30نومبرکے جنم کا رشتہ

[تحریر: لال خان]
لوگ بھی آخر کیا کریں؟ جائیں تو جائیں کہاں؟ 30 نومبر کو اسلام آباد میں دھرنوں کا دھرنا، جلسوں کا جلسہ اور میلوں کا میلا بھی لگنا ہے اور اسی روز لاہور میں پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس بھی منایا جائے گا۔ زاد سفر تو دونوں طرف ہی ملے گا، اس عہد کی مالیاتی سیاست اور وقت کے کردار کا تقاضا ہے۔ لیکن سوال ہے کہ دل کی امنگ کیا ہے؟ کشش اور امید کدھر ہے؟ ایک طرف نظریات کی حرارت سے محروم، زر سے داغدار ’’چڑھتا سورج‘‘ ہے۔ دوسری طرف روایت کا 47 سال پرانا چراغ جس کی لَو کو ’’گدی نشین‘‘ ہی بجھا دینے کے درپے ہیں۔ جہاں دھرنوں کی رونق مصنوعی اور جذبے سچائی سے عاری ہیں وہاں بلاول ہاؤس بھی محنت کشوں کی پہنچ سے بڑا دور ہے۔
اسلام آباد میں جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا لیکن 47واں یوم تاسیس اس روایت کے نئے جنم یا موت کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے۔ بلاول بھٹو کا لاہور جلسے میں شراکت سے گریز عیاں کرتا ہے کہ مروجہ قیادت کی اگلی نسل بھی پارٹی کو نئی جہت نہیں دے پارہی ہے۔ یہ منصوبہ بندی ہی ناقص تھی۔
خلق کا المیہ یہ ہے کہ حالات ان کی تقدیر کی باگ ڈور کسی پارٹی، نظرئیے یا اشتراکی قیادت کی بجائے عجیب و غریب شخصیات کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ ایسا ہوتا چلا آرہا ہے۔ قصور اس معاشرے کی ثقافتی پسماندگی کا بھی ہے۔ دوسری طرف حکمران طبقہ ہے جس کی ڈاکہ زنی، بدعنوانی اور معاشی حملے سماج کو ذلت کی کھائیوں میں دھکیلتے چلے جارہے ہیں۔ یہ لوگ پسماندگی بڑھا ہی سکتے ہیں، معاشرے کو برباد ہی کرسکتے ہیں۔ جدید، ترقی یافتہ قومی ریاست کی تشکیل یہ حکمران پرت کبھی کر سکتی تھی نہ کر سکتی ہے۔
حقیقی مجرم تو وہ ’’انقلابی‘‘ اور ’’ترقی پسند‘‘ ہیں جنہوں نے سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ لگایا اور جب ہر رکاوٹ، ہر بندھن اور قدر کو توڑ کر عوام اس راہ انقلاب پر چل نکلے تو انہیں اسی استحصالی نظام کے ’’جمہوری‘‘ فریب اور اصلاح پسندی میں الجھا کر بے آسرا چھوڑ دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی بانی قیادت نے پارٹی کی تاسیسی دستاویزات میں واشگاف اندار میں درج کیا تھا کہ پارٹی کا حتمی مقصد سوشلسٹ سماج کا قیام ہے، سوشلزم کے بغیر جمہوریت جھوٹی، اصلاح پسندی فریب اور ’’تبدیلی‘‘دھوکہ ہے۔ لیکن ان کے پاس لینن اور ٹراٹسکی کی بالشویک پارٹی نہ تھی۔ انجن کے بغیرگاڑیاں چلا نہیں کرتیں۔ 1968-69ء میں انقلابی پارٹی کی یہ کمی 1977ء میں چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل اور درندہ صفت ضیا آمریت پر منتج ہوئی۔ کئی نسلیں رجعت اور مایوسی کی تاریکی میں ڈوب گئیں۔ ایک عظیم کاوش کی یہ پسپائی عارضی تھی جس سے کوئی سبق نہ سیکھ کر اسے مستقل بنا دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، آج بھی کی جارہی ہے۔
بعد ازاں پیپلز پارٹی کی ہر قیادت اور حکومت نے سرمایہ دارانہ استحصال، سامراجی تسلط اور ریاستی جبر کو نہ صرف قبول کیا بلکہ خود اس نظام کاآلہ کاربننے کی کوشش کی۔ انجام ہمارے سامنے ہے۔ بلاول بار بار جس غلطی کی معافی مانگتا ہے وہ تھی کیا؟اصل جرم تو پارٹی کے بنیادی منشور اور نظریات سے انحراف تھا جس کی تلافی ’’مفاہمت‘‘ (Reconciliation) کی پالیسی کو یکسر مسترد کر تے ہوئے ناقابل مصالحت طبقاتی جدوجہد کا راستہ اپنا کر ہی کی جاسکتی ہے۔
روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ سوشلسٹ نظرئیے کا عکاس تھا، نظرئیے کو کوڑا دان میں پھینک دینے کے بعد اس نعرے کی حیثیت روح کے بغیر جسم کی سی ہے۔ نعرے تو سب لگاتے ہیں لیکن جس نعرے کے پیچھے کوئی ٹھوس نظریہ نہ ہو وہ کھوکھلا اور بے معنی ہوتا ہے۔ نظریات کے بغیر سیاست کاروبار اور پارٹیاں افراد کا جھرمٹ بن جایا کرتی ہیں، عوام اور پارٹی کے رشتے میں سے جان نکل جاتی ہے۔
آج سوشلزم کے خلاف پارٹی قیادت جتنے بھی جواز پیش کرتی ہے وہ کھوکھلے اور بے معنی ہیں۔ یہ عذر خواہی چور کی داڑھی کا تنکا ہے۔ ’’سوشلزم ختم ہوگیا‘‘ ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ معاشرے میں سے غربت، استحصال، عدم مساوات، محرومی، جبر اور ذلت ختم ہو گئے ہیں۔ اور اگر یہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے تو پھر سیاست، پارٹی اور اقتدار کی کیا ضرورت ہے؟

