کہاں سے آتی ہے یہ کمک؟

[تحریر: لال خان]
امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کے استعفے نے اس بحران کو مزید عیاں کر دیا ہے جس سے امریکی سامراج داخلی اور خارجی طور پر دو چار ہے۔ اس سے چند روز قبل امریکی پارلیمنٹ کے وسط مدتی انتخابات میں اوبامہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ بیشتر ڈیموکریٹ امیدوار تو انتخابی مہم میں خود کو اوباما اور اس کی پالیسیوں سے دور ثابت کرتے رہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے اقتدار کو لگنے والے ان دونوں دھچکوں کی بنیادی وجہ امریکی سیاست اور معاشرت کا وہ انتشار ہے جو سرمایہ دارانہ معیشت کے گہرے بحران میں شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ گزشتہ چھ سالوں کے دوران اوباما کی جانب سے لگائے گئے ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے سے وابستہ تمام امیدیں ٹوٹ کر بکھر گئی ہیں۔ تاہم وسط مدتی انتخابات کے نتائج کو ریپبلکن پارٹی کی ’’فتح‘‘ قرار دینا بھی غلط ہوگا۔ ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل 64 فیصد شہریوں نے حصہ لینا مناسب ہی نہیں سمجھا۔ 36 فیصد ٹرن آؤٹ میں سے ریپبلکن پارٹی کو پڑنے والے 20 فیصد ووٹ بہت چھوٹی سی اقلیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وڈال گور کے بقول امریکہ میں سرمایہ داروں کے ایک پارٹی ہے جس کے دو دائیں بازو ہیں اور امریکی عوام نے حکمران طبقے کے دونوں پارٹیوں کو یکسر مسترد کیا ہے۔
سامراجی قوتوں کے جبر و استحصال سے ’’اپنے عوام‘‘ بھی مستثنیٰ نہیں ہوتے۔ امریکہ میں امریکی ریاست کی وحشت کا اندازہ پولیس کے ہاتھوں نہتے شہریوں کی ہلاکتوں کے نہ ختم ہونے والے واقعات سے ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ریاست اوہائیو میں 25 نومبر کو پیش آیا جب ایک پولیس اہلکار نے پارک میں کھلونا پستول سے کھیلنے والے سالہ سیاہ فام بچے کے جسم میں دو گولیاں پیوست کر دیں۔ 12 سالہ تامیر رائس دو دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ اسی روز سپریم کورٹ نے اس پولیس افسر کو مقدمے سے بری قرار دے دیا جس نے تین ماہ قبل فرگوسن میں 18 سالہ نہتے سیاہ فام نوجوان کو 9 گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد فرگوسن میں پرتشدد ہنگامے اور احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جو کئی دوسرے شہروں اور ریاستوں میں پھیل چکے ہیں۔
پولیس کے نسل پرستانہ رویے کے خلاف ہونے والے ایسے مظاہرے بحیثیت مجموعی حکمران طبقے اور ریاست کے خلاف عوام کے غم و غصے کو نکالنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ’’اوباما کیئر‘‘ اور غیر قانونی تارکین وطن کی طرف اوباما حکومت کے رویے نے امریکی سیاست میں پولرآئزیشن کو بہت بڑھا دیا۔ معاشی صورتحال یہ ہے کہ 1970ء کے بعد کئی دہائیوں تک منجمد رہنے والی امریکی محنت کشوں کی حقیقی اجرتیں 2008ء کے بعد سے گر رہی ہیں۔ دوسری طرف حکمران طبقہ دولت کے اجتماع کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔
