بلوچستان: پراکسی جنگوں میں مرتے غریب

| تحریر: لال خان |
Trbat_3_copyبلوچستان کے ضلع تربت میں 20 دیہاڑی دار مزدوروں کا بہیمانہ قتل اس سفاک درندگی کی ہی کڑی ہے جس نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سرکارکی مالی امداد ان غریب محنت کشوں کو واپس لا سکتی ہے نہ ہی اس ہولناک قتل کا کفارہ کسی بڑی رقم سے ادا ہوسکتا ہے۔ یہ ’’تعزیتی رقوم‘‘ غریب لواحقین کی زندگیوں کو سہل تو بھلا کیا کریں گی، اس کے برعکس ان غریب خاندانوں میں نفاق ڈالیں گی۔
بلوچستان کے زخم کبھی بھرے ہی نہ تھے۔ لیکن ہلاک ہونیوالے محنت کشوں کے ساتھ ظلم یہ بھی کیا گیا ہے کہ ان کی طبقاتی شناخت کو قومیتی اور لسانی پس منظر کے پیچھے چھپانے کی کوشش جا رہی ہے۔ ہلاک ہونیو الے محنت کشوں کا تعلق کسی بھی قوم، مذہب، برادری یا فرقے سے ہو، وہ صرف ایک مقصد کے لئے بلوچستان گئے تھے … اپنی محنت کو نیلام کرنے کے لئے، اور انسان کی اصل شناخت اس کا طبقہ ہی ہوا کرتی ہے۔
بلوچستان سے بھی اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں مزدور خلیجی ممالک اور دوسرے خطوں میں اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے پشتونوں اور بلوچوں کا سب سے بڑا شہر کوئٹہ یا پشاور نہیں بلکہ کراچی ہے۔ اپنے گھر اور دیس سے دربدر ہونا اس نظام نے ہر قومیت کے مزدوروں کی مجبوری بنا دیا ہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا تعلق بھی تربت سے ہے۔ موصوف نے لیویز کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے تو ان کے وزیر نے اس کو ہندوستان کے ایجنٹوں کی کاروائی قرار دے دیا ہے۔ بلوچستان میں مختلف علاقائی اور سامراجی قوتوں کی موجودگی ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن یہ ادھورا سچ ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کون کون سے متحارب گروہ کس کس کے ایجنٹ یا پروکسی ہیں۔ بلوچستان میں ہر سرکاری، ’’نیم سرکاری‘‘ یا غیر سرکاری ایکٹر مالیاتی سرمائے کے کسی نہ کسی ملکی، علاقائی یا سامراجی دھڑے کے مفادات کے لئے غریب عوام کو تاراج کر رہا ہے۔ ایک سے زیادہ پراکسی جنگیں چل رہی ہیں۔
تیل، گیس یا دوسری قیمتی معدنیات اور وسائل کے ساتھ ’’ہمارے‘‘ کا لفظ جوڑا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ ہے کہ یہ ’’ہم‘‘ کون ہیں؟ یہ ’’ہم‘‘ کبھی قومی ریاست ہوتی ہے، کبھی کوئی ضلع، شہر یا دیہات ’’ہم‘‘ ہوجاتے ہیں تو کبھی کسی قومیت کے خطے میں پائی جانے والی دولت ’’ہماری‘‘ قرار دے دی جاتی ہے۔ اب تو مذہب اور فرقے کے بنیاد پر ’’ہم‘‘ بننا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن اس نظام میں اصل ’’ہم‘‘ وہ سرمایہ دار، جاگیردار اور سامراجی کارپوریٹ اجارہ داریاں ہیں جن کے پاس ذرائع پیداوار، زمین اور مالیاتی سرمائے کی ملکیت ہے اور جو وسائل اور معدنی زخائر کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ محنت کش عوام کے لئے صرف ’’ہم‘‘ اور ’’ہمارا‘‘ کا جھانسہ ہی ہوتا ہے، چاہے قوم اوروطن کے نام پر دیا جائے یا پھر مذہب اور فرقے کے ذریعے۔ معدنیات کی دریافت اور جغرافیائی اہمیت کو خوش آئند قرار دیا جاتا ہے لیکن قدرت کے تحائف کو سرمائے نے ان خطوں کے عوام کے لئے بدنصیبی اور عذاب بنا دیا۔ افریقہ ہو یا مشرق وسطیٰ اور افغانستان، سب سے زیادہ قتل و غارت گری ان خطوں میں ہورہی ہے جو معدنی وسائل سے مالا مال ہیں یا اسٹریٹجک اہمیت رکھتے ہیں۔
