ایرانی جوہری معاہدہ: مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ میں نئے باب کا آغاز!

| حمید علی زادے، ترجمہ: ولید خان |

حالیہ دنوں میں جوہری طاقت سے متعلق ایران اور چھ بڑی قوتوں کے درمیان معاہدہ طے پا یا ہے جس کے نتیجہ میں ایران اپنی جوہری قابلیت کو محدود سطح پر لے جائے گا جبکہ امریکی سامراج کی طرف سے ایرانی ریاست اور عوام پر تین دہائیوں سے لگائی گئی شدید معاشی پابندیوں کا بھی خاتمہ ہو گا۔ اب یہ معاہدہ امریکی کانگریس میں زیرِ بحث ہے جہاں ڈیموکریٹس معاہدے سے متعلق بھرپور سیاسی اور عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہیں ہیں جبکہ ریپبلکن اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے امریکی خارجہ پالیسی کی بہت بڑی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ معاہدہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکی سامراج کی ایران سے متعلق جابر اور جارحانہ خارجہ پالیسی بری طرح سے ناکام ہوئی ہے۔
4c2b7e6050ea6ab89663de0f579f5ہزاروں لوگ ایرانی شہروں میں معاہدے کی خبر سن کر سڑکوں پر جشن منانے نکل آئے۔ ہر طرف ’’ایران، ایران‘‘ اور ’’مصدق، ظریف… یہی ہیں ایران کے اصل سورما‘‘ کے نعرے سنائی دے رہے تھے(موصدق ایران کا وزیرِ خارجہ ہے جس نے معاہدہ کے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا جبکہ مصدق 1950ء کے عشرے کا ایرانی وزیرِ اعظم ہے جس نے برطانوی سامراج پر کاری ضرب لگاتے ہوئے ایرانی تیل کی صنعت نیشنلائز کی تھی، بعد میں 1953ء میں برطانوی اورامریکی سامراج کی حمایت کے ساتھ مصدق کو ہٹا کر پہلوی آمریت قائم کروا دی گئی تھی)۔ اس سے لوگوں کی دلی خواہشات کا اندازہ ہوتا ہے جو تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے امریکی سامراج کی جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ جب سے رضا شاہ پہلوئی کی آمریت کا خاتمہ ہوا اس وقت سے امریکی سامراج ایران کو برباد کرنے کے درپے ہے، چاہے وہ سنگین معاشی پابندیاں ہوں یا ایران عراق جنگ میں عراق کی ہر ممکن حمایت جس کے نتیجہ میں دونوں ممالک کے 10 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔یہ بات بھی واضح تھی کہ دیگر اہداف کے علاوہ عراق افغانستان جنگ کا ایک کلیدی مقصد ایران کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لینا تھا۔
امریکی سامراج کئی دہائیوں سے مشرقِ وسطی کو اپنی آماجگاہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔عراق اور افغانستان کی جنگوں کے نتیجہ میں اب تک تقریباً 20 لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ عراقی ریاست کو تخت و تاراج کرنے کے نتیجے میں ایسی خونی اور بربریت سے لبریز قوتوں کا جنم ہوا ہے جو اب پورے خطے کو آگ و خون میں لپیٹنے کے درپے ہیں۔ ان حالات سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کیوں جوہری طاقت حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کر رہا تھا۔سامراجی پابندیوں کے نتیجہ میں ایرانی معیشت برباد ہو چکی ہے۔ افراطِ زر (بعض اوقات 100 فیصد سے بھی زیادہ) نے عام لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ لاکھوں مزدور یا تو بے روزگار ہیں یا لمبے عرصے سے انہیں تنخواہیں نہیں ملیں۔اس ساری جارحیت کے دوران صدر اوبامہ اور اسرائیلی وزیرِ اعظم ننیتن یاہو کی ایران کی تباہی و بربادی کی مستقل دھمکیوں نے بھی ایرانی عوام کو اعصابی تناؤ اور خلفشار کا شکار کئے رکھا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نے حالیہ معاہدے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے یہ عندیہ دیا ہے کہ ایران اس وقت خطے کیلئے داعش سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ تاریخی جھوٹ کی انتہا ہے کہ ایران نے آج تک اپنے ہمسایہ ممالک پر چڑھائی نہیں کی جبکہ اسرائیل کو اپنے تمام ہمسایہ ممالک پر نہ صرف ننگی جارحیت کرنے کا ’شرف‘ حاصل ہے بلکہ وہ خطے کی واحد جوہری قوت بھی ہے جس کے جوہری پروگرام پر انگلی اٹھانا بھی ممنوع ہے۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود کبھی کسی نے اسرائیل کے خلاف پابندیاں نہیں لگائیں۔
دوسری طرف سعودی عرب کی انتہائی رجعتی بادشاہت ہے جس نے نہ صرف اپنے نام نہاد دیرینہ دشمن اسرائیل کے ساتھ مل کر سوچے سمجھے طریقے سے معاہدے کی ہر ممکن مخالفت کی اورایران کے خلاف معاشی پابندیوں کو برقرار رکھوانے کی کوشش بھی کرتا رہا بلکہ امریکی سامراج کو ایران پر حملہ کرنے کیلئے مختلف حربوں سے اکساتا بھی رہا۔امریکہ میں سعودی سفیر نے انتباہ کیا ہے کہ اگر ایران نے معاہدے کی آڑ میں کوئی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرقِ وسطی میں رجعت، جارحیت اور عدم استحکام کے پچھلے سات دہائیوں میں سب سے بڑے داعی سعودی حکمران رہے ہیں جنہوں نے اربوں ڈالر سے خوفناک جہادی درندے پروان چڑھائے ہیں اورخطہ میں ہر عوامی تحریک کو خون میں نہلایا ہے۔ کچھ عرصہ سے سعودی حکمران دھمکی لگا رہے ہیں کہ اگر معاہدہ کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ پاکستان سے ایٹم بم حاصل کریں گے۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود کبھی کسی نے سعودی عرب پر معاشی پابندیاں نہیں لگائیں۔
ان جنونیوں کے پیچھے امریکی ریپبلکن اور کچھ ڈیموکریٹس بھی اکٹھے ہو کر جارحانہ حکمتِ عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ نہ صرف یہ امریکہ کی عراق اور افغانستان میں سامراجی جنگوں کی حمایت کرتے رہے ہیں بلکہ اگلے سال ہونے والے امریکی الیکشن کی مہم میں جنگی جنون میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ایران پر حملے کی نعرہ بازی بھی کر رہے ہیں جس کا عملی نتیجہ عراق اور افغانستان کی جنگوں سے بھی زیادہ خوفناک ہو گا۔

