نظام زر میں ’’گڈ گورننس‘‘

[تحریر: لال خان]
جعلی اعداد و شمار کی گردان سے بھوکا پیٹ بھرتا ہے نہ موٹر سائیکل کی ٹینکی۔ پٹرول کی بندش سے ایک کہرام مچا ہوا ہے۔ اس ملک میں زندگی ہی کہرام بن کے رہ گئی ہے۔ حکمرانوں کا بھی اپنا ’’المیہ‘‘ ہے۔ مرتے ہوئے اس نظام میں اپنی لوٹ مار بڑھانے کے لئے انہیں ڈھٹائی کی آخری حد تک جانا پڑتا ہے۔ بارودی دہشت گردی پورے معاشرے کو صدمے میں مبتلا کردیتی ہے تو کبھی معاشی دہشت گردی کے وار سے عوام تلملا اٹھتے ہیں۔ لیکن ان کی سسکیاں کوئی سننے والا نہیں ہے۔ حکمران طبقے کے اس سیاسی ڈھانچے میں عوام کی نمائندگی بھلا کیسے ممکن ہے؟ حاوی سیاست کے کسی رہنما، پارٹی یا رجحان کے پاس ان مسائل کا کوئی حل ہے نہ لائحہ عمل۔
میڈیا میں کام کرنیو الے والے بھی بھلا کیا کریں؟ ہر دوسری صنعت کی طرح انہیں بھی تو مالکان کے لئے زیادہ سے زیادہ منافع پیدا کرنے کے لئے بھرتی کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایشو نہ بھی ہوتو ایسا شور مچایا جاتا ہے کہ بن جاتا ہے۔ چھوٹے سے واقعے کو بھی اس جنون سے پیش کیا جاتا ہے کہ لوگ چینل دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ’’ریٹنگ‘‘ اور منافعے ایسے ہی بڑھتے ہیں۔ نان ایشو کو ایشو بنانے اس اندھی دوڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لئے کارپوریٹ میڈیا کا ہر چینل اتنا زور لگاتا ہے کہ اصل ایشو دب جاتا ہے۔ درمیانے طبقے کی خواتین کے پسندیدہ دیومالائی کہانیوں پر مبنی ڈراموں کی طرح ’’نیوز چینل‘‘ بھی اتنا سسپنس پیدا کرتے ہیں دیکھ دیکھ کر بیزار ہوجانے والے ناظرین بھی پھر دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ سلگتے ہوئے مسائل کی بنیادی وجوہات کو روپوش کردیا جاتا ہے۔ اس نظام زر کو بے نقاب کرنا جرم بنا دیا گیا ہے جس کی بیماری کی علامات یہ سارے سماجی اور معاشی عذاب ہیں۔ یہ میڈیا چینل آپس میں جتنا بھی لڑتے رہیں لیکن ایک سازشی اتفاق ضرور موجود رہتا ہے کہ حقیقی مجرموں کا نام لینا ہے نہ لینے دینا ہے۔
واقعہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، بالآخر معاملہ گول کردیا جاتا ہے۔ سانحہ پشاور کی مثال سامنے ہے۔ بحث و تکرار کی بھرمار اور حکمرانوں کی شعلہ بیانیاں عروج پر رہیں۔ سیاستدان، جرنیل، سفارتکار زخمی بچوں کی عیادت کے فوٹو سیشن کرواتے رہے۔ عوام کو سوگ اور یاس میں غرق کرنے کی واردات کو عروج پر لے جاکر حل یہ نکالا گیا کہ سکولوں کی دیواریں اونچی کر دی جائیں! دہشت گردی کی مالیاتی سپلائی لائن کو کاٹنا تو دور کی بات، ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا۔ لگایا بھی کیسے جاسکتا ہے؟مذہبی جنون اور فرقہ واریت کے ناسور کو سرمائے کا خون فراہم کرنے والے مقامی سرمایہ دار اور ’’برادر ممالک‘‘ ہمارے حکمرانوں کے ان داتا بھی تو ہیں۔ روٹیوں کی تعداد سے دہشت گردوں کی شناخت کرنے والے وزیر داخلہ نے تو مسئلہ ہی حل کردیا ہے۔ اب مدارس ہی دہشت گردی میں ملوث مدارس کے بارے میں معلومات دیں گے!
پٹرولیم کے بحران کے بارے اعداد و شمار کی بھول بھلیوں سے ذرا باہر نکل کر دیکھا جائے تو مسئلہ یہ ہے کہ پی ایس او کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ عالمی منڈی میں تیزی سے سستا ہوتا ہوا پٹرول بھی خرید سکے۔ پی ایس او نے 215 ارب روپے کا قرض اگر ادا کرنا ہے تو 587 ارب روپے کا قرض وصول بھی کرنا ہے۔ 587 ارب میں سے 434 ارب روپے، یعنی 73 فیصد نجی شعبے میں بجلی کی پیداوار اور دوسری صنعتوں کے ذمے واجب الادا ہیں۔ غریب کو تو ایک بوند تیل ادھار نہیں ملتا لیکن ان کھرب پتی سرمایہ داروں کو ہزاروں لاکھوں لیٹر تیل کاغذی ضمانت پر فراہم کردیا جاتا ہے۔ 