دہشت کی شہ رگ

[تحریر: لال خان]
62 معصوم انسانوں کو لقمہ اجل اور درجنوں کو عمر بھر کے لئے اپاہج بنا ڈالنے والا واہگہ بم دھماکہ ثابت کرتا ہے کہ ریاست اور موجودہ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کو ’’کنٹرول‘‘ کرنے کی تمام تر کاوشیں نامراد ثابت ہو رہی ہیں۔ بربریت کا یہ عفریت ختم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ سنسر شپ میں جکڑے ذرائع ابلاغ کے تجزیوں میں اس قتل و غارت گری کی ثانوی اور سطحی وجوہات ہی زیر بحث لائی جاتی ہیں۔ اصل بیماری کی بجائے علامات کا ذکر ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے ناسور کی جڑوں اور مادی بنیادوں کا خاتمہ اس نظام معیشت، سیاست اور ریاست کے بس کی بات نہیں ہے، یا پھر ’’تذویراتی گہرائی‘‘ (Strategic Depth) جیسے کچھ مفادات ایسے ہیں جن کی وجہ سے حکمران ان جڑوں کا خاتمہ کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔
شام اور عراق سے لے کر پاکستان اور افغانستان تک، دہشت گردی کی وجوہات کو مذہبی بنیاد پرستی تک ہی محدود کر دیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی عادتاً مذمتوں کے بعد دہشت گردوں کو کبھی ’’اسلام دشمن‘‘، کبھی ’’ملک دشمن‘‘ تو کبھی ’’بیرونی ایجنٹ‘‘ قرار دے کرخبر کو زائل کر دیا جاتا ہے۔ قتل و غارت گری کے ایک سلسلے کے بعد یہ دہشت کچھ دن دم لیتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب ٹھیک ہو گیا ہے اور پھر کوئی نیا سانحہ سکوت کو توڑ ڈالتا ہے۔ یہ خونی چکر گزشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔
مذہبی بنیاد پرستی اور جنون ایک ٹھوس حقیقت ہے جس کی وحشت، دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے کٹھ پتلی حکمرانوں نے ان بنیاد پرست گروہوں سے مذاکرات کے کئی کوششیں کی ہیں لیکن مذاکرات کے آغاز کے کے لئے ہونے والے مذاکرات بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اس معاملے میں امریکی سامراج کے ’’عیار‘‘ سفارتکاروں کو بھی ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور مقامی حکومتوں کی مذاکراتی کمیٹیاں بھی ناکام رہی ہیں۔ پھر ’’بے قابو‘‘ ہو جانے والی دہشت گرد قوتوں کو کچلنے کے لئے قوت کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ انسانی تاریخ کی سب سے جابر اور طاقت ور فوجی قوت ’’دہشت کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر 2001ء میں افغانستان پر چڑھ دوڑی۔ آج 13سال بعد پسپائی اختیار کرتا ہوا امریکی سامراج اپنے پیچھے کہیں زیادہ خوانخوار دہشت گردی چھوڑ کر جارہا ہے۔
حال ہی میں امریکی کانگریس میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں نہ صرف شکست کا اعتراف کیا گیا ہے بلکہ دہشت گردی اور مذہبی بنیاد پرستی کی حقیقی وجوہات اور مادی بنیادوں کی طرف بھی کئی اشارے ملتے ہیں۔ امریکی کانگریس کے طرف سے تعینات کئے گئے ’’خصوصی انسپکٹر جنرل برائے بحالی افغانستان‘‘ (SIGAR) نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’اتنی طویل جنگ کے بعد بھی افغانستان ایک خطرناک عدم استحکام کی کیفیت میں ہی موجود ہے۔ 