مشرق وسطیٰ: داعش اور اردگان کا گٹھ جوڑ بے نقاب!

| تحریر: حمید علی زادہ، ترجمہ: حسن جان |

پچھلے ہفتے ترکی کے قصبے سوروچ میں وحشیانہ دہشت گرد حملے کے بعد سے ترکی میں حالات ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوئے ہیں۔ داعش کے خلاف جنگ میں شرکت کے بہانے اردگان نے پی کے کے (PKK) کے خلاف بڑی فوجی آپریشن کاآغاز کیا ہے اور سینکڑوں ترک اور کرد بائیں بازو کے سرگرم کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔
11811324_10206553460731833_4924467804851418344_nامریکی سامراج جو حالیہ دنوں تک شام میں پی کے کے کی ماتحت تنظیم پیپلز پروٹیکشن یونٹس (YPG) پر انحصا ر کررہا تھا، اب اس نے واضح طور پر داعش کے خلاف امریکی اتحاد سے تعاون کے بدلے اردگان سے سمجھوتہ کر کے ان سے منہ موڑلیا ہے۔ ان حالات میں ترکی ایک تباہ کن خانہ جنگی کے خطرے کو جنم دے سکتا ہے۔ پچھلے ہفتے سوروچ میں شام کے قصبے کوبانی جانے والے نوجوانوں کے ایک وفد پر دہشت گرد حملہ کیا گیا جس میں 32 ہلاک اور 102 زخمی ہوئے۔ اس وفد میں سوشلسٹ یوتھ ایسو سی ایشنز فیڈریشن اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (جو ترک پارلیمنٹ میں چوتھی بڑی پارٹی ہے) کے نوجوان کارکنان شامل تھے۔ یہ وفد کوبانی جانے کی تیاری کر رہا تھا تاکہ اس کی تعمیر نو میں حصہ لے سکے جو پچھلے سال داعش کے حملو ں کے نتیجے میں تباہ ہوگئی تھی۔
حملو ں کے چند دن بعد اردگان حکومت نے اعلان کیا کہ وہ داعش (جو ان حملوں میں ملوث تھی ) کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ بنے گی۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ جنگ پی کے کے، ترک اور کرد بائیں بازو اور شمالی شام کے خود مختار کرد علاقوں کے خلاف زیادہ اور داعش اور دوسرے اسلامی بنیاد پرست گروہوں کے خلاف کم ہے۔
ترک فوج کی روزانہ سینکڑوں فضائی بمباری میں سے بہت کم داعش کے ٹھکانوں کو ہدف بناتے ہیں۔ در حقیقت ان میں سے اکثر کا ہدف کردش ورکرز پارٹی ہے جن کے عراق میں ٹھکانوں کو شدید بمباری کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی بہت سی اطلاعات ہیں کہ شام کے کرد علاقوں کے قصبوں اور یونٹس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جہاں PYD، جو پی کے کے کی ذیلی تنظیم ہے، پچھلے چار سالوں سے واحد زمینی قوت ہے۔ سی این این ترکی کے مطابق 24 جولائی کو عراق میں ترک فوج نے PKK کے چار سو سے زائد اہداف کو نشانہ بنا یا جبکہ اس نے شام میں داعش کے کسی بھی ٹھکانے پر حملہ نہیں کیا۔
فوربس میگزین نے داعش پر حملوں کی مزید واضح تصویر کشی کی ہے:
’’داعش کے معاملے میں انقرہ کی طرف سے ایف سولہ طیاروں کی لیزر گائیڈڈ ہتھیاروں سے اہداف کو نشانہ بنانے کی جاری ہونے والی ویڈیو کو دیکھنا چاہیئے۔ تمام اہداف میں ایک چیز مشترک ہے : ان میں سے ہر ایک داعش کے زیر انتظام علاقوں کے رہائشی مکانا ت سے محفوظ فاصلوں پر ہے۔ وہ کھلے میدانوں میں بکھر ے ہوئے ہیں۔ ان میں کسی بھی طرح فوجی نقل و حمل کا شائبہ نہیں ہو تا۔ کیا داعش سٹریٹجک اہداف کو آبادی سے دور رکھتی ہے؟ اگر ہاں، تو پھر یہ اہداف اتنے واضح کیوں ہیں ؟ امریکہ نے پچھلے سال ستمبر سے داعش کے خلاف فضائی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ کیا اس نے گنتی کے چند اہداف ترکو ں کے لیے رکھے ہیں ؟ یہ بات بھی مشکوک ہے کہ یہ واقعی اہداف ہیں۔‘‘
