[رپورٹ : راہول]
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین حیدرآباد کی جانب سے مورخہ 8 نومبر 2013ء کو عظیم بالشویک انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی شہرہ آفاق کتاب ’’روس: انقلاب سے رد انقلاب تک‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی جس میں مختلف کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبا و طلبات سمیت مختلف اداروں کے محنت کشوں اور ٹریڈ یونین نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب کے مہمان خاص کامریڈ لال خان تھے جبکہ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض کامریڈ حنیف مصرانی نے سرانجام دئے۔ تقریب کے آغاز پر کامریڈ حنیف نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کرتے ہوئے مقررین کا تعارف کروایا اور اسٹیج پر موجود تمام مہمانوں سے کتاب کی رونمائی کروائی جس کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ابتدائی تقریر کرتے ہوئے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے صوبے سندھ کے صدر کامریڈ انور پہنور نے بالشویک انقلاب کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس کے تمام تر پہلووں پر بات کی اور کہا کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھنے والی عالمی تحریکیں طبقاتی کشمکش اور محنت کش طبقے کی طاقت کا
جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ اس کے بعد پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے مرکزی رہنما کامریڈ پارس جان اور مرکزی چیئرمین کامریڈ ریاض حسین بلوچ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بالشویک انقلاب تاریخ کا وہ واقع ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، انسانیت تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک اکثریت نے اقلیت پر حکمرانی قائم کرکے تاریخ کو ایک نئے موڑ کی طرف گامزن کیا، سویت یونین میں تاریخ کی تیز ترین ترقی دیکھنے میں آئی اور محنت کش طبقے کی حاکمیت کے نتیجے میں قائم ہونے ریاست میں اداروں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا گیا جس کے ذریعے معاشرے کی شکل ہی تبدیل کردی گئی لیکن کچھ عرصے بعد اسٹالن سمیت افسر شاہی کی سازشوں کے نتیجے میں انقلاب کی بنیادوں کو کمزور کیا گیا اور بیورو کریسی کے حاوی ہونے کی وجہ سے انقلاب زوال پزیری کا شکار ہو گیا۔ تقریب کی آخری تقریر کرتے ہوئے کامریڈ لال خان نے کہا کہ جب دیور برلن گری اور سویت یونین ٹوٹا تو پوری دنیا میں واویلا کیا گیا کہ سوشلزم ناکام ہوگیا، لیکن روس میں ناکام ہونے والا نظریہ اسٹالنزم تھا اور اسٹالن ہی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سویت یونین ٹوٹا، موت کسی اور کی تھی اور ماتم کسی اور کا
تھا، لیکن اس مشکل دور میں بھی جب پوری دنیا میں سرمایہ داری غالب تھی، ہمارے مارکسی استاد وں نے سو شلزم کے پرچم کو بلند رکھا اور تناظر تخلیق کرتے ہوئے انقلابی پارٹی کی تعمیر کو ممکن بنایا، سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ایک نئی نسل اب جوان ہوچکی ہے اورآج اس دن کی یاد منانے کا مقصد اور اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کی وجہ دراصل اسی نسل کو یہ بتانا ہے کہ روس میں جو ناکام ہوا وہ سوشلزم نہیں تھا اور سوشلزم کے لئے ہمیں اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا، پوری دنیا میں سرمایہ داری کے خلاف اٹھنے والی انقلابی تحریکوں نے اس بات کو واضع کردیا ہے کہ انسانیت کا مستقبل صرف سوشلزم میں ہی ممکن ہے اور اس نظام کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کا فریضہ ہم پر عائد ہوتا ہے، انقلابی پارٹی کی تیز ترین تعمیر کے ذریعے ہی اس فرض کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر پروگرام کا اختتام کیا گیا۔