امریکی سامراج کی شکست
یہ معاہدہ امریکی سامراج اور ان تمام رجعتی قوتوں کی تاریخی شکست ہے۔یہ اب تمام فریقوں پر عیاں ہے کہ امریکہ سیاسی طور پر مشرقِ وسطی میں ایران کو ایک بڑی قوت تسلیم کر چکا ہے۔ عسکری معاملات میں ایران کو ایک نو زائدہ جوہری قوت تسلیم کیا جا چکا ہے، یعنی ایک ایسی غیر جوہری قوت جو بڑی 20131201_iranتیزی سے جوہری ہتھیار بنانے کی طرف بڑھ سکتی ہے، اگر وہ چاہے تو۔ 100 صفحات پر مشتمل معاہدے کی رپورٹ میں یہ واضح ہے کہ امریکہ 3-4 ماہ میں تمام پابندیاں ختم کر دے گا جبکہ ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت 2 ماہ سے 12 ماہ پر چلی گئی ہے اور بس!یعنی ایران آج چاہے تو اگلے ایک سال میں ایٹم بم تیار کر سکتا ہے۔انتہائی دائیں بازو کے رجعتی ریپبلکن اس معاہدے پر تلملا اٹھے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ اور چارہ کیا ہے؟ جنگ ہو نہیں سکتی۔ پہلی بات یہ کہ ایران کی افواج خطے کے دوسرے ممالک کی افواج کی طرح خصی نہیں، دوسرا یہ کہ آج اوبامہ کے پاس وہ اندرونی اور بیرونی سیاسی حمایت نہیں جس کے بل بوتے پر کوئی مہم جوئی کی جا سکے۔ امریکی افواج پہلے ہی دو جنگوں کی وجہ سے شدید بددلی اور اعصابی کمزوری کا شکار ہیں جبکہ بڑے بڑے مالیاتی سکینڈلز اور شدید کٹوتیوں سے ویسے ہی افواج کی ساکھ مجروح ہو چکی ہے۔ ویسے بھی اگر اسرئیل اور سعودی عرب کی حمایت کے ساتھ صرف ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا بھی جائے تومظبوط فضائی دفاع اور تنصیبات کے انتہائی گہرائی میں زمین دوز ہونے کی وجہ سے کامیابی کے امکانات نہیں۔

