سپین: ’’پوڈیموس‘‘ کی ریلی میں انسانوں کا سمندر

[تحریر: In Defence of Marxim، ترجمہ: ولید خان]

اس سال سپین میں جنرل الیکشن کی تیاری کی مہم کا آغاز ’’پوڈیموس‘‘ (Podemos) نے 31جنوری 2015ء کو میڈریڈمیں احتجاج کی کال دے کر کیا جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ یہ احتجاج یونان میں سائریزا کی جیت کے فوراً بعد ہواہے جس میں لاکھوں لوگوں نے کٹوتیوں (Austerity) کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔مظاہرین پرامید تھے کہ اس معاشی ذلت سے نجات ممکن ہے۔
شرکا پورے ملک سے گاڑیوں، بسوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر کے صرف ایک سال قبل قائم ہونے والی پارٹی پوڈیموس کی حمایت میں دائیں بازو کی پاپولر پارٹی حکومت (اس سے پہلے سوشل ڈیموکریٹ PSOE ان پالیسیوں کو نافذ کرتی رہی ہے) کے خلاف اکٹھے ہوئے۔ پولیس کے مطابق ایک لاکھ جبکہ منتظمین کے مطابق تین لاکھ افراد نے شرکت کی۔ تعداد کچھ بھی ہو مگر اس بات سے انکار نہیں کہ بلاشبہ انسانوں کا جم غفیر تھا۔ریلی شروع ہونے سے پہلے ہی تمام راستے لوگوں سے بھر چکے تھے۔
’’تبدیلی مارچ‘‘ کے سب سے آگے کچھ افراد نے ایک بینر ’’یہی وقت ہے‘‘ اٹھا رکھا تھا۔ منتظمین نے احتجاج میں نہ کوئی مطالبات رکھے اور نہ ہی کوئی نعرے دئیے مگر لوگ اپنے بینر اور جھنڈے لے کر آئے تھے۔ بینرز پر کٹوتیاں کے آغاز (2008ء) کے بعد سے لے کر اب تک ہونے والی پچھلی جدوجہد کے مطالبات موجود تھے: تعلیم پر کٹوتیاں نامنظور، صحت کی نجکاری نا منظور، جبری برطرفیاں بند کرو۔ کالے یرقان کے مریض بھی ریلی میں شریک تھے جو علاج کے حق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں،سپین میں یہ علاج بہت مہنگا ہے۔

سائریزا کے رہنما الیکسز سپراس اور پوڈیموس کے رہنما پیبلو اگلیسیاز (یونان میں آسٹریٹی مخالف احتجاج کے موقع پر)

ریڈیکل بائیں بازو کی سائریزا کی یونان میں انتخابی کامیابی نے سپین کے لوگوں کو بہت ہمت اور حوصلہ دیا ہے۔ وہ پر امید ہیں کہ سرمایہ داروں کی ناقابلِ برداشت انسان دشمن کٹوتیوں کی پالیسی کے خلاف نہ صرف لڑا جا سکتا ہے بلکہ جیتا بھی جا سکتا ہے۔ احتجاجی ریلی میں بڑی تعداد میں یونانی بینر بھی موجود تھے۔ریپبلکن جھنڈے بھی موجود تھے۔ پوڈیموس کی قیادت بادشاہت کے معاملے میں ’’احتیاط‘‘ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ بادشاہت کے ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کسی بھی نئے آئینی عمل کا حصہ ہو گا۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ 1978ء میں جنرل فرانکو کی آمریت کے خاتمے کے بعد بننے والے تمام بورژوا اداروں کے ساتھ ساتھ عوام اس ادارے کو بھی یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ایسے میں پوڈیموس قیادت کی جانب سے معذرت خواہانہ پالیسی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
یہ احتجاج سرمایہ داروں اور ان کے حواریوں کے منہ پر طمانچہ ہے جنہوں نے پچھلے کئی مہینوں سے پوڈیموس کے خلاف بیہودہ بہتان تراشی کی مہم چلا رکھی ہے۔ اس احتجاجی ریلی نے ان تمام الزامات کی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔ تمام سروے آنے والے انتخابات میں پوڈیموس کی جیت کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ پوڈیموس سے محنت کشوں ، طلبہ اور پسے ہوئے طبقات نے گہری امیدیں وابستہ کی ہیں اور بقول انیگو ایریجون(پوڈیموس کی مرکزی رہنما) ’’یہ ریلی سیبیلیس سے شروع ہوئی ہے اور اس کا اختتام اب لامونکلا (وزیرِاعظم رہائش گاہ) جا کر ہی ہو گا۔‘‘

ہسپانوی ریاست، حکمران طبقہ اور اس کے سیاسی نمائندے یونان کے انتخابات کے نتائج پر شدید پریشان ہیں۔ سپین کا حکمران طبقہ اس وقت یونان کی نئی حکومت کے ساتھ یورپی یونین کی جانب سے کسی نرمی کا سب سے بڑا مخالف بنا ہوا ہے۔یہ سال سپین میں انتخابات کا سال ہے۔ مارچ میں اندالوسیہ میں مقامی انتخابات ہیں جہاں PSOE اور United Front کی مخلوط حکومت پہلے ہی کٹوتیوں کی حمایت کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔ مئی میں میونسپلٹی اور علاقائی انتخابات ہیں جہاں Popular Party اور دیگر دائیں بازو کی جماعتوں کے میئرز کو ممکنہ طور پر شرمناک شکست کا سامنا ہے۔ کئی دوسرے علاقے ہیں جہاں کٹوتیوں کے خلاف بائیں بازو کی منظم جدوجہد کے بڑے الحاق موجود ہیں۔ پھر ستمبر میں کتالونیہ میں انتخابات ہیں اور آخر میں نومبر وہ مہینہ ہے جس میں وزیر اعظم راجوئے کو لازمی عام انتخابات کروانے ہیں۔
اس احتجاجی ریلی نے جہاں کٹوتیوں کے خلاف شدید عوامی ردِ عمل کو بے نقاب کیا ہے وہیں اس امید کو بھی تقویت دی ہے کہ ان عوام دشمن اقدامات کے خلاف عام انتخابات میں Popular Front کو شکست دے کر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ عوام اپنا فیصلہ سنا چکی ہے ’’بس! اب اور نہیں۔‘‘ عوام انتخابات، جدوجہد اورعملی تجربے سے ناگزیر طور پر اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل اس دم توڑتی اور بکھرتی سرمایہ داری میں کسی طور پر ممکن نہیں ہے اور حتمی حل ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ہے۔

متعلقہ:

سپین: تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کے خلاف لاکھوں لوگوں کا احتجاج

سپین انقلاب کی دہلیز پر

سپین: ہڑتالی کان کنوں کا میڈرڈ میں شاندار استقبال

پہلی یورپ گیر عام ہڑتال

یونان: یورپ کی نئی امید؟