ترکی کی ایما پر بلائے گئے نیٹو کے ہنگامی اجلاس میں نیٹو کے جنرل سیکرٹری جینز سٹولٹنبرگ نے اردگان کی رجعتی حکومت کے ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف اس آپریشن کی ’’مکمل حمایت‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ اسی اجلاس میں ترکی کے وزیر خارجہ ماولت کاوسوگلو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کے خطے میں مفادات کے تحفظ کی لڑائی کے بارے میں واضح طور پر کہا کہ ’’وہ داعش اور کرد باغیوں میں کسی قسم کا فرق نہیں دیکھتے، بلکہ کرد باغیوں کو بھی داعش جیسا ہی خطرناک تصور کرتے ہیں جو ترکی کی سرحدوں پر انتشار پھیلا رہے ہیں۔‘‘ یہ بیان کردوں کے خلاف کئے جانے والے آپریشن اور قتل عام کی ایک وضاحت تھی جس کی مخالفت میں نیٹو یا امریکی سامراج کی طرف سے کوئی بیان نہیں دیا گیا جو ماضی میں کردوں کو اپنا اتحادی تصور کرتے تھے۔
شام میں YPG کے خلاف ترک فضائی اور توپ خانوں کے حملوں کی بہت سی اطلاعات ہیں۔ کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ترک ٹینکوں نے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اور شامی صوبے حلب کے گاؤں زر مغار میں عرب FSA کے جنگجوؤں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ YPG نے بیان میں کہا کہ ’’بھاری توپ خانوں کی گولہ باری‘‘ سے چار باغی اور بہت سے دیہاتی زخمی ہوئے۔ بیان میں کہا گیا کہ بعد میں زر مغار اور اسی علاقے میں ایک اور گاؤں پر ایک دفعہ پھر شیلنگ کی گئی۔
’’داعش کے دہشت گرد وں کے علاقوں کو نشانہ بنانے کی بجائے ترک فوجیں ہماری دفاعی پوزیشنوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ہم ترک قیادت پر زور دیتے ہیں کہ ان حملوں کو روک دیا جائے اور عالمی گائیڈ لائن پر عمل کرے۔ ہم ترک فوج کو یہ بتا رہے ہیں کہ ہمارے جنگجوؤں اور ان کی پوزیشنوں پر حملے بند کرے۔‘‘ اسی طرح کے واقعات مشرق میں شامی کردستان کے بہت سے علاقوں میں رونما ہوئے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ اردگان شام کے شمالی علاقوں میں مداخلت کی تیاری کر رہا ہے۔ ترک ریاست خانہ جنگی میں اپنی براہ راست پراکسیوں، اسلامی بنیاد پرستوں کے مختلف گروہ، کے لیے ایک محفوظ علاقہ تشکیل دینا چاہتا ہے تاکہ شام میں اپنی طاقت کو بڑھا سکے۔ یہ کام وہ ترک فوجیوں کو میدان میں اتار کر یا اپنی پراکسیوں اور بمباری کے ذریعے کرتے ہیں، یہ بات اب تک واضح نہیں ہے لیکن شام کے ایک حصے پر قبضہ کر نے کے لیے اردگان ایک عرصے سے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
