یونان: سرمایہ داری کی تاریکی میں امید کی کرن

تحریر: لال خان:-
(ترجمہ: فرہاد کیانی)
فرانس میں میلاشوں کی صدارتی انتخابات کی مہم اور اس ہفتے یونان میں انتخابات میں بائیں بازو کی ریڈیکل قوتوں کی برق رفتار اٹھان نے ساری دنیا میں سرمایہ داری کے عذر خواہوں کے چھکے چھڑا دیے ہیں۔ بائیں بازو کا فرنٹ سیریزا (SYRIZA) ’بائیں بازو کا جھکاؤ‘ رکھنے والی روائتی پارٹی پاسوک (PASOK)کو شکست دے کر انتخابی نتائج میں دوسرے نمبر پر آ یا ہے۔یونان کے ایک تہائی سے زیادہ ووٹروں نے ’دائیں بازو کا جھکاؤ‘ رکھنے والی پارٹی نیو ڈیموکریسی (New Democracy) اور پاسوک کے خلاف ووٹ دیا ہے جو یونان کی بحران زدہ سرمایہ داری میں جان ڈالنے کے لیے شدید کٹوتیوں کی پالیسی کی حمایت کر رہی ہیں۔سرکوزی کی شکست کے بعد یہ یورپ کی گیاوہویں حکومت ہے جو سرمایہ داری کے تباہ کن بحران کا نوالہ بن گئی ہے۔ گزشتہ جند ہفتوں میں برطانیہ میں ٹوری اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں بری طرح شکست کھائی ہے اور نیدر لینڈ میں دائیں بازو کی حکومت گر گئی ہے۔یورپ اور ساری دنیا میں شروع ہوتے اس ہنگامہ خیز عہد میں بائیں بازو کے ریڈیکل سیاسی رجحانات پھر سے ابھر رہے ہیں۔