’’قوم نے سوشلزم کے حق میں فیصلہ دے دیا‘‘
1970 کے انتخابات کے بعد روزنامہ آزاد کا شمارہ

ہر نظرئیے کا وقت آتا ہے۔ حالات، واقعات اور معروض اسے ٹھوس سماجی بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ جب یہ وقت آجائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ سوشلزم کا وقت آیا لیکن سوویت یونین، چین اور مشرقی یورپ کی سٹالن اسٹ قیادتوں نے نظرئیے کے ساتھ بلادکار کیا۔ ان غداریوں سے بہت پہلے انقلاب کے بانی ولادیمیر لینن اور لیون ٹراٹسکی نے جو مشروط تناظر پیش کر چکے تھے وہ تاریخ کی کسوٹی پر سچ ثابت ہوا۔ ایسی ہی غلطی پیپلز پارٹی کی قیادت سے بھی سرزد ہوئی جس کا خمیازہ نسلوں نے بھگتا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو میں اتنی اخلاقی جرات تھی کہ جیل کی کال کوٹھری میں تحریر کی گئی سیاسی وصیت میں نہ صرف اپنی لغزش کو تسلیم کیا بلکہ اس کے ازالے کی تدبیر بھی پیش کی۔ ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں بھٹو نے طبقاتی جدوجہد کو آخری فتح تک جاری رکھنے کا پیغام دیا۔ اسے یقین تھا کہ سوشلزم کا وقت پھر آئے گا۔
پچھلے تیس سال کی قیادتوں نے پارٹی کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے، ہر اقتدار میں محنت کشوں کو ذلیل و رسوا کیا گیا ہے۔ تمام تر شکوے شکایتوں اور بددلی کے باوجود بھی محنت کش طبقہ انقلابوں کے اس بازار میں پیپلز پارٹی سے توقعات قائم رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن کب تلک؟ آج ہر طرف پیپلز پارٹی کے خاتمے کی بات کی جارہی ہے لیکن اس بات کا حتمی فیصلہ مہنگے ذرائع ابلاغ کے خود ساختہ دانشور کر سکتے ہیں نہ ہی کوئی سیاسی قیادت!پیپلز پارٹی کی قیادت بھی ایسا کرنا چاہے تو نہیں کرسکتی۔ قیادت کی موقع پرستی، غلطیوں اور نظریاتی انحراف نے اس سے یہ ادیکار چھین لیا ہے۔ یہ کیسی قیادت اور کیسا کردار ہے کہ دیوار برلن گری، سوویت یونین ٹوٹا تو پارٹی کا نظریہ ہی ’’پچھلی نشست ‘‘پر پھینک دیا گیا؟ یہ درست ہے کہ معروض بدل گیا تھا، حالات انقلابی سوشلزم کے لئے مشکل ہو گئے لیکن یہ بھی درست ہے کہ ایسے تلخ حالات و واقعات ہی قیادتوں کا امتحان لیا کرتے ہیں۔ سائنسی نظریات، کارکنان کی قربانیوں اور عوام کی امیدوں پر موقع پرستی کا پانی پھیر کر حالات کے ساتھ بہہ جانے والے تاریخ کے کٹہرے میں مجرم ہی ٹھہرتے ہیں۔ مشکل حالات اور قوی دشمن کو دیکھ کر نظریات، اصول اور ضمیر کو زر کی منڈی میں نیلام کردینے والے انسانیت کی تحقیر کرتے ہیں۔ وقت نے اس قیادت سے تاریخی فیصلے کرنے کا اختیار اور صلاحیت چھین لی ہے۔ فیصلہ عوام کریں گے اور فیصلہ کن سوال ہے کہ کب کریں گے۔ عوام بھی کوئی اکائی نہیں بلکہ مختلف محکوم طبقات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ان طبقات کی شعوری سطح بھی مختلف ہوتی ہے۔ پسپائی اور پراگندگی کی ادوار میں یہ شعور پست تو ہوسکتے ہیں، مٹ نہیں سکتے۔ سوچ سست روی کا شکار تو ہوسکتی ہے لیکن انسان سوچنا بند نہیں کرسکتا!
محنت کش طبقہ یہ فیصلہ ایک نئے معروض اور شعور کی زیادہ بلند سطح پر لے گا۔ فیصلہ محنت کش طبقے کی نئی نسل کو کرنا ہے جس کے پرکھوں نے اپنے لہو سے سینچ کر اس پارٹی کو تعمیر کیا، تمام ستم ظریفی کے باوجود پارٹی کو حمایت اور طاقت دی۔ قیادت ان کے مقدر کے فیصلے کرتی رہی، اب محنت کشوں کی باری ہے۔ پارٹی کی نئی قیادت کو حکمران طبقے، سامراج اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ سے ہر ناطہ توڑنا ہوگا۔ ضیا باقیات اور مزدور کسان کے دشمن پارٹی سے نکال باہر کرنا ہوں گے۔ اب کی بار عوام ہوائی وعدوں اور لفاظی پر یقین نہیں کریں گے۔ بلاول کے لئے یہ سب مشکل ہی نہیں شاید نا ممکن بھی ہے لیکن ایسا نہ کرنے کی صورت میں محنت کش عوام سے اس کا ہر تعلق ٹوٹ جائے گا اور طبقہ پارٹی کی تقدیر کا حتمی فیصلہ سنا ڈالے گا۔ ان حالات میں انقلابی مارکسسٹوں کو محنت کش طبقے پر واضح کرنا ہو گا کہ ظلمت کو مٹا دینے والے چراغ اپنے لہو سے ہی روشن کرنا ہوں گے، پارٹی کا رشتہ اس کے سوشلسٹ جنم سے دوبارہ جوڑنا ہوگا۔ وگرنہ پیپلز پارٹی کی داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں!

متعلقہ:

47واں یوم تاسیس: یہ سوشلسٹ جنم مر نہیں سکتا!

نظریات کی دھوکہ دہی!

نجکاری کے ’’فضائل‘‘

مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے اسباق

چیئرمین بھٹو کی 35ویں برسی: مصلحت یا جدوجہد؟

4اپریل کا پیغام: انقلاب یا موت!