’’قاتل نظام‘‘

[تحریر: قمرالزماں خاں]
یہ کیسا سماج،کیسی حکمرانی اور کیسی ریاست ہے؟ایک ہی دن میں سینکڑوں محنت کش ملک کے دو بڑے شہروں میں زندہ جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی!!سب کچھ معمول کے مطابق چلتا نظر آرہا ہے۔مجرمانہ حکمرانی کو جواز بخشنے کے لئے نت نئے ڈرامے رچائے جارہے ہیں۔ درجنوں ہلاکتوں کے بعد بھی پنجاب کے حکمران ’’گڈگورنس‘‘ کا راگ الاپے جارہے ہیں اور سندھ کے اختیارات کی بندربانٹ میں مصروف سفاک حکمران جعلی سوگ مناکر معاملے کی سنگینی پر پردہ ڈالنے میں لگے ہوئے ہیں۔اگرچہ پنجاب کے حکمرانوں کو پورا صوبہ صرف لاہور میں ہی نظر آتا ہے مگر لاہور شہر کبھی بھی ایک نہیں رہا ہے۔گلبرگ،ڈیفنس اور پوش سکیموں کے بیچوں بیچ لاکھوں مفلوک الحال،بے آسرا اور سماجی و معاشی بے بسی کا شکارمحنت کشوں کی زندگیاں اتنی ہی سستی ہیں جتنی چوٹی،روجھان،راجن پور،خان پور اور صادق آباد میں بارشوں اور سیلاب میں ڈوبی زندگیاں۔
آگ کی دیوی کے رحم و کرم پر چھوڑدیے جانے والے محنت کشوں کی لاشوں پر پنجاب کے حکمرانوں کا تبصرہ کہ’’ بعض لالچی سرمایہ دار تجوریاں بھرتے ہیں مزدوروں کی حفاظت پر خرچ نہیں کرتے‘‘ کسی مذاق سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ سرمایہ داروں میں بعض نہیں سب ہی سرمایے کے پجاری ہوتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کی الف ب ہی یہی ہے کہ مزدور کے حصے کو لوٹ کر اپنی تجوری بھری جائے۔اسی رقم کو جس کو منافع کہا جاتا ہے کارل مارکس نے ’’قدر زائد ‘‘ کہا تھا۔ یہ وہی دولت ہوتی ہے جو مزدور کی محنت کے بدل(اجرت)میں سے لوٹی ہوئی ہوتی ہے اور اسکا حجم ادا شدہ اجرت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ شہباز شریف سمیت پورا حکمران طبقہ اس لوٹ مار میں شامل ہے اس لئے وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ جو بات وہ کررہے ہیں یہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے خود انکی فیکٹریوں کی چمنیاں مزدوروں کے لہو کو دھویں میں بدلتی رہی ہیں۔ سوگ منانے والا جعلی حکمران طبقہ اس امر سے آگاہ ہے کہ سرمایہ دار بالخصوص تیسری دنیا کا سرمایہ دار کسی بھی اخلاقی، قانونی حتیٰ کہ ماضی کے سرمایہ دارانہ نظام میں طے شدہ ذمہ داریوں کو نبھانے سے یکسر عاری ہوچکا ہے۔ سرمایہ دار کے پاس جتنا بھی سرمایہ ہے یہ محنت کے استحصال اور لوٹ مارکی بدولت ہے، اس لوٹ مارکی رقم کو واپس محنت کش طبقے کی حفاظت اور حالات کار ٹھیک کرنے پر خرچ کرنا اس اپاہج سرمایہ دار کی سرشت میں ہی شامل نہیں ہے۔ یہ طبقہ کسی قیمت پر اپنے منافعوں کی شرح کو کم کرنے پر آمادہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ فیکٹریوں، کارخانوں اوراداروں میں محنت کشوں کو انکا وہ حق جو سرکار نے خود ہی طے کیا ہے وہ بھی نہیں ملتا۔