2005ء میں پرائیویٹائز ہونے والی کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ذمے بھی 32 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ نجکاری کے طریقہ واردات کی یہ ایک کلاسیکی مثال ہے۔ ’’ٹارگٹ‘‘ پر موجود سرکاری اداروں کو کرپٹ افسر شاہی اور سرمایہ داروں کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے جو ان کی بوٹیاں نوچتے چلے جاتے ہیں۔ دیوالیہ ہوجانے کے بعد یہ ادارے کوڑیوں کے مول انہی کارپوریٹ گدھوں کے حوالے کردئیے جاتے ہیں۔ سرمایہ داروں اور سامراجی اجارہ داریوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہاں کی سیاست، ریاست اور صحافت ان کی باندی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی پر حکمران طبقے اور سامراج کے وظیفہ خوار یا حصہ دار براجمان ہیں۔ مافیا سرمایہ داری کی ڈاکہ زنی کو اس ریاست نے کیا روکنا ہے جو خود اس کھلواڑ کا حصہ بن چکی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ محنت کش عوام کا خون اتنا چوسا جاچکا ہے کہ مزید چوسنے کی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے۔ ریاستی ڈھانچے بوسیدہ ہو کر لڑکھڑا رہے ہیں۔ سرکاری ادارے اس قدر دیوالیہ ہیں کہ پٹرولیم جیسی بنیادی ضرورت پوری نہیں کرسکتے۔ ذخیرہ اندوزی جیسے ’’حقیر‘‘ طریقے تو قصہ ماضی ہوچکے ہیں۔ ایسی ہلکی واردات سے بھاری بھرکم سیٹھ حضرات کے پھولے ہوئے پیٹ اب نہیں بھرتے۔ موٹا مال اوپر ہی اوپر ہڑپ ہوجاتا ہے۔ پٹرول پمپ مالکان جیسے چھوٹے موٹے جیب کتروں کو میڈیا کے ذریعے ذمہ دار قرار دے کر اصل مجرم چھپا دئیے جاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر براجمان ’’ماہرین‘‘ بھی اپنے آقاؤں پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے، بصورت دیگر وظیفے بند ہوجائیں گے۔ سب سے بڑے چور سب سے نیک اور ’’مخیر‘‘ بنا دئیے جاتے ہیں۔ کسی نے کبھی پوچھا ہے IPPs جس قیمت پر بجلی بناتی اور جس پر فروخت کرتی ہیں اس میں فرق اور شرح منافع کیا ہے؟ ’’کارگر نجی شعبے‘‘ سے ہونے والے حکومتی معاہدے آج تک کبھی منظر عام پر آئے ہیں؟ جتنا زور یہ سیاسی اشرافیہ ’’بیرونی سرمایہ کاری‘‘ پر دیتی ہے اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کا تاریخی کردار سامراج کے کمیشن ایجنٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ حکمران طبقے کے مختلف سیاسی دھڑوں کی لڑائیاں بھی سامراجی اجارہ داریوں کا زیادہ ’’کمیشن یافتہ‘‘ ایجنٹ بننے کے لئے ہی ہوتی ہیں۔
میاں صاحب نے سعودی عرب کے ’’عیادتی دورے‘‘ سے واپسی پر چار اعلیٰ بیوروکریٹ معطل کر دئیے ہیں۔ عمران خان اور پیسے کی سیاست کے دوسرے کھلاڑی بھی وزرا کے استعفوں کا مطالبہ کررہے ہیں۔ استعفے دینے سے کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ نواز شریف کی جگہ عمران خان، بلاول زرداری ، الطاف حسین یا کسی اور کو وزیر اعظم بنا دیا جائے تو استحصال پر مبنی معاشی نظام کا جبر کیا ختم ہوجائے گا؟ قرضوں کی بھرمار، کالی معیشت کا پھیلتا ہوا کینسر، پراکسی جنگوں کی وحشت،IMF کی دھونس، سٹاک مارکیٹ کی سٹہ بازی، ازلی ٹیکس چوراور بدعنوان حکمران طبقہ، سامراجی اجارہ داریوں کی لوٹ گھسوٹ اور اس سارے کھلواڑ پر جنم لینے والے تنازعات کو یہ سیاسی کٹھ پتلیاں ختم کریں گی؟ یہ تو خود اس نظام کا ’’ادنیٰ‘‘ سا حصہ ہیں جس کے وجود کے لئے یہ ساری وحشت ناگزیر ہے۔ دولت جتنی بڑھتی ہے انسان اتنا ہی تنگ دل، تنگ نظر، حریص اور ظالم ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی وہ نفسیات ہے جسے سرمایہ داری پروان چڑھاتی ہے۔ زر کی یہ ہوس وہ بیماری ہے کہ بقول میر:

درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی…

’’گڈ گورننس‘‘ کو بھی نسخہ کیمیا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ’’گڈ گورننس‘‘ درحقیقت بستر مرگ پر پڑے ضعیف العمر مریض کے سر پر خضاب لگانے والی بات ہے جس کے سارے اعضا جواب دے چکے ہیں۔ پیسے کی اس سیاست میں پیسے والے ہی پیسہ کمانے کے لئے گورننس میں آتے ہیں۔ ’’جمہوریت‘‘ ہو یا فوجی حکومت، سیاسی طریقہ کار بدل جاتے ہیں لیکن سرمائے کا جبر بدستور قائم رہتا ہے۔ جس ملک کی سب سے بڑی انٹر پرائز ’’فوجی فاؤنڈیشن‘‘ ہو وہاں فوج نظام زر کے خلاف کیسے کھڑی ہوسکتی ہے؟
مسئلہ غربت، بیروزگاری، مہنگائی کا ہے اور سیاست آئینی شقوں کی پیچیدگیوں پرہورہی ہے۔ لڑائی امیر اور غریب کی ہے لیکن سماج پر ’’لبرل ازم‘‘ اور بنیاد پرستی ، شیعہ اور سنی، مسلم اور غیر مسلم، سندھی اور پنجابی کی بحث مسلط کی جارہی ہے۔ تیل جب بند ہوجائے، بجلی نایاب اور گیس غائب ہو، چولہے ٹھنڈے ہوجائیں، ہسپتال موت بانٹ رہے ہوں اور سکول کھنڈر ہو جائیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ مسئلہ گھمبیر ہوچکا ہے۔ مسئلہ یہ مرتا ہوا نظام بذات خود ہے جس میں اصلاحات کی گنجائش عرصہ پہلے ختم ہوچکی ہے۔ تبدیلی کی بات ہر کوئی کرتا ہے لیکن تبدیل کرنا کس چیز کو ہے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ ’’تبدیلی‘‘ والے تو سرمایہ داری کا نام لینے سے بھی انکاری ہیں۔ محنت کش عوام کو ’’جاہل‘‘ سمجھنے والے جانتے نہیں کہ وہ سب دیکھ رہے ہیں، پرکھ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں۔ نظام زر نے ان کا اتنا خون چوسا ہے کہ وہ پتھر ہوگئے ہیں۔ پتھر سے خون نہیں نچوڑا نہیں جاسکتا۔ پتھر صرف برس سکتا ہے!

متعلقہ:

گیس کا اذیت ناک بحران

تیل کا کھیل

شکست خوردہ نجکاری

نجکاری کے ’’فضائل‘‘

جیسے لوگ ویسے حکمران؟