’’مفاہمت ‘‘ کی کراہت

| تحریر: قمرالزماں خاں |

کراچی میں’’ کالے دھن‘‘ پر کنٹرول کی جنگ‘اداروں اور حکمران طبقے کے مختلف حصوں میں پھیل جانے سے یکا یک سیاسی اور ریاستی قوتوں کے مابین تلخی بڑھ گئی ہے۔ قبل ازیں یہ جنگ مقامی سطح پر ہی لڑی جارہی تھی۔ اب اسکا دائرہ کارایک خاص سمت کی طرف وسیع کیا گیا ہے۔ مفاہمت کے خود ساختہ چمپئین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری سے ملاقات سے انکار کرتے ہی روس کے دورے پر موجود آرمی چیف کوفون کرکے انکی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے نواز شریف نے واضح کردیا ہے کہ انکی ’’مفاہمت‘‘ کارخ کس جانب ہوگا، ایسی مفاہمت اگر کہیں بنتی ہے تو یہ زیادہ فطری ہوگی۔ انگورکھٹے ہیں کے مصداق پی پی کے ہی ایک رہنما ندیم چن نے کہا ہے کہ شکر ہے کہ اس ’’مفاہمت‘‘ سے ہماری جان چھوٹے اور ہمارے گلے میں فرینڈلی اپوزیشن کا پڑا ہوا طوق اتر جائے۔
ڈی جی رینجرز کے مطابق کراچی میں کالی معیشت کا حجم 230 ارب روپے سالانہ ہے، یہ فقط ایک اندازہ ہے، حقیقی کالی دولت کی پیدائش کا حجم بیان کردہ رقم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ رقم منشیات، سمگلنگ، اسلحہ کے ناجائز کاروبار، دہشت گردی، بھتہ، اغوابرائے تاوان، پلاٹوں اور جائیداد پر قبضوں، سپاری لیکر قتل، پینے کا پانی فراہم کرنے والے ٹینکر زمافیا سمیت دیگر جرائم سے حاصل کی جاتی ہے۔ کراچی آپریشن کے موجودہ مرحلے سے قبل‘ کالے دھن پر چھینا جھپٹی میں مصروف گروپوں، افراد، گینگ مافیا، ایم کیوایم، سنی تحریک، اے این پی، پیپلز امن کمیٹی، لیاری وار گینگ، پیپلز پارٹی، طالبان، لشکر جھنگوی کے مابین ایک جنگ کا سماں موجود ہے۔ کئی سال قبل اس جنگ کا آغاز قربانی کی کھالوں اور چندوں کی وصولی کرنے والی جماعت اسلامی اور اسکی ذیلی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے دیگر خیراتی تنظیموں سے تصادم سے ہواتھا۔ پھر یکا یک ایم کیوایم نے ضیاء الحق کی سرپرستی میں جماعت اسلامی کی کوکھ سے جنم لیا تو تشدد اور غنڈہ گردی بھی میراث میں ملیں اور شہری سطح پر جدید قسم کی فسطائیت کاآغاز ہوا۔ کالے دھن کا وجود تو پہلے بھی اپنے کمتر حجم میں، جرم وبرائی کی شناخت کیساتھ‘ پاکستان میں موجود ہوگا۔ مگران دنوں سیٹھ عابد اور محمد خاں ڈاکو کانام نہ تو عزت واحترام سے لیا جاتا تھا اور نہ ہی جرائم پیشہ لوگوں کو ’’برملا‘‘ سماجی، سیاسی عزت وتوقیراورسرکاری عہدوں کا مستحق جانا جاتاتھا، ان لوگوں سے حکمران طبقہ رات کے اندھیرے میں ملتا تھا۔ مگر اب ’’سرکاری‘‘ طور پر جرائم قرار دیئے گئے پیشوں سے منسلک افرادپارٹیوں کی قیادت اور اقتدار اعلیٰ پر کسی شرمندگی اور رکاوٹ کے بغیر پہنچ جاتے ہیں۔ مذہب کی آڑ میں کالی دولت کمانے والے کاروباروں میں مشغول‘سماج کا ایک حصہ’’ دنیا اور آخرت‘‘ دونوں میں سرخرو ہونے کے احساس تفاخر سے سرشار برملا کالی دولت کے انبار لگا رہا ہے۔
