یہ کیا ہو رہا ہے؟

[تحریر: ز بیر رحمن]
عا لمی سر ما یہ داری شدید بحران کا شکار ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آخری ہچکولے کھا رہی ہے۔ اگر ایک جانب صرف بھوک سے اس دنیا میں ہر ماہ ڈیڑھ لا کھ انسان لقمہ اجل ہو رہے ہیں تو دوسری جا نب صرف 85 ارب پتی آدھی دنیا کی دو لت کے ما لک ہیں۔ گزشتہ برس چین میں مزدوروں اور کسانوں نے ایک لاکھ سے زائد مظاہرے اور ہڑتالیں کیں۔ اس سے قبل ہندوستان میں دس کروڑ مزدوروں نے تا ریخی عام ہڑتال کی۔ یورپ کے حالیہ انتخاب میں دا ئیں با زو کے ساتھ بائیں بازو کا ابھار نظر آیا اور پورا سماج شدید پولرائزیشن کا شکار ہے۔ جنوبی امریکہ کے کئی ممالک میں بائیں بازو کی حکومتوں نے مالیاتی اور صنعتی اثاثوں کو قو می ملکیت میں لیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں نیو یا رک سے شروع ہو نے وا لی ’وال اسٹریٹ قبضہ تحریک‘ ٹو کیو تک جا پہنچی تھی اور دنیا کے ایک ہزار شہروں میں محنت کشوں اور نوجوانوں نے ’’ہم 99 فیصد ہیں‘‘ کے نعرے سے اس تحریک کے حق میں مظاہرے کئے۔ برازیل میں عوام کا سمندر سڑکوں پر امنڈ کر یہ صدا لگا رہا ہے کہ ’’ہمیں فٹ بال نہیں تعلیم اور صحت چاہئے‘‘۔ بینکاک میں 22 دن تک عوام نے ائیر پورٹ کو بند کئے رکھا۔ پاکستان میں گلگت بلتستان میں آٹے پر دی جا نے وا لی رعا یت واپس لینے پر لا کھوں لوگوں نے نسل اور فرقے کے تعصبات سے بالاتر ہوکر دو ہفتے تک کا میاب احتجاج کیا۔ مزدور دشمن بجٹ کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ینگ ڈاکٹرز نے وقت کے فرعونوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
پوری دنیا میں ریاستیں اور حکمران شدید خوفزدہ ہیں۔ پا کستان میں سرمایہ داروں کی حکومت کی عوام دشمن معاشی پالیسیوں کے خلاف ممکنہ طور پر اٹھنے وا لی عوا می تحریک کو روکنے اور اس سر مایہ دارانہ نظام کی حیات کو طول دلوا نے کے لئے نام نہاد ’’انقلاب‘‘ کے نام پر حکمران طبقے کے کچھ مداریوں نے نئے تماشے کا آغاز کر دیا ہے۔ سر ما یہ دار کی فطر ت ہی محنت کش کا خون نچوڑنا ہے۔ خود کو عوام کا ’’خا د م‘‘ کہنے والے سب سے بڑے ظالم ہیں اور اربوں ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ اپنی فیکٹریوں میں مزدوروں کو زندہ جلانے والے بھلاعوام دوست بجٹ تشکیل کر سکتے ہیں؟ ان کا پہلا اور آخری مقصد سامراج اور سرمایہ دار طبقے کی لوٹ مار میں اضافے کی پالیسیوں کا نفاذ ہے۔ بجٹ کے فورا بعد تقریباً ڈیڑھ سو اشیائے خور دو نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ بجلی کی قیمتیں دوگنا ہونے کے باوجود لوڈ شیڈنگ جاری ہے اور گردشی قرضہ ایک بار پھر 500 ارب تک پہنچ چکا ہے۔
جہاں تک انقلاب کی بات ہے تو ا نقلاب ہو تا کیا ہے؟ 1789ء میں انقلابِ فرانس بر پا ہوا جس میں بادشاہ اور ملکہ کا سر چوراہے میں کاٹا گیا، کلیسا کی حاکمیت پاش پاش ہوئی، جاگیر داری ختم ہوئی اور عوام نے دنیا کی تاریخ کا دھارا ہی موڑ دیا۔ 1871ء کا پیرس کمیون 70 دن تک قا ئم رہا۔ ان 70 دنوں میں کو ئی بھو کا مرا نہ ہی کوئی ڈاکہ پڑا۔ محنت کشوں نے تاریخ میں پہلی بار ثابت کیا کہ محنت کش طبقہ خود کار انجمنوں کے ذریعے اشتراکی طور پر سماج کو چلا سکتا ہے، اور حکمران طبقے سے بہت بہتر چلا سکتا ہے۔ پھر تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب اکتوبر 1917ء میں روس کے یخ بستہ شہروں، دیہاتوں، فیکٹریوں اور کھلیانوں میں برپا ہوا۔ تاریخ میں پہلی بار ایک باشعور قیادت نے انقلابی تحریک کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے منطقی انجام تک پہنچایا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں زار کی سینکڑوں سال پرانی بادشاہت کو اکھاڑ کر مزدور ریاست قائم کی گئی۔ ایک پسماندہ ملک میں مقید ہوجانے کے باعث انقلاب زوال پذیر ہوگیا لیکن یہ حقیقت تاریخ کے صفحات پر نقش ہوگئی کہ ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت (اپنی مسخ شدہ شکل میں بھی) وہ سماجی اور معاشی فرائض چند دہائیوں میں ادا کرسکتی ہے جو سرمایہ داری سینکڑوں سالوں میں بھی ادا نہیں کرپائی۔ 1936ء سے 1939ء تک جاری رہنے والے ہسپانوی انقلاب میں عوام کے زیر کنٹرول علاقوں میں طبقاتی سماج کی فرسودہ روایات اور اقدار کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔ موچی اور منتخب سپہ سالار ایک میز پر بیٹھ کر چائے پیتے نظر آئے۔
پا کستان میں 1968-69ء کے انقلاب کے 139 دنوں میں کرا چی سا ئٹ اور لا نڈھی میں جن ملوں کو مزدوروں نے اپنے قبضے میں لے رکھا تھا وہاں صنعتی پیداوار میں 22 فیصد کا اضافہ ہوا (یہ اعداد شمار حکمرانوں کے ہیں)۔ ریاست فضا میں معلق تھی۔ اقتدار محنت کشوں اور کسانوں کے ہاتھ میں تھا۔ بائیں بازو کی نظریاتی غلطیوں اور غداریوں نے اس انقلاب کو پاپولزم کے حوالے کر کے ضائع کروا دیا۔ اس وقت اگر پاکستان میں کوئی انقلابی پارٹی موجود ہوتی تو آج اس خطے کے ساتھ ساتھ دنیا کی تاریخ بھی مختلف ہوتی۔
طا ہر القادری ’’انقلاب‘‘ کا ورد تو گزشتہ کئی سال سے کررہے ہیں اور اس دوران انہیں وقتاً فوقتاً شدید انقلابی دورے بھی پڑتے رہے ہیں لیکن وہ شاید کسی اور چیز کو ’’انقلاب‘‘ سمجھتے ہیں۔ ان کی لغت میں انقلاب کے معنی ’’ٹائم پاس‘‘، ’’شہرت‘‘ یا ’’شغل میلے‘‘ کے ہیں۔ قادری صاحب اور ان کے پشت پناہوں کو اگر انقلاب کے معانی اور مطلب کا ادراک ہوجائے تو یہ لفظ شاید دوبارہ اپنی زبان پر نہ لاسکیں۔ وہ جو انقلاب لانا چاہتے ہیں اس کے بعد سماج کے بالائی اسٹرکچر میں کیا تبدیلیاں لائی جائیں گی؟ کیا وہ آئی ایم ایف اور عا لمی بینک کے قرضے ضبط کریں گے؟ کیا اس ملک کے تمام بینک، مالیاتی اثاثے اور ذرائع پیداوار قومی ملکیت میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دئیے جائیں گے؟ ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی چھٹی کروائی جائے گی؟جاگیروں کو بے زمین کسانوں میں تقسیم کیا جائے گا؟پچاس فیصد بجٹ ہڑپ کرنے والی باقاعدہ فوج کا خاتمہ کر کے مسلح عوامی ملیشیائیں بنائی جائیں گی؟ ہر شہر کے مرکزی چوراہے میں انقلابی ٹریبونلز صدیوں تک محنت کش عوام کا خون چوسنے والے طبقے کے نمائندوں کو موقع پر سزائیں دیں گے؟ ریاست کو مذہب سے الگ کر کے ملائیت کی ہر شکل کو کچلا جائے گا؟ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا نصف تعلیم اور علاج پر خرچ ہوگا؟ جدید رہائش اور باعزت روزگار کو انسان کا بنیادی حق قرار دے کر سماج کے ہر فرد تک فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا؟ انگریز سامراج کی جانب سے کھینچی گئی جعلی لکیروں کو مٹا کر اس خطے کا جغرافیہ بدلا جائے گا؟ہزاروں سالوں سے چادر اور چار دیواری کی مقدس زنجیروں میں جکڑی عورت آزاد ہوگی؟ قادری صاحب کا منشور تو بہت دور کی بات وہ یہ سب کچھ تصور میں بھی نہیں لاسکتے۔
اس سے پہلے قادری صاحب والی نوٹنکی باراک اوباما، عمران خان اور شہباز شریف بھی کرچکے ہیں۔ ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ عوام اتنے بے خبر ہیں نہیں جتنا یہ لوگ سمجھتے ہیں۔ جہاں 80 فیصد لو گ صاف پانی اور سائنسی علاج سے محروم ہوں، 44فیصد بچوں کی نشوونما نامکمل ہو، آدھی سے زیادہ لیبر فورس (تقریباً ساڑھے چار کروڑ) بے روزگار ہو اور باقیوں کا روزگار برائے نام ہو، محنت کی منڈی میں ہر سال 20 لاکھ نوجوان داخل ہورہے ہوں، جہاں ہر روز 1184 بچے بھوک اور غذائی قلت سے مرتے ہوں، سماجی انفراسٹرکچر کے چیتھڑے اڑ چکے ہوں، ساڑھے تین کروڑ بچوں نے سکول کی شکل نہ دیکھی ہو اور ’’غیرت‘‘ کے نام پر قتل معمول بن چکے ہوں، کیا وہاں صرف ’’باہر‘‘ کی دو لت لا نے سے مسئلہ حل ہو جا ئیگا؟ باہر کی دولت واپس لانے والوں کی اپنی دولت اور سرمایہ کاری ’’باہر‘‘ ہے۔ سوئس بینک تو بیچارے ایسے ہی بدنام ہوگئے ہیں۔ اصل مال دنیا کے ایسے دور دراز جزیروں کے آف شور بینکوں میں پڑا ہے جن کا نام بھی قادری صاحب نے نہیں سنا ہوگا۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے بغیر یہ دولت کبھی واپس نہیں آسکتی۔
پا کستان کے بجٹ کا 80 فیصد حصہ سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور ’’دفاع‘‘ کی نظر ہوجاتا ہے۔ باقی کے پیسے سے ملک کی بالائی اور ذیلی بیوروکریسی اپنی ’’تنگ دستی‘‘ دور کرتی ہے۔ جس ملک میں جنگی بجٹ 800 ارب روپے (یہ صرف ’’اعلانیہ‘‘ بجٹ ہے) ہو، ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا سود ادا کیا جائے، 70 فیصد معیشت کالے دھن پر مبنی ہو، ان ڈائریکٹ ٹیکس 90 فیصد ہوں اور صحت پر 27 ارب روپے خرچ کئے جائیں وہاں خوشحا لی اور صحت مندی کے پھول تو کھلنے سے رہے۔ جہاں ایک فیصد لوگ سماج کی کل معیشت، دولت اور سیاست پر حاوی ہوں وہاں ’’انتخابی اصلاحات‘‘ اور ’’آئینی انقلابات‘‘ سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ سرمایہ داری میں جمہوریت سرمائے کی باندی ہوتی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ طبقاتی نظام میں جمہوریت سے امیدیں وابستہ کرنے یا کروانے والا شخص دنیا کا سب سے بڑا منافق ہے یا پھر احمق۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں نجی ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کئے بغیر کوئی ’’انقلاب‘‘ برپا نہیں ہوسکتا۔
آج معیشت کے شدید بحران نے پا کستان کے حکمران طبقات کو شدید دھڑے بندی کا شکار کردیا ہے۔ سیاسی جما عتیں، باوردی و بے وردی نو کر شا ہی، ریاستی و غیر ریاستی مولوی، سر ما یہ دار، جا گیر دار، مختلف ملٹی نیشنل اجارہ داریاں۔ ۔ ۔ سب کے سب 20 کروڑ زندہ لاشوں کو نوچنے کے لئے آ پس میں گتھم گتھا ہیں۔ گا ہے بگا ہے بھڑکتے نان ایشوز اسی بندر بانٹ کا نتیجہ ہیں۔ جب جھگڑا حد سے زیادہ بڑھ جا تا ہے اور پورااستحصالی نظام خطرے میں پڑنے لگتا ہے تو ایک محاذ کو ادھورا چھوڑ کر نئی لڑائی کھول دی جاتی ہے۔ یہ سر مایہ دارانہ نظام گل سڑ کر اس حد تک متروک ہوچکا ہے کہ اپنے قوانین کے مطابق چلنے سے بھی قاصر ہے۔ اسکی لاش سے اٹھنے والا تعفن پورے سماج کو بیمار کر رہا ہے۔ عوام تڑپ رہے ہیں، بلبلا رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی تحریک صرف جھلکی تھی۔ آنے والے دنوں میں یہ سب کچھ ملک کے ہر گلی، محلے میں ہوگا۔ اس وقت انقلاب کے نام پر نوٹنکی کرنے والے یا تو دم دبا کر بھاگ رہے ہوں گے یا طاقت کے ایوانوں میں پناہ تلاش کر رہے ہوں گے۔ لیکن اب کی بار ان ایوانوں کا حشر بھی باستیل کے قلعے سے مختلف نہیں ہوگا۔