سعودی عرب؛ غیر ملکی محنت کشوں کے لئے بیگار کیمپ

لمبی ہے غم کی رات، مگر رات ہی تو ہے۔ ۔ ۔

[تحریر: یاسر ارشاد]
اس سال فروری کے وسط میں سعودی عرب میں ایک سال سے پھنسے ہوئے سات سو پاکستانی محنت کشوں کے ساتھ ہونیوالے فراڈ کی خبر اس وقت منظر عام پر آئی جب ان میں سے ایک محنت کش کی دس فروری کو کام کے دوران حادثے میں موت واقع ہو گئی۔ ترکی کی MAPA نامی تعمیراتی کمپنی نے ایک سال پہلے سات سوپاکستانی محنت کشوں کو ویزے جاری کئے لیکن سعودی عرب پہنچنے پر نہ صرف یہ انکشاف ہوا کہ ان محنت کشوں کو دیئے جانیوالے ویزے جعلی تھے بلکہ ان محنت کشوں کیساتھ مختلف پیشوں اور تنخواہوں کے حوالے سے کئے جانے والے معاہدے بھی جھوٹے ہیں۔ اس وسیع پیمانے کی جعلسازی کا شکار ہونے کے بعد محنت کشوں میں کمپنی کیخلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا لیکن سعودی عرب کے سرمایہ دار نوازقانون کی جکڑ بندیوں کی وجہ سے یہ محنت کش گزشتہ ایک سال سے اسی کمپنی کے کیمپوں میں قیدیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ چونکہ سعودی قانون کے مطابق آپ کو جس کمپنی کی طرف سے ویزا جاری کیا گیا ہے آپکو اسی کمپنی میں کام کرنا پڑے گا اور اگر آپ اس کمپنی میں کام نہیں کرنا چاہتے تو آپ کو نہ صرف لاکھوں روپے خرچ کر کے نیا ویزہ خریدنا پڑے گا بلکہ نئے ویزے کے حصول کیلئے آپ کو پہلے سعودی عرب سے واپس اپنے ملک آنا پڑے گا۔ یہ محنت کش جو لاکھوں روپے خرچ کر کے MAPAکمپنی میں مزدوری کی غرض سے گئے تھے اس فراڈ کے باوجود اپنی غربت کے مارے ہوئے ایک سال تک سعودی حکام کی جانب سے انصاف کے منتظر رہے۔ لیبر کورٹ میں کمپنی کے خلاف درجنوں درخواستیں دینے کے باوجود سعودی حکام نے اس معاملہ پر کوئی توجہ نہ دی۔ 10 فروری کو ایک محنت کش کی جان کی قربانی نے اس فراڈ کو منظر عام پر لایا جس پر چاروناچار صدر زرداری کو بھی اس واقعے کا کھلے عام نوٹس لینا پڑا جس کے بعد سعودی حکام نے مداخلت کرتے ہوئے کمپنی افسران جو اس فراڈ میں ملوث تھے کیخلاف قانونی کارروائی کی اور ان سات سو محنت کشوں کو اس بیگار کیمپ سے نجات دلاتے ہوئے یہ اختیار دیا کہ چونکہ ان کے ساتھ ہونے والے فریب میں کمپنی افسران قصور وار ہیں اس لئے یہ محنت کش چاہیں تو کسی دوسری کمپنی میں نوکری تلاش کر سکتے ہیں یا واپس اپنے ملک چلے جائیں اور کمپنی کی جانب سے دیئے جانے والے جعلی ویزوں کو کارآمد قرار دے دیا گیا۔

یمنی محنت کش سعودی حکومت کے کریک ڈائون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں

فریب اور ظلم و جبر کا یہ چھوٹا سا واقعہ عرب کے تپتے صحراؤں میں محنت کی بھٹی میں اپنا لہو جھلسانے والے ایک کروڑ سے زیادہ غیر ملکی محنت کشوں کی حالت زار کی معمولی سی عکاسی کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ہمیں سامراجی ذرائع ابلاغ میں عموماً یہ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ چین کے نام نہاد کمیونسٹ حکمران اپنے ملک کے سماجی اعداد و شمار کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے لیکن اس سے کئی زیادہ ان ذرائع ابلاغ نے سعودی عرب کے رجعتی حکمرانوں کی وحشت اور بربریت کے حوالے سے مجرمانہ خاموشی اپنارکھی ہے۔ سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ دنیا بھر میں دریافت شدہ تیل کے کل ذخائر کا سترہ سے بیس فیصد سعودی عرب میں ہے اور یہ تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ پٹرولیم کی صنعت بجٹ ریونیو کے 80 فیصد، جی ڈی پی کے 45 فیصد اور برآمدات کی آمدنی کے 90 فیصد پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب کی کل لیبر فورس کا 60 سے 67 فیصد حصہ غیر سعودی یا خارجی محنت کشوں پر مشتمل ہے جبکہ نجی شعبے میں 90 سے 95 فیصد محنت کش خارجی ہیں۔ جن ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں محنت کش سعودی عرب میں ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تقریباً پینتالیس لاکھ(ہر ملک سے پندرہ لاکھ) جبکہ مصر، سوڈان اور فلپائن سے تیس لاکھ (ہر ملک سے دس لاکھ) محنت کش اس کے علاوہ یمن سمیت کئی ایک ممالک سے لاکھوں غیر قانونی مزدور بھی شامل ہیں۔ 1969ء کے لیبر قانون کے مطابق ہر غیر ملکی محنت کش کو سعودی عرب کا ویزہ کسی سعودی شہری کی وساطت اور ضمانت پر ہی جاری کیا جا سکتا ہے جس کو عربی زبان میں ’’کفیل‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سعودی حکومت براہ راست کسی محنت کش کو ویزہ جاری نہیں کرتی اور اسی لئے وہ ان غیر ملکی محنت کشوں کے حوالے سے کوئی بھی ذمہ داری قبول نہیں کرتی۔ اس قانون کی بنیاد پر سعودی عرب کے ایک وزیر محنت و سماجی بہبود نے یہ بیان دیا تھا کہ ’’ہمارے ملک میں کوئی غیر ملکی مزدور نہیں بلکہ ہمارے ملک میں کنٹریکٹ (ٹھیکے پر حاصل کئے گئے) مزدور ہیں۔‘‘ کفالت کے اس قانون کی وجہ سے ایک جانب سعودی ریاست جہاں ان غیر سعودی محنت کشوں کے استحصال اور ان پر کفیلوں کی جانب سے کئے جانے والے مظالم سے خود مکمل طور پر بیگانہ اور لاتعلق ہے وہیں ان ویزوں کی خرید و فروخت ایک انتہائی منافع بخش کاروبار ہے جس میں ملوث سعودی اور ٹریول ایجنٹ کروڑوں کماتے ہیں۔ سعودی عرب میں ایک کروڑ سے زائد غیر ملکی محنت کشوں میں ایک حصہ وہ ہے جو براہ راست کسی بڑی کمپنی کی طرف سے جاری کئے گئے ویزے پر اس کمپنی میں ملازمت اختیار کرتے ہیں، دوسرا حصہ وہ ہے جو درمیانے اور چھوٹے درجے کی کمپنیوں، ورکشاپوں اور کاروباروں میں ملازم ہے، تیسرا حصہ آزاد ویزے پر جانے والے ہیں اور چوتھا اور سب سے زیادہ استحصال، ظلم و جبر کا شکار وہ ہیں جو گھروں میں ملازمت کیلئے جاتے ہیں۔ گھروں میں کام کے لیے جانے والی محنت کش خواتین کا بڑا حصہ انڈونیشیا، فلپائن، سری لنکا اور بنگلہ دیش سے ہے۔ یہ محنت کش گھروں میں سالوں تک قید رہتی ہیں چونکہ سعودی عرب میں خواتین کے گھر سے نکلنے کے لیے ان کے ساتھ کسی محرم (باپ، بھائی یا شوہر) کا ہونا ضروری ہے اور اس قید میں جسمانی کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات کا ہونا بھی ایک عام معمول ہے اور شرعی قوانین کے مطابق عورت کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ثابت کرنے کے لیے چار خواتین یا دو مرد گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان مظلوم خواتین کو کبھی میسر نہیں آسکتے۔ اس قسم کے حالات میں سعودی عرب ان محنت کش خواتین کے لئے حقیقی معنوں میں نہ ختم ہونے والی وحشت ہے۔

آزاد ویزے کا افسانہ
سعودی عرب میں ایک بھاری تعداد غیر ملکی محنت کشوں کی ایسی ہے جو آزاد ویزے حاصل کرکے اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں لیکن درحقیقت سعودی عرب کے ویزا قوانین کے مطابق آزاد ویزا کوئی ہے ہی نہیں، کیونکہ کسی بھی غیر ملکی محنت کش کو ویزا یا تو کفیل کی یا کمپنی کی وساطت سے جاری کیا جاتا ہے۔ وہ تمام سعودی جو ویزوں کے کاروبار سے کروڑوں روپے کماتے ہیں انہوں نے اپنے منافعوں کو بڑھانے کیلئے آزاد ویزہ ایجاد کیا ہے جو ایک جانب سعودی قانون کی نظر میں غیر قانونی ہے لیکن غیر ملکی محنت کشوں کیلئے کسی حد تک سہولت ہے جس میں کم از کم ایک حد تک یہ آزادی ہوتی ہے کہ آپ اپنی مرضی سے کام تلاش کر کے اس کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ لیکن آزاد ویزے کے اجراء کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک سعودی اپنا ایک فرضی کاروبار دستاویزات میں دکھا کر ویزے حاصل کرتا ہے اور تقریباً تین سے چھ لاکھ پاکستانی روپے یعنی بارہ سے بیس ہزار ریال میں ہر ایک ویزا فروخت کرتا ہے۔ اس ویزے کی فروخت اس معاہدے کے ساتھ مشروط ہوتی ہے کہ آزاد ویزہ حاصل کرنے والا محنت کش جب کسی جگہ ملازمت حاصل کرے گا تو وہ سعودی اس کو دستاویزی اجازت نامہ جاری کرے گا تاکہ وہ اپنا اقامہ (رہائشی کارڈ) اور لیبر کارڈ نئے نام سے بنوا سکے اور اکثر اس معاہدے کے باوجود دو سے چار ہزار ریال مزید اس سعودی کو دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے۔