کالی دولت کی پیدائش کا، کالا دھندہ کرنے کے لئے خواہ اسکا میدان کوئی بھی ہو، طاقت، مسلح جتھوں اور دہشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ افغان جہاد اور پھر القاعدہ کے سرپرستوں نے ناجائز اسلحہ کی کبھی قلت نہیں ہونے دی، اس پر ’’ناٹو‘‘ کے جدید ترین اسلحہ سے بھرے جدید کنٹینرزجن کی تعدادہزاروں میں تھی’’لٹوا‘‘ دیے گئے۔ مذہبی اور فرقہ ورانہ دہشت گردی پہلے سے ہی موجود تھی اور ہے، انکو برادر اسلامی ممالک اور اسٹریٹیجک پارٹنرزکی ’’پراکسی جنگوں‘‘ کی اعانت نے اور طاقت ور کردیا ہے۔ متعدد گینگز، قبضہ گروپوں، پرچی بھتہ اور محکمانہ لوٹ مارکرنے والوں کو طاقتورحلقوں کی سرپرستی ہمیشہ سے حاصل رہی ہے، یہ سیاسی بھی ہے اور غیر سیاسی بھی۔ دوسری طرف کالے دھن کے کاروبار میں شریک گروہوں کو درکار افرادی قوت کی کمی نہیں محسوس ہوتی، غربت میں ڈوبے سماج میں بھوک اور بے بسی کا شکار والدین اپنی اولاد کو فاقوں سے بچانے کے لئے مدرسوں میں بھیجتے ہیں، وہاں زندگی کی ذلت اور محرومیوں سے چھٹکارے کے لئے نئے راستے دریافت کرائے جاتے ہیں جن کا تعلق زندگی سے کم اور موت سے زیادہ ہوتا ہے۔ مگرمدرسوں سے باہر کونسی روشن خیال اور پرامیدفضا ہے، دانشور اور راہبر خود مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
روایتی قیادتوں نے ’’مفاہمت‘‘ کے نام پر خود کو اس نظام کی غلاظت میں لت پت کرلیا، محنت کش طبقے پر نج کاری کے حملوں کا آغاز کیا اورذاتی ملکیت کے نظریات کو اپنالیا، عالمی مالیاتی اداروں کی ظالمانہ پالیسیوں پر چوں چرا کئے بغیر عمل کرکے، سامراجی حکمت عملی میں حلیف بن کراپنے عظیم ماضی اور انقلابی روایات کو مسخ کیا اوردائیں بازو سے مفاہمت کرنے کے لئے ہر غداری اور انحراف کا راستہ منتخب کیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے تاسیسی پروگرام سے لاتعلقی اختیار کرکے خود کوایک نئی قسم کی مسلم لیگ میں ڈھال لیا۔ غداری، محنت کش طبقے پر حملوں، بندوق کے زور پرملک پر قبضہ کرنے والوں کو ’’تمغہ جمہوریت‘‘ دیا اور ان عوام دشمن اداروں اوررجعتی عناصر کی چاپلوسی کو ’’مفاہمت‘‘ کا نام دے کر زوال پذیری کے عمل کو تیز کیا۔ اپنی حکومت (2008-2013ء) کے جرائم اورناکامیوں کی شرمندہ نفسیات اوراس نام نہاد ’’جمہوریت‘‘ کے تحفظ کے نام پر مسلم لیگی حکومت کے ہر جرم اور محنت کشوں پر ہر حملے کی حمایت کی۔ مگر صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں کی تمام قسمیں‘ پاکستان کے مستقبل سے مایوس‘اور یہاں سے اربوں ڈالر کی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کررہی ہیں۔ عام آدمی اور بالخصوص نوجوانوں پر اسکے نہایت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ہر طرف افلاس، بے بسی اور ناامیدی نے زندگی کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
اپنی ذات کی کم مائیگی اور گردونواح میں موجود سماجی اور معاشرتی تضادات کی شدت کو انقلابی نظریات کا راستہ نہ ملے تو منشیات کااستعمال، جرائم اور لوٹ مارکی دنیا میں مقام بنانے کی آرزوکے ساتھ تشدد کی نفسیات پروان چڑھتی ہے۔ اپنی ذات، خاندان اور معاشرے سے بے گانگی، اونچ نیچ اور قدم قدم پر ذلت کے احساس سے پیدا ہونے والی نفرت اورطبقاتی سماج کی ہیئت کو نہ سمجھ پانے کی وجہ سے انتقام کا رخ کسی بھی جانب موڑدئیے جانے کی سہولت‘ ہر قسم کی دہشت گردی کے لئے اچھاخام مال مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسری طرف کراچی میں اگر 230 ارب روپے کی رقم کالے دھندوں سے اینٹھی جاتی ہے تو ہر سال پانچ سے سات سوارب روپے کی خطیر رقم بغیر کسی پیداواری عمل میں گئے ’’بجلی پیدا کرنے والی عالمی اور مقامی کمپنیوں‘‘ کو’’گردشی قرضوں‘‘ کے نام پر دے دی جاتی ہے۔ اسلحے کے تمام سودوں میں ’’کک بیکس‘‘ معمول کی بات ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ عسکری ساز وسامان پر کمیشن کس جانب سفر اختیا رکرتا ہے۔ کراچی میں کروڑوں روپے کی کرپشن کرنے والوں کو زور وشور سے بے نقاب کیا جارہا ہے مگر اربوں ڈالرز کے سودوں، ٹھیکوں، میگا پراجیکٹس پر اربوں ڈالرز کی ہی رشوت کو چونکہ ’’ترقی کی راہ پر گامزن پاکستان‘‘ کا نام دیا جارہا ہے، اس لئے یہ کمیشن ’’کالا دھن‘‘ قرار نہیں دیا جارہا۔ سٹہ بازی کے ذریعے کمایا جانے والا دھن سفید ہے یا کالا ؟راوی بالکل اسی طرح خاموش ہے جس طرح ’’نجکاری‘‘کے ذریعے تاریخی لوٹ مار کرائی گئی اور اس یکسر ناجائزعمل کو ’’کاروبار‘‘ قرار دے کر اس معاملے پر چپ سادھ لی گئی ہے۔
مسلم کمرشل بنک کی مالیت کھلے بازار میں 65 ارب روپے تھی مگریہ میاں منشا کو 87 کروڑ کا دے دیا گیا۔ پاک سعودی فرٹیلائیزر میں نصب پلانٹ اگر آج لگایا جائے تو 70 ارب روپے لگیں گے، پراناپلانٹ اگر نصف یعنی 35 ارب روپے کا ہی فرض کرلیں اور اسکی اراضی کی مالیت کم سے کم کرکے 10 ارب روپے مان لی جائے تو کیا جوازرہ جاتا ہے کہ 45 ارب روپے کی فرٹیلائیزر فیکٹری کو صرف 7 ارب روپے میں فوجی فاؤنڈیشن کو دے دیا جائے۔ کیا یہ کرپشن اور زورآوری نہیں ہے؟ اسی طرح کی لوٹ مار نام نہاد کاروبار اور صنعت کاری کے میدانوں میں جاری ہے مگر یہ سب کچھ ’’سفید دھن‘‘ اور کاغذی معیشت میں جائز ہے۔ پچھلے سال اینگروفرٹیلائیزر کمپنی اور فوجی فرٹیلائیزرکمپنی کوسیلز ٹیکس میں وسیع پیمانے پر گھپلا کرنے کا مرتکب قراردیا گیامگر ان کی’’ نیک نامی‘‘ میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ زیادہ دیر کی بات نہیں ہے جب دنیا کے گیارہ امیر ترین جرنیلوں کے ناموں کی رینکنگ کی گئی تھی‘عجب اتفاق تھا کہ گیارہ میں سے پہلے سات پاکستانی جرنیل تھے۔ یہ کیسے ممکن ہوا تھا؟ یہ سب افغانستان اور سرحدی پاکستانی علاقے میں کاشت کردہ ہیروئین کا کاروبار، افغان جہاد کی اسلحہ چوری اور فروخت اور امریکی مالکان کی ڈالروں کی بارش کا رخ اپنی سمت کرکے جھولیاں بھر لینے کے فن کے کمالات تھے۔ یہ کالے دھن کے آغاز کا دور تھا جب دنیا میں حق برانڈ اور کوکی خیل برانڈ کی ہیروئین میں سخت مقابلہ تھا، حق برانڈ ’’آپریشن فیئر پلے‘‘ (جس کے نتیجے میں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت پرشب خون مارا گیا تھا) کے کمانڈر کے نام پر مشہور تھا۔ آج دھندوں کی نوعیت بدل چکی ہے مگر زیادہ امیر لوگ وہیں سے ہیں جہاں سے ہمیشہ آتے رہے ہیں‘فرق یہ ہے کہ اب فرنٹ مین کے ذریعے کالی دولت کی ’’انوسٹ منٹ‘‘ کی جاتی ہے، سرمایہ کاری کا زیادہ رخ تعمیرات کے شعبے کی طرف مڑچکاہے۔