اس دوران وزیر اعظم احمد داؤدگلو نے داعش کے خلاف امریکی اتحاد کے ساتھ ایک معاہدے کو آشکار کیا ہے جس کی رو سے ترک سر زمین پر تین فضائی اڈوں کو داعش کے خلاف فضائی مہم کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یقیناًمعاہدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کرد تحریک، جو اب تک داعش کے خلاف جنگ میں سب سے موثر قوت ہے، کے خلاف اردگان کے جرائم پر چپ سادھ لے گا۔ یہ امریکی سامراج کی منافقت کا ایک اور ثبوت ہے جو ’ڈیموکریٹک ‘ صدر باراک اوباما کی قیادت میں جمہوریت اور تہذیب کی نمائندگی کا دعویٰ کر تے ہیں۔ یہ امریکہ کی داعش کے خلاف جنگ کے مقاصد کے دعوؤں کی قلعی بھی کھول دیتا ہے۔ وہ خوشی سے داعش کی جگہ دوسری بنیاد پرست قوتوں، جو اسی کی طرح ہی وحشی ہونگے، کو گلے لگا لیں گے اگر انہیں اس بات کا یقین ہو کہ ان کو اپنے قابو میں رکھ سکتے ہیں۔
سامراج کے لیے کرد جیسی چھوٹی قومیتیں دوسری طاقتوں کے ساتھ لین دین میں بہت معمولی حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں YPG زمینی محاذ پر امریکی اتحاد کے لیے موثر تھی وہیں ان کی نہایت جمہوری ڈھانچے اور ایک مظلوم قومیت کے جنگجوؤں کی حیثیت نے انہیں خطے کی دوسری ریاستوں کے استحکام کے لیے ایک خطرے میں تبدیل کردیا۔ ان کے لیے YPG داعش یا دوسرے لاتعداد اسلامی گروہوں سے زیادہ خطرناک ہے جن کی وہ مسلسل فنڈنگ کر رہے ہیں اور جو اپنے ’حریف‘ کے کمزور ہونے سے زیادہ مستفید ہونگے۔ امریکہ کا کردوں اور ان کی عوامی تحریک کے خلاف ہو جا نا طے تھا۔ شام کے المیے میں ایک چیز واضح ہوئی ہے کہ بورژوا ریاستوں کا کوئی اصول نہیں ہے بلکہ صرف ننگے مفادات ہیں جو ان کے حکمران طبقے کی خدمت کرسکیں۔

ترکی میں اندرونی جبر
اندرونی محاذ پر ’’دہشت گردی کے خلاف آپریشن‘‘ بھی ترک بائیں بازو کی اپوزیشن کے خلاف زیادہ اور داعش کے خلاف کم ہے۔ اطلاعات کے مطابق گرفتار کیے گئے آٹھ سو سے زائد افراد (اور یہ تعداد بڑ ھ رہی ہے) میں سے صرف سو افراد کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق داعش سے ہے۔ فلکناس اوچا، دیار بکیر سے HDP کے ممبر پارلیمنٹ، نے بتایا، ’’ترک ریاست نے امن عمل کو اپنی فضائی کاروائی سے منہدم کر دیا ہے۔ صدر اور وزیر اعظم ترکی کو جنگ کی طرف دھکیل ر ہے ہیں۔‘‘ ترکی اور AKP کی داعش کے بارے میں پالیسی واضح اور صاف ہے۔ انہوں نے داعش اور PKK کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا لیکن اب تک انہوں نے داعش کے پچاس مشکوک افراد جبکہ پانچ سو کردوں کو گرفتار کیا ہے۔ یہ(گرفتار شدہ) لوگ ایچ ڈی پی اور بی ڈی پی (ڈیمو کریٹک ریجنز پارٹی )، انجمنوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ممبران ہیں۔‘‘
گزشتہ دنوں، پیس بلاک (جو ایچ ڈی پی، سی ایچ پی اور ٹریڈ یونینوں اور سماجی تنظیموں کا اتحاد ہے )کی طرف سے داعش مخالف مظاہرے پر اس بنیاد پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ اس سے ٹریفک کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ دوسرے چھوٹے مظاہروں پر پولیس کی طرف سے تشدد کیا گیا۔ استنبول کے علاقے غازی میں بائیں بازو کے علویوں کے علاقے میں جھگڑااس وقت مکمل شورش میں تبدیل ہوگیا جب پولیس نے بائیں بازو کے سرگرم کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر چھاپے مارے۔