سعودی قوانین کے مطابق کوئی محنت کش اپنا کفیل یا کمپنی تبدیل نہیں کر سکتا ایسا کرنے کیلئے اسے نیا ویزہ خریدنا پڑے گا۔ لیکن اس قانون کے باوجو دآزاد ویزوں کے اجراء اور فروخت کا ایک بہت بڑا کاروبار ہے جو مسلسل پھیلتا جا رہا ہے۔ ان دنوں سعودی حکومت اس قانون کو زور و شور سے نافذ کر رہی ہے کہ تمام ایسے محنت کش جو اپنے کفیل کے پاس کام نہیں کر رہے وہ سعودی قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اس لئے ان کیخلاف انتہائی اقدامات اٹھاتے ہوئے انہیں واپس اپنے ملک بھیجا جا رہا ہے۔ سعودی قانون کے مطابق ہر غیر ملکی محنت کش کو سعودی عرب پہنچنے پر ایک رہائشی کارڈ جسے اقامہ کہتے ہیں اور ایک لیبر کارڈ بنوانا پڑتا ہے اور یہ دونوں کارڈ بنوانے کی ذمہ داری اس محنت کش کو سعودی عرب کا ویزہ دلوانے والی کمپنی یا فرد(کفیل) پر ہے۔ اقامہ اور لیبر کارڈ کی سالانہ تجدید ہوتی ہے جس کی بالترتیب پہلے سات سو اور ایک سو سعودی ریال فیس تھی جو حالیہ دنوں میں اضافے کے ساتھ 2400 اور 300 سعودی ریال کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اقامہ کی فیس میں اضافے کی وجہ سے تمام چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں اور کمپنیوں کے مالکوں نے ان کے ہاں کام کرنے والے غیر ملکی محنت کشوں کے اقامہ جات کی تجدید کرانے سے انکار کر دیا ہے چونکہ وہ سات سو سعودی ریال کی جگہ 2400 سعودی ریال ادا نہیں کر سکتے، اس کے باعث ہزاروں محنت کش اپنے رہائشی کارڈ کارآمد نہ ہونے کی وجہ سے غیر قانونی قرار دیئے جا رہے ہیں اور ان کو زبردستی واپس اپنے گھروں کو بھیجا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑی کمپنیاں بھی فیسوں میں اس اضافے کو مکمل طور پر یا نصف سے زیادہ رقم محنت کشوں کو اپنی تنخواہوں سے ادا کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ حالیہ عرصے میں سعودی حکام نے اس قانون کو بھی زور و شور سے نافذ کرنا شروع کیا ہے کہ تمام بڑی نجی کمپنیاں مزدوروں کی کل تعداد کا کم از کم نصف سعودی باشندوں کو ملازمتیں دیں ورنہ ہر اضافی غیر ملکی مزدور رکھنے کیلئے دو سوریال ماہانہ فی مزدور ادا کریں۔ اس قانون کے مطابق کمپنیوں کو چار اقسا م میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تقسیم کے مطابق سبز رنگ کے زمرے میں وہ کمپنیاں آتی ہیں جو اس نئے قانون پر مکمل عملدرآمد کر رہی ہیں خاص کر سعودی مزدوروں کو ملازمتیں دینے کے حوالے سے جبکہ سرخ رنگ کے زمرے میں وہ کمپنیاں اور کاروبار آتے ہیں جو اس قانون پر بالکل عملدرآمد نہیں کرتیں۔ سرخ رنگ کے زمرے میںآنے والی کسی بھی کمپنی میں کام کرنے والے کسی بھی غیر ملکی محنت کش کے ویزوں کی تجدید کی ممانعت کر دی گئی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسی کمپنیوں اور کاروباروں کی تعداد اڑھائی لاکھ ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی بڑی تعداد میں محنت کش اس قانون کی زد میں آئیں گے۔ اسی طرح ایک تیسری قسم کی کمپنیاں جن کوپیلے رنگ کے زمرے میں رکھا گیا ہے ان کو پابند کر دیا گیا ہے کہ غیر ملکی ملازمین کو چھے سال سے زیادہ ملازمت پر نہیں رکھ سکتی اور جن ملازمین کو ان کمپنیوں میں کا م کرتے ہوئے چھے سال یا اس سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے ان کے ویزوں کی بھی تجدید نہیں ہوگی۔

شاہی خاندان کی لوٹ مار اور بڑھتی ہوئی طبقاتی تفریق