11ستمبر2012ء کی شام کراچی اور لاہور میں دو مختلف فیکٹریوں میں بھڑکنے والی آگ، جس کی وجہ سے تین سو سے زائد مزدور لقمہ اجل بن گئے، سینکڑوں جھلسے اور زخمی ہوئے اور ہزاروں لواحقین کی زندگیا ں اجڑ گئیں۔ اس ہولناک واقعے پر غفلت اورمجرمانہ چشم پوشی کرنے والا کوئی ایک محکمہ یا ادارہ تو نہیں ہے اسکی تو پوری ریاست ذمہ دار ہے۔اس بات سے خود حکمران بھی آگاہ ہیں لہٰذا اس واقعے کی تاویلیں اور جواز بے شرمی سے گھڑے جارہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس واقعہ پر حکومتیں مستعفی ہوجاتیں مگرایسا تب ہوتا اگر انسانوں کی زندگی کی قدر ہواور حکمران طبقے میں شرم و غیرت کی تھوڑی سی رمق موجود ہو۔ استعفیٰ تو بڑی بات ریاست کے کسی اہلکاریا حکمران نے دکھاوے کے لئے بھی ندامت محسوس نہیں کی کیوں کہ مرنے والے اور متاثر ہونے والے افراد بااثرمافیاز سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ محض محنت کش تھے جن کی زندگی اور موت اس ملک میں بے معنی ہوچکی ہے۔
یوں تو ریاست کے کاغذوں میں تمام قوانین موجود ہیں،مسئلہ ان پر عمل درآمد کا ہے۔اگر ان قوانین پر عمل درآمد کرانے کی اہلیت ریاست اور حکومت کے پاس ہوتی تو پھر ہر روز خونی حادثات محنت کش گھرانوں میں موت نہ بانٹتے پھرتے۔پاکستانی قوانین کے فیکٹری ایکٹ 1934ء(ترمیم1997ء)کے تحت کسی بھی فیکٹری کو رجسٹرڈ کرانا لازمی ہے۔اس رجسٹریشن کے تحت فیکٹری لگانے والا صنعت کار، سرمایہ کارپابند ہوجاتا ہے کہ وہ فیکٹری ایکٹ کے قوانین کے مطابق فیکٹری چلائے۔ فیکٹری ایکٹ کے قوانین کے مطابق کسی بھی فیکٹری میں گنجائش سے زیادہ کارکن(جن کی درست تعداد محکمہ محنت کو بتانا ضروری ہے)کام نہیں کرسکتے۔کام کے کمرے میں اتنا ہجوم اکھٹا نہیں کیا جاسکتا جس سے ان کی صحت اور زندگی متاثر ہوتی ہو۔فیکٹری کا کوئی بھی کمرہ کام کے دوران تالا بند نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کو قفل لگایا جاسکتا ہے، ہر دروازہ آسانی سے کھلنے والا ہونا ضروری ہے اور ہر کمرے میں ایسا خارجی راستہ ضروری ہے، جس سے کسی بھی ایمرجنسی میں کارکن باآسانی نکل سکیں (اورہنگامی خارجی راستوں کی نشان دہی سرخ رنگ کے نشانات اور کارکنوں کی پہچان والی زبانوں میں لکھ کرکی جائے)۔ فیکٹری کی کھڑکیا ں اور دروازے ایسے ہونا چاہئے جہاں سے کارکن ایمرجنسی کی صورت میں نکل سکیں۔ فیکٹریوں میں ملازمین کے لئے آگ لگنے کی صورت میں کیا تدابیرکی جائیں، کے نوٹس بورڈ آویزاں ہونے ضروری ہیں۔فیکٹری کے ہر کام کرنے والے کمرے میں ایسی کھلی جگہ لازمی طور پر ہونی چاہئے جہاں سے آگ لگنے کی صورت میں باآسانی باہر نکلا جاسکے۔ ایسی فیکٹری جہاں خام مال یا بننے والی مصنوعات آگ بھڑکانے والی ہوں تو فیکٹری چلانے والے/کام لینے والے پابندہیں کہ ہر کارکن کو آگ لگنے کی صورت میں جان بچانے کی تربیت دلائیں۔آگ لگنے کے علاوہ ہر کارکن کو کیا کیا سہولیات کام کی جگہ پر فراہم کرنا ضروری ہیں ان قوانین کا اندراج بھی فیکٹری ایکٹ 1934ء میں ہے۔ توسیعی طور پر صوبائی حکومتیں زیادہ کارکنوں والی فیکٹریوں(جہاں پانچ سو سے زائد مزدور ہوں) کے لئے زیادہ موثر اور جامع قوانین بھی وضع کرسکتی ہیں تاکہ ان کی جانوں کا تحفظ کیا جاسکے، صحت کی حفاظت اور علاج معالجہ کرایا جاسکے اور کام کے حالات کو بہتر بنایا جاسکے۔علاوہ ازیں کل 82شقوں کے ذریعے فیکٹری ایکٹ کے ذریعے کام کرانے والے(قابض)/مالکان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ فیکٹریوں میں کام کے لئے سہولیات /تنصیبات/آلات /تربیت/اجازت اور حالات مہیا کریں۔