سیریزا کے سربراہ ایلکسز سیپراس ریلی سے خطاب کر رہے ہیں

تاہم میڈیا میں موجود بورژوا تجزیہ کار اور مبصرین عوام کی توجہ طبقاتی جدوجہد کی اس نئی لہر سے ہٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔روایتی مزدور لیڈروں کے سرمایہ داری کے آگے جھک جانے کے نتیجے میں اضطراب، تکلیف اور مایوسی کے ایک طویل دور کے بعد اب حکمران طبقات کی جانب سے محنت کشوں کے حالاتِ زندگی پر وحشیانہ حملوں کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد کے اثرات سیاسی میدان میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اگر موجودہ بحران کا سرمایہ داری کی حدود کے اندر رہتے ہوئے کوئی حل ممکن ہوتا تو حکمران طبقے کے ماہرین بہت پہلے ہی اسے حل کر چکے ہوتے۔بستر مرگ پر پڑا سرمایہ دارانہ نظام، بڑی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے محرک کو طور پر نظام میں سرکاری پیسے ڈالنے (بیل آؤٹ) اور محنت کش عوام پر غیر معمولی حملوں کے باوجود، اس گہرے بحران سے صحت یاب ہونے میں ناکام ہو چکا ہے ۔ یونان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ اگر تمام تر کٹوتیاں مکمل طور پر لاگو کر بھی دی جائیں تو بحران کم نہیں ہو گا۔ معیشت ایک بھنور میں ڈوبتی جا رہی ہے اورپیداور، معاشی نمو، اجرتیں اور آمدن گرتے چلے جا رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران سیریزا کے ایک نمائندے نے کہا کہ اگر سوئس اور دیگر بینکوں میں پڑی یونانی ارب پتیوں کی بے پناہ دولت کو ملک میں لایا جائے تو اسے نئی سڑکوں، سکولوں،ہسپتالوں، مکانوں ، انفرا سٹرکچر اور سماجی بہبود کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔کٹوتیوں کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور معاشی شرح نمو بحال ہو جائے گی، بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا اور محنت کشوں کی اجرت دوگنی ہو جائے گی۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ایسا کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس نظام کی بنیاد ہی طبقاتی استحصال اور دولت کی بڑے پیمانے پر غیر منصفانہ تقسیم پر ہے۔سرمایہ داری کا وجود برقرار رکھنے لے لیے ، اس کے نتیجے میں عام عوام کی وسیع اکثریت پر تکلالیف، اذیت اور بدحالی کے باوجود ،کٹوتیاں لازمی ہیں۔
گزشتہ چند برس تو یونانی محنت کشوں کے لیے کسی بھیانک سپنے سے کم نہیں۔اس بحران نے یونان کو بے نظیرغربت،بے روزگاری، بے گھری، مہنگائی اور یہاں تک خودکشیوں کی بلند شرح میں دھکیل دیا ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح54فیصد تک جا پہنچی ہے۔ صحت تعلیم، تعلیم، اور دیگر شعبوں میں دئے جانے والے سماجی فلاحی وظائف کو تبا ہ کر دیا گیا ہے۔ اس سب کے باوجود اینجلا مرکل اور یورپی مرکزی بینک، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور یورپی کمیشن پر مشتمل ٹرائیکا یونانی حکومتوں کو مزید سخت ترین کٹوتیاں کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔اس نے بڑے پیمانے پر نفرت اور غصے کو جنم دیا ہے۔ کئی عام ہڑتالیں، کارخانوں اور مرکزی چوراہوں پر قبضے اور لڑاکا مظاہرے ہو چکے ہیں۔ اب عوام نے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کو ٹھکرا کر اپنے غصے کا اظہار کیا ہے۔ سیریزا کی حمایت 2009ء میں4.6فیصد سے بڑھ کر حالیہ انتخانات میں تقریباً 17فیصد تک جا پہنچی ہے۔ نیو ڈیموکریسی (این ڈی) اور پاسوک کا اتحاد بھی پارلیمان میں اکثریت حاصل نہیں کر سکا۔ بورژوا ریاست کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق این ڈی کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے پر اضافی 50نشستیں حاصل ہو گئی ہیں۔ اسے 18.8فیصد ووٹ پڑے لیکن 108نشستیں مل گئیں جبکہ سیریزا کو 16.8فیصد ووٹوں کے ساتھ پارلیمان میں صرف52نشتیں حاصل ہوئیں۔اگر ڈیمو کریٹک لیفٹ پارٹی (19نشستیں) اپنے انتخابی وعدوں سے غداری نہ کرے تو کٹوتیوں کی حامی پارٹیوں کے لیے حکومت بنانا مشکل ہو گا۔ اور اس سے ان حملوں کے خلاف ووٹ ڈالنے والے عوام کی بڑی بغاوت پھٹ سکتی ہے۔ اگر 17مئی تک مخلوط حکومت نہیں بن پاتی تو جون میں نئے انتخابات ہوں گے جن میں جمعرات کو کیے گئے سروے کے مطابق سیریزا کو128نشستیں ملنے کا امکان ہے۔کمیونسٹ پارٹی (KKE) کے پاس ابھی26نشستیں ہیں اور اس کے حمایت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ یہ سیریزا کی قیادت کے لیے ایک آزمائش ہو گی۔ انہیں انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے کیونکہ ان کے مطالبات کو صرف ایک سماجی و معاشی تبدیلی کے زریعے ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔ منڈی کی معیشت کی جگہ محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول اور منیج منٹ(Management) کے تحت منصوبہ بند نظام لانا ہو گا۔ انہیں کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ ایک یونایٹیڈ فرنٹ بنانا ہو گا۔ بائیں بازو کے گروپوں اور سیناسپسموس (Synaspismos)کے نسبتاً ڈھیلے ڈھالے اتحاد کو لازمی طور پر انقلابی سوشلسٹ پروگرام سے لیس ایک منظم عوامی پرولتاری پارٹی بننا ہو گا۔ ریڈیکل بائیں بازو کو یہ فتح بورژوا میڈیا اور اس پر مسلط دانشوروں کے شدید حملوں کے برخلاف ملی ہے۔اور اب یورپ کے سرمایہ دار سیاست دانوں کی جانب سے ظالمانہ کٹوتیوں کی واپسی کے کسی بھی اقدام کے خلاف دھونس دھمکیوں کی پہلے سے بھی زیادہ ذہریلی مہم شروع ہے۔ سرمئی سوٹ پہنے انتہائی طاقتور بے چہرہ حضرات یونان کو یورو زون سے نکال باہر کرنے کی باتیں کر رہے ہیں اور ان کی پالیسیاں لاگو نہ کرنے پر یورپ کے لیے قیامت کا تناظر پیش کر رہے ہیں۔ ڈوبتی ہوئی منڈیاں اور یورو کی گرتی قدر دباؤ میں اضافہ کر رہی ہے۔لیکن دوسری جانب یونان میں اگلے انتخابات میں کمیونسٹ بائیں بازو کی بڑی فتح سارے یورپ کو ایک انقلابی پیام دے گی۔ لیکن اس براعظم کا تقریباً ہر ملک ہی گہرے بحران اور سماجی ہل چل کا شکار ہے۔عوام میں تبدیلی کی تڑپ ہے۔ کٹوتیاں کرنے والی سوشل ڈیموکریسی اور بڑی قدامت پرست پارٹیوں کی ساکھ ختم ہو رہی ہے۔یونان میں کمیونسٹ بائیں بازو کا میڈیا کے حملوں کی رکاوٹوں اورروایتی لیڈروں کی غداریوں کے خلاف لڑ کر ابھرنا یونان کو لاحق اس المیے کے اند امید کی ایک کرن ہے۔یورپ پر کمیونزم کا بھوت منڈلا رہا ہے، ایک دفعہ پھر!


ڈیلی ٹائمز: 13مئی 2012

متعلقہ:

فرانس :بائیں بازو کی نئی اٹھان

عالمی تناظر 2012