لاہور: ’چین کدھر؟‘ کی تقریب رونمائی

| رپورٹ: ولید خان |
lal khan book whither china inauguration alhamra hall lahore (1)آج کل ہر طرف چین کی معاشی ترقی اور خوشحالی کا چرچا حکمران طبقہ کررہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں اس امید کا بڑی شد و مد سے اظہار کیا جا رہا ہے کہ چین اپنی صنعتی طاقت اور دیو ہیکل معیشت کے ذریعے دنیا کو سرمایہ داری کے عالمی بحران سے باہر گھسیٹ لائے گا۔ تیسری دنیا میں چین کے معاشی ابھار کو ایک معجزے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اسے سرمایہ داری کی بحالی کی برکات قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے وقت میں جب مشرق سے مغرب تک تمام تجزیہ نگار چین کے گن گاتے نظر آتے ہیں، ان موضوعات پر مارکسی نقطہ نظر سے شاید ہی کوئی تحریر نظر آتی ہو کہ چین اور اس کے انقلابات کی تاریخ کیا ہے، 1949ء کا انقلاب چین کیا تھا، 1978ء کے بعد کیا ہوا اور آج چین کس طرف جارہا ہے۔
مورخہ 17 اپریل 2015ء بروز جمعہ ڈاکٹر لال خان کی چین پر نئی کتاب ’چین کدھر؟‘ کی تقریب رونمائی الحمرا ہال کمپلیکس لاہور میں منعقد ہوئی۔ تقریب کا اہتمام ’طبقاتی جدوجہد پبلیکیشنز‘ نے کیا تھا جس میں پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر، صحافی اور تجزیہ نگارقاضی سعید، پیپلز لائر فارم کے رہنما الیاس خان، پروگریسو یوتھ الائنس کے آرگنائز عمران کامیانہ، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے سیکرٹری جنوب ایشیاآدم پال، پیپلز پارٹی کے رہنما غلام عباس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ مصنف کامریڈ لال خان نے بحث کو بڑی خوبصورتی سے سمیٹا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض PTUDC لاہور کے آگنائزر آفتاب اشرف نے ادا کیے۔
11134229_10153214087420406_784905532_nمقررین نے کہا چین کا سرمایہ داری کی طرف دوبارہ سفر 1978ء کے بعد شروع ہوا جبکہ 1949ء کا انقلاب چین ایک عظیم انقلاب تھا جو تمام تر نظریاتی زوال پزیری کے باوجود تاریخی طور پر ایک ترقی پسندانہ قدم تھا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں تعمیر ہونے والی ریاست اس وقت کے سٹالن اسٹ سوویت یونین کے ماڈل پر تعمیر کی گئی اور اس لحاظ سے یہ ریاست روز اول سے ہی مسخ شدہ مزدور ریاست تھی۔ مسخ شدہ شکل میں ہی صحیح لیکن چین میں سرمایہ داری، جاگیر داری کا خاتمہ کیا گیا اور منصوبہ بند معیشت استوار ہوئی جس کے ذریعے اس پسماندہ ملک میں چند دہائیوں میں تیز صنعتی ترقی ہوئی، مضبوط معاشی اور سماجی انفراسٹرکچرتعمیر ہوا اور ہنر مند محنت کش طبقہ پیدا ہوا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اس دیو ہیکل معیشت کے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں نہ ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی کی لوٹ مار اور بدانتظامی بھی جاری رہی اور 1970ء کے بعد معیشت کا ہجم اتنا پھیل گیا کہ افسر شاہانہ طریقے سے اسے مزید آگے بڑھانا ممکن نہ تھا، ان حالات میں افسر شاہی نے اقتدار سے الگ ہو کر مزدور جمہوریت اور سوشلسٹ بین الاقوامیت کے راستے پر گامزن ہونے کی بجائے اپنی مراعات بچانے کے لئے سرمایہ داری کی بحالی کا راستہ اپنایا جس کی اپنی حرکیات تھیں اور وقت سے ساتھ چینی بیوروکریسی خود سرمایہ دار طبقے میں تبدیل ہوگئی۔ چین میں سستی مگر ہنر مند لیبر نے عالمی سرمایہ داری کو وقتی طور پر آکسیجن فراہم کی لیکن 2008ء کے بعد سے یورپ اور امریکہ میں منڈی مسلسل سکڑ رہی ہے اور چینی lal khan book whither china inauguration alhamra hall lahore (13)معجزے کی اپنی ہوا بھی نکل رہی ہے۔ جنوبی افریقہ کے بعد امارت اور غربت کی سب سے بڑی خلیج آج چین میں موجود ہے، ریاستی سرمایہ کاری سے چین کی شرح نمو کو برقرار رکھنا بھی اب ممکن نہیں رہا ہے، 2016ء کی معاشی شرح نمو گزشتہ 25 سالوں کی کم ترین سطح پر ہو گی جس کے سماجی اثرات بڑی ہڑتالوں اور سماجی انتشار کی شکل میں اپنا اظہار ابھی سے کر رہے ہیں اور چین ایک بار پھر بڑے سماجی دھماکوں اور انقلابی تحریک کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس موقع پر جہانگیر بدر نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے پیپلز پارٹی کو لکھا گیا خط پڑھ کر سنایا جس میں کمیونسٹ پارٹی نے ’’چینی خدوخال کے تحت سوشلزم کی تعمیر‘‘ کے نام پر اپنے جرائم کی توجیح پیش کی ہے۔ پیپلز پارٹی کی تاریخ اور موجودہ صورتحال پر بھی بحث ہوئی اور مقررین نے جہانگیر بدر کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارٹی قیادت کی نااہلی، بدعنوانی، نظریاتی دیوالیہ پن اورحکمران طبقے کی گماشتگی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ مقررین نے کہا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کا کردار اس لحاظ سے مختلف نہیں ہے کہ دونوں پارٹیوں کی قیادت محنت کشوں سے غداری کر کے سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی علمبردار بن چکی ہے اور آج اسی نظام کی محافظ ہے جس کے خلاف یہ پارٹیاں تعمیر ہوئی تھیں۔ علاوہ ازیں چینی سرمایہ کاری کے عوام دشمن کردار اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں چین کے سامراجی عزائم پر بھی سیر حاصل بحث ہوئی۔