ایک طویل عرصے تک مقامی آبادی کو تیل کی بے پناہ آمدن اور غیر ملکی محنت کشوں کے وحشیانہ استحصال سے نچوڑی ہوئی دولت کی بنیاد پر ایک ایسی زندگی گزارنے کی ترغیب دی جاتی رہی کہ سعودی عرب کے مقامی باشندے تیل کی دولت اور غیر ملکیوں کی محنت پر محض عیش کرنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن گزشتہ تین چار دہائیوں سے آبادی میں تیزترین اضافے، شاہی خاندان کے بڑھتے ہوئے حجم کے ساتھ ملکی دولت کی اندھی لوٹ نے صورتحال کو بہت حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ 2008ء کے عالمی معاشی زوال اور خاص کر عرب انقلاب نے سعودی شاہی خاندان اور ان کے سامراجی آقاؤں کو حواس باختہ کر دیا۔ عرب انقلاب نے جس طرح تیونس اور مصر کے حکمرانوں کے تخت اکھاڑے اس منظر نے سعودی شاہی خاندان کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ اسی لئے بحرین میں ابھرنے والی تحریک کو سعودی فوج نے انتہائی بے رحمی اور سفاکی سے کچلا تھا اور شام میں تحریک کو سبوتاژ کرنے اور فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دینے میں سعودی حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ عرب انقلاب کی پہلی لہریں چاروں سمتوں سے سعودی عرب کی سرحدوں سے ٹکرا کر واپس پلٹ گئیں اور سعودی عرب میں ایک بڑی عوامی تحریک نہیں ابھر سکی لیکن عرب انقلاب نے سعودی حکمرانوں کو ان کے مستقبل کی جھلک قاہرہ کی گلیوں اور چوراہوں کے مناظر کی صورت میں دکھا دی ہے۔ اس خوف کے مارے سعودی حکمران اصلاحات کے ایک منصوبے جس کا آغاز 2003ء میں کیا گیا تھا اور جس کو 2013ء میں مکمل ہونا تھا کو اس بوکھلاہٹ اور پر انتشار انداز میں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے نئی الجھنیں اور مسائل ناقابل حل شکل میں ابھر رہے ہیں۔ درحقیقت سعودی سماج میں امارت اور غربت کی ایک انتہائی بیہودہ خلیج پیدا ہو چکی ہے جس میں ایک جانب شاہی خاندان کے چند افراد کے پاس بے انتہا دولت کا اجتماع ہوتا جا رہا ہے اور دوسری جانب عام سعودی بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیروزگاری 12 فیصد سے اوپر ہے جبکہ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح بتیس فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ نائب وزیر محنت ڈاکٹر عبدالواحد بن خالد نے ’آبزرور‘ اخبار کو جون 2011ء میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’ہمیں پینسٹھ لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہمارے پاس جس قسم کی نوکریاں ہیں لوگ ان کو کرنا پسند نہیں کرتے۔ ‘‘
سعودی عرب کی آبادی کا دو تہائی حصہ تیس سال سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے جبکہ بیروزگاروں کی کل تعدادکے تین چوتھائی حصے کی عمریں لگ بھگ بیس سال یا اس کے قریب قریب ہیں۔ دسمبر 2011ء میں تین صحافیوں فیرس، حسام اور خالد کو یوٹیوب پر سعودی عرب میں غربت کے حوالے سے دس منٹ کی ویڈیو فلم جاری کرنے کے جرم میں گرفتار کر کے کئی دن تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ اس ویڈیو فلم کو بنانے والوں کے مطابق بائیس فیصد سعودی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ستر فیصد کے پاس اپنے گھر نہیں ہیں۔ احرام ویب سائیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق بیس لاکھ سے زائد افراد بیروزگار ہیں جبکہ خواتین میں بیروزگاری کی شرح تیس فیصد سے زیادہ ہے۔ اگرچہ امارت اور غربت میں بڑھتی ہوئی خلیج، سرمایہ داری کا عالمی زوال اور اس کے خلاف ابھرنے والے انقلابی طوفان اور بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ سعودی حکمران خاندان اور ان کے سامراجی آقاؤ ں کیلئے باعثِ تشویش ہے اور سعودی حکمران طبقات کا ایک حصہ خوف اور بوکھلاہٹ میں اصلاحات کرنے کی نیم دلانہ کوشش کر رہا ہے جس کی وجہ سے پہلے سے موجود انتشار میں شدت آتی جا رہی ہے۔
