نظریات کی دھوکہ دہی!

[تحریر: قمرالزماں خاں]
پاکستان پیپلز پارٹی کے 18 اکتوبر 2014ء کے جلسے، جو ایک نئے بھٹو کو منظر عام پر لانے کے لئے منعقد کیا گیا تھا، کے بارے میں کچھ حلقوں میں کئی قسم کے مغالطے پائے جاتے تھے جنہیں قیادت اور خاص طور پر ’’نئے بھٹو‘‘ نے شعور ی طور پردور کردیا۔ عام لوگوں کا خیال تھا کہ ’’نیا بھٹو‘‘ اور پیپلز پارٹی قیادت عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لئے اپنی غلطیوں، کوتاہیوں کا جائزہ لے کر انکا تدارک کرنے کی کوشش کریں گے۔ 2013ء کی بدترین شکست کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے گا۔ پانچ سالہ اقتدار میں عوام کو لگائے گئے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس جمہوریت کا راگ الاپنے کی بجائے جس نے عام آدمی کو اور زیادہ غریب، ناتواں، بے سہاراکردیا، کے طبقاتی کردار کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس بات کو سمجھا جائے گا کہ کسی اونچ نیچ کے سماج میں جہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے آبادی کے مابین بہت بڑی خلیج قائم کردی ہو وہاں جمہوریت کا مطلب اہل زر اور طاقت وروں کی من مانی اور وارے نیارے ہوتے ہیں، جس میں غریب، مزدور، کسان اورپسے ہوئے طبقات کی تباہی اور بربادی ہوتی ہے اور اس جمہوریت کے تسلسل کے نعرے کو متاثرہ فریق یعنی 90 فی صد لوگ نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایسا بھی سوچا جارہا تھا کہ شرمناک اپوزیشن کردار، جس میں ضیاء الحق کی سیاسی اولاد کی بی ٹیم بننے جیسے مکروہ کام کے مضمرات کاجائزہ لیا جائے گا۔ حقیقی اپوزیشن کا کردار نہ ادا کرنے کی وجہ سے پی ٹی آئی اور طاہر القادری کوڈرامہ بازی کرنے کے مواقع میسر آئے۔ ان دھرنوں میں جو سوالات ابھارے گئے ان سے کچھ سیکھا جائے گا اور لوگوں کو جن تکالیف کا سامنا ہے ان کے تدارک کے لئے سنجیدہ رویہ اختیار کیا جائے گاتاکہ عوام الناس میں موجود بدگمانی اور مایوسی کاتدارک کرتے ہوئے کھویا ہوا، مقام، مقبولیت اور وقار بحال کیا جاسکے۔ تاثر یہ دیا جارہا تھا کہ قیادت اس جلسے میں لوگوں سے اپنی نظریاتی غداریوں، بدعنوانیوں، بری حکمرانی، غلط حکمت عملی اوربے راہ روی کی معافی مانگے گی اور ’’بائیں بازو، بائیں بازو‘‘ کی رٹ لگانے والا ’’نیابھٹو‘‘ شائد بائیں بازو کی لفاظی اور نعرہ بازی کرنے کی کوشش کرے۔ مگر اس جلسے کے دیگر مقررین کی اکثریت، بذات خود آصف علی زرداری نے کچھ بھی نہیں چھپانے کی کوشش کی۔ البتہ سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے اپنی تقریرمیں عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھٹو بننے کے لئے نظریات کی ضرورت ہوتی ہے، نظریات کے بغیر بھٹو نہیں بنا جاسکتا‘‘۔ اسی طرح متعدد مقررین نے بھٹو ازم، نظریاتی سیاست، بھٹو کے نظریات، بھٹو کے فلسفے کے لفظوں کا استعمال کیا۔ بلاول بھٹو نے تو بھٹو ازم کے لفظ کی تکرار کی اور خود کو بھٹو کے فلسفے اور نظریے کا وارث قراردیا۔ یہاں پر بہت ہی سنجیدہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھٹو کے نام سے جس فلسفے، نظریے یا سیاسی پروگرام کا ذکرکیا گیا ہے اس سے مراد کیا ہے؟ ہم اگر اپنی طرف سے ایک بھی لفظ کا اضافہ یا کمی نہ کریں تو خود بھٹو کے الفاظ میں انکے نظریات کا نام ’’سو شلزم‘‘ تھا۔ فلسفے سے مراد اشتراکی بنیادوں پر سماج کی تشکیل ہے جس کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویزات کی دستاویز نمبر 5 میں 22 پوائنٹ میں واضح کیا گیا ہے۔ جس میں سے چند ایک پوائنٹ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ سرمایہ داری نظام کا خاتمہ، مرحلوں کے بغیر براہ راست سوشلزم کا قیام
2۔ سامراجیت کی اطاعت سے انکار اور سامراجی کیمپ سے نکلنے کا اعلان۔
3۔ دولت اور اہم صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا جانا۔
4۔ جاگیرداری کا خاتمہ اور کواپریٹو فارمنگ کے ذریعے زراعت کو رائج کیا جانا۔
5۔ جہالت کا خاتمہ، تعلیم کا مقصد غیر طبقاتی سماج کا قیام۔
6۔ فرسودہ قوانین جو کہ سماج کے لئے بہت ہی مہلک ہیں، کا خاتمہ۔
7۔ دفاع میں عوام کا کردار اور عوامی ملیشیا کی تشکیل وغیرہ۔