آگ کے ساتھ کھیلنا
ایچ ڈی پی کے شریک صدر صلاحتین دمرتس نے کہا ہے کہ سوروچ میں ہونے والے حملے کو ترک ریاست کی مدد کے بغیر انجام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ دمرتس نے کہا کہ عبوری حکومت حملے کے لیے براہ راست ذمہ دار ہے اور AKP کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ داعش کے خلاف ہے یا اس کے ساتھ۔ اس نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ سوروچ میں حساس اداروں کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں اور سوروچ جانے اور وہاں سے آنے والوں کی شناخت کو ریاست ریکارڈ کر رہی تھی۔ جس مخصوص وفد پر حملہ کیا گیا اسے حالیہ دنوں میں سوروچ میں داخل ہونے سے روکا گیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس قصبے میں ریاست کی کڑی نگرانی کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کوئی شخص ریاست کی مدد کے بغیر ہجوم میں گھس کر خود کش حملہ کر سکتا ہے۔
ترک ریاست اور داعش کے درمیان تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا، ’’ہتھیاروں سے لدے ہوئے ٹرک ترکی کی سرحد کو عبور کر تے ہیں۔ وحشی بلاد کاریوں کی فو ج، داعش، سرحد کے قریب آزادانہ گھومتی ہے۔ تاہم، انقلابی نوجوانوں کے ہاتھوں میں کھلونے سرحد کو عبور نہیں کر سکتے۔ یہ نوجوان سرحد کو عبور تو نہیں کر سکے لیکن ان کے پیغام اپنی منزل کو پہنچ گئے۔‘‘
در حقیقت چار سالوں سے اردگان کی حکومت شام کی خانہ جنگی میں اسلامی بنیاد پرستوں کی حمایت کر رہی ہے اور داعش اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ترکی کو ایک محفوظ ٹھکانے اور اپنے ہتھیاروں، پیسے اور جنگجوؤں کے نقل و حمل کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دینے کے بدلے اردگان نے اسلامی بنیاد پرستوں کو اسد حکومت اور YPG کے زیر انتظام شام میں خود مختار کرد علاقوں کے خلاف حملے کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے بار بار یہ دکھا یا ہے کہ وہ اپنے سامراجی مقاصد کے لیے پورے خطے کو بر بریت کی طرف لے جانے سے نہیں ہچکچائے گا۔
حالیہ دنوں میں داعش کے ایک اعلیٰ عہدیدار، ابو سیاف، پر حملے کے بعد غیر اعلانیہ اتحاد کے ثبوت مزید واضح ہوگئے۔ مقتول رہنما کے گھر سے ملنے والی اطلاعات سے واقف ایک اعلیٰ مغربی عہدیدار نے اوبزرور (Observer) کو بتایا کہ ترک سرکاری عہدیداروں اور داعش کے درمیان رابطے اب ناقابل تردید ہیں۔
اس نے مزید کہا کہ ’’اس کے ٹھکانے سے سینکڑوں فلیش ڈرائیوز اور دستاویزات کو قبضے میں لیا گیا۔ فی الحال ان کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے لیکن رابطے اس قد ر واضح ہیں کہ اس سے ہمارے اور انقرہ کے درمیان تعلقات پر گہرے اثرات پڑ سکتے ہیں۔‘‘