دوسری جانب شاہی خاندان کی لوٹ مار کا ایک بیہودہ تماشا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شاہی خاندان کے پندرہ ہزار افراد ہیں جو تیل کی دولت کے حصے دار ہیں اور جونکوں کی طرح سعودی سماج کی دولت کو چوس رہے ہیں لیکن ان میں سے 2000 ایسے ہیں جو زیادہ بڑی لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ مثلاً فوربس جریدے نے حال ہی میں جب 2013ء کے امیر ترین افراد کی فہرست شائع کی تو ایک سعودی شہزادے الولید بن طلال کو بیس ارب ڈالر کے اثاثوں کی ملکیت کے ساتھ دنیا کا چھبیسواں امیر ترین فرد قرار دیا جس پر اس شہزادے نے احتجاج کیاکہ جریدے فوربس نے اس کی دولت کم بتا کر اس کی توہین کی ہے۔ شہزادے نے کہا کہ اس کے اثاثوں کی مالیت29.6 ارب ڈالر ہے اور یہ دنیا کے دس امیر ترین افراد کی فہرست میں آتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ شہزادے ولید کی کل دولت کتنی ہے اس اعتراض سے ہمیں شاہی خاندان کی لوٹ مار کی ہلکی سی جھلک ملتی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کا موجودہ بادشاہ عبداللہ سترہ ارب ڈالر کی دولت کا مالک اور دنیا کا تیسرا امیر ترین بادشاہ ہے۔ ایک سعودی معیشت دان جس نے وزارت خزانہ میں ذمہ داریاں سرانجام دی ہیں اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر نیویارک ٹائمز اخبار کو بتایا کہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی بتا سکتا ہے کہ شاہی خاندان تیل کی دولت میں کتنا ہڑپ کر جاتا ہے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ بجٹ کیلئے کتنا دیا جاتا ہے لیکن یہ کبھی نہیں ظاہر کیا جاتا کہ اس سے پہلے (Aramco) عرب امریکن آئل کمپنی کتنا لے جاتی ہے۔ وکی لیکس نے ریاض میں امریکی سفارتخانے سے 1996ء میں بھیجے گئے ایک خفیہ مراسلے کو شائع کیا جس میں شاہی خاندان کی لوٹ مار کا تذکرہ کچھ یوں ہے۔ ’’تیل کی دولت سے تمام اہم ممبران کو ماہانہ اڑھائی لاکھ ڈالر اور خاندان کے غریب ترین اور غیر اہم ترین ممبران کو 800 ڈالر ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔ 1996ء میں شاہی خاندان کو سالانہ وظیفے کی مد میں دو ارب ڈالر دیا جاتا تھا جو اس وقت کے سعودی بجٹ کے پانچ فیصد کے برابر تھا۔ اس کے علاوہ چھ شہزادے ایسے تھے جو سعودی عرب کی روزانہ کی 80 لاکھ بیرل تیل کی پیداوار میں سے دس لاکھ بیرل تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی بھاری رقم آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ شاہی خاندان کے افراد بینکوں سے کروڑوں ڈالر قرض لیتے ہیں اور واپس نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ شہزادوں کا ایک گروہ بجٹ سے ماورا اربوں ڈالر کے منصوبوں کے ذریعے دولت کے انبار حاصل کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زمینوں پر ناجائز قبضوں اور پھر ان کی حکومت کو ترقیاتی منصوبوں کیلئے مہنگے داموں فروخت کے علاوہ لاکھوں غیر ملکی محنت کشوں کو ویزوں کے اجرا کے عمل کے ذریعے کروڑوں کماتے ہیں۔‘‘ 1996ء میں شہزادہ الولید بن طلال کے اثاثوں کی مالیت 13 ارب ڈالر تھی جو آج 2013ء میں 29.6 ارب ڈالر ہو چکی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس عرصے میں ان شہزادوں کو اپنی دولت کو دوگنا سے زیادہ کرنے کے لئے لوٹ مار کی رفتار اور شرح کو بھی دوگنا سے زیادہ کرنا پڑا ہو گا۔

رجعتی قوتوں کی عالمی سطح پر پشت پناہی
اپنے سامراجی عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے لوٹ مار اور محنت کشوں کے استحصال سے حاصل ہونے والی اسی لا متناہی دولت کا کچھ حصہ سعودی شاہی خاندان کے افراد نجی طور پر یا سعودی ریاست سرکاری طور پر دنیا بھر کے مذہبی دہشت گرد گروہوں میں تقسیم کرتی ہے، اور ایسا ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں مصروف امریکی سامراج کی مکمل حمایت اور تعاون سے کیا جاتا ہے۔ جن ممالک میں سلفی، وہابی وغیرہ مسلک سے تعلق رکھنے والے تشدد پسند اوردہشت گرد گروہوں کو یہ ’’امداد‘‘ دی جاتی ہے ان میں پاکستان، سومالیہ، افغانستان، شام، مصر، انڈونیشیا، ملائشیا، فلسطین وغیرہ سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں موجود سلفی اور وہابی گروہوں کو مالی امداد کے ذریعے زندہ اور قائم رکھا جاتا ہے تاکہ بوقت ضرورت انہیں استعمال کیا جاسکے۔ سخت گیرتشدد پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ ’’امن پسند‘‘ اسلامی سیاسی جماعتیں بھی اس بہتی گنگا میں پچھلی کئی دہائیوں سے ہاتھ دھو رہی ہیں۔ تیونس اور مصر میں انقلابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایسی ہی ’سیاسی‘ جماعتوں کواستعمال کیا گیا ہے۔ اس سارے عمل کا آغاز امریکی سامراج کی ایما پر 1950ء کی دہائی میں بھاری سرمایہ کاری کے ذریعے Political Islam کو پروان چڑھا کر کیا گیا جس کا بنیادی مقصد سرمایہ دارانہ نظام، عرب بادشاہتوں اور امریکہ سامراج کے خلاف ابھرنے والی بائیں بازو کی عوامی تحریکوں کو بدنام اور سبوتاژ کرنا تھا۔ 1979ء میں افغانستان میں ڈالر جہاد کے آغاز کے بعد سے اس پورے عمل میں بھی تیزی آئی جب بنیاد پرست مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلح جہادی گروہوں کی تیاری کا عمل شروع کیا گیا۔

انقلابی تحریک کے امکانات اور سعودی ریاست کی بوکھلاہٹ
غیر ملکی محنت کشوں کے حوالے سے کی جانیوالی حالیہ قانون سازی، ویزوں اور اقامہ وغیرہ کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ اس عمومی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا حصہ ہے جس کے مطابق سعودی حکام غیر ملکی محنت کشوں کی تعداد کو کم سے کم کر کے زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کرنا چاہتے ہیں تاکہ بیروزگاری کو بالکل ختم یا کم سے کم کرکے مصر یا تیونس کی طرز کے انقلابی دھماکے ہونے کے امکانات کو جس حد تک ممکن ہے محدود کیا جائے۔ اسی مقصد کیلئے عرب انقلاب کے آغاز کے فوری بعد سعودی حکمرانوں نے 76 ارب ڈالر کے اصلاحات کے ایک پروگرام کا اعلان بھی کیا تھا۔ اگرچہ اس طرح کے تمام اقدامات سعودی حکمرانوں کی کند ذہنیت جس کے مطابق انقلابات کے ابھرنے کی صرف معاشی وجوہات ہوتی ہیں کی تسکین کا باعث شاید بنتے ہوں، یہ انقلابی تحریک کو ابھرنے سے تو کیا روکیں گے لیکن یہ اقدامات غیر ملکی محنت کشوں کے لہو کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے کا باعث بن رہے ہیں۔ غیر ملکی محنت کشوں کی بھاری اکثریت سعودی عرب میں انتہائی کم اجرتوں پر غیر انسانی حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ اس صورتحال میں سعودی حکام کے حالیہ اقدامات زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ مثلاً اقامہ اور لیبر کارڈ کی فیسوں میں اضافے کی وجہ سے چھوٹے اور درمیانے درجے کی کمپنیوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی اکثریت صرف اس وجہ سے غیر قانونی قرار پائے گی چونکہ ان کی کمپنی کے مالکان یا کفیل یہ فیس ادا کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ان محنت کشوں کی اپنی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ وہ خود بھی یہ فیس ادا نہیں کر سکتے اور یوں یہ محنت کش جو اپنا لہو پسینے میں بہا کر اپنے گھروں میں چولہے جلاتے ہیں اب وہ بھی ٹھنڈے پڑجائیں گے۔ دوسرا نام نہاد آزاد ویزے پر کام کرنے والوں پر جو قدغن لگائی جا رہی ہے اس کی وجہ سے بھی لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔ تیسرا ان کمپنیوں میں جن مقامی لوگوں کو روزگار دیا جاتا ہے وہ کام بالکل نہیں کرتے اور مفت کی تنخواہ لیتے ہیں اس لئے ان کے حصے کا کام بھی خارجی محنت کشوں کو کرنا پڑتا ہے یا دوسری صورت میں اگر یہ کمپنیاں نصف ملازمتیں مقامی لوگوں کو نہیں دیتیں تو دو سوسعودی ریال ماہانہ فی مزدور محنت کشوں کی تنخواہوں سے کاٹاجاتا ہے۔ یہ انتہائی بہیمانہ اور سفاکانہ اقدمات ہیں جو ان غیر ملکی محنت کشوں کو غلامی سے بدتر کیفیت کا شکار بنا رہے ہیں۔ اگرچہ ان اقدامات میں ایک تضاد ہے اور شاید کبھی ان پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہو سکے گا چونکہ نجی شعبے کی تمام کمپنیاں غیر ملکی محنت کشوں کی انتہائی سستی محنت کو لوٹ کر اپنے شرح منافع کو برقرار رکھتی ہیں۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکی محنت کشوں کوکوئی بنیادی سیاسی اور جمہوری حق حاصل نہیں ہے۔ یونین سازی پر مکمل پابندی عائد ہے، محنت کش اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کیخلاف صرف لیبر کورٹس میں درخواست دے سکتے ہیں۔ اگر کسی مقدمے میں ایک فریق سعودی عرب کا باشندہ ہے تو سعودی قانون کے مطابق صرف اسی ایک بات یعنی باشندہ سلطنت ہونے کی بنیاد پر یہ طے ہو جاتا ہے کہ جرم غیر ملکی نے کیا ہو گا۔ اس قسم کی غلامی سے بدتر حالت میں ایک کروڑ سے زائد غیر ملکی محنت کشوں کے استحصال پر ہی نجی شعبے کا انحصار ہے جس میں فوری طور پر یہ گنجائش نہیں ہے کہ سعودی محنت کش ان غیر ملکی محنت کشوں کا متبادل بن جائیں اسی لئے شاہ عبداللہ نے 9 اپریل کو غیر ملکی محنت کشوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کو تین مہینے تک ملتوی کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ در حقیقت غیر ملکی محنت کش اس بدترین کیفیت کو بھی اس لئے برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اگر کسی قسم کا بھی احتجاج کرتے ہیں تو ان کو فوری طور پر ملک سے نکال دیا جاتا ہے۔ روزگار سے محرومی اور ملک سے بے دخلی کی یہ تلوار ان محنت کشوں کے سروں پر ہر لمحہ لٹکتی رہتی ہے جس کی وجہ سے یہ محنت کش ہر ظلم برداشت کرلیتے ہیں۔ اس کے برعکس سعودی باشندوں کے حوالے سے شاہی خاندان نے جو قوانین بنا رکھے ہیں کم از کم ان میں ان کا معاشی تحفظ ضرور ہے جس میں کم از کم تنخواہ سمیت دیگر مراعات شامل ہیں لیکن سعودی محنت کشوں کا یہ قانونی تحفظ ان کمپنیوں کے منافعوں سے متصادم ہے اسی لئے بہت سی کمپنیوں نے یہ احتجاج کیا ہے کہ پچاس فیصد سعودی مزدور رکھنے کے قانون میں ترمیم کی جائے۔
سعودی معیشت میں مقامی لوگوں کی شمولیت محنت کش طبقے کی سیاسی طاقت میں اضافے کا بھی باعث بنے گی اور یہی محنت کش آنے والے عرصے میں ابھرنے والی تحریک میں پھر فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اس قانون میں اگرچہ ترمیم نہیں بھی کی جاتی پھر بھی بہت سختی سے عملدرآمد بھی نہیں ہوگا۔ لیکن نام نہاد آزاد ویزے کے حامل افراد جن میں شاید کوئی بھی اپنے کفیل کے پاس کام نہیں کرتا اور جن محنت کشوں کے اقامہ جات کی تجدید ان کی کمپنی یا کفیل نے کرانے سے انکار کر دیا ہے ان کیخلاف جاری کریک ڈاؤن کچھ عرصے تک زورو شور سے جاری رہے گا جس کے دوران ہزاروں بلکہ لاکھوں محنت کش روزگار سیمحروم کرکے جبری طور پر اپنے گھروں کو بھیج دیئے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ایک بڑی تعداد میں محنت کشوں کی حیثیت ہمیشہ کے لئے غیر قانونی ہو جائیگی جو اس کریک ڈاؤن میں نہ بھی گرفتار ہوں مگر بعد میں کسی بھی وقت گرفتار کئے جاسکیں گے اور یوں یہ ایک مستقل سلسلہ بن جائے گا۔ دوسری جانب اتنی بڑی تعداد میں محنت کشوں کو بے دخل کرنے کی وجہ سے نجی شعبے کی سرگرمی ماند پڑے گی تو سعودی حکمرانوں کا قانون نافذ کرنے کا بھوت اتر جائے گا اور پھر نئے سرے سے زیادہ مہنگے داموں ویزوں کا کاروبار کیا جائے گا لیکن اس تمام تر گھن چکر میں محنت کشوں کا استحصال اور زیادہ شدت اختیار کر جائے گا۔
