۔ ناہید خان الگ پارٹی رجسٹر کروانے کی درخواست دے چکی ہے۔ لیکن زیادہ تر تضادات شخصی نوعیت کے ہیں۔ ریاست کے مختلف دھڑوں کے درمیان سیاسی رسہ کشی بھی پارٹی کے داخلی تناؤ میں مزید اضافے کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ پارٹی قیادت میں موجود تقریباً سارے ہی لیڈر ریاستی تعاون اور مفاہمت کے بغیر سیاست کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ قمرالزمان قائرہ کا یہ کہنا کہ گردنیں کٹوا کر بھی ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل کیا جائے گا، انتہائی معنی خیز ہے۔ مگر اس میں موصوف یہ بتانا بھول گئے کہ گردنیں کن کی کٹوائی جائیں گی۔ سانحہ عباس ٹاؤن اور کوئٹہ میں ہزاروں کا قتلِ عام یہ محض ٹریلر ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال گلگت، پشتونخواہ اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔ جن اتحادیوں کے ساتھ مل کر پابندیاں برداشت کرنے کا قائرہ صاحب عزم کر رہے ہیں، وہ خود شدید معاشی اور سیاسی تناؤ کا شکار ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک ڈوبتا ہوا آدمی اس سے بچانے کی توقع رکھے جس کو تیرنا ہی نہیں آتا۔ اس توقع سے اور تو کچھ نہیں ہوتا صرف ڈوبنے کی اذیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب زر خرید ملاؤں کے ذریعے ایک نئی سیاسی مفاہمت کی کوششیں جاری ہیں کہ کسی طور ایک اور مخلوط حکومت بنائی جا سکے، مگر سب مفاہمت کرنے والوں کی آستینوں میں خنجر ہیں۔ طالبان سے مذاکرات ہوں بھی تو کیسے اور کس کس سے؟ طالبان کے اندر گروہ بندی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ سارا عمل اب شاید کسی کے بھی مکمل طور پر کنٹرول میں نہیں رہا۔
اس ساری صورتحال میں امریکہ کی پالتو سعودی ریاست کا کردار انتہائی وحشیانہ شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ وہ جہاں شام میں بڑے پیمانے کے قتلِ عام میں ملوث ہیں وہاں پاکستان میں بھی ان کے پاس ایک انتہائی منظم مذہبی، سیاسی اور آخری تجزیے میں دہشت گردی کا فعال نیٹ ورک موجود ہے جس کی کالے دھن کے ساتھ ساتھ سعوی عرب کے ’پاک اور مقدس‘ سرمائے سے بھی گزشتہ 6 دہائیوں سے آبیاری کی جاتی رہی ہے اور وہ اب ریاست کی باقاعدہ نظریاتی اساس کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ تبلیغی جماعت کے لاکھوں کے اجتماعات اور ان کا ایک انتہائی فعال ملک گیر اور عالمی پیمانے پر بڑھتا ہو ا رجعتی نیٹ ورک سعودی سرمائے کے ہی مرہونِ منت ہے اور بظاہر غیر متشدد نظر آنے والی یہ جماعت در حقیقت وہ بنیادی نرسری ہے جہاں سے فرقہ واریت اور دہشت گردی کے لیے خام مال باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا استعمال بھی اب در پردہ سے آہستہ آہستہ واضح ہوتا جا رہا ہے۔ لشکرِ جھنگوی کوئی چوری چھپے یہ سارا خون خرابہ نہیں کر رہی بلکہ وہ باقاعدہ نہ صرف ان واقعات کی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں بلکہ آئندہ اس کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ بھی کر رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اب تو ’دفاعِ صحابہ‘ کے ساتھ ساتھ ’دفاعِ پاکستان ‘کا بوجھ بھی ان کے آہنی کندھوں پر آن پڑا ہے۔ پھر ضرورت پڑنے پر ان کے میڈیا بیانات بھی آتے رہتے ہیں اور ان سے دھرنے بھی کروائے جاتے ہیں۔ ایران بھی مخالف ریاستی دھڑے کی سرپرستی میں اپنے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو منظم کر رہا ہے اور ساتھ ہی سیاسی کیمپئین بھی جاری ہے تاکہ اپنے مالیاتی ایجنڈے کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن اس بہیمانہ لوٹ مار کی لڑائی کی قیمت معصوم اور بے گناہ لوگوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔
جماعتِ اسلامی کو کراچی بد امنی کیس میں ایجنسیوں نے بھتہ خوری اور قبضہ مافیا کی لڑائی سے لا تعلق قرار دے کر اس کے دامن کو بے داغ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ بوقتِ ضرورت عوامی نفرت کواس کے گرد مجتمع کر کے کراچی میں سیاسی توازن کو اپنے حق میں کیا جا سکے، لیکن جماعتِ اسلامی اس ہولناک کیفیت میں ابھی تک کوئی واضح موقف لینے میں ناکام رہی ہے۔ ان کے داخلی تضادات بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور وہ ان متحارب ریاستی دھڑوں میں کسی کا بھی اعتماد حاصل نہیں کر پارہے اور کسی پر اعتماد کر بھی نہیں پا رہے۔ دوسری طرف وہ بنگلہ دیش میں ان کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن اور سیاسی انتقام پر بھی چپ سادھے ہوئے ہیں کیونکہ بنگالیوں کے قتل اور زنا بالجبر میں ان کے ملوث ہونے کے چرچے عام ہوتے جا رہے ہیں اور جماعتِ اسلامی کے کارکنوں کا مورال مسلسل گرتا چلا جا رہا ہے۔ ایسی کیفیت میں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے خلاف جماعتِ اسلامی کا ٹرین مارچ ایک بے سود اور بھونڈا ہتھکنڈا ہے جسے کوئی بھی سنجیدہ نہیں لے رہا کیونکہ طالبان کے ساتھ ان کے معاشقے بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ محاورہ اب بہت تیزی سے عوامی شعور اور گفتگو کا حصہ بنتا جا رہا ہے کہ ’اس حمام میں سارے ہی ننگے ہیں‘۔
شومئی قسمت کہ اس جارحیت کے خلاف اگر کہیں کوئی شورو غل ہوتا بھی ہے تو اس میں سے جو سیاسی مطالبہ برآمد ہوتا ہے وہ خود انتہائی پژمردہ اور بوسیدہ ہے۔ کوئٹہ کے چار دن کے دھرنے اور اب عباس ٹاؤن سانحے کے بعد ہونے والے احتجاج کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ کراچی اور کوئٹہ کو فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ میر کی طرح یہ خواتین و حضرات بھی کتنے سادہ اور بے بس ہیں کہ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر مجبور ہیں جو ساری بیماری کی جڑ ہے۔ موت بانٹنے والوں سے زندگی کی بھیک مانگی جا رہی ہے۔ میڈیا، عدلیہ اور سیاستدانوں میں سے کون نہیں جانتا کہ اس دہشت گردی اور فرقہ واریت میں خفیہ ایجنسیاں اور سکیورٹی فورسز ہی ملوث ہیں مگر ان اداروں کے مفادات بھی کسی نہ کسی طرح اسی ریاستی کھلواڑ سے منسلک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمام صاحبان محض مگر مچھ کے آنسو بہانے پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہیں تاکہ ریاست اور اس کے اداروں پر عوامی اعتماد کو کسی صورت میں برقرار رکھا جا سکے تاکہ سارے نظام کے ہی منہدم ہونے کے خطرات ہی لاحق نہ ہو جائیں۔ گویا کہ سب اس لوٹ مار کو جاری تو رکھنا چاہتے ہیں لیکن کچھ حضرات کو ضرورت سے زیادہ خون بہہ جانے پر تحفظات ہوتے ہیں لیکن پھر ان تحفظات کی بھی اگر اچھی قیمت لگ جائے تو وہ اپنے آپ کو روک نہیں پاتے۔ اسی کو تو گرمیِ بازار کہا جاتا ہے۔
سرِ دست اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس کوئی اور حل بھی موجود نہیں۔ عمومی طور پر وہ ایک ریاست کے باشندے ہونے کے ناطے اسی ریاست سے امن اور بہتری کی توقع کر سکتے ہیں مگر غیر محسوس طریقے سے وہ آہستہ آہستہ ہی سہی اس ریاست کے حقیقی کردار کو بھی سمجھ اور پرکھ رہے ہیں۔ ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ ’فاشزم سرمایہ داری کا نچڑا ہواعرق ہوتا ہے ‘۔ محنت کش طبقے کی سیاسی بیگانگی کے ماحول میں مڈل کلاس کا اضطراب جزوی طور پر مذہبی، لسانی اور قومی بنیادوں پر اگر چہ کلاسیکی نہیں بلکہ نیو فاشسٹ طرز کی سیاست کو کچھ دورانیے کے لیے سیاسی افق پر مسلط رہنے کا موقع فراہم کر دیتا ہے۔ یہ سرمایہ داری کے بحران کے عہد کا عمومی سیاسی مظہر رہا ہے۔ حالیہ عہد میں قدیم نوآبادیاتی خطوں میں خاص طور پر یہ پراکسی جنگوں اور فسادات کی شکل میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ حکمران طبقات اور ان کے مختلف نمائندے بھی اس سارے عمل میں امن مذاکرات اور بیہودہ سمجھوتوں کے ناٹک اس لیے بھی کرتے ہیں کہ وہ خود بھی اس ساری خونریزی سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ بظاہر محض تماشائی بنے عوام اس اذیتناک تجربے سے سارے نظام کے بارے میں اہم ترین سبق حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ انتہائی متضاد اور متذبذب عمل ہوتا ہے اور بسا اوقات طوالت بھی اختیار کر جاتا ہے۔ اس قدر انتشار اور منقسم سماج کے اندر محض محنت کش طبقہ ہی وہ قوت ہے جو سماج کو اس بند گلی سے نکال سکتا ہے کیونکہ محنت کش طبقے کی نامیاتی ساخت ہی وہ واحد نسخہ کیمیا ہے جس کی بنیاد پر قومی، نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے اور جونہی محنت کش ایک طبقے کے طور پر متحرک ہوتے ہیں تو یہ تعصبات حیران کن انداز میں ایسے غائب ہو جاتے ہیں کہ جیسے کبھی یہ تھے ہی نہیں۔
2007 ء کی تحریک کی پسپائی کے بعد محنت کشوں کی ایک گھائل تحریک بار بار ابھرتی اور گرتی رہی ہے جس نے ایک گہرے سکوت اور مایوسی کو جنم دیا ہے۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کی قیادت کا انتہائی دائیں جانب جھکاؤ ہونے کی وجہ سے بھی گہری مایوسی نے جنم لیا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ گھناؤنا کردار ٹریڈ یونین اشرافیہ نے ادا کیا ہے۔ ساری قیادت چونکہ سرمایہ داری کو تاریخ کا اختتام تسلیم کر چکی ہے اس لیے وہ محنت کشوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے رہتے ہیں تاکہ ان کے بلبوتے پر اپنے لیے مزید مراعات حاصل کی جا سکیں لیکن تضاد یہ ہے کہ اب مراعات کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں ٹریڈ یونین قیادت کے پاس جب کوئی سیاسی متبادل ہی نہیں تو وہ محنت کشوں کی کیا خاک تربیت کریں گے۔ ایسے میں یہ ذمہ داری مارکس وادیوں کے اوپر عائد ہوتی ہے کہ وہ محنت کشوں کے ہر ادارے اور ہر پرت میں ان کی سیاسی تربیت کا سلسلہ شروع کریں۔ تاکہ جب محنت کش عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو اور وہ میدانِ عمل میں اتریں تو وہ بھٹک نہ جائیں بلکہ حتمی فتح تک ناقابلِ مصالحت لڑائی لڑ سکیں۔
محنت کش پیپلز پارٹی سے ناراض ضرور ہیں لیکن وہ نواز شریف کی قیادت میں بننے والے کسی بھی سیاسی اتحاد کو قبول نہیں کریں گے۔ اگر اس طرح کا کوئی حکومتی سیٹ اپ بنایا جاتا ہے تو ابتدا سے ہی اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے کوشش کی جائے گی کہ تمام مشکل معاشی فیصلے کرنے کے لیے عبوری حکومت کو وقت دیا جائے تاکہ بعد میں بننے والی حکومت ان کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دے۔ اسی دوران طاہر القادری کی طرز کے مزید ’سیاسی بلبلے ‘ بھی نمودار ہو سکتے ہیں جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر بھی شامل ہے۔ ریاست کے کچھ پالیسی ساز اسے اہم سیاسی مہرہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ اور یہ بھی کیا ہی زبردست اتفاق ہے کہ اس کی پارٹی کا نام ’تحریکِ تحفظِِ پاکستان‘ TTP رکھا گیا ہے، جو تحریکِ طالبان پاکستان TTP  کی برادر تنظیم ہی تو ہے۔ دونوں آپس میں ناقابلِ علیحدگی ہی تو ہیں۔ اسی لیے تو موصوف ہر وقت وزیرستان جانے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ لیکن یہ سیاسی بلبلے جتنی رفتار اور شدت سے ابھریں گے اس سے زیادہ تیزی سے غائب بھی ہو جائیں گے۔ تمام صورتوں میں محنت کشوں کے پاس سوائے مزاحمت کرنے کے کوئی اور راستہ نہیں ہو گا۔ پیپلز پارٹی کو بھی اگر پھر اقتدار میں لایا جائے گا تو شاید محنت کش تھوڑا سا اور انتظار کر لیں مگر بالآخر وہ اس روایت کے کوہ ہمالیہ سے بھی بڑے وزن کو جھٹکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چنانچہ کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کے یہ الفاظ پاکستانی ریاست اور ان کے سامراجی آقاؤں کی موجودہ کیفیت کی درست انداز میں غمازی کرتے ہیں کہ ’اب یہ جو کریں گے غلط کریں گے‘۔ ایک انتہائی زور آور سماجی اور سیاسی بھونچال ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