بکاؤ تعلیم

تحریر: ڈاکٹر لال خان:-
(ترجمہ: عمران کامیانہ)
لڑکھڑاتی ہوئی معیشت اور بوسیدہ انفراسٹرکچر کو ساتھ لئے پاکستانی معاشرہ اس گہری کھائی کی طرف گامزن ہے جس کو بہت سے لوگ ابھی دیکھنے سے قاصر ہیں۔تعلیم اور علاج کی سہولیات ، انفراسٹرکچر کے دو ایسے ستون ہیں جس پر کسی معاشرے کی معاشی و سماجی ترقی کا تمام تر انحصار ہوتاہے۔ماسوائے 1973-74کے بجٹ کے ، جب پاکستان پیپلز پارٹی نے عوامی دباؤ اور 1968-69میں برپا ہونے والی محنت کش طبقے کی انقلابی سرکشی کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آکر جارحانہ اصلاحات کیں، تعلیم اور علاج کے شعبہ جات کو یہاں کے حکمران طبقات نے آج تک انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ نظر انداز کیا ہے۔اس بجٹ میں (1973-74) تعلیم کے لئے جی ڈی پی کا 4.32فیصد مختص کیا گیا اور اس کے بعد سے لے کر آج تک تعلیم اور صحت کے کوٹے میں صرف کمی ہی ہوئی ہے۔موجودہ صورتحال یہ کے کہ پاکستان تعلیم کے شعبے پر دنیا میں سب کے کم خرچہ کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔جس کا نتیجہ اس المیے کی شکل میں برآمد ہوتا ہے کہ پاکستان میں 60%بچے پرائمری سکول تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔لڑکیوں کے معاملے میں حالات اوربھی زیادہ بھیانک ہیں۔ناکام ریاست کی عدم توجہ کے باعث تعلمی نظام کی مکمل تباہی کا سب سے زیادہ فائدہ نجی شعبے نے اٹھایا ہے جسے اتنا بڑے منافع جات شاعدکہیں اور نصیب نہ ہوتے۔جبکہ معاشی مشکلات کا شکار اساتذہ کے لئے ٹیوشن کی آمدنی آخری سہارہ ہے۔
سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کے پیش نظر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی ریاست کا سماجی فلاحی انفراسٹرکچر پرزے پزرے ہو رہا ہے۔اپنے بچوں کے لئے نجی تعلیم کی بھاری قیمتیں ادا نہ کر سکنے والی پاکستانی آبادی کی اکثریت در اصل کے لئے معیاری تعلیم محض ایک خواب ہے۔حکمران اور بالائی متوسط طبقے (Upper Middle Class)کے لئے ہی (جو کہ کل آبادی کا ایک قلیل سا حصہ ہیں) معقول تعلیم کا حصول ممکن ہے۔والدین کے بہت بڑی اکثریت تو اپنے بچوں کو روٹی اور کپڑا بھی نہیں دے سکتی جس کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔بچوں کی خاصی تعداد کی مدرسوں میں’ بھرتی ‘ کی اصل وجہ بھی غربت ہے۔ان بچوں کی تقدیروں کا فیصلہ جاہل ملا ء کرتے ہیں جن کے لئے انسانی رویوں اور سائنس کا علم کوئی قابلِ نفرت چیز ہے۔اس طرح کے اداروں میں بچوں کو جن اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ نا قابلِ بیان ہیں۔خدا ترسی اور صدقہ جاریہ کے نام پرقائم کردہ یہ ادارے زیادہ تر جرائم سے حاصل کردہ کالے دھن پر چلتے ہیں۔یہاں بچوں کی تربیت اس طرز سے کی جاتی ہے کہ یہ مذہب کے ٹھیکیدار مذہبی جنونیوں کے لئے خام مال کا کردار ادا کر سکیں۔منظم دہشت گردی نے پاکستان میں تباہی برپا کر رکھی ہے، ہر ایک روح چھلنی ہے جبکہ اس مکروہ دھندے کے مالیاتی سرپرست عیش و آرام میں زندگی گزار رہے ہیں۔
طبقاتی نظامِ تعلیم بھی لالچ ، استحصال اور حسد پر مبنی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے۔امیر طالبِ علموں میں پایا جانے والا اعلیٰ و ارفاء ہونے کا احساس ایک دماغی عارضہ بن جاتا ہے جس میں مبتلا ہو کر وہ پسے ہوئے طبقات کو حقارت اور نفرت سے دیکھتے ہیں۔عام طورپرانسانوں کی سماجی سوچ اور رجحان اس طبقے کی معاشی ضروریات پر منحصر ہوتے ہیں جس وہ تعلق رکھتے ہیں۔ 1960کی دہائی میں کالج جانے والے زیادہ تر نوجوان انجینیر، ڈاکٹر یا بیوروکریٹ بننے کے خواہاں تھے جس کی وجہ مغربی دنیا میں صنعت کی بڑھوتری تھی جو کہ جنگ کے بعد کے معاشی ابھار (Post War Boom)کا ایک ثانوی نتیجہ تھا۔تاہم موجودہ دور میں MBAsاور اس طرح کی دوسرے ڈگریوں کا رجحان بڑھا ہے جن کا پیداواری عمل سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مالیاتی شعبہ ، صنعتی پیداوار سے زیادہ منافع بخش بن چکا ہے۔