ترک حکمران ٹولے کے لیے داعش شام میں کر د تحریک کی طرح خطرہ نہیں ہے۔ موجودہ فوجی آپریشن کی تیاری اس وقت شروع ہوئی جب کرد YPG کی قوتوں نے 14 جون کو داعش سے سرحدی قصبے تل ابیض کا قبضہ چھڑا لیا۔ داعش کی شکست پر اردگان کا رویہ اس کے تبصرہ سے واضح ہوتا ہے، ’’مغرب، جو تل ابیض کے عربوں اور ترکمنوں کو فضا سے مار رہا ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ PYD (ڈیموکریٹک یونین پارٹی جو شامی کرد علاقوں میں اہم پارٹی ہے اور YPG کی عوامی ملیشیا کا سیاسی ونگ ہے) اور پی کے کے کی دہشت گرد تنظیموں کی پوزیشنوں کو مضبوط کر رہا ہے۔‘‘ اس نے خبر دار کیا کہ تل ابیض کے سٹریٹیجک قصبے پر قبضے سے ’’ایک ایسا ڈھانچہ (آزاد ریاست) جنم لے سکتی ہے جو ہماری سرحدوں کو خطرے میں ڈال دے گی۔‘‘
تل ابیض کی جنگ کے ایک ہفتے بعد داعش نے کوبانی پر ایک انتہائی تباہ کن حملہ کیا۔ تا ہم حملہ جزوی طور پر ترکی سے کیا گیا جو اردگان حکومت کے کردار کو واضح کرتا ہے جو عمومی طور پر واضح انداز میں جہادیوں اور انتہاپسند گروہوں کی حمایت کر رہی ہے جبکہ خاص طور پر خفیہ انداز میں داعش کو چھوٹ بلکہ اس کی حمایت کر رہی ہے۔
اردگان کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ سے منافقت کی بو آتی ہے۔ شام میں اسلامی بنیاد پرستوں کی حمایت اور کمک سے وہ خود ترکی کو غیر مستحکم کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ ہزاروں اسلامی بنیاد پرست جنہوں نے پورے ترکی میں جدید نیٹ ورک قائم کر لیے ہیں اور غالباً حکمران طبقے کے مختلف حصوں کے ساتھ رابطے بھی استوار کر لیے ہیں، انہیں راتو ں رات ختم نہیں کیا جاسکتا۔ آنے والے وقت میں ان کا اثرو رسوخ ترکی کے استحکام کے لیے مستقل خطرہ ہوگا۔
وہ تمام لوگ جنہوں نے اسلامی بنیاد پرستوں کو تیار کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا انہیں خطرناک نتائج کا سامنا کر نا پڑا۔ امریکہ اور پاکستان نے القاعدہ اور طالبان کو ثور انقلاب کو شکست دینے کے لیے استعمال کیا لیکن اس سے اس دیو ہیکل گروہ نے جنم لیا جو آج پورے خطے کو برباد کر رہا ہے اور جو خود پاکستانی ریاست کے وجود کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ شام میں بھی امریکہ نے اسلامی بنیاد پرستوں کو اسد کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا الٹا اثر ہوا اور عراق اور خطے کے دوسرے علاقوں میں داعش نے جنم لیا۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ اس سے پہلے اسد نے انہی اسلامی بنیاد پرستوں کو پناہ دی اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اگر اس رجعتی کینسر کو عوام کی انقلابی تحریک کے ذریعے نہیں اکھاڑا گیا تو ترکی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو گا۔

ترک ریاست کا بحران