اب اگر ہم موجودہ دور کی پیپلزپارٹی کے نظریات دیکھیں تو یہ کم ازکم بھٹو ازم، بھٹو کے نظریات، بھٹو کا فلسفہ تو بالکل نہیں ہیں بلکہ اس کے خلاف رجتیعت، سامراجی غلامی، سرمایہ دارانہ نظام پر یقین اور اسکے استحصال کے ذریعے امیر کو امیر اور غریب کو لوٹ لوٹ کر اسکو برباد کردینا، جاگیردارانہ ثقافت اور کالے قوانین اور اقدار کو بڑھاوا دینے کے اصولوں پر قائم ہے۔ 1967-68ء میں پیپلز پارٹی 22 خاندانوں کے خلاف اور پسے ہوئے طبقات کو باعزت، برابر اور اعلی انسانی سماجی اقدار کی فراہمی کے یقین اور عزم کے ساتھ قائم ہوئی تھی۔ مگر آج کی پیپلز پارٹی کو اس پر مسلط قیادت کے اثاثے بڑھانے اور ملک کے امیر ترین خاندان بنانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے پروگرام میں یہ عہد کیا تھا کہ پاکستان میں کوئی کنبہ بے گھر نہیں رہے گا مگر موجودہ پیپلز پارٹی صرف اپنے حکمران گھرانے کے لئے سینکڑوں کنال اراضی پر محلات تعمیر کرکے بے گھر خاندانوں کی بے سروسامانی کا مذاق اڑارہی ہے۔ روٹی کپڑا مکان کے نعرے کا استعمال لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کیا گیا۔ پورے پاکستان میں تو درکنار صوبہ سندھ میں، جہاں پیپلز پارٹی کا راج دھائیوں سے چل رہا ہے وہاں بلوچستان سے زیادہ بے گھر خاندان اکیسویں صدی میں قرون وسطی کا نظارہ پیش کررہے ہیں۔ افریقہ کے بدترین حالات اور تھرپارکر کے مناظر میں گہری مماثلت نظر آتی ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کی حکمرانی کا تعارف ہے۔ کچھ لوگ یہ گمان کررہے ہوں گے کہ پاکستان کو درپیش معاشی، قومی، ثقافتی، فرقہ ورانہ مسائل، سامراجی مداخلت اور اسکے نتیجے میں کراچی، پختون خواہ، بلوچستان میں جاری خانہ جنگی جیسے مسائل پر بلاول بھٹو زرداری اپنا مختلف نقطہ نظر اور موقف پیش کریں گے مگر 18 اکتوبرکے جلسے کا آغاز ہی 73 فی صد سے زائد غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے پاکستانی عوام کی غربت اور بے بسی کا مذاق اڑانے سے ہوا، جب چیئرمین بلاول بھٹو کسی انڈین فلم کے ہیرو کی طرح ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ہاتھ لہراتے جلسہ گاہ میں پہنچے۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ، جس کو کسی شہنشاہ معظم یا کسی شہزادے کی بجائے اپنی نجات دھندہ قیادت کی ضرورت ہے کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب بلاول بھٹو زرداری نے ان کا بار بار تذکرہ کیا مگر ان کو ہلاک کرنے والے سرمایہ داری نظام کے خلاف ایک لفظ تک ادا نہیں کیااور نہ ہی بھٹو کی وراثت کی حق داری کے دعوے کے ساتھ سوشلسٹ پروگرام کی طرف لوٹنے کے ارادے کو ظاہر کیا۔ چیئرمین بلاول سے قبل تقریر کرتے ہوئے رضا ربانی نے نوازشریف کے خلاف (ریاکارانہ) بڑھک بازی کرتے ہوئے کہا کہ ’’نج کاری‘‘ کے مسئلے پر ہماری نواز شریف سے جنگ ہوگی۔ یہ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ’’نج کاری‘‘ کی پہلی وزارت نوازشریف یا ضیاالحق کے دور میں نہیں خود محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں قائم ہوئی۔ ابھی 2013ء میں ختم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دورانیے میں قومی اداروں کی نجکاری کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر مزدوروں کی شدید مزاحمت پرایسا کیا نہیں جاسکا۔ اس جلسے میں نوازشریف کے خلاف نجکاری کے مسئلے پر لڑائی کی جملہ بازی سے قبل پاکستان کے محنت کشوں سے پارٹی قیادت کی طرف سے معافی مانگنی چاہئے تھی اور آئندہ سے اس مکروہ پالیسی پر عمل نہ کرنے کی یقین دھانی کرانی چاہئے تھی۔ مگر ایسا نہ کیا جانا اس وجہ سے ہے کہ پارٹی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کے دور والی پیپلز پارٹی کے پروگرام اور سوشلسٹ نظریات کی بجائے عالمی مالیاتی اداروں کی مزدوردشمن پالیسیوں، سامراجی مقاصد اور مفادات کی پاسبانی اور اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے مطابق خود کو استوار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ تضادات کی انتہا ہے کہ اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کا اور اسکے نظریات کا نام لیا جاتا ہے۔ وہ نظریات جو بھٹو کے نام یا بھٹو ازم سے پہچانے جاتے ہیں اپنے وضع کئے جانے اور تشکیل پانے کے وقت ایک اجتماعی قیادت کی اس دانش کی عکاسی کرتے تھے جو اس عہد کے لوگوں کی سوچوں، ضروریات اور جدوجہد سے منطبق ہوئی تھی۔ یہ نظریات اجتماعیت اور اشتراکیت کا دفاع کرتے اور انفرادیت اور ذاتی ملکیت کے رشتوں اور ثقافت کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا بلاول بھٹو اور انکی تقاریر وضع کرنے والا ’’گروہ‘‘ پاکستان کے محنت کش طبقے کو ایک ایسا بے وقوف، جاہل اور اپنے طبقاتی مفادات کو ہیروازم پر قربان کرنے والا طبقہ سمجھتے ہیں۔ کیا لوگ یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ انکی بھوک، افلاس، بے بسی اور مسلسل پستی کی طرف گامزن زندگیوں کوذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بنیادی نظریات اور پروگرام سے بدلا جاسکتا ہے، مصنوعی جوش، جعلی نعروں، بھٹو کی باڈی لینگویج، ریاکارانہ گفتگو اور سطحی بیانات سے نہیں۔ یہ سب جو اس جلسے میں کیا گیامحنت کش طبقے کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے انکے جذبہ انتقام کو جلا بخشے گا جو اس حیوانیت پر مبنی نظام اور اسکے حواریوں کو بھسم کرکے اپنا اور اپنی پچھلی نسلوں کی محرومیوں کا بدلہ لے گا۔

متعلقہ:

پیپلز پارٹی کا احیا: نظریات یا شخصیات؟

18اکتوبر کی جستجو مٹ نہیں سکتی!