کینیشین ازم (Keynesianism)کی تنزلی اور آزاد منڈی کی بے لگام معیشت کے بعد ہر طالبِ علم مینیجر بننے کے لئے ایسی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانی محنت کا استحصال کر سکے یا پھر اخلاقیات سے عاری ہو کر مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کر سکے۔لیکن ذرائع ابلاغ، ہاؤ سنگ اور سٹاک مارکیٹ کے بلبلے پھٹنے کے بعد گرتی ہوئی سرمایہ دارانہ معیشت میں سٹے بازی اور بینکنگ کے شعبوں کا مستقبل بھی زیادہ تابناک نظر نہیں آتا۔تعلیمی نصاب کے معیار کا بھی یہی حال ہے۔ایک ہی ملک میں مختلف سطحوں پر پڑھایا جانے والے نصاب سراسر متضادنوعیت کا ہے۔تعلیم کی فراہمی کا تمام تر طریقہ کار وحشی مقابلے بازی پر مبنی ہے۔طالبِ علموں کو مقابلے بازی کی اس اذیت اور پہلی پوزیشن نہ آنے پر والدین کے غم و غصے کا شکار بننا پڑتا ہے۔ویسے پوری کی پوری کلاس پاس یا فیل کیوں نہیں ہو سکتی ؟بہت سے ممالک میں اس طریقہ کار پر کامیابی سے عمل کیا گیا ہے۔
بہت سے سکولوں میں درمیانے اور نچلے درجے کے بیوروکریٹ ذاتی مایوسی و محرومی کا شکار ہو کر مذہب اور ایسی سماجی تعلیم کو لازمی قرار دے دیتے ہیں جس کا مقصد انفرادی سوچ کو مجروح اور محکوم کر کے حکمران طبقے کے تابع کرنا ہوتا ہے۔ضیاء آمریت کے دوران نافذ کیا جانے والا مذہبی عدم برداشت پر مبنی نصاب آج تک نوجوانوں کے شعور کو جکڑے ہوئے ہے۔فوجی اور سول سروسز کے امتحانات اور تعلیم انتہائی بے بنیاد اورسطحی علم پر مبنی ہوتے ہیں جسے ’’اعلیٰ افسران ‘‘کو اناپرستی ، خود پسندی اور ما تحتوں کیلئے حقارت کے جذبات کے ساتھ گھول کر پلایا جاتا ہے ۔
سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ماحول پیچیدہ سماجی و معروضی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔دولت ، قیمتی لباسوں کی نمود ونمائش اور امیرانہ چال ڈھال غریب طلباء کی سوچ میں ہیجان پیدا کرتے ہیں جس کا نتیجہ معاشرے میں جرائم کی حکمرانی کی صورت میں نکلتا ہے۔جرائم پیشہ افراد اور مافیا ان معاشرتی طور پر بیگانہ عناصر(Lumpen Elements) کو جرائم میں استعمال کرتے ہیں۔طلباء یونین پر پابندی ہے اور اپنے وعدوں کے باوجود موجودہ حکومت طلباء یونین پر سے پابندی ہٹانے میں ناکام رہی ہے۔نوجوان نسل کو سیاست سے بیگانہ کرنا ایک جرم ہے ۔ مرزا غالب نے ایک بار کہا تھا کہ ہمیں نوجوانوں سے سیکھنا چاہیے جو آنے والے وقت کی آواز ہیں۔حکمران طبقے اور اشرافیہ کو طلباء یونین سے خوف لاحق ہے کہ یہ طلباء کو سیاسی بصیرت دے گی جس کے بعد وہ سیاسی تناظر کو زیرِ بحث لاتے ہوئے انقلابی نظریات کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ان نظریات کے زیرِ اثرنوجوان نہ صرف ناجائز تعلیمی اخراجات اور سماجی انفراسٹرکچر پر حکومتی عدم توجہ بلکہ ترقی پسند سوچ کے قاتل اس نظام کو چیلنج کریں گے جس کی دلالی کرنے والے سیاسی حکمران اور میڈیا صرف سرمائے کی غلامی سکھانے والے خیالات کو فروغ دیتے ہیں۔
تعلیم معاشرے کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے نہ کہ بھیک یہ ریاعت۔اسے منافع کے لئے استعمال کرنا انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔یہ نظام اور یہ ریاست معاشرے کو معقول اور شائستہ تعلیم دینے سے قاصر ہیں۔سیاسی رہنماؤں اور ان کے جعلی ماہرین کی جانب سے چلائی جانے والی منافقت اور نمائش پر مبنی تعلیمی مہمات کو دیکھ کر برطانوی بائیں بازو کے سیاستدان انیرن بیوان کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں جو اس نے ونسٹن چرچل کے بارے میں کہے تھے ’’اُس کی سوچ کی پسماندگی کو اُس کے شاہانہ اندازِبیاں نے چھُپا رکھا ہے‘‘۔سرمایہ داری میں سامراجی قرضے، فوجی اخراجات اور حکمرانوں کی عیاشیاں دولت کو اس طرح چاٹ جاتے ہیں کہ تعلیم اور علاج کے لئے کچھ نہیں بچتا۔حکمران طبقات اور ان کے سامراجی آقاؤں سے دولت چھین کر عام آدمی کی ضروریات پر صرف کرنے کے لئے سماجی و معاشی نظام کی تبدیلی درکار ہے اور اس طرح کی انقلابی تبدیلیوں میں نوجوانوں کا کردار قلیدی ہوتا ہے۔لینن نے بہت پہلے کہا تھا’’مستقبل اسی کا ہے جس کے ساتھ نوجوان ہیں‘‘۔

ڈیلی ٹائمز، 8اپریل2012

متعلقہ: