عوامی بغاوت کا تناظر؟

[تحریر: لال خان]
پاکستان میں عوام کے سماجی و معاشی حالات جس قدر سنگین ہوتے جارہے ہیں اس کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نازک اور ہولناک کیفیت کب تک جاری رہ سکے گی؟ بیشتر تجزیہ نگار امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ریاست کی محدود ہوتی ہوئی رِٹ کے تناظر میں پاکستان کے ٹوٹنے کا اندیشہ ظاہر کررہے ہیں۔ ایسے میں حب الوطنی اور وطن پرستی کا درس دینے والے دائیں بازو کے دانش ور مسلسل حکمرانوں کے قصیدے پڑھ رہے ہیں یا پھر نان ایشوز کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ 19 کروڑ عوام کی اکثریت پر کیا بیت رہی ہے جن کی زندگیاں عذاب مسلسل بن چکی ہیں۔
اس بے یقینی اور نفسا نفسی کے عالم میں قیاس آرائیوں اور سازشی تھیوریوں کی جتنی بھرمار ہے، کسی خوشحال اور خوش آئند مستقبل کی امید یا تناظر اتنا ہی مخدوش ہے۔ کہیں طالبان کے قبضے کی باتیں ہورہی ہیں تو کہیں آمریت کے امکانات و خدشات پر لا امتناعی اور لا حاصل بحث ومباحثے جاری ہیں۔ یہاں 1947ء سے ہی ’’پاکستان کی سالمیت‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’اسلام کو خطرہ‘‘ لاحق رہا ہے۔ زندہ باد مردہ باد کی یہ سیاست آج بھی جاری ہے۔ کوئی نظریہ پاکستان کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے تو کوئی ’’جمہوریت کے تحفظ‘‘ کے بخار میں مبتلا ہے۔ حکمران طبقے کے کچھ ’’دانشور‘‘ اور سیاستدان ’’خونی انقلاب‘‘ سے نہ صرف خود ڈر رہے ہیں بلکہ عوام کو بھی ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک چیز جس پر حکمرانوں کے اہل دانش، مفکرین اور ماہرین مسلسل چپ سادھے ہوئے ہیں وہ کسی رجائیت سے خالی پاکستان کا معاشی تناظر ہے، معیشت کا یہی تاریک تناظر ان کے بانجھ سیاسی و سماجی تناظر کی بنیاد بھی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد یہاں کے نومولود حکمران طبقات مستقبل کے بارے میں کسی حد تک پر اعتماد اور پر امیدتھے (اگرچہ اس وقت بھی وہ مالی و سیاسی طور پر ایک ترقی یافتہ معاشرہ قائم کرنے کے اہل نہ تھے) لیکن آج کے حکمرانوں کے پاس نہ کوئی امیدہے، نہ کوئی آس اور نہ ہی مستقبل کا کوئی سیاسی، معاشی اور سماجی تناظر ہے۔ پھر بھی یہ اتنے ڈھیٹ ہیں کہ معاشرے پر بے دھڑک حکمرانی کئے جارہے ہیں۔ اپنی دولت میں تیز تر اضافے کی ہوس نے انہیں اندھا اور بہرہ کردیا ہے۔
لبرل اشرافیہ ہو یا حکمرانوں کے قدامت پرست اور مذہبی دھڑے، سب کے سب اسی نظام معیشت پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے استحصال کو جاری رکھنے پر متفق ہیں۔ لیکن اس نظام کا خلفشار اس اتفاق میں بھی خونریز نفاق کو جنم دے رہا ہے، چنانچہ حکمران طبقے اور ریاست کے مختلف دھڑے مختلف صورتوں میں ایک دوسرے سے برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ تاہم دائیں بازو کے تجزیہ نگار ہوں یا سابقہ بائیں بازو کے دانشور، سب کے سب محنت کش عوام کی اس استحصالی نظام کے خلاف انقلابی بغاوت کے تناظر کو شعوری طور دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ سٹالن ازم یا سوشل ڈیموکریسی پر یقین رکھنے والا نام نہاد بایاں بازو بھی محنت کش طبقے کی انقلابی جبلت اور اس کے سماجی کردار کو رد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ سول سوسائٹی کے کچھ ’’انقلابی‘‘ تو اس حد تک تھک ہار چکے ہیں کہ محنت کش طبقے کے وجود سے ہی انکاری ہو گئے ہیں۔ ان کی نظر میں طبقاتی کشمکش ختم ہوچکی ہے مارکسزم کے ’’پرانے نظریات‘‘ کو رد کر کے ’’عملیت پسندی‘‘ کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ نظریاتی طور پر بانجھ ہو چکے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ’’بائیں بازو‘‘ کے یہ دانشور آج کل ’’امن‘‘ اور طبقاتی مصالحت کا درس دے کر اپنی دانشوری جھاڑ رہے ہیں اور اپنی اوقات کے مطابق حکمران طبقے کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔
حکمرانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جب تک ممکن ہو چند ٹکڑے عوام کی طرف پھینک کر کسی بغاوت سے بچا جائے تاکہ ان کا استحصال جاری رکھا جا سکے۔ اصلاح پسندی اسے ہی کہتے ہیں۔ لیکن سرمایہ داری کا بحران جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس کے پیش نظر اصلاحات کی گنجائش بہت پہلے ہی ختم ہوچکی ہے۔ موم بتیوں جلا کر اصلاحات کے مطالبے کرنے والے سول سوسائٹی کے یہ ’’لبرل‘‘ اور ’’ترقی پسند‘‘ مفکرین شاید کسی اور سیارے میں رہتے ہیں۔ ان کے سامنے یورپ میں سکینڈنیویا سے لے کر بحرہ روم تک، وہ سہولیات اور ریاعات واپس چھینی جارہی ہیں جو محنت کشوں نے پچھلی چھ دہائیوں میں تحریکوں اور جدوجہد کے ذریعے حاصل کی تھیں۔ اس نظام کا بحران دنیا بھر میں حکمرانوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے منافعوں کی شرح کو برقرار رکھنے کے لئے محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیں۔
مارکسزم کو مسترد کرنا بہت آسان ہے، بس تھوڑی سی ڈھٹائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ تمام تر دایاں بازو پچھلی تین دہائیوں سے ’’سوشلزم کی ناکامی‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ خیالاتی اور تصوراتی فلسفوں پر یقین کرنے والے ان افراد کے ’’اعتراضات‘‘ زیادہ سنجیدہ جواب کے متقاضی نہیں ہیں۔ لیکن اپنے آپ کو ’’لیفٹ‘‘ کہنے والے جب رسمی منطق کی بنیاد پر مارکسزم کو رد کر کے محنت کشوں اور نوجوانوں میں بدگمانی پھیلانا شروع کر دیں تو ثابت ہوجاتا ہے کہ ان ’’لیفٹ والوں‘‘ نے مارکسی فلسفہ (جدلیاتی مادیت) کبھی پڑھا ہی نہیں۔ اگر پڑھا ہے تو درمیانے طبقے کی مخصوص موقع پرستانہ ذہنیت اسے جذب کرنے سے قاصر تھی۔
مارکسزم اگر ان ’’جمہوریت پسندوں‘‘ کے مطابق متروک ہوگیا ہے تو متبادل کیا ہے؟ مڈل کلاس کے ’’فلسفیوں‘‘ میں ایک ’’نیا‘‘ فلسفہ پوسٹ ماڈرن ازم آج کل بہت مقبول ہے جو ذہن کو کند اور سوچ کو پست کرنے میں بہت کارگر ثابت ہوتا ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم اورخیال پرستی پر مبنی اس جیسے دوسرے ’’نئے فلسفے‘‘ درحقیقت پرانے فلسفوں کا چربا ہیں جن کا جواب مارکسی اساتذہ تقریباً ایک صدی پہلے دے چکے ہیں۔ معیشت کی بات کی جائے تو یہ دانشور حضرات ’’مکس اکانومی‘‘(ملی جلی معیشت) یا کینشین ازم کو نئے نئے ناموں سے متعارف کروانے کی ناکام کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔ کینشین ازم کی ناکامی1974ء کے معاشی انہدام نے ثابت کر دی تھی اور سرمایہ داری کے زہر کو چینی میں چھپانے کی دوسری کوششیں (بشمول پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ)بھی کارگر ثابت نہیں ہو پائی ہیں۔
محنت کش طبقہ، اس کی سماجی طاقت اور انقلاب کرنے کی صلاحیت ایک اٹل حقیقت ہے۔ محنت کشوں کی محنت کے بغیر نہ تو ریل کا پہیہ گھوم سکتا ہے نہ فون کی گھنٹی بج سکتی ہے، بلب روشن ہوسکتے ہیں نہ پیداواری عمل چل سکتا ہے۔ کوئی آسمانی مخلوق اس سماج کی معیشت اور صنعت کو نہیں چلا رہی بلکہ یہ محنت کش ہیں جن کے ہاتھ چلتے ہیں تو سماج آگے بڑھتا ہے۔ یہ وہی محنت کش طبقہ ہے جسے مارکس نے پرولتاریہ کا نام دیا تھا۔ یہ طبقہ اگر سماج کی شریانوں میں خون دوڑا سکتا ہے تو اس کے بہاؤ کو روک بھی سکتا ہے اور جو طبقہ سماج کو روک دینے کی صلاحیت رکھتا ہو وہ اسے بدل بھی سکتا ہے۔ بجلی سے لے کر ہوائی جہاز اور کمپیوٹر تک، سرمایہ داری کی ہر ایجاد سے محنت کش طبقہ کمزور نہیں بلکہ زیادہ طاقتور اور باشعور ہوا ہے۔ یہی شعور سوشلسٹ انقلاب کی فتح اور استحکام کے لئے درکار ہوتا ہے۔ قیادت کی غداریاں اور سماج پر مسلط کی جانے والی حکمرانوں کی رجعتی دانش وقتی طور پر محنت کشوں کو بیگانہ اور مایوس تو کر سکتی ہے لیکن یہ ایک عارضی مرحلہ ہوتا ہے۔ مارکس نے کہا تھا کہ ’’عام حالات میں محنت کش طبقہ ’اپنے اندر‘ ایک طبقہ ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں وہ سرمایہ داروں کے لئے خام مال ہوتا ہے۔ لیکن غیر معمولی حالات میں جب وہ ’اپنے لئے‘ ایک طبقے میں تبدیل ہوتا ہے تو انقلابی قوت بن جاتا ہے۔‘‘ آج جہاں حکمرانوں کی دانش، مایوسی اور بربادی کا پیغام دیتی ہے وہاں صرف محنت کش عوام کی انقلابی بغاوت کا تناظر ہی استحصال، قلت اور ذلت کے خاتمے اور نجات کا پیغام دیتا ہے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے اس انقلابی تحریک کا انتظار ایک جرم ہے، اس بغاوت کی تیاری ایک تاریخی فریضہ ہے جو آج کی نسل کے کندھوں پر آن پڑا ہے۔

متعلقہ:
غیرت کو راہ میں رکھ دو
مقدر کے سکندر
عوام کب اٹھیں گے؟