لینن نے واضح کیا تھا کہ ’’حکمران طبقے کی قوم پرستی اور محنت کش طبقے کی قوم پرستی دو بالکل متضاد اور ناقابل مصالحت نعرے ہیں جو طبقاتی جنگ میں قومی سوال کی طرف دو متضاد نظریات اور پالیسیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘ (قومی سوال پر تنقیدی رائے، دسمبر 1913ء)
ان دیہاڑی دار مزدوروں کا قتل اگر بلوچ عوام کے حقوق یا آزادی کے لئے کیا گیا ہے تو اس سے زیادہ خونی وار بلوچستان کے عوام پر ہونہیں سکتا۔ لسانی بنیادوں پر غریب محنت کشوں کو قتل کر کے اس تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے جس کی بنیاد ہی دوسری قومیتوں کے غریب اور محنت کش عوام کے ساتھ طبقاتی یکجہتی پر رکھی گئی تھی۔ شیر محمد مری (جنرل شیروف) کے انٹرویو آج بھی آن ریکارڈ ہیں جن میں طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ بین الاقوامیت سے عاری تنگ نظر قوم پرستی کو زہریلی رجعت قرار دیا گیا ہے۔ شیر محمد مری نے ایک زیادہ مواقع پر ٹھوس انداز میں واضح کیا تھا کہ ’’پنجاب سمیت ہر قوم کے مزدور، کسان اور غریب عوام ہمارے بھائی ہیں اور ہماری جدوجہد اس سوشلسٹ سماج کے لئے ہے جو سامراج اور سرمایہ داری سے دنیا بھر کے مظلوم عوام کو آزادی دلائے گا۔‘‘ آج دوسری قومیت کے محنت کشوں کا قتل عام کرنے والے کل کو بلوچ محنت کشوں پر بھی گولی چلانے سے گریز نہیں کریں گے۔
ریاستی دہشت گردی اور لسانی بنیادوں پر معصوم انسانوں کا قتل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ ریاست اور حکمران طبقہ اٹھاتا ہے۔ ریاست اور حکمران، میڈیا کے بلبوتے پر حالیہ واقعے کو اپنی جارحیت کا جواز بنائیں گے۔ اس بربریت کے خلاف بلوچستان سمیت پورے ملک میں ہونے والا احتجاج محنت کشوں میں پائے جانے والے غم و غصے اور اپنے طبقے کے لئے مخلص جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ لیکن مذمتوں کے اس کھیل میں حکمران بھی مگرمچھ کے آنسو سجا کر کود پڑے ہیں۔ اس آڑ میں کچھ ناپسندیدہ مسلح گروہوں کو کچلنے کے لئے آپریشن بھی شروع کیا گیا جس کی تیاری درحقیقت اس قتل عام سے بہت پہلے شروع کر دی گئی تھی۔ عین ممکن ہے یہ خونی کھیل آپریشن کا جواز تراشنے کے لئے ہی رچایا گیا ہو۔
دوسر ی طرف سامراج کی گماشتہ اور پوری دنیا میں آزادی کی تحریکوں کو قرار داروں میں غرق کرنے والی ’’اقوام متحدہ‘‘ کی توجہ بلوچستان میں 12 ہزار گم شدہ افراد کی طرف مبذول کروائی جارہی ہے۔ امریکہ میں انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان اور کانگریس کے ممبران، جن میں کیلی فورنیا کے ڈانا روراباچراور ٹیکساس کے لوئی گومیرٹ سر فہرست ہیں، نے بلوچستان کی علیحدگی کی مہم شروع کی ہوئی ہے۔ خود امریکی عوام کا خون چوسنے والے سامراج کے ان نمائندوں کو بلوچستان کے عوام کی بھوک، غربت اور ذلت کا غم ستا رہا ہے؟ ایک کے بعد دوسرے ملک کو تاراج کرنے والے جنونی حد تک آزاد منڈی کی معیشت یہ کٹر اور جارح نمائندوں کو کیا ’’انسانی حقوق‘‘ یاد آگئے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ سامراج کے اس دھڑے کا مقصد بلوچستان کی معدنیات اور اسٹریٹجک اہمیت کو امریکی اجارہ داریوں کے تسلط میں دینا ہے۔