امریکی سامراج کا خلفشار
کارپوریٹ ذرائع ابلاغ اوبامہ کی امن پسندی اور روحانی (ایرانی صدر) کی صلح پسندی کے گن گاتے نظر آ رہے ہیں۔ مگر حقیقت کا ان مسخروں کے تجزیوں سے دور دور کا تعلق نہیں۔ معاہدے سے پہلے بھی اور اب مکمل ہونے کے باوجود بھی، اوبامہ اس بات پر بضد ہے کہ تمام آپشنز (بشمول جنگ کے) جوں کے توں موجود ہیں، یعنی عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں ایران کو جارحیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ معاہدے میں امریکہ کو کچھ خاص حاصل نہیں ہوا جو کہ بذاتِ خود امریکی سامراج کی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ مشرقِ وسطی میں صورتحال کی بہتری کے لئے ایران کی مدد ناگزیر ہو چکی ہے کیونکہ عراق اور افغانستان میں ہار، جنگوں کے خلاف شدید اندرونی مخالفت، حکمران طبقے کا سیاسی عدم استحکام، افواج میں بڑھتی مایوسی، بجٹ کا بڑھتا خسارہ اور تیز ترہوتی معاشی کمزوری نے امریکی سامراجی دیو کی ہوا نکال دی ہے۔امریکہ عراق میں واپس جا نہیں سکتا اور نہ ہی شام میں براہِ راست مداخلت کر سکتا ہے۔عراقی ریاست کی بربادی اور فوج کے بکھر جانے کے بعد اب ایرانی افواج کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ پچھلے چند سالوں میں خانہ جنگی کے پھیلنے اور ریاستوں کے ٹوٹنے بکھرنے کے عمل کے دوران ایران نے خطے کی دہائیوں سے ریاستی جبر کی شکار شیعہ آبادی میں اپنا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھایا ہے۔ آج جہاں ایران کے شامی صدر اسد کے ساتھ انتہائی قریب تعلقات ہیں وہیں پر عراق میں عراقی اور ایرانی مذہبی رہنماؤں اور جنگجوؤں سے قریبی رابطے بھی ہیں۔ ایک طرف لبنان کی حزب اللہ ایران کے زیرِ اثر ہے تو دوسری طرف یمن میں حوثی قبائل کے ساتھ تعلقات ہیں جو کہ مظبوط، منظم اور یمن میں القاعدہ کے خلاف امریکی جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار تھے۔ان تمام باتوں سے واضح ہے کہ خطے میں ایران ہی وہ واحد قوت ہے جس پر امریکہ، داعش اور دیگر سنی جہادی گروہوں (جو تاریخی طور پر امریکی سامراجی پالیسیوں کی ہی پیداوار ہیں) کے خلاف انحصار کر سکتا ہے۔ایران امریکہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پورا خطہ تاریخ کے سب سے رجعتی اور درندہ صفت گروہوں کی بربریت کی لپیٹ میں ہے۔ایرانی حکمرانوں نے اس معاہدے کو تعاون کا پہلا ’’امتحان‘‘ قرار دیا ہے کہ جس کے کامیاب ہونے کے بعد خطے کے دیگر مسائل پر ’تعاون‘ کیا جا سکتا ہے۔
یہ تاریخ کا کیسا مذاق ہے کہ دہائیوں سے امریکہ کے سب سے قریبی اتحادی سعودی عرب، ترکی اور اسرئیل ہی آج امریکہ کی جڑیں کاٹ رہے ہیں(داعش اور دیگر جہادی گروہوں کو سپورٹ کر کے) جبکہ کل تک کا سب سے بڑا دشمن ایران اب امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی اور قابلِ اعتماد ملک ہے۔

مشرقِ وسطی میں تاریخ کا نیا باب
نیا معاہدہ مشرقِ وسطی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ معاشی پابندیوں کے ختم ہونے سے ایرانی ملا اشرافیہ کو ایک نئی زندگی ملے گی۔ مغربی ممالک کے بینکوں میں ایران کے منجمند 100 ارب ڈالرہی صرف اس کے تصرف میں نہیں آئیں گے بلکہ عالمی سرمایہ کاری جو کرہ ارض پر نئی منڈیوں کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہے، تیزی سے ایران کا رخ کرے گی۔ عالمی تجارت میں ایران حصہ لینے کے قابل ہو گا اور پھر یہ اعلان بھی غیر معمولی ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں ایرانی تیل کی iran nuclear deal israel cartoonبرآمدات کو 50 لاکھ بیرل یومیہ تک بڑھایا جائے گا،ان اقدامات کے نہ صرف ایرانی سماج پر بلکہ مشرقِ وسطی میں موجود ایران کے اتحادیوں اور عالمی سرمایہ داری پر بہت بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔اس سے جہاں ایران اور اس کے اتحادیوں کی پوزیشن مستحکم ہو گی وہیں پر امریکہ کے پرانے اتحادی یعنی سعودی بادشاہت، ترک سرمایہ دار اور صیہونی حکمران ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ امریکہ پرانے اتحادیوں اور ایران کے درمیان پھنس کر رہ جائے گا جبکہ خطے کے ممالک کی منڈیوں، اثر و رسوخ اور داخلی دباؤ کے نتیجہ میں عدم استحکام، بربریت اور تباہی تیز تر ہوتی جائے گی۔