کردوں کے خلاف اردگان کے حملوں کی حقیقی وجہ اس کی مطلق طاقت نہیں بلکہ اس کی حکومت کا بڑھتا ہوا بحران ہے۔ پچھلے چند سالوں میں ترک سماج میں طبقاتی تقسیم بہت بڑھ گئی ہے۔ 2000ء کے عشرے کی معاشی ترقی سے ترک عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ غربت میں مزید اضافہ ہوا۔ 2012ء سے پہلے 5 فیصد کی شر ح ترقی کے باوجود ترکی میں غربت کی شرح میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ترکی میں 10 فیصد امیر ترین افراد کے پاس ملکی دولت کا 77 فیصد ہے جبکہ دو تہائی بچے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب تک معیشت ترقی کر رہی تھی، عوام ان سب چیزوں کو جھیل ر ہے تھے۔ لیکن معیشت کی سست روی نے واضح انداز میں ترکی میں موجود تضادات کو عیاں کر دیا ہے۔
اسی دوران ترکی کی اسلامائزیشن اور اردگان کی شام میں سامراجی مداخلت بہت سے ترکوں کے لیے بے چینی کا باعث بنی جو اردگان کی حکومت کے مخالف ہوگئے۔ اردگان کا جد ید طرز کا عثمانی سلطنت قائم کرنے کا خواب جس میں وہ خود سلطان ہوگا، بہت سے لوگوں کی نظر میں جدید سیکولر ترک سماج کے لیے پیچھے کی جانب قدم ہے۔ اس کی داعش اور دوسرے اسلامی انتہاپسندوں کی کھلی حمایت بہت سے لوگوں کے لیے بے چینی کا باعث بنی۔
2013ء میں غازی پارک کی تحریک میں یہ تضادا ت پہلی دفعہ ابھر کر سامنے آئے۔ ترک اور کر د تحریک نے بھی پہلی دفعہ طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہوکر جد وجہد کی۔ لیکن قیادت کے فقدان کی وجہ سے تحریک پیچھے چلی گئی اور اردگان حکومت میں رہا۔ پارلیمانی انتخابات میں AKP کو پچھلے سالوں کی نسبت بد ترین نتائج کا سامنا کرنا پڑا، جس میں اس کے ووٹ 58 فیصد سے 49 فیصد پر آگئے جبکہ وہ تمام پارٹیاں جو پارلیمنٹ تک پہنچیں وہ خاص طور پر اردگان کی مخالفت میں اپنی مہم چلا رہی تھیں۔ لیکن اس الیکشن میں سب سے بڑی تبدیلی ایچ ڈی پی کا ابھار ہے جو رائے شماری میں اپنے ریڈیکل پروگرام اور نعروں (جس نے کرد آبادی اور ترک نوجوانوں کی بڑی تعداد بالخصوص غازی پارک کی تحریک کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ) کی وجہ سے آگے چلی گئی۔
ایچ ڈی پی کے ابھار کی ایک اور وجہ کوبانی کی جنگ تھی جو ستمبر 2014ء سے جنوری 2015ء تک چلی۔ جہاں YPG کے جنگجوؤں نے، جن کو ترکی میں کرد قوتوں کی حمایت حاصل تھی، بہادری کے ساتھ لڑ کر داعش کو شکست دی جن کو عملی طور پر اردگان حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ کرد جنگجوؤں کو شام میں جاکر YPG کی قوتوں کی کمک کی اجازت نہ دینے کے علاوہ ترک ریاست نے داعش کو علاقے میں گھومنے کی کھلی چھٹی دے دی تھی۔
YPG داعش کے خلاف جنگ میں سب سے موثر قوت رہی ہے۔ انہوں نے نہ صرف کوبانی اور اس کے گرد و نوا ح پر قبضہ کیا بلکہ تل ابیض پر بھی قبضہ کر کے تیزی سے جنوب میں رقہ کی طرف بڑھے جو دراصل داعش کا دارالحکومت ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے حسکہ شہر میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور کوبانی کے مغرب میں بھی آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ تاہم YPG کی طاقت کی اصل وجہ ان کے ہتھیاروں کا معیار نہیں بلکہ ان کا ریڈیکل پروگرام ہے جس میں ان کے زیر انتظام علاقوں میں عوامی حکومت کا قیام شامل ہے۔ ان کی غیر فرقہ وارانہ، برابری پر مبنی سوچ اور ان کی انتہائی جمہوری طرز حکومت ان کے زیر انتظام علاقوں کے لوگوں کے لیے بہت ہی پر کشش ہے۔