خارجی محاذ پر عراق اور افغانستان میں شکست کے بعد ’’داعش‘‘ (اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ عراق و شام) کے خلاف کاروائیوں میں اوبامہ کی ہچکچاہٹ نہ صرف تاریخ کی طاقتور ترین سلطنت کے زوال کی علامت ہے بلکہ امریکی ریاست کے خلاف عوام کی نفرت میں بھی اضافہ کر رہی ہے۔ داعش کا ابھار اور پھیلاؤ اتنا بھی اچانک نہ تھا جتنا کارپوریٹ میڈیا نے بنا کر پیش کیا۔ امریکی سامراج کے پالیسی سازوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے رکھیں اور جب پانی سر سے گزرگیا تو بوکھلاہٹ کے عالم میں حماقتیں کی گئیں۔ چک ہیگل کے استعفے کی اہم وجہ یہ ناکامی ہی بنی۔ امریکہ کے کٹھ پتلی حکمران اپنے آقا کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی حدود و قیود عبور کرنے لگے۔ عراق میں نورلمالکی کا کردار وہی تھا جو افغانستان میں کرزئی کا۔ ایسی کٹھ پتلیاں بعض اوقات اپنے آقاؤں کو بھی نچوانے لگتی ہیں۔ عراقی حکومت فرقہ واریت پر مبنی وحشیانہ پالیسیاں نافذ کرتی رہی اور شام میں جاری خانہ جنگی میں امریکہ کی ’’اتحادی‘‘ خلیجی بادشاہتوں کی مداخلت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ شیعہ سنی فسادات، تضادات اور تنازعات بھڑک کر اس جنونیت کی شکل اختیار کر گئے جس میں سے داعش کی فسطائیت ابھر کر سامنے آئی۔ اب داعش کو ختم کرنے کے لئے ایک بار پھر ہوائی بمباری کی جارہی ہے۔ پہلے جیتے جاگتے سماج کو لہو لہان کیا گیا اب اس کی لاش کو نوچا جارہا ہے۔ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے وہ غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں۔
لیکن اوبامہ کرے تو کرے کیا؟ وہ جس نظام کے بلبوطے پر سامراجی تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے وہ خود نیم مردہ حالت میں ونٹی لیٹر پر پڑا ہے۔ نئی عسکری جارحیت کی سکت امریکی معیشت میں نہیں ہے۔ زمینی فوج بھیجے بغیر کوئی فیصلہ کن فوجی آپریشن نہیں ہوسکتا اورامریکی عوام مزید سپاہیوں کی لاشیں وصول کر نے کو تیار نہیں ہیں۔ اسلحہ ساز کمپنیاں جنگ چاہتی ہیں لیکن ریاست قرضوں اور خساروں تلے دبی جارہی ہے۔ تضادات کا انبار ہے۔
عراق اور شام کے جن علاقوں پر داعش کا قبضہ ہے ان کا مجموعی رقبہ برطانیہ سے زیادہ اور آبادی 80 لاکھ ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ امریکی سامراج کو یہ درپیش ہے کہ داعش کو ملنے والے پیسے اور اسلحے کے کمک کو کس طرح بند کیا جائے۔ ’’کردستان ریجنل سیکیورٹی کونسل‘‘ کے سربراہ مسرور برزانی کے مطابق داعش کی روزانہ آمدن 80 لاکھ ڈالر ہے اور اس پیسے کا بڑا حصہ نقد ڈالروں کی شکل میں سوٹ کیسوں میں ترکی کے راستے آتا ہے۔ امریکی وزارت خزانہ کے سیکرٹری اور تجزیہ نگار ڈیوڈ کوہن کے مطابق ’’آج تک امریکہ کو اتنا زیادہ فنڈ حاصل کرنے والی دہشت گرد تنظیم سے پالا ہی نہیں پڑا۔‘‘ داعش کی آمدن کے اہم ذرائع میں مقبوضہ علاقوں میں تیل کے زخائر، مختلف ممالک سے رقم بھیجنے والے دولت مند ہم خیال، بھتہ، بینک ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، تاریخی نوادرات کی یورپ اور امریکی میں فروخت، خواتین کی فروخت اور جنسی کاروباروغیرہ شامل ہیں۔