طبقاتی کشمکش میں نیا باب
معاہدے کی تکمیل پر ایرانی عوام نے بہت گرمجوشی سے جشن منایا ہے۔ ایک طرف معاہدہ نہ ہونے پر مزید معاشی سختیوں اور جنگ کا خوف اعصاب پر سوار تھا تو دوسری طرف لاکھوں لوگوں کا معیار زندگی مسلسل گر رہا تھا۔ اب ایک عام ایرانی شہری کو کچھ بہتری کی امید نظر آ رہی ہے۔اس میں شک نہیں کہ وزیرِ خارجہ جاوید ظریف اس وقت ایران میں پسندیدہ ترین شخصیات میں سے ایک ہے۔روحانی ایسے حالات میں صدر بنا جب حالات ایک عوامی تحریک کے لئے پک کر تیار تھے۔ روحانی کے بہتر جمہوری حقوق اور بہتر معیارِ زندگی کے وعدوں نے اسے انتخابات جتا تو دئیے مگر تلخ زمینی حقائق کی وجہ سے وہ کچھ کرنے سے قاصر تھا۔ اب اس معاہدے کی کامیابی کے بعد وہ عوامی حمایت بحال کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ عوام پر معاشی حملوں کا جواز ایرانی اشرافیہ کے پاس تھا کہ سب کچھ معاشی پابندیوں کی وجہ سے ہے۔پھر عوامی مسائل اور ایشوز کو مذاکرات کے شور میں گم کر دیا گیا۔ لیکن اب معاہدہ ہو چکا ہے۔ اب تمام دبے ہوئے عوامی مطالبات اورتضادات کھل کر سامنے آئیں گے۔جمہوری حقوق کے مطالبات پھر اٹھیں گے۔ خاص کر درمیانے طبقے کے ان نوجوانوں کی طرف سے جو 2009ء کی تحریک اور حالیہ انتخابات میں پیش پیش تھے۔ایرانی حکمران جانتے ہیں کہ جمہوری حقوق پر پیش رفت Iran_hunger_1_copyنہ ہونے کی صورت میں ان کا حال مبارک، بن علی یا قذافی جیسا ہو سکتا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ خوف بھی ہے کہ زیادہ جمہوری حقوق کے نتیجہ میں ان جیسا حال نہ ہو جائے! لیکن سب سے اہم عنصر محنت کش ہیں جو آنے والے وقت میں جدوجہد کے میدان میں اتریں گے۔ محنت کش طبقہ سب سے برباد اور تباہ حال ہے جسے مہینوں سے اور کچھ جگہوں پر سالہاسال تنخواہ نہیں ملی۔ ابھی تک محنت کشوں کی چند ایک پرتوں نے تحریکوں میں حصہ لیا ہے مگر اب وقت وسیع تر پیمانے پر شمولیت کا آ رہا ہے۔ابھی سے کئی سالوں بعد ہزاروں محنت کشوں کے احتجاج، خصوصاً کانکنی کے مزدوروں اور اساتذہ کی اجرتوں پر تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت اور حالات بدل رہے ہیں۔ ایران کا محنت کش طبقہ عمل کے میدان میں قدم رکھنے کو پر تول رہا ہے۔ جیسے ہی پابندیاں اٹھیں گی، محنت کش اور پر اعتماد ہوں گے اور یہ عمل مزید تیز ہو گا۔ بڑھتی معاشی سرگرمیوں کے نتیجہ میں محنت کش جہاں سالہا سال کی رکی اجرت کا مطالبہ اور اس میں اضافے کی بات کریں گے، وہیں اشرافیہ زیادہ سے زیادہ استحصال ، شرح منافع اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے معاشی حملوں کو شدید تر کرے گی۔ اس مرتبہ’’ امریکہ شیطان‘‘ اور ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کا ڈھونک بھی نہیں رچایا جا سکتا! معاشی حالات بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ طبقاتی کشمکش مزید بڑھے گی ، جہاں پہلے یہ معاشی مطالبات کی شکل میں سامنے آئے گی وہیں پر ناگزیر طور پر یہ جدوجہد ملاں اشرافیہ کی آمریت اور سرمایہ داری کے خلاف تحریک میں بدلے گی۔ یہ ایرانی انقلاب جہاں ایران کے اندر حالات کو یکسر تبدیل کرے گا وہیں پر عرب انقلاب کیلئے وہ چابک ثابت ہو گا جو پورے مشرقِ وسطی کا چہرہ بدل دے گی!

متعلقہ:

ایران: ’’مرگ بر امریکہ‘‘ اب کہاں؟

تابکاری، سفارتکاری اور عیاری

امریکہ ایران ایٹمی معاہدے کا مطلب کیا ہے؟

داخلی بحران کے سفارتی مضمرات

ایران: نئے سال کا پیغام