پھر چینی صدر بھی خصوصی دورے پر اس ملک کے کاسہ لیس حکمرانوں کو تڑپا تڑپا کر، انتظار کروا کروا کر تشریف لانے کو ہیں۔ اس خصوصی دورے میں چینی صدر کی خصوصی دلچسپی بھی بلوچستان ہو گی جہاں انہوں نے گوادر بندرگاہ کا افتتاح کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ رد انقلاب کے بعد چینی سرمایہ کاری کا کردار بھی دوسری سامراجی طاقتوں سے کسی طور مختلف نہیں ہے۔ افغانستان کے بعد بلوچستان میں بھی چین کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہے۔ کہیں یہ آپریشن چینی آقا کے استقبال کی تیاری تو نہیں؟ سب سامراجی طاقتوں کے عزائم ایک سے ہیں۔ ہندوستان کی مداخلت ہے تو ’’برادر اسلامی ممالک‘‘ کیا پیچھے ہیں؟ کون نہیں جانتا کہ فرقہ وارانہ قتل عوام میں کون ملوث ہے؟ بلوچستان جیسے تاریخی طور پر سیکولر خطے میں مدارس کا نیٹ وارک کس کے پیسے تعمیر ہوا ہے اور پھیل رہا ہے؟ لیکن فرقہ واریت کی آگ میں جلنے والے پھر غریب عوام ہیں۔ یہ سامراجی گدھ اپنے پنجے گاڑتے چلے جارہے ہیں کیونکہ یہاں کا کمیشن خور حکمران طبقے اور ریاست کے مختلف دھڑے اس خونی کھلواڑ میں خود شریک ہیں۔ بلوچستان کے سردار اور بالادست طبقات بھی ملوث ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شرح منافع مسلسل گراوٹ کا شکار ہے جسے برقرار رکھنے کے لئے نئے معدنی زخائر اور منڈیاں درکار ہیں اور سامراجی قوتیں کرہ ارض کے ایک ایک انچ کے لئے جنگیں اور پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں۔ اسلحہ ساز کمپنیوں کو بھی مسلسل تنازعات درکار ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام جس تاریخی متروکیت کا شکار ہے اس کے پیش نظر یہ عمل آنے والے دنوں میں مزید شدت اور پیچیدگی اختیار کرے گا۔
دہائیوں قبل لیون ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ ’’مظلوم قوم پرستی کے خول میں بعض اوقات بالشویزم پک کر تیار ہو رہا ہوتا ہے۔‘‘ عمومی نظریاتی گراوٹ اور سامراجی قوتوں کی مداخلت کے باوجود بلوچستان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بے لوث جذبات اور انقلابی مارکسزم کے نظریات کے تحت اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ بی ایس او میں مارکسی رجحان موجود ہے اور بڑی تعداد میں نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ ان نوجوانوں کی جدوجہد اس نظام کے خلاف ہے کیونکہ وہ یہ سائنسی ادراک رکھتے ہیں کہ جبر و استحصال کی جڑ یہ نظام ہے جس سے نجات ہی بلوچستان میں بسنے والی ہر قومیت اور مذہب کے عوام کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ سوشلسٹ سماج میں ہی وہ معاشی بنیادیں فراہم ہوں گی جس میں دولت، ذرائع پیداوار اور وسائل کسی ایک قوم کے بالادست طبقے کی بجائے محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت ہوں گے اور پوری نسل انسان کی راحت اور سہولت کے ساماں بنیں گے۔

متعلقہ:

یہ کس کا لہو ہے! کون مرا؟

بلوچستان کی گھمبیرتا

فریاد کر کے بھی دیکھ لو

پاک چین معاشی راہداریاں: ہمالیہ سے بلند دوستی یا لوٹ مارکے نئے راستے؟

بلوچستان: قومی آزادی کی جدوجہد میں مزدوروں کا قتل عام؟