یہ کامیابیاں اور اردگان کی داعش کی حمایتHDP کی ترکی میں کامیابی کے بڑے عوامل تھے۔ سب سے پہلے تو ان کی وجہ سے کرد نشین علاقوں میں ایچ ڈی پی کو قطعی کامیابی ملی، جہاں روایتی طور پر AKP اور کرد پارٹیوں کے درمیان ووٹ تقسیم ہوئے جس میں بہت سے علاقوں میں ایچ ڈی پی کے ووٹ 70 سے 90 فیصد تک پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ ہی کوبانی کی جنگ نے ترک آبادی کے ایک بڑے حصے کو اردگان سے دور دھکیل دیا جورجعتی قوتوں کے حمایتی کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور اس سے ایچ ڈی پی اور کرد تحریک کو عمومی طور پر ترک آبادی میں مزید حمایت مل گئی۔
یہی وہ اہم وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اردگان دس سال سے زائد عرصے کے بعد پارلیمنٹ میں اکثریت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس سے پارلیمنٹ میں بھی تعطل پیدا ہوگیا جس سے مستحکم حکومت کا قیام ناممکن ہوگیا۔ اس لیے موجودہ مہم کا مقصد ترک قوم پرستی کو ہوا دے کر طبقاتی جد وجہد کو قومی خطوط پر موڑنا ہے۔ وہ ترکی میں کر د تحریک کے اثر و رسوخ کو کاٹ ڈالنا چاہتا ہے۔ اسی دوران اس نے اپوزیشن کو اس بات پر یرغمال بنایا ہوا ہے کہ کردوں کے خلاف اس کی کاروائیوں کے بند ہونے سے داعش کے خلاف کاروائی بھی بند ہوجائے گی۔
یہ اردگان کی کمزوری کی عکاسی کر تی ہے۔ شام، عراق اور ترکی کے کرد نشین علاقوں پر اندھا دھند حملے کر کے وہ خانہ جنگی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس کی تمام تر سرگرمیاں، جن کا مقصد اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانا ہے، پورے ملک کو غیر مستحکم کرنے کے خطرے سے دوچار کر رہی ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں حکمران طبقے کے اندر اور حتیٰ کہ AKP کے اندر گہری تقسیم کی متعدد علامات ظاہر ہوئی ہیں۔ ایک خاص نکتے پر پہنچ کر اردگان کی مہم جویانہ سرگرمیاں ترک حکمران طبقے کے بڑے حصے کو اس کے خلاف جانے پر مجبور کر سکتی ہے۔
جیسے جیسے اس کی اپنی بنیادیں کمزور ہورہی ہے وہ زیادہ سے زیادہ بونا پارٹسٹ کردار اپنا رہا ہے۔ اس نے ابھرتی ہوئی کرد تحریک کو قوم پرستوں کو شکست دینے کے لیے استعمال کیا اور اب وہ قوم پرستوں پر تکیہ کر کے کردوں اور ترک بائیں بازو، جو HDP کے گرد متحد ہوئے ہیں، کو شکست دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ آنے والے واقعات پر منحصر ہے، ممکن ہے کہ وہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرے، ایچ ڈی پی پر پابند ی لگانے کی کوشش کرے یا مارشل لا لگا دے۔ لیکن موجودہ حالات میں ان اقدامات سے مستقبل میں اس کے خلاف انقلابی رد عمل کے لیے حالات تیا ر ہونگے۔