تعمیرات کا دھندا تو بہت سے لوگ کررہے ہیں مگر اس شعبے کا تاج اسی شخص کے سر پر ہے جس کے پاس ’’حق برانڈ‘‘ کے شعبے کی دولت ہائے بے بہا چلی آرہی ہے۔ اس کالی دولت کا کوئی احتساب تو کیا ذکر تک نہیں ہے۔ سندھ حکومت اس شخص کی مقروض ہے، ’’بھائی‘‘اسکی محبت کا اسیر ہے، پنجاب کے وزیر اعلی کے بیٹے کو بیش قیمت کاریں اورسابق صدر کے’’ چیئرمین‘‘ صاحبزادے کے نام پر لاہور میں محل بنا کر تحفے میں دینے والے اس شخص کے پاس درجنوں سابق (اور حاضر ڈیوٹی) جرنیل اور بیوروکریٹس ’’نوکری‘‘ کا شرف حاصل کئے ہوئے ہیں۔ یہ اب ایک محفوظ مقام ہے، بدعنوانی کے سارے جھرنے اسی دریا میں گرتے ہیں۔ ایان علی کی کرنسی سمگلنگ کرنے کی واردات، شرجیل میمن کے گھر میں اربوں روپے کی کرنسی، فشریز اورکراچی بلدیہ میں بدعنوانی، اور دیگر معاملات پر ریاست نے گرفت کرکے پاکستان پیپلز پارٹی کا بازو مروڑاتو مفاہمت کے کمبل سے تمام دشمن نکل کر سامنے آگئے ہیں۔ مگر اپنی دم پر پیر آنے پر ریاست کے خلاف بیان بازی کرنے والی اس پیپلز پارٹی قیادت کے ساتھ عوام بھلا کیوں کھڑے ہوں گے؟ اے این پی جیسی بدعنوان جماعت بھی پوری طرح پی پی قیادت کے ساتھ نہیں کھڑی ہوپائی۔ شجاعت جس کی رگ رگ بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ پر مبنی ہے وہ بھی پارٹی قیادت کو فوج کے سامنے اور زیادہ جھک جانے کا کہہ رہے ہیں حتیٰ کہ خود پیپلز پارٹی کے کائرہ جیسے رہنما بھی فوج کی اس درجہ تعریف کررہے ہیں کہ اس تعریف کے بعد ’’فوج پر کسی قسم کا الزام لگانے یا تنقید کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔‘‘
نظریات سے دوری اور انتہائی دائیں جانب چلے جانے کے بعد پی پی قیادت‘ بدعنوانی کی کھائی میں گرکر اور سیاسی گراوٹ کا شکار ہوکر بند گلی میں محصور ہوچکی ہے۔ اسکے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ نہیں بچا۔ دوسری طرف پارٹی کو ابھارنے کی ہر کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ نظریاتی، تنظیمی اور سیاسی شکستہ حالی میں فوج مخالف بیانات کا سہارا فضول کاوش ہے۔ زرداری نہ توبھٹو جیسا’مقبول‘ہے اور نہ ہی لوگ اس کی کسی قسم کی سیاسی اتھارٹی کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ پینٹاگان کی دی ہوئی ’’مفاہمت‘‘ کی مکروہ پالیسی انتہائی دائیں طرف جھکی ہوئی پی پی قیادت اور دائیں بازو کی پارٹیوں اور اداروں کے مابین قائم نہیں رہ سکتی۔ یہاں پر یہ چاروں شانے چت گری پڑی ہے، یہ زرداری اور پارٹی کے مفاہمت زدہ راہنماؤں کی شکست فاش ہے۔ مگریہ بھی ایک تضاد ہے کہ خود ریاست ہی زیادہ دورتک نہیں جائے گی، کیوں کہ پھر وہ خود بھی اس کنویں میں گر سکتی ہے جو بظاہر پیپلز پارٹی کے لئے کھودا گیا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ’’حساس اور قانون نافذ کرنے‘‘ اورمقدس گائے سمجھے جانے والے تمام اداروں کے اندر بدعنوانی تما م گہرائیوں تک سرائیت کرچکی ہے۔ یہ نظام بدعنوانی اور لوٹ مار کے بغیر چل نہیں سکتا۔ اگر سماج اور اداروں کو کرپشن سے پاک کرنا ہے تو پھر سرمایہ داری اور ذاتی ملکیت کا خاتمہ کرنا ہوگا، ذاتی ملکیت اورمنافع کے نظام کے اندر پارسائی کی تلاش ایک ناٹک سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

متعلقہ:

دہشت کی شہ رگ

مافیا کی سیاست

ایجنٹوں کی تکرار

بھٹو تیرے قاتل؛ تیرے وارث؟

پاکستان: بیمار نظام، برباد سماج