داعش نے گزشتہ عرصے میں جن امریکی اور برطانوی شہریوں کا سر قلم کرنے کی ویڈیو جاری کی ہے انہیں بھی تاوان کے لئے اغوا کیا گیا تھا۔ امریکی جریدے نیوزویک کے مطابق ’’امریکی صحافیوں جم فولی اور سٹیفن سوٹلوف کے خاندانوں کو امریکی خفیہ اداروں نے سخت تنبیہہ کی تھی کہ داعش کو تاوان کی ادائیگی قابل سزا جرم ہے…پیسے نہیں بھیجنے دئیے گئے اور داعش نے دونوں کے سر قلم کر دئیے۔‘‘ سیکیورٹی کے ایک برطانوی ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’داعش نے ان لوگوں کو مذہبی یا سیاسی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ تاوان کی مانگ پوری نہ ہونے پر قتل کیا۔ ‘‘یاد رہے مارچ اور اپریل میں تاوان کی رقم مل جانے پر داعش نے دو ہسپانوی اور چار فرانسیسی صحافیوں کو رہا کر دیا تھا۔ فرانس نے ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالر تاوان ادا کیا تھا اگرچہ سرکاری طور پر اس کی تردید کی گئی۔
نیوز ویک کی ہی رپورٹ کے مطابق داعش نے 400 یزیدی خواتین کو فروخت یا جنسی کاروباری میں ڈال دیا ہے اور ترکی کے راستے بلیک مارکیٹ میں تیل کی فروخت بھی جاری ہے۔ عالمی منڈی میں 80 ڈالر کے برعکس داعش کے بیوپاری لوٹ کے تیل کو 50 یا 60 ڈالر فی بیرل پر فروخت کر رہے ہیں۔
امریکہ کے منجھے ہوئے سفارتکار پیٹر گلبرتھ کے مطابق ’’مشکل لگتا ہے کہ ہم ان پر غالب آسکیں۔‘‘ امریکی سامراج کی بے بسی واضح ہے۔ داعش کو فنڈ دینے والے زیادہ تر امیر لوگوں کا تعلق قطر اور کویت سے ہے۔ قطر اس خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی گڑھ ہے جبکہ کویت کو امریکہ نے ہی صدام حسین سے ’’آزاد‘‘ کروا کر اپنی وفادار بادشاہت کو واپس کیا تھا۔ ترکی بھی امریکہ کا اہم ناٹواتحادی ہے جس کی سرحد سے داعش کو افرادی، مالی اور عسکری رسد جاری ہے۔ یہ ’’اتحادی‘‘ اپنے سامراجی عزائم اور تضادات کے تحت امریکی کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔
امریکی جارحیت سے پہلے کسی مذہبی دہشت گرد تنظیم کا وجود عراق میں نہیں تھا۔ ’’دہشت کے خلاف‘‘ جنگ شروع ہونے کے 11 سال بعد پورا خطہ مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت کی آگ میں جل رہا ہے۔ امریکی جارحیت نے وہ آگ بھڑکائی ہے جو اس کے اپنے قابو سے بھی باہر ہے۔ امریکی سامراج نے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران انڈونیشیا سے لے کر پاکستان، افغانستان اور مصر تک اسلامی بنیاد پرستی کو اپنے مفادات کے تحت ابھارا اور استعمال کیا ہے، شام سمیت کئی ممالک میں آج بھی کررہا ہے۔ سب سے بڑے دہشت گرد یہ سامراجی خود ہیں۔ سامراجی وحشت گری ہو یا مذہبی دہشت گردی، اس بربریت کا خاتمہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے مشروط ہے جو گل سڑ کر انسانی سماج کو تعفن زدہ کرتا چلا جارہا ہے۔ سامراج کی ان جنگوں اور خانہ جنگیوں سے نجات اس نظام کے خلاف فیصلہ کن طبقاتی جنگ سے ہی ممکن ہے۔ یہ فریضہ مشرق وسطیٰ اور خطہ عرب کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو ادا کرنا ہے۔

متعلقہ:

امریکہ میں سامراج کی وحشت

دہشت کی شہ رگ

عراق: وحشت کے ساتھ وحشت کا تصادم!

’’یورپی جہادی‘‘

ایک سکے کے دو رخ