پاکستان : طبل جنگ بجنے والا ہے

تحریر:جاوید ملک:-
لوڈشیڈنگ بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے 84 فیصد پاکستانی ذہنی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔عالمی کسادبازاری نے پاکستان کی’’بازاری‘‘ معیشت کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں۔پاکستان کے وزیر خزانہ لفظوں کے ہیر پھیر سے عوام کو خوش کرنے کے لیے جو بجٹ پیش کرنے جارہے ہیں اس کے متعلق یواین او کی طرف سے 10 مئی کو جاری کردہ پاکستانی معیشت کی وہ رپورٹ ایک نظر دیکھ لینی چاہیے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں ریاست کو چلانے کے لیے تمام سبسڈیز ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہو گا۔گویا آنے والا وقت محنت کشوں اور غریبوں کے لیے نئے عذاب لیکر آئے گا۔اس رپورٹ کے مطابق ’’پاکستان ان پہلے پانچ ممالک میں شامل ہے۔جہاں مستقبل قریب میں غذائی قلت خوفناک صورتحال اختیار کر سکتی ہے۔اس وقت 58 فیصد بچے غذائی کمی کا شکارہیں۔اور حکمران طبقے کے پاس موجودہ بحرانوں سے ریاست کو نکالنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔حالیہ بجٹ میں عوام کو خوش کرنے کے بعد حکومت کو ایک اور منی بجٹ لانا ہوگا جو معاشی طور پر پاکستان کی 80 فیصد آبادی کو بڑی اشتعال انگیزی (تحریک) پرمجبور کر سکتا ہے‘‘۔
پاکستان کے اندر بڑھتی مہنگائی روزانہ عوام پر بجلی گرانے کے اعلانات لوڈشیڈنگ بیروزگاری تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا فقدان اور برباد معیشت کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم استحکام داخلی سطح پر ہمیں اداروں کے ٹکراؤ کراچی میں مافیاز کی شکل اختیار کرجانے والے گروپوں میں لوٹ مار میں زیادہ حصہ پانے کے لیے جاری خون ریزی بلوچستان میں بدترین ریاستی تشدد خیبر پختونخواہ کی نیم خانہ جنگی کی کیفیت اور پنجاب کے اندر طلبہ اساتذہ ڈاکٹرز اور محکمہ بہبودآبادی سمیت ڈیڑھ درجن سے زائد اداروں کے اندر جاری احتجاج چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے کہ ریاست تیزی سے انہدام پذیر ہے اور کسی بھی ادارے پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں رہا۔اس حقیقت کا ہلکا سے اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت بلائی جانے والی انرجی کانفرنس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے رات آٹھ بجے دوکانیں بند کرانے سمیت بجلی کی بچت کے لیے جو اعلانات کیے تھے اس پر صوبائی حکومتوں نے آج تک اس لیے عمل نہیں کیا کہ انہیں اپنے احکامات پر عمل درآمد کیے جانے کا ایک فیصد بھی یقین نہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کے اندر لوڈشیڈنگ، بیروزگاری، ہوشربا مہنگائی اور اپنے پر سمیٹتی ریاست کا جو خوفناک نقشہ پیش کیا ہے اس کے مطابق ’’پاکستان میں 84 فیصد لوگ معاشی دباؤ کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح کے ذہنی مرض(پاگل پن )کا شکار ہوچکے ہیں۔ 87 فیصد لوگ اس طرز حکومت سے نفرت کرتے ہیں ثقافتی لحاظ سے لوگوں کے پست ہوتے معیار کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 78 فیصد لوگوں نے میوز ک سننے یا کسی دوسری ثقافتی سرگرمی میں حصہ لینا ہی ترک کر دیا ہے۔ مسلسل تناؤ اور غصے کی وجہ سے عوام کی اکثریت کے اندر قوت برداشت تیزی سے ختم ہوتی چلی جارہی ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے اندر52 فیصد لوگ بلڈ پریشر کا شکار ہیں گزشتہ چار سالوں کے دوران جہاں مہنگائی میں ایک سو بیس فیصد سے لے کر تین سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے وہاں بیروزگاری بھی تین گنا بڑھ گئی ہے۔صرف لاہور شہر میں ستاون ہزار نابالغ لڑکیاں جسم فروشی پر مجبور ہیں۔ گزشتہ چار سالوں کے اندر بجلی کھاد اور پٹرولیم کی قیمتوں میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے پاکستان میں آنے والی 87 فیصد سرمایہ کاری ہمیشہ کے لیے منہ موڑ چکی ہے اس عرصہ میں پاکستان کے بارہ ہزار سرمایہ دار جن میں سیاسی جماعتوں کے نامور لوگ بھی شامل ہیں اپنا سرمایہ اور بزنس بنگلہ دیش سمیت دوسرے ممالک میں منتقل کر چکے ہیں۔76 فیصد پاکستانی خود کو نہ صرف غیر محفوظ تصور کرتے ہیں بلکہ انہیں حالات کی بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔42 فیصد پاکستانی سال میں صرف ایک بار (عید الضحیٰ پر)چھوٹا گوشت کھا پاتے ہیں 26 فیصد خاندان مہینے میں ایک مرتبہ مرغی کا گوشت خریدنے کی اسطاعت رکھتے ہیں جبکہ غذائی قلت میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ‘‘۔
یہ ہے وہ صورتحال جو امریکہ میں تحریر ہونے والی ’’مفاہمتی سیاست‘‘ کے منافقانہ فلسفے کی روشنی میں بننے والی حکومتوں نے پیدا کر دی ہے۔اسی فلسفے کے تحت تمام پارٹیاں اقتدار میں بھی ہیں اور ایک دوسر ے پر تنقید بھی کرتی چلی جارہی ہیں۔ جو اقتدار سے باہر ہیں وہ کسی نہ کسی طرح اس نظام کا حصہ بننے کے لیے جعلی نعرے بازی کررہی ہیں۔ مگر عام آدمی کو اب کسی نعرے باز ی پر اس لیے یقین نہیں رہا کہ نعروں سے نہ تو پیٹ کی بھوک مٹتی ہے اور نہ ہی بیماری کا علاج ہوتا ہے۔غور سے دیکھا جائے تو پاکستان کے اندر ابھرنے والی چھوٹی چھوٹی تحریکیں کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے قطعی کنٹرول میں نہیں ہیں۔اس کا ہلکا سا اندازہ آئے روز لوڈشیڈنگ کے خلاف نکلنے والے جلوسوں کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے جس میں شامل لوگ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے دفتر نظر آتش کرتے چلے جاتے ہیں۔ان تحریکوں کا کردار خالصتاً طبقاتی ہے جو سرمایہ داری نظام کے خلاف منظم ہوتی چلی جارہی ہیں۔جس کا واضح ثبوت واپڈا کی نجکاری کے فیصلے پر پیپلز پارٹی کی حکومت کی پسپائی دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔
دراصل عوام کا نام لے کر مسلسل عوام کے مفادات کے خلاف حکمرانی کرنے والی اشرافیہ سیاسی شعو ر کے حوالے سے عوامی شعور سے بہت پیچھے رہ گئی ہے۔سرمایہ دار ماضی کے منافعوں کو برقرار رکھنے اور اس کی شرح منافع بڑھانے کی فکر میں غرق ہیں اور محنت کش طبقے کے سامنے اب اپنی اور آنے والی نسل کی بقاکا مسئلہ آن کھڑا ہوا ہے۔اس طبقے کو اب یا تو لڑنا ہے یا مرنا ہے۔طبل جنگ بجنے والا ہے۔

متعلقہ:

پاکستانی معیشت؛ خطرے کے الارم بجنے لگے

بجلی کا بحران اور جھٹکوں کی سیاست

پاکستان!جہنم ارضی سے سوشلسٹ انقلاب ہی چھٹکارا دلائے گا

،