مگر یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ قانون کا اطلاق تو صرف کمزور پر ہوتا ہے طاقتور اپنے سرمائے کی طاقت سے ’’قانون ‘‘ کو تہس نہس کرکے گزر جاتا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد کرانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور وہ اس ذمہ داری پر پورا نہ اترنے پر ان حادثات کی براہ راست ذمہ دار ہیں۔مگر سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں فیکٹری ایکٹ کے مطابق رجسٹریشن کرانے کے قابل کارخانوں کی غالب اکثریت سرے سے محکمہ محنت میں فیکٹری ایکٹ 1934ء کے تحت رجسٹر ہی نہیں ہے۔یہ ایک طے شدہ چشم پوشی ہے کہ دیو ہیکل ریاست اور اس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگاہ سے مخفی لاکھوں کارخانے، ادارے اور فیکٹریاں کام کررہے ہوں۔یہ کھلی ملی بھگت ہے۔ ریاست کے پاس یہی جواز ہے کہ اگر کوئی فیکٹری حکومت کے کاغذوں میں کام ہی نہیں کررہی تو اس میں لیبر لاز،سوشل سیکورٹی،ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹ،ماحولیات، الیکٹرک سٹی تنصیبات کے قوانین، عمارات کے قوانین اور دیگر قوانین پر کیسے عمل درآمد کرایا جاسکتا ہے؟ دراصل جواز کی بجائے اسکی بدنیتی اور لاغر پن کا کھلا اعتراف ہے۔ دوسری طرف جو چند فیکٹریاںیا ادارے رجسٹرڈ ہیں وہ بھی ان متذکرہ بالا قوانین کے مطابق کام ہی نہیں کرتے اوران نام نہاد قوانین کا کھلے عام مذاق اڑاتے پائے جاتے ہیں۔ حکومتوں کے قوانین پرعمل درآمد کرانے والے شعبوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے خود حکمران سرمایہ داروں، مالکان، ٹھیکے داروں کی مالیاتی اور سیاسی قوت کے مطیع و غلام ہیں۔رشوت اور بدعنوانی اس نظام کی آکسیجن بن چکی ہے اگر اسکا خاتمہ کردیا جائے تو پورا نظام دھڑام سے گر جائے۔ کیا یہ حکومت اور ریاستی اداروں سے مخفی ہے کہ پاکستان میں لاکھوں غیر قانونی طور پرکام کرنے والے کارخانے اور فیکٹریاں اور قانونی طور پر رجسٹرڈ فیکٹریوں میں یکساں طور پر معمولی لیبر لاز پر بھی عمل درآمد نہیں ہورہا ہے؟ اس سے زیادہ ہولناک بات کیا ہوگی کہ اس نظام میں رہتے ہوئے ’’قانون کے مطابق ‘‘ فیکٹریاں اور کاروبار چلائے ہی نہیں جاسکتے۔ قانون کے مطابق مزدور کو اسکے حقوق دینے کی صلاحیت سے عاری سرمایہ دار طبقہ اپنے مجرمانہ کاروبار کو تحفظ دینے کے لئے سیاست کے کاروبار میں ملوث ہوتا ہے تاکہ قانون ساز اداروں میں بیٹھ کر ’’محفوظ قانون شکنی‘‘ کی جاسکے۔ اسی مجرمانہ زندگی کو دوام بخشنے کے لئے دیگر ریاستی اداروں کو بھی کاروبار میں شریک کیا جاتا ہے تاکہ وہ محنت کشوں کی کسی بھی ممکنہ مزاحمت یا احتجاج کو ابھرنے سے پہلے ہی کچل کر رکھ دے۔ا س جرم میں پاکستان کا سارا حکمران طبقہ ملوث ہے۔اسی لئے ان کے آنسومگر مچھ کے ہیں۔