بحیثیت مارکسسٹ ہم کرد عوام اور ترکی میں بائیں بازو کے کارکنان پر اس سامراجی حملے کی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔ انہیں ترک ریاست کے تشدد کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ تاہم بلاوجہ افراد پر حملہ کرنا ایک رد انقلابی طریقہ ہے جو صرف اردگا ن کو مضبوط کرے گا اور رائے عامہ اس کے حق میں ہو جائے گی۔ جنگ کو جیتنے کا واحد راستہ ایک ریڈیکل پروگرام کے گرد کردوں اور ترکوں کی انقلابی تحریک کی تیاری ہے۔ اردگا ن کو مذاکرات کے ذریعے شکست نہیں دی جاسکتی جس کو وہ تحریک کو بد نام کرنے کے لیے استعمال کر ے گا۔ صرف دس دن پہلے ایچ ڈی پی کے شریک چیئر مین صلاحتین دمرتس نے AKP کے عہدیدار کو بتا یا کہ ’’قبل از وقت انتخابات فوری فرائض کی فہرست میں شامل نہیں۔ ’ہم صد ر سے قبل از وقت انتخابات کرنے کی درخواست کریں گے‘ کہنے سے پہلے آپ ہمارے (ایچ ڈی پی ) پاس آئیں۔ اس معاملے میں ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ ہمارے پاس آئیں۔‘‘
اپنے متعدد حرکتوں سے اردگان نے یہ دکھا یا ہے کہ اس کے مفادات ایچ ڈی پی اور ترکی کے بائیں بازو کے پروگرام اور نظریات سے متضاد ہیں۔ اس کی جانب متذبذب رویے سے اسے تقویت ملے گی۔ اردگان اور اس کی حکومت کا سامنا ایک فیصلہ کن جد وجہد سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ترکی ایک دھماکہ خیز دورمیں داخل ہو رہا ہے۔ قومی بنیادوں پر محنت کش طبقے کی تقسیم ترک اور کرد مزدوروں اور نوجوانوں کے لیے تباہ کن ہوگی۔ قوم پرستی کے زہر کو کاٹ ڈالنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ طبقاتی بنیاد وں پر عوامی تحریک تعمیر کی جائے۔ اس کام کے لیے مواقع کم نہیں ہیں۔
اردگا ن نے قوم کو اپنا اصلی چہر ہ دکھا دیا ہے اور اس کی پوزیشن کمزور ہے۔ ایچ ڈی پی کو ایک بین الاقوامیت پر مبنی پروگرام کے گرد قومی سطح پر مہم کا آغاز کر نا چاہیئے اور محنت کشوں، چاہے ترک، کرد یا کسی اور قومیت سے ہو، سے اپیل کرنا چاہیئے کہ وہ سامراجی جنگ اور قومی جبر کے خلاف جد وجہد میں متحد ہو جائیں۔ اس کو بوسیدہ سرمایہ دار طبقے، جو تمام قومیتوں کے عوام کے جسم کو جونک کی مانند نچوڑ رہا ہے، کی دولت کو ضبط کرنے کے پروگرام کے ساتھ منسلک کرنا چاہیئے۔ جس طرح ایک ریڈیکل پروگرام شام میں کردوں کی طاقت بنی، اسی طرح ایک انقلابی پروگرام ترکی میں مزدور تحریک کا سب سے بڑا ہتھیار بنے گا۔ اگر ایچ ڈی پی ایک واضح پروگرام دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو موجودہ بحران ایک انقلابی تحریک کا آغاز ہوگا جو حکومت کو گرا دے گا۔ یہ خطے میں تمام رجعتی قوتوں پر ایک کاری ضرب ہوگی اور وقتی طور پر خطے پر حاوی رجعتی ماحول کو مکمل طور پر تبدیل کر دے گا۔

متعلقہ:

ترک انتخابات . . . سیاسی زلزلہ!

کوبانی کی صورتحال پر عالمی مارکسی رجحان کا اعلامیہ

کہاں سے آتی ہے یہ کمک؟

کوبانی کی فاتح جنگجو خواتین

مشرق وسطیٰ: تضادات کی کوکھ میں پنپتا طوفان!