2011ء کے بعد باغیوں نے سب سے زیادہ حملے کئے ہیں۔ افغانستان کی قومی فوج کوبھاری نقصان اٹھانے پڑ رہے ہیں اور فوج کے اندر سے حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ افیون کی کاشت، جو کالے دھن کی معیشت کو ناپنے کا اعشاریہ بھی ہے، وہ مالی بنیاد ہے جو دہشت گردی اور خانہ جنگی کو فنانس کرتی ہے۔ ‘‘رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2013ء میں 209000 ایکڑ اراضی پر افیون کاشت کی گئی تھی اور 2012ء کے بعد سے اس کی پیداوار میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے ’’شعبہ منشیات و جرائم‘‘ کے مطابق اس فصل کی کاشت طالبان دور حکومت کے 91 ہزار ایکڑ کے مقابلے میں دوگنا ہو چکی ہے، اس کاروبار سے چار لاکھ سے زائد افراد کا روزگار وابستہ ہے اور یہ تعداد افغان سکیورٹی فورسز کی افرادی قوت سے زیادہ ہے، افیون کی فصل سے حاصل ہونے والے خام مال کی مالیت ہی تین ارب ڈالر ہے جبکہ اس خام مال سے دنیا بھر میں تیار ہونے والی منشیات کی مالیت 60 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
SIGAR کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 2014ء کے پہلے 9 ماہ میں دہشت گردوں نے 15968 حملے کئے ہیں یعنی روزانہ اوسطاً 61 حملے ہورہے ہیں۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ایک مخصوص عرصے میں ہونے والے حملوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ستمبر 2013ء سے اگست 2014ء تک ہونے والے حملوں اور دہشت گردی میں 2850 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ افغان سکیورٹی فورسز کے 36 ہزار اہلکار بھگوڑے ہوئے ہیں جن میں بیشتر طالبان سے جا ملے ہیں۔
امریکی کانگریس کو پیش کی جانے والی اس رپورٹ میں دہشت گردی کی مالی بنیاد کو محض منشیات کے کاروبار تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ افغان ڈالر جہاد کو فنانس کرنے کے لئے منشیات کی تیاری اور دنیا بھر میں برآمد کا نیٹ ورک سی آئی اے نے ہی اس خطے میں بچھایا تھا۔ پاکستان اور افغانستان میں ہونے والی مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں منشیات کے علاوہ اغوا برائے تاوان، کرپشن، بھتہ خوری، پیشہ وارانہ قتل، لین دین اور ’’زر، زن، زمین‘‘ کے تنازعات میں ’’ثالثی‘‘، ڈاکہ زنی اور قبضہ گری سمیت دوسرے کئی دھندوں اور جرائم کا دھن شامل ہے۔ یہ درست ہے کہ زیادہ تر دہشت گرد تنظیمیں اسلامی بنیاد پرستی کے مختلف رجحانات اور فرقوں سے وابستہ ہیں اور ریاست کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے بھی برسر پیکار ہیں۔ لیکن مذہبی بنیاد پرستی کے علاوہ تنگ نظر قوم پرستی اور لسانیت کے ’’نظریات‘‘ کے تحت بھی دہشت گردی کو منظم اور متحرک کیا جاتا ہے۔ ان تمام تر فسطائی رجحانات اور نظریات کی ایک مادی بنیاد بہرحال مشترک ہے: دولت، جس کے لئے یہ تمام تر قتل و غارت گری کی جاتی ہے اور پھر کالے دھن کے اس سارے کھلواڑ کو کبھی مذہب، کبھی فرقے تو کبھی لسانیت کے لبادوں میں چھپا دیا جاتا ہے۔
افیون کی کاشت لوگوں کو منشیات کا عادی بنانے کے لئے نہیں بلکہ پیسہ بنانے کے لئے کی جاتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں ’’طالبان‘‘ کے درجنوں گروہ اس انتہائی منافع بخش کاروبار سے وابستہ ہے۔ یہ کالا دھن نہ صرف ریاست بلکہ سیاست، صحافت اور ثقافت کے اندر تک سرایت کر چکا ہے۔ ہزاروں مدارس کا نیٹ ورک، خود کش حملوں اور ’’جہاد‘‘ کی تربیت گاہیں، جدید ترین اسلحہ اور مواصلات کے ذرائع، جلسے اور کانفرنسیں، ’’فلاحی‘‘ ادارے، سیف ہاؤسز، پے رول پر رکھے گئے مہنگے ’’تجزیہ نگار‘‘ …اس سب کے لئے درکار پیسہ آسمان سے نہیں ٹپکتا ہے۔ دوسرے منظم جرائم کی طرح دہشت گردی ایک صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے جس میں سامراجی، سیاسی اور مالی مفادات کے تحت باقاعدہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ اس صنعت کا مالیاتی حجم اور شرح منافع کیا ہے، اس کا اندازہ پاکستان میں متحرک کالے دھن کی معیشت سے لگایا جاسکتا ہے جو سرکاری معیشت سے دوگنا ہو چکی ہے اور دس فیصد سالانہ کی شرح سے پھیل رہی ہے۔ اور پھر کیا دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے اس کاروبار سے صرف مذہبی سیاست ہی مستفید ہو رہی ہے؟ سرمائے کی سیاست میں ’’سیکولر‘‘ اور ’’لبرل‘‘ پارٹیاں کیا اس سے مبرا ہیں؟ ریاست کے اندر سے کون لوگ یا دھڑے ان دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں؟ان سوالات کا جائزہ لینے پر یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ دہشت گردی کو جس مشینری سے کچلنے کے وعدے اور دعوے کئے جاتے ہیں اسے خود کالے دھن نے اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیا ہے۔
سامراج جنگیں برپا کرے یا ریاستیں فوجی آپریشن کرتی رہیں، حقیقت یہ ہے کہ کالے دھن کی مسلسل سپلائی وہ شہ رگ ہے جسے کاٹے بغیر دہشت گردی کا ناسور بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ لیکن یہ کالا دھن اسی مفلوج اور مرتی ہوئی سرمایہ داری کی پیداوار اور حصہ ہے جس نے اپنی تاریخی متروکیت کے عہد میں ’’جائز‘‘ اور ’’ناجائز‘‘ کی لکیر ہی مٹا ڈالی ہے۔ اس نظام کے حکمران بھلا دہشت گردی اور بنیاد پرستی کی اس شہ رگ کو کیسے کاٹ سکتے ہیں کہ جس کے کٹنے سے ان کی اپنی مالیاتی رگیں بھی کٹ جائیں گی؟
مسئلہ اتنا سادہ نہیں جتنا بنا دیا جاتا ہے۔ سیکیورٹی جب ’’ٹائیٹ‘‘ کی جاتی تو عام لوگ ہی ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور دہشت گردی بھی غریبوں اور محنت کشوں کا لہو ہی بہاتی ہے۔ استحصال زدہ محنت کشوں اور مفلوک الحال نوجوانوں کو کب تلک سامراجی جارحیت اور مذہبی دہشت گردی کی چکی میں پیسا جاتا رہے گا۔ غربت، محرومی اور ذلت کے اس صحرا میں حکمرانوں نے اپنے لئے تو پرتعیش نخلستان آباد کر رکھے ہیں جہاں بم چلتے ہیں نہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ لیکن یہ اونچی فصیلیں اور باڈی گارڈوں کی فوجیں انہیں دہشت گردوں سے تو بچا سکتی ہیں، خلق کے قہر سے نہیں۔ صحرائی طوفان جب اٹھتے ہیں تو محلات کو بھی ریت کے پہاڑوں میں دبا کر صفحہ ہستی سے مٹا ڈالتے ہیں۔

متعلقہ:

لرزتی ریاست کا فوجی آپریشن

مذہب کا سیاسی روپ

’’مذاکرات‘‘ اور ’’جنگ‘‘ کا کھلواڑ

آپس کے مذاکرات