سندھ میں ’’انقلابی ہاری جدوجہد‘‘ کے قیام کا اعلان

[رپورٹ: محمد خان پنہور]
8 جنوری کو انقلابی شہید شاہ عنایت کی شہادت والے دن کی مناسبت سے حیدرآباد میں کسانوں کا اکٹھ کیا گیا اور حیدرآباد پریس کلب تک ریلی نکالی گئی اور جلسہ کیا گیا۔ جس میں’’انقلابی ہاری جدوجہد‘‘ کے نام سے صوبائی سطح پر ایک تنظیم بنانے کا اعلان کیا گیا۔پروگرام میں سب سے پہلے صوبائی سطح پر عہدیداران کا چناؤ ہوا جس میں صوبائی صدر غلام اللہ سیلرو، نائب صدر حسین آریسر، جنرل سیکرٹری زاہد زؤنر، جوائنٹ سیکرٹری شرجیل شر، پریس سیکرٹری محمد خان پنہور اور خزانچی جبار زؤنر شامل ہیں۔ بعد میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپئین کے صوبائی صدر انور پنہور کی طرف حلف و فاداری لیا گیا۔پروگرام کا آغاز کہبڑ خان سیلرو نے کسانوں کا ترانہ گا کے کیا۔بعد میں حنیف مصرانی نے خطاب کے لیےPTUDC ضلع دادو کے جنرل سیکرٹری ضمیر کوریجو، ضلع دادو کے صدر موریل پنہور ، BNT کے صوبائی صدر اعجاز بگھیو، پاکستان پیرا میڈیکل اسٹاف ایسوسی ایشن کے رہنما پرشوتم ، انقلابی ہاری جدوجہد کے صوبائی صدر غلام اللہ سیلرو اور PTUDC کے صوبائی صدر انور پنہور کو اسٹیج پر بلایا ۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہ عنایت شہید ایسا انقلابی تھا جس نے تین سو سال پہلے میران پور (جہوک) میں ’جو بوئے وہی کھائے‘ کا نعرہ دیا اور اس پر خود عمل کرتے ہوئے کسانوں کی کمیون قائم کی جس میں کسان اکٹھے محنت کرتے تھے، اکٹھے کھاتے تھے جس وجہ سے کوئی بھی کسان بھوکا نہیں سوتا تھا۔ یہ بات حکمرانوں کو پسند نہیں آئی اور اسے اقتدار کے لیے بڑا خطرا سمجھا گیا۔ اور دہلی سے ٹھٹھہ تک سارے حکمرانوں اور زمینداروں نے مل کر کسانوں کی کمیون پر حملہ کیاجس میں شاہ عنایت سمیت چھبیس ہزار ہاری شہید کیے گئے۔مگر آج جس طرح سرمایہ دارانہ نظام نے پورے سماج کو مفلوج کر دیا ہے اور ہر طرف بھوک، بدحالی، بیروزگاری اور غربت نے ڈیرا ڈالا ہوا ہے وہاں اس ملک کے کسان مکمل طور پر فاقہ کشی کے شکار ہو گئے ہیں کیونکہ ان کی فصلوں کپاس، گنا اور چاول وغیرہ کو مناسب نرخوں اور مناسب وقت پر خریدا نہیں جاتا جس وجہ سے کسان ان کو کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہے۔جب کہ بیج، دوائیں، کھاد اور تیل کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے کسان سود پر قرضہ لے کر فصل کاشت کرتے ہیں۔ کسانوں کی زوال پذیری کا سبب موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں کسان تو تباہ حال زندگی گزار رہے ہیں مگر سرمایہ دار طبقہ ان میں بھوک بانٹ کر خوب منافع کما رہا ہے ۔جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام موجود رہے گا تب تک کسانوں کی حالت زار نہیں بدلے گی اس لیے کسانوں کو اس ملک کے محنت کشوں، طلبہ اور خواتین سے ملکر سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے ایک منصوبہ بند معیشت کو قیام میں لانا ہوگا۔
آخر میں قراردادیں منظور کی گئیں کہ ملک میں پانی کی کمی ختم کرکے تمام آبادکاروں کو پانی تک رسائی دی جائے۔ گنا کی مقرر قیمت 182 روپیہ فی من پر عمل درآمد کراکے تمام مل مالکان کو کارخانے چلانے کا پابند بنایا جائے۔ چاول کی خریداری ٹی سی پی کے ذریعے کرائی جائے۔ ملک کے تمام جاگیرداروں اور فوجی زمینداروں کے حق ملکیت ختم کرکے وہ زمینیں غریب اور بے زمین کاشت کاروں میں تقسیم کی جائیں۔