حتمی حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلنے والی ریاست میں کوئی بھی حکومت اور اسکی مشینری سرمائے کے مفاد اور منشا کے خلاف کیسے کام کرسکتی ہے۔سرمایہ داری نظام اور اسکی ماتحت ریاست کا بنیادی نظریہ اور تقاضا سرمایہ داروں کے منافعوں، شرح منافع اور اثاثوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس ریاست میں بسنے والے محنت کشوں کے مفادات کی نگہبانی کرے۔ پھر جس ملک کا سرمایہ داربنکوں سے لیا گیا قرضہ تک واپس نہیں کرتا اور بجلی،گیس،ٹیکس چوری کرکے اپنے وجود کو قائم کئے ہوئے ہے وہاں مزدوروں کو انکا حق اور بہتر حالات کار دینے کی اس میں نہ سکت ہے اور نہ ہی اسکی ریاستی سطح پر ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔
کراچی، جہاں دو سونوے مزدور جل کر لقمہ اجل بن گئے وہاں ’’عوامی حکومت‘‘ اور اسکے اتحادی متحدہ قومی موومنٹ کے حکمرانوں کے بیانات دروغ گوئی اور سنگ دلی جبکہ سوگ کا اعلان منافقت پر مبنی ہیں۔ متحدہ کا کہنا کہ’’ اگر بلدیاتی ادارے ہوتے تو اس قسم کا واقعہ رونما نہیں ہوتا‘‘ حقائق کے برعکس ہے۔ کیا بلدیاتی نظام کی موجودگی میں سرمایہ داری نظام کی وحشت میں کمی ہوجاتی ہے؟ کیا تب سرمایہ دار مزدور دوست ہوجاتا ہے؟ کیا بلدیاتی اداروں کی موجودگی میں محنت کا استحصال بند ہوجاتا ہے؟ ماضی میں متحدہ کی بلدیاتی اداروں پر اجارہ داری کے دوران کوئی دن ایسا نہیں گزرا تھا جب فیکٹریوں اور کارخانوں میں حادثات رونما نہ ہوئے ہوں۔ دریں اثنا گارمنٹس بنانے والی متذکرہ فیکٹری جس میں ہولناک آگ لگی، کی تعمیرات اور دروازوں کھڑکیوں کے ڈیزائین شروع دن سے ہی سیفٹی اصولوں کے برخلاف تھے۔ اس فیکٹری میں محنت کشوں کے لئے ایمرجنسی میں باہر نکلنے کا کوئی راستہ اس وقت بھی موجود نہ تھا جب متحدہ اختیارات پر قابض تھی۔ اسی طرح متحدہ، ن لیگ، ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے اقتدار کی تمام باریوں میں (جو کہ کئی دھائیوں پر مشتمل ہیں) میںیہ گارمنٹس فیکٹری غیر قانونی طور پر ہی کام (غیر رجسٹرڈ)کرتی چلی آر ہی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی علمبردار بن کر محنت کشوں سے ووٹ لیتی اور اقتدار میں آتی ہے مگراس کے لیڈر اپنے اقتدار کے روز اول سے ہی اپنے بنیادی منشور کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا ہر ہر لمحہ ان صلاحیتوں(چالبازیوں) کے استعمال میں گزرتا ہے تاکہ ان کا اقتدار برقرار رہے۔ اقتدار بچانے اور اختیارات کی بندر بانٹ میں مصروف حکمران بھول چکے ہیں کہ وہ ریاست کی طاقت سے جس سماج پر حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں اس کی رگوں میں بہنے والاخون اسی محنت کش طبقے کا ہے جس کو ہر روز کسی نہ کسی فیکٹری، کارخانے، گلیوں اور بازاروں میں ناحق بہایا جارہا ہے۔
کراچی کے 290اورلاہور کے 25جل کر موت کاشکار ہونے والے شہید مزدوروں سمیت ہر روز ملک بھر کی فیکٹریوں میں ہونے والے خونی حادثات کسی اور کا جرم نہیں موجودہ سرمایہ داری نظام اور اسکے رکھوالوں کا جرم ہے۔اس جرم میں اگر کوئی ایف آئی آر بنتی ہے تو وہ سرمایہ داری نظام اور پورے حکمران طبقے پر بنتی ہے مگر یہ ایف آئی آر موجودہ نظام میں نہیں کٹے گی۔ اس کا اندراج تاریخ میں ہوچکا ہے۔ تاریخ اس سربمہر ایف آئی آر کو تب کھولے گی جب محنت کش طبقہ اس وحشی نظام کو اکھاڑ کر اکثریتی طبقے کا سوشلسٹ نظام رائج کرے گاتب اس قتل عام کے ارتکاب کرنے والے بدمست قاتلوں کو خود محنت کش طبقہ سرعام سزا دے گا۔