سرمایہ داری نظام کے زوال کے شدت اختیار کرجانے کی وجہ سے سعودی حکمرانوں کا اس نظام پر اعتماد جتنا کم ہوتا جائے گا ان کی لوٹ مار اتنی ہی شدید ہوتی جائیگی اور اسی کے ساتھ ساتھ نیچے سے ابھرنے والی بغاوت اور انقلابی تحریک کا خوف بھی بڑھتا جائے گا۔ اسی لئے یہ حکمران اس تحریک کے خوف کی وجہ سے بار بار اسی طرح کی بے ہنگم اور پر انتشار اصلاحات نافذ کرنے کی ناکام کوششیں کریں گے۔ اگرچہ انتہائی وحشیانہ جبر اور اصلاحات کے ملغوبے کے ذریعے سعودی حکمران ابھی تک کسی تحریک کو ابھرنے سے روکنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اب زیادہ لمبے عرصے تک سعودی سماج میں پلنے والے دھماکے کو روکا نہیں جا سکے گا۔
عرب انقلاب کے بعد خواتین اساتذہ اور ٹیلی کمیونیکیشن کے محنت کشوں کی ہڑتالوں سمیت چھوٹے چھوٹے سینکڑوں احتجاج سعودی سماج میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ شاہی خاندان کے اندر لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصے کے حصول کیلئے کئی ایک دھڑے بندیاں موجود ہیں۔ درحقیقت سعودی شاہی خاندان کی حاکمیت سرمایہ داری کے وحشیانہ استحصال اور رجعتی مطلق العنانی کا ملغوبہ ہے جس کے نفاذ اور تحفظ کے لئے بربریت پر مبنی قدیم غلام دارانہ عہد سے ملتے جلتے جبر کو اسلامی قوانین کے لبادے کے ذریعے مقدس بنا کر مسلط رکھا جا رہا ہے۔ سعودی عرب مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں محنت کش طبقات کے لئے نہ صرف ایک وحشت ناک مشقتی کیمپ ہے بلکہ رجعتیت اور دقیا نوسیت کا گڑھ اور اس کو پھیلانے کا منبع بھی ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی، دہشت گردی اور فرقہ واریت سمیت ہر قسم کی ردانقلابی قوتوں کو امریکی سامراج کی گماشتگی میں حمایت اور مالی معاونت فراہم کرنا سعودی حکمرانوں کا اولین فریضہ ہے۔ دوسری جانب اصلاحات کے نام پر اس قسم کے بھونڈے مذاق کئے جاتے ہیں جیسے سر قلم کرنے جیسی وحشیانہ سزا کی بجائے اب گولی ماری جائے گی۔ ۔ ۔

سعودی عرب میں حکومت کے خلاف 2013 میں ہونے والے مختلف مظاہرے

ان مضحکہ خیز حرکات کی وجہ یہ ہے کہ شاہی خاندان کا اقتدار اس جبر کے بغیر چند دن بھی قائم نہیں رہ سکتالیکن یہ بھی درست ہے کہ اس جبر کے باوجود اب اس حاکمیت کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ شاہی خاندان اور ان کے سامراجی آقا سعودی سماج میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے دھماکے سے پھٹ کر انقلابی شکل اختیار کرنے کے خوف سے لرز رہے ہیں۔ اس خوف اور بوکھلاہٹ میں سعودی حکمران جس قسم کی بھونڈی اصلاحات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جبر کی وحشیانہ شکلیں بھی اب شاہی خاندان کی سماج پر گرفت کو قائم رکھنے میں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو یہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ اس جبر کو زیادہ شدت سے جاری رکھتے ہوئے ہی مزید کچھ عرصہ حکمرانی کی جا سکتی ہے اسی لئے اصلاحات کی ہر کوشش کا انت زیادہ سفاکانہ جبر کے نفاذ پر ہوتا ہے۔ دوسری جانب سعودی محنت کش اور نوجوان سست روی سے ہی سہی مگر اس جبر کے خوف سے نجات پانا شروع ہو گئے ہیں۔ دنیا بھر میں ابھرنے والی انقلابی تحریکیں ان کو نئی شکتی عطا کررہی ہیں۔ آنے والے عرصے میں سعودی محنت کش اور نوجوان شاہی خاندان کی اس وحشیانہ آمریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تاریخ کے میدان میں ضرور اتریں گے۔ اگرچہ موجودہ کیفیت میں غیر ملکی محنت کش اس کیفیت میں نہیں ہیں کہ وہ سعودی عرب میں کسی تحریک کو برپا کر سکیں لیکن ایک بار جب سعودی سماج میں موجود ہیجان پھٹ کر ایک انقلابی تحریک کی صورت میں اپنا اظہار کرے گا تو یہ محنت کش سعودی محنت کشوں کے شانہ بشانہ شاہی خاندان کی سرمایہ دارانہ اسلام پر مبنی لوٹ، جبر، استحصال اور وحشت کیخلاف اپنی آزادی اور نجات کی حتمی جنگ لڑ سکیں گے۔

متعلقہ:
سعودی عرب میں